عرفات میں ظہر و عصر کی نماز
(۱۷) دوپہر ڈھلتے ہی بلکہ اس سے پہلے کہ امام کے قریب جگہ ملے مسجدنمرہ جاؤ۔ سنتیں پڑھ کر خطبہ سن کر امام کے ساتھ ظہر پڑھو اس کے بعد بے توقف عصر کی تکبیر ہوگی معاً جماعت سے عصر پڑھو بیچ میں سلام و کلام تو کیا معنی ‘ سنتیں بھی نہ پڑھو اور بعد عصر بھی نفل نہیں یہ ظہر و عصر ملا کر پڑھنا جبھی جائز ہے کہ نماز یا تو سلطان پڑھائے یا وہ جو حج میں اس کا نائب ہوکر آتا ہے جس نے ظہر اکیلے یا اپنی خاص جماعت سے پڑھی اسے وقت سے پہلے عصر پڑھنا جائز نہیں اور جس حکمت کے لئے شرع نے یہاں ظہر کے ساتھ عصر ملانے کا حکم فرمایا ہے یعنی غروب آفتاب تک دعا کے لئے وقت خالی ملنا ‘ وہ جاتی رہیگی ۔
مسئلہ ۱: ملا کر دونوں نمازیں جو یہاں ایک وقت میں پڑھنے کا حکم ہے اس میں پوری جماعت ملنا شرط نہیں بلکہ مثلاً ظہر کے آخر میں شریک ہوا اور سلام کے بعد جب اپنی پوری کرنے لگا اتنے میں امام عصر کی نماز ختم کرنے کے قریب ہو ا‘ یہ سلام کے بعد عصر کی جماعت میں شامل ہوا جب بھی ہوگئی (ردالمحتار ص۲۳۸ج۲‘ جوہرہ ص ۲۰۱‘ منسک ص ۱۳۳ ‘ بحر ص ۳۳۷ج۲)
مسئلہ ۲: ملا کر پڑھنے میں یہ بھی شرط ہے کی دونوں نمازوں میں با احرام ہو اگر ظہر پڑھنے کے بعد احرام باندھا تو عصر ملا کر نہیں پڑھ سکتا نیز یہ شرط ہے کہ وہ احرام حج کا ہواگر ظہر میں عمرہ کا تھا عصر میں حج کا ہوا جب بھی نہیں ملا سکتا (درمختار و ردالمحتار ص ۲۳۹ج۲‘ عالمگیری ص ۲۲۸ج۱ ‘ تبیین ص ۲۴ج۲‘ بحر ص ۳۳۷ج۲)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