ARTICLESشرعی سوالات

طواف میں طہارت حکمیہ کی حیثیت

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ طوافِ زیارت، طواف وداع اور نفلی طواف میں طہارت حکمیہ کی کیا حیثیت ہے اگر ان میں طہارت ترک ہو جائے تو کیا حکم ہے ؟

(السائل : ابو طالب قادری، جمشید روڈ، کراچی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یاد رہے کہ حج میں طوافِ زیارت فرض ہے ، چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی 593ھ لکھتے ہیں :

ہذا الطَّوافُ ہُو المفرُوضُ فی الحجّ و ہو رکنٌ فیہ، إذ ہو المأمُورُ بہ فی قولِہ تعالیٰ : {وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} (89) و یُسمَّی طواف الإفاضۃِ و طواف یومِ النّحرِ (90)

یعنی، یہ طواف حج میں فرض ہے اور یہ اُس میں رُکن ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’اور اُس آزاد گھر کا طواف کریں ‘‘ میں مأمور بہ ہے اور اس کا نام طوافِ افاضہ اور طوافِ یوم نحر رکھا گیا ہے ۔ اور حج میں طواف وداع آفاقی حاجی پر واجب ہے چنانچہ علامہ ابو الحسن مرغینانی لکھتے ہیں : و ہُو واجبٌ عندنا خلافاً للشّافعی لقولہ علیہ السّلام : مَنْ حَجَّ البَیْتَ فَلْیَکُنْ آخِرُ عَہْدِہِ بِالْبَیْتِ الطَّوَافُ إِلاَّ عَلٰی أہلِ مکّۃ۔ ملخصاً (91) یعنی، اور وہ (طوافِ صدر) ہمارے نزدیک سوائے اہلِ مکہ کے (سب پر) واجب ہے برخلاف امام شافعی کے ، کیونکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ’’جو بیت اللہ کا حج کرے اس کا بیت اللہ کے ساتھ آخری عہد طواف ہونا چاہئے سوائے اہل مکہ کے ‘‘ (92)۔ اور حافظ الدین ابو البرکات علامہ عبد اللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی 710ھ لکھتے ہیں :

و ہو واجبٌ إلاّ علٰی أہلِ مکۃَ (93)

یعنی، اور وہ واجب ہے سوائے اہلِ مکہ کے ۔ اور ملَّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

فإنَّہ مِن الواجباتِ بلا خلفٍ (94)

یعنی، پس طوافِ وداع بلا خلاف واجباتِ حج میں سے ہے ۔ اور طواف میں طہارت (یعنی پاکیزگی) واجب ہے ، چنانچہ علامہ ابو الحسن مرغینانی لکھتے ہیں :

و لنا : قولہ تعالیٰ : {وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ} (95) مِن غیرِ قیدِ الطَّہارۃِ فلم تکُن فرضاً، ثمَّ قیل : ہی سنّۃٌ، و الأصحُّ : أنّہا واجبۃٌ (96)

یعنی، ہماری دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’اور اس آزاد گھر کا طواف کریں ‘‘ طہارت کی قید کے بغیر ہے پس (طواف میں ) طہارت فرض نہ ہو گی، پھر کہا گیا کہ طہارت سنّت ہے اور صحیح ترین قول یہ ہے کہ طہارت واجب ہے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :

الأوَّلُ الطّہارۃُ عن الحَدثِ الأکبرِ و الأصْغرِ (97)

یعنی، طواف کا پہلا واجب حدثِ اکبر اور حدثِ اصغر سے پاک ہونا ہے ۔ مُلاَّ علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

ہُو الصّحیح من المذہبِ (98)

یعنی، (طہارت کا واجب ہونا) صحیح مذہب ہے ۔ حدثِ اکبر سے پاک ہونا یہ ہے کہ اُس پر غُسل فرض نہ ہو اور حدثِ اصغر سے پاک ہونا یہ ہے کہ وہ بے وضو نہ ہو۔ جب طواف میں نجاست حکمیہ سے طہارت واجب ہے تو طہارت کے بغیر کیا ہوا طواف صحیح ہو جائے گا اور اِس طرح طواف کرنے والے پر اُس کا اعادہ یا شرعی جرمانہ لازم آئے گا اور وہ گُنہگار بھی ہو گا، چنانچہ ملاَّ علی قاری لکھتے ہیں :

