سوال :
عامر نے اپنا مکان سلیم کو تین سال کی قسطوں پر ساڑھے چار لاکھ روپے میں فروخت کیا، سلیم نے ایک لاکھ نواسی ہزار روپے قسطوں میں ادا کیے دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے اس کے ذمے واجب الادا ہیں، چھ سال کا عرصہ گزر چکا ،سلیم نے مزید کوئی رقم ادا نہیں کی۔ اب عامر نے سلیم سے یہ طے کیا ہے کہ یہ مکان مجھے فروخت کر دو۔ اب دونوں اس بات پر رضامند ہیں کہ عامر سلیم کو ایک لاکھ نواسی ہزار روپے واپس کر دے اور سلیم عامر کو مکان کا قبضہ دے دے گا، کیا یہ سودا جائز ہے؟
جواب:
فر یقین کے درمیان کسی عقد کے ختم کرنے یا دوسرے کے کہنے پر مبیع یاثمن لوٹا دینا اور دوسرے کا لے لینا، شرعی اصطلاح میں اقالہ کہلاتا ہے ۔ اقالہ کے معنی ہیں: بائع اور مشتری کا باہمی رضا مندی سے بیع کا فسخ کر لینا بایں طور پر کے بائع مبیع کو واپس لے لے اور مشتری کو ثمن واپس کردے۔
جو ثمن بیع میں تھا اسی پر یا اس کی مثل پر اقالہ ہو سکتا ہے ، اگر کم یا زیادہ پر اقالہ ہوا تو شرط باطل ہے اور اقالہ صحیح ہوگا یعنی اتنا ہی دینا ہوگا جو بیع میں ثمن تھا ۔ پس صورت مسئولہ میں آپ سلیم کو اس سے وصول کی ہوئی رقم ایک لاکھ نواسی ہزار روپے واپس کر دیں اور وہ آپ کو مکان کا قبضہ دیدے تو یہ اقالہ (یعنی فسخ بیع) شرعاً درست ہوگا ۔
(تفہیم المسائل، جلد 11، صفحہ 409، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)