استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ بسا اوقات طواف کرنے والا بے خبر ہوتا ہے اور اُس کے جسم یا کپڑوں پر کوئی ناپاک چیز لگی ہوتی ہے یعنی اس کے کپڑے یا بدن ناپاک ہوتا ہے اور وہ طواف کر لیتا ہے بعد میں اُسے معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے جسم یا کپڑوں پر کوئی ناپاک چیز لگی ہوئی تھی جو ایک درہم کی مقدار سے زائد تھی، اِس صورت میں اُس کے طواف کا کیا حکم ہو گا؟
(السائل : ریحان ابو بکر، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں طواف درست ہو جائے گا اور کچھ کفّارہ بھی لازم نہیں آئے گا سوائے اس کے کہ اُس نے بُرا کیا کہ اُس کے بدن یا کپڑوں پر نجاست تھی اور اُسی کے ساتھ طواف کر لیا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ اور ملاعلی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
لو طافَ فرضاً أو واجباً أو نفلاً و علیہ : أی علی ثوبِہ أو بدنِہ نجاسۃً أکثر مِن قدرِ الدّرہمِ کرہ : أی : لترکِہِ السُّنَّۃَ فی مراعاۃِ الطّہارۃِ و لا شیئَ علیہ : أی : مِن الدَّمِ و الصَّدقۃِ، و ہذا قولُ العامّۃ، و ہُو الموافق لِمَا فی ’’ظاہرِ الرِّوایَۃِ‘‘ کما صرَّح فی ’’البدائع‘‘ وغیرہ : أن الطَّہارۃَ عن النّجاسۃِ لیس بواجبٍ، فلا یجبُ شیٌٔ لتَرکِہا سِوی الإساء ۃِ أمّا ما فی ’’منسک الفارسیّ‘‘ : یکرہُ استعمال النّجاسۃِ أکثر مِن قدرِ الدَّرہم و الأقلّ لا یکرہُ، فمحلُّ بحثٍ إذا الظّاہرُ أَنَّہ یکرُہ مطلقاً علی تفاوُتِ الکراہۃِ بینَ کثرۃِ النّجاسۃِ و القِلَّۃِ، و ہذا لا یُنافِی أَنَّ القَدرَ القلیلَ معفوٌ (138)
یعنی، اگر فرض یا واجب یا نفلی طواف اِس حال میں کیا کہ اُس کے کپڑے یا بدن پر ایک درہم کی مقدار سے زائد نجاست تھی تو مکروہ ہے یعنی طہارت کی رعایت میں سنّت کو ترک کرنے کی وجہ سے (مکروہ ہے ) اور اُس پر دَم اور صدقہ سے کچھ لازم نہیں اور یہ عام فقہاء کا قول ہے اور یہی اُس کے موافق ہے جو ’’ظاہر الروایۃ‘‘ میں ہے جیسا کہ ’’بدائع الصنائع‘‘ (139) وغیرہ میں تصریح فرمائی کہ (طواف میں ) نجاست سے پاکی واجب نہیں ہے لہٰذا اُس کے ترک پر سوائے اسائت کے کچھ لازم نہ ہو گا۔ مگر جو ’’منسک فارسی‘‘ میں ہے کہ ایک درہم کی مقدار سے زائد نجاست کا استعمال مکروہ ہے اور (اس سے ) کم مکروہ نہیں ہے ، پس (یہ قول) محلِّ بحث ہے کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ وہ کثرتِ نجاست اور قلتِ نجاست کے مابین کراہت کے تفاوت پر مطلقاً مکروہ ہے اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ قلیل مقدار معاف ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم بن عبد الغفور ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
اما طہارت بدن و ثیاب ملبوس و مکان طواف از نجاست حقیقیہ پس آن واجب ست علی احد الرّوایتین و روایت دیگر آنست کہ طہارت از نجاست حقیقیہ سنّت مؤکدہ است و علیہ اکثر العلماء (140)
یعنی، مگر بدن، پہنے ہوئے کپڑوں اور طواف کی جگہ کا نجاست حقیقیہ سے پاک ہونا پس وہ دو روایات میں سے ایک روایت کے مطابق واجب ہے اور دوسری روایت یہ ہے کہ نجاست حقیقیہ سے پاک ہونا سنّت مؤکدہ ہے اور اسی روایت پر اکثر علماء ہیں ۔ اور سُنَنِ طواف کے بیان میں لکھتے ہیں :
طہارتِ بدن و ثیاب ملبوسہ و مکان طواف از نجاست حقیقیہ کہ آن سنّت است نزد اکثر و قیل واجب است (141)
یعنی، بدن، پہنے ہوئے کپڑوں اور مکانِ طواف کا نجاستِ حقیقیہ سے پاک ہونا کہ اکثر کے نزدیک سنت ہے اور کہا گیا ہے کہ واجب ہے ۔ اور جہاں اختلاف ہو وہاں اختلاف سے نکلنا مستحب ہوتا ہے اس لئے قلیل و کثیر کے فرق کے بغیر اس سے بچنا چاہئے پھر یہ ایک دینی اَمر ہے جس میں احتیاط کا دامن مضبوطی سے تھامنا چاہئے ، چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
فإنَّ الخُروجَ عن الخلافِ مستحبٌّ بالإجماع، و المسألۃُ خلافیۃٌ، و ترکُ المستحبِّ مکروہٌ تنزیہیٌّ لأنَّہ خلاف الأولٰی و منافٍ للإحتیاط فی الدّین (142)
یعنی ،بے شک خلاف سے نکلنا بالاجماع مستحب ہے او ریہ مسئلہ خلافیہ ہے اور مستحب کا ترک مکروہ تنزیہی ہوتا ہے کیونکہ وہ خلافِ اَولیٰ اور دین میں احتیاط کے منافی ہے ۔ اور یہاں احتیاط اِس میں ہے کہ اگر ایسا واقعہ پیش آ جائے تو اعادہ کر لے تاکہ خلاف سے نکل جائے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء، 5ذو الحجۃ 1429ھ، 3 دیسمبر 2008 م 488-F
حوالہ جات
138۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل و لو طاف الخ، ص501۔502
139۔ بدائع الصنائع، کتاب الحجّ، فصل فی شرط طواف الزّیارۃ و واجباتہ، 3/71، 72
140۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم در بیان طواف إلخ، فصل دویم در بیان شرائط صحۃ طواف، أما واجبات طواف، ص118
141۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم در بیان طواف الخ، فصل دویم، امّا سُنَنِ طواف إلخ، ص122
142۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل : و لو طاف فرضاً إلخ، ص502