ثمَّ إذا ثَبتَ أنَّ الطَّہارۃَ عن النَّجاسۃِ الحکمیّۃِ واجبۃٌ، فلو طافَ معہا یصحُّ عندنا و عند أحمدَ، و لم یحلَّ لہ ذلک و یکونُ عاصیاً و یجبُ علیہ الإعادۃُ و الجزَائُ إن لم یُعِد، و ہذا الحکمُ فی کُلِّ واجبٍ تَرَکَہ (99)

یعنی، پھر جب ثابت ہو گیا کہ (طواف میں ) نجاست حکمیہ سے پاکی واجب ہے تو اگر نجاست حکمیہ کے ساتھ طواف کر لیا تو ہمارے امام (امام ابو حنیفہ) اور امام احمد کے نزدیک (طواف) صحیح ہو جائے گا اور اُس کے لئے وہ (نجاست حکمیہ کے ساتھ طواف) حلال نہیں ہے اور وہ گُنہگار ہو گا اور اس پر (اس طواف کا) اعادہ واجب ہو گا اور اگر اعادہ نہ کرے تو جزاء (واجب ہو گی) اور یہ حکم ہر واجب میں ہے (جسے ) وہ ترک کرے ۔ لہٰذا حدثِ اکبر اور حدثِ اصغر میں فرق کی وجہ سے اگر بے وضو طوافِ زیارت کیا تو ’’دَم‘‘ لازم ہو گا اور غسل فرض ہونے کی صورت میں طوافِ زیارت کیا تو ’’بدنہ‘‘ لازم ہو گا چنانچہ علامہ ابو الحسن مرغینانی لکھتے ہیں :

و لَو طافَ طوافَ الزِّیارۃِ مُحدِثًا فعلیہ شاۃٌ لأنَّہ أدخَلَ النّقصَ فی الرُّکنِ فیُجبَرُ بالدَّم، و إن کان جُنباً فعلیہ بَدَنَۃٌ، کذا رُوی عن ابن عباسٍ رضی اللہ تعالیٰ عنہما : و لأَنَّ الجنابۃَ أغلظُ من الحَدَثِ فیجب جَبرُ نقصانِہا بالبَدَنَۃِ إظہاراً للتّفاوُتِ (100)

یعنی، اگر بے وضو طوافِ زیارت کیا تو اُس پر (بطورِ دَم) ’’بکری‘‘ لازم ہے کیونکہ اُس نے (حج کے ) رُکن میں نقص کو داخل کر دیا پس (اِس نقص کو) دَم کے ساتھ پورا کیا جائے گا اور جُنبی ہے (یعنی اس پر غسل فرض ہے ) تو اُس پر ’’بَدنہ‘‘ (گائے یا اونٹ) لازم ہے ، اِسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے اور اس لئے کہ جنابت حَدَث (بے وضو ہونے ) سے زیادہ غلیظ ہے ، پس (دونوں حکمی نجاستوں میں ) فرق کے اظہار کے لئے اِس کا نقصان بَدنہ کے ساتھ پورا کرنا واجب ہے ۔ طوافِ وداع کا حکم یہ ہے کہ اگر بے وضو کیا تو صدقہ لازم ہو گا اور اگر حالتِ جنابت میں کیا تو دَم چنانچہ علامہ مرغینانی لکھتے ہیں :

و مَن طاف طوافَ الصَّدرِ مُحدِثاً فعلیہ صدقۃٔ لأنہ دون طوافِ الزّیارۃِ و إنْ کان واجباً فلا بُدّ مِن إظہارِ التَّفاوُتِ، و لو طافَ جُنباً فعلیہ شاۃٌ لأنّہ نقصٌ کثیرٌ ثُمَّ ہو دون طوافِ الزِّیارۃ فَیکتفی بالشّاۃِ (101)

