عالمِ برزخ کا بیان
دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالم ہے جس کع برزخ کہتے ہیں (پ ۱۸۔ س المومنون۔ آیہ ۱۰۰) مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے انس و کو حسبِ مراتب اس میں رہنا ہوتا ہے اور یہ عالم اس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کووہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو برزخ میں کسی کوآرام ہے اور کسی کو تکلیف ۔
عقیدہ ۱ : ہر شخص کو جتنی زندتی مقرر ہے اس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی ۔ (قرآن کریم اعراف آیت ۱۳۴) ، جب زندگی کا قت پورا ہو جاتا ہے اس وقت حضرت عزرائیل الیہ السلام قبضِ روح کے لئے آتے ہیں ۔ (السجدہ ۱۱ ص ۲۱، ۲) اور اس شخص کے دہنے یا بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں (مشکوٰۃ ص ۱۴۲) اور کافر کے دہنے بائیں عذاب کے۔ اس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے مگر اس وقت کا ایمان معتبر نہیں اس لئے کہ حکم ایمان بالغیب ہے اور اب نہ رہا بلکہ یہ چیزیں مشاہدہ ہو گئیں۔
عقیدہ ۲ : مرنے کے بعد روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اس سے آگاہ و متاثر ہو گی جس طرح حیاتِ دنیا ہیں ہوتی ہے بلکہ اس سے زائد دنیا میں ٹھنڈا پانی سرد ہوا نرم فرش لذیذ کھانا سب باتیں جسم پروار ہوتی ہیں۔ مگر راحت و لذت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارد ہوتے ہیں اور کُلف و اذیت روح پاتی ہے اور روح کے لئے خاص اپنی راحت و الم کے الگ اسباب ہیں سے سرور یا غم پیدا ہے بعینہ یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں۔
عقیدہ ۳ : مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے بعض کی قبر پر بعض کی چاہ زمزم شریف ہیں، بعض کی آسمان و زمین کے دسمیان بعض کی پہلے دوسرے ساتویں آسمان تک اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند اور بعض کی روحیں زیر عرش قندیلوں میںاور بعض کی اعلیٰ عیلین میں مگر کہیں ہوں اپنے جسم سے ان کو تولق بدستون سہتا ہے جو کوئی قبر پر آئے اسے دیکھتے پہچانتے اس کی بات سنتے ہیں بلکہ روح کا دیکھنا قُرب قبر ہی سے مخصوص نہیں اس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے کہ ایک طائر پہلے قفس میں بند تھا اوع اب آزاد کر دیا گیا اور ائمہ کرام فرماتے ہیں۔
ِانَّا الُّنُفوْ سُ القُدْسِیَّتَہ اِزَا تَجَرَّتْ عـَنِ الْعَلاَئِقِ الْبَدْنِیتَّہ
الصِّلَتْ بِاْلمَلاِ الاَعْلیٰ وَ تَریٰ وَ تَسْمَعُ الکُلُّ کاَلْمَشَاھِدِ
(بیشک پاک جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہوتی ہیں عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں)۔
حدیث میں فرمایا:
اِذَا مَا تَ الْمُوْ مِنُ یُخَّلیٰ سَرْبُہ‘ یَسْرَحُ حَیْثُ شآئَ
(جب مسلما ن مرتا ہے اس کی راہ کھول دی جاتی ہے جہاں چاہے جائے)
شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں روح واقرب ہ بعدِ مکانی یکساں است کافروں کی خبیث روحیں کی اُن کے مرگھٹ یا قبر میں رہتی ہے بعض کی چاہ برہوت میں کریمن میں ایک نالہ ہے بعض کی پللیل دوسری ساتویں زمین تک بعض کی اس کے بھی نیچے سجّین میں اور وہ کہیں بھی ہو جو اس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اسے دیکھتے پہچانتے بات سُنتے ہیں مگر کہیں جاتے آنے کا اختیار نہیں کہ قید ہیں۔
عقیدہ ۴ : یہ خیال کہ وہ رعح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے خواہ وہ آدمی کا بدک ہو یا کسی جانور کا جس تناسخ اور آواگون کہتے ہیں۔ محض باطل اور اس کا ماننا کُفر ہے۔
عقیدہ ۵ : موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو جو روح کو فنا ماتے بد مذہب ہے۔