یعنی، جس نے بے وضو طواف وداع کیا اُس پر ’’صدقہ‘‘ لازم ہے کیونکہ یہ (طواف مرتبے میں ) طوافِ زیارت سے کم ہے اگرچہ واجب ہے تو (واجب اور فرض میں ) تفاوت ظاہر کرنا ضروری ہے اور اگر حالتِ جنابت میں کیا تو اس پر (بطورِ دَم) ’’بکری‘‘ لازم ہے کیونکہ (یہاں ) نقص کثیر ہے پھر یہ (طواف) طوافِ زیارت سے (مرتبہ میں ) کم ہے تو بکری کافی ہے ۔ اور اگر طوافِ زیارت کا اپنے وقت میں اعادہ کر لے تو ’’بدنہ‘‘ یا ’’دَم‘‘ جو بھی لازم ہوا وہ ساقط ہو جائے گا اور اعادہ افضل ہے ، چنانچہ علامہ ابو الحسن مرغینانی لکھتے ہیں :

و الأفضلُ أن یُعِیدَ الطّوافَ ما دامَ بمکّۃ و لا ذبحَ علیہ، و الأصحُّ أنہ یُؤمرُ بالإعادۃ فی الحَدَثِ استحباباً، و فی الجنابۃِ ایجاباً لفحشِ النُّقصانِ بسببِ الجنابۃِ و قُصورِہِ بِسببِ الحَدَثِ (102)

یعنی، اور افضل یہ ہے کہ جب تک مکہ مکرمہ میں ہے طواف کا اعادہ کرے او راس پر (جانور) ذبح کرنا لازم نہیں ہے ، صحیح ترین قول یہ ہے کہ حدث میں اُسے استحباباً اعادہ کا حکم دیا جائے گا اور جنابت میں وجوباً کیونکہ جنابت کے سبب (طواف میں ) نقصان فاحش ہے اور حدث کے سبب (طواف میں ) نقصان کم ہے ۔ پھر اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ طوافِ زیارت ایام نحر میں (یعنی دس ذوالحجہ سے بارہ کے غروب آفتاب سے قبل) ادا کرنا واجب ہے ، چنانچہ علامہ محمد بن عبداللہ بن احمد عزّی تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ طواف کے واجبات کے بیان میں لکھتے ہیں : و فعلَ طوافِ الإفاضۃِ فی أیّام النَّحر (103) یعنی، طوافِ افاضہ ایامِ نحر میں کرنا (واجب ہے )۔ لہٰذا اگر کوئی اِس کا اعادہ ایام نحر میں کر لے تو اُس پر جو جزاء لازم آئی وہ ساقط ہو جائے گی اور اگر ان ایام کے بعد اعادہ کیا تو تاخیر کی وجہ سے دَم لازم آئے گا۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأربعاء، 18 ذوالقعدۃ 1431ھ، 27 اکتوبر 2010 م 672-F

حوالہ جات

89۔ الحج : 22/29

90۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الإحرام، 1۔2/180

91۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الإحرام، 1۔2/182، 183

92۔ صحیح البخاری، کتاب الحجّ، باب (144) طواف الوداع، برقم : 1755، 1/431، بلفظ آخر

أیضاً صحیح مسلم، کتاب الحجّ، باب (67) وجوب طوافِ الوداع و سقوطہ عن الحائض، برقم : 379/327، 2/963 بلفظ آخر

93۔ کنز الدّقائق، کتاب الحجّ، باب الإحرام، ص28

94۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات، فصل لو طاف للزّیارۃ الخ، ص494

95۔ الحجّ : 22/29

96۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الجنایات، فصل : و من طاف طواف القدوم إلخ، 1۔2/199

97۔ لُباب المناسک مع شرحہ للقاری، باب دخول مکۃ، فصل فی واجبات الطّواف، ص113

98۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسّط، باب دخول مکۃ، فصل فی واجبات الطّواف، ص213

99۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسّط، باب دخول مکۃ، فصل فی واجباتِ الطّواف، ص214

100۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الجنایات، فصل من طاف طواف القدوم الخ، 1۔2/199

101۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الجنایات، فصل من طاف طواف القدوم الخ، 1۔2/199

102۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الجنایات، فصل و من طاف طوافَ القدوم الخ، 1۔2/199

103۔ تنویر الأبصار، کتاب الحجّ، ص157

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button