عقیدہ ۶ : مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کللام کو عوام اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے ہیں (بخاری جلد ۱ ص ۱۸۴)۔
عقیدہ ۷ : جب مردہ کو قبر میں دفر کرتے ہیں اس وقت اس کہ قبر دباتی ہے اگر وہ مسلمان ہے تو اس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچے کو زور سے چپٹا لیتے ہے ۔(حدیث شریف) اور اگر کافر ہے تو اس کی اس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اَدھر ہو جاتی ہیں۔ (ّشرح عقائد مع نبراس ص ۳۱۵ تا ۳۲۱)۔
عقیدہ ۸ : جب دفن کرتے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ ان کے جوتوں کی آواز سُنتا ہے ( حاشیہ نبراس بحوالہ علامہ سیوطی ص ۳۱۶) اس وقت اس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں ان کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں ان کے بدن کا رنگ سیاہ اور آنکھیں سیاہ اور نیلی اور ویگ کے برابر اور شعلہ زن یں اور ان کے مہئب بال سر سے پاؤں تک اور ان کے دانت کئی ہاتھ کے سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے۔ ان میں ایک کو منکر دوسرے کو نکیر کہتے ہیں ۔ مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں پہلا سوال کرتے ہیں :
مَنْ رَّبُکَ
(تیرا رب کو ن ہے)
دوسرا سوال :
مَا دِیْنُکَ
(تیرا دین کیا ہے)
تیسرا سوال :
مَا کُنْتُ تَقُولُ فِیْ ھَذَا الَّرجُلِ
(ان کے بارے میں تُو کیا کہا کرتا تھا )
مردہ مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گا:
رَبَیَّ اللہ ُ
(میرا رب اللہ ہے)
اور دوسرے سوال کا جواب دے گا :
دِینَْیَ اْلاِسْلاَمُ
(میرا دین اسلام ہے)
تیسرے سوال کا جواب دے گا:
ھُوَ رَ سُوْلُ االلّٰہِ ﷺ
(وہ تو رسول ﷺ ہیں)
وہ کہیں گے تجھے کس نے بتایا کہے گا میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی بعض روایتوں میں آیا ہے کہ سوال کا جواب پا کر کہیں گے کہ ہمیں ہو معلوم تھا تو یہی کہے گا اس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ میرے بندہ نے سچ کہا اس کے لئے جنت بچھونا بچھاؤ اور جنت کا لباس پہناؤ اور اس کیلئے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو جنت کی نسیم اور خوشبو اس کے پاس آتی رہے گی اور جہاں تک نگاہ پھیلے گی وہاں تک اس کی قبر کشادہ کی جائے گی اور اس سے کہا جائے گا کہ تو سو جیسے دُولہا سوتا ہے (مشکوٰۃ ص ۲۵، ترمذی ص۱۷۳) یہ خواص کے لئے عموماً ہے
اور عوام میں ان کے لئے کو وہ چاہے ورنہ وسعتِ قبر حسبِ مراتب مخلتلف ہے بعض کیلئے ستّر ستّر ہاتھ لمبی چوڑی بعض کے لئے جتنی وہ چاہے زیادو حتیٰ کہ جہاں تک نگاہ پہنچے اور عصاۃ میں بعض پر عذاب بھی ہو گا ان کی معصیت کے دائق پھر ان کے پیران عظام یا مذہب کیھ امام یس اور اولیائے کرام کی شفاعت یا محض رحمت سے جب وہ چاہے گا نجات پائیں گے اور بعض نے کہا کہ مومن عاصی پر عذابِ قبر شبِ جمعہ آنے تک ہے اس کے آتے ہی اٹھا لیا جائے گا۔ (نبراس ص ۳۱۶ بحوالہ ترمذی، واللہ تعالیٰ علم) ہاں یہ حدیث سے ثابت ہے کہ جو مسلمان شبِ جمعہ یا روزِ جمعہ یا مفضانِ مبارت کے کسی دن رات میں مرے گا سوال نکیرین و عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ (نبراس ص ۱۳۶ بحوالہ ترمذی) اور یہ جو ارسشاد ہوا کہ اس کے لئے جبت کی کھڑکی کھول دیں گے یہ یوں ہو گا کی پہلے اس کے بائیں ہاتھ کی طرف جہنم کی کھڑکی کھولیں گے اس کے بعد دہنی طرف سے ت کی کھڑکی کھولیں گے جس کی لپٹ اور جلن اسع گرم ہو اور سخت بدبو آئے گی اور معاً بند کر کیں گے اس کے بعد دہنی طرف سے جبت کی کھڑکی کھولیں گے اسع اس سے کہا جائے گا کہ اگر تہ ان سوالوں کے صحیح جواب نہ دیتا تو تیسے واسطے وہ تھی اور اب ی ہے تاکہ وہ اپنے رب کی نعمت کی قدس جانے کہ کیسی بلائے عظیم سے بچا کر کیسی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی اور منافق کے لئے اس کا عکس ہو گا پہلے ت کی کھڑکی کھولیں گے کہ اس کی خوشبو ٹھنڈک راحت نعمت جھلک دیکھے گا اور معاً بند کر دیں گے اور دوزخ کی کھڑکی کھول دیں تاکہ اس پر اس بلائے عظیم کے ساتھ حسرتِ عظیم بھی ہو کہ حضور اقدس ﷺ کو نہ مان کر یا ان کی شانِ رفیع میں ادنیٰ گستاخی کرکے کیسی نعمت کھوئی اور کیسی آفت پائی اور اگر مُردہ منافق ہے تو سب سوالوںکے فواب میں یہ کہے گا ـھاہ ھاہ لا اَدْرِیْ افسوس مجھے تو کچھ معلوم نہیں ۔
کُنْتُ اَسْمَعُ الناَّسَ یَقوَلوُْنَ شیاَئً فاَقوُْلُ
میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا خود بھی کہتا تھا اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا کہ یہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور آگ کا لباس پہناؤ اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو اس کی گرمی اور لپِٹ سے اس کی پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لئے دو فرشتے مقرر ہوں گے جو اندھے اور بہرے ہوں گے ان کے ساتھ لوہے کا گزر ہو گا کہ پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے اور ہتھوڑے سے اس کو مارتے رہیں کے ۔( مشکوٰۃ ص ۲۵، ۲۶، بروائیت براء بن عاذب متفق علیہ و ااحمد ابو داؤد ) نیز سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے نیز اعمال اپنے مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھڑیا یا اور شکل کے اس کو ایذا پہنچائیں گے اور نیکیوں کے اعمال حسنہ مقبول و محبوب صورت پر متشکل ہو کر اُنس دیں گے۔
عقیدہ ۹ : عذابِ قبر حق ہے اور ہو ہیں تغیمِ قبر حق ہے اور دونوں جسم و روح پر ہیں جیسا کہ اوپر گزرا جسم اگرچہ گَل جائے جل جائے خاک ہو جائے مفر اس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے وہ موردِ عذاب و ثواب ہوں گے اور انہیں روزِ قیامت دوبارہ ترکیبِ جسم فرمائی جائے گی وہ کچھ ایسے باریک اجزاء ہیں ریڑھ کی ہڈی میں جس کو عجبُ الذنب کہتے ہیں کہ نہ کسی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں نہ انہیں آگ جلا سکتی ہے نہ زمین انہیں گلا سکتی ہے وہ تخم جسم کو نہیں بدلتا جیسا بچہ کتنا چھوٹا پیدا ہوتا ہے پھر کتنا بڑا ہو جاتا ہے قدی ہیکل جوان میماری میں گُھل کر کتنا حقیر رہ جاتا ہے پھر نیا گوشت پوشت آکر مشلِ سابق ہو جات اہے ان تبدیلیوں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شخص بدل گیا ہوہیں روزِ قیامت کا عود ہے وہی گوشت اور ہڈیاں کہ خاک یا راکھ ہو گئے ہوں ان کے ذرّے کہیں بھی منتشر ہو ھئے ہوں رب عزّوجل انہیں جمع فرماکر اس پہلی ہیات پر لاکر انہیں پہلے اجزائے اصلیہ پر کہ محفوظ ہیں ترکیب دے گا اور ہر رُوح کو اسی جسم سابق میں بھیجے گا اس کا نام حشر ہے عذاب و تغیم قبر کا انکار وہی کرے گا جو گمراہ ہے۔
عقیدہ ۱۰ : مردہ اگر قبر میں دفر نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا غرض کہیں ہو اس سے وہیں سوالات ہوں گے اور ویں ثواب یا عذاب اسے پہنچے گا ۔
مسئلہ ۱ : انبیاء علیہم السَّلام اور اولیائے کرام و علمائے دین و شہداء و حافظانِ قرآن کہ قرآن مجید پر عمل کررے ہوں اور وہ جو منصبِ محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عزّوجل کی معصیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مستغرق رکھتے ہیں ان کے بدن کو مٹی نہیں کھا سکتی جو شخص انبیائے کرام علیہم السَّسلام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ مرکے مٹی میں مل گئے گمراہ بددین خبیث مرتکبِ توہین ہے۔