استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سی عورتیں طواف میں بے پردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں ، کچھ عورتوں کا لباس انتہائی باریک ہوتا ہے کہ رنگت جھلکتی ہے بالوں کی سیاہی نظر آتی ہے کچھ کا چُست کہ اعضا کی ساخت واضح ہوتی ہے ، بعض کے کچھ بال ظاہر، بعض کی کلائیاں وغیرہ ظاہر، بعض بلا احرام چہرہ کھول کر مردوں میں چلتی ہیں ، اس سے ان کا طواف پر کیا اثر پڑتا ہے اور اس معاملے میں ان عورتوں کے شوہروں یا وارثوں کی کیا ذمہ داری ہے ؟
(السائل : شکیل، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالی وتقدس الجواب : طواف میں سترِ عورت واجب ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی (جو دسویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھے ) لکھتے ہیں :
الثالث (أی من الواجبات) : ستر العورۃ (148)
یعنی، طواف کے واجبات میں سے تیسرا واجب سترِ عورت ہے ۔ اور اپنی دوسری کتاب ’’مناسک کبیر‘‘ میں لکھتے ہیں :
و أمّا السّتر فإن وجوبہ لأجل الطّواف أخذ من قولہ ﷺ : ’’أَلَا لَا یَحُجَّنَّ بَعْدَ ہٰذَا الْعَامِ مُشْرِکٌ وَ لَا یَطُوْفُ بِالْبَیْتِ عُرْیَان‘‘ فبسبب الکشف یتمکن نقصان فی الطواف (149)
یعنی، مگر ستر (عورت) تو اس کا وجوب طواف کے لئے نبی اکے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ ’’سنو! اس سال کے بعد کوئی مشرک ہرگز حج نہ کرے اور کوئی ننگا بیت اللہ شریف کا طواف نہ کرے ‘‘ پس ستر کے کُھلے ہونے سے طواف میں نقصان آئے گا۔ ستر عورت بنفس خود فرض ہے مگر طواف میں واجب ہے چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
دویم از واجبات ستر عورت است در حق طواف اگرچہ ستر عورت بنفس خود فرض است (150)
یعنی، طواف کے واجبات میں سے دوسرا واجب ستر عورت ہے اگرچہ ستر عورت بنفسِ خود فرض ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
فائدۃ عدِّہِ واجباً ہنا مع أنَّہ فرضٌ مطلقاً لزومُ الدَّمِ بہ (151)
یعنی، سترِ عورت کو یہاں واجب شمار کرنے کا فائدہ باوجود اس کے مطلقاً فرض ہونے کے اِس سے دم کا لزوم ہے ۔ ستر سے مراد : بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے ، مرد کے لئے ناف کے نیچے سے گھٹنوں کے نیچے تک عورت یعنی اس کا چُھپانا فرض ہے ناف اس میں داخل نہیں اور گھٹنے داخل ہیں بحوالہ ’’در مختار‘‘ و ’’رد المحتار‘‘۔ آزاد عورتوں کے سارا بدن عورت ہے سوا منہ کی ٹکلی اور ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوؤں کے سر کے لٹکتے ہوئے بال اور گردن اور کلائیاں بھی عورت ہیں ان کا چُھپانا بھی فرض ہے ۔ (152) اور اگر ستر کے اتنے کُھلے ہوئے حصے کے ساتھ طواف کیا کہ جو نماز میں جائز نہیں یعنی جس کے ساتھ نماز جائز نہیں ہوتی دم واجب ہو جائے گا چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
فلو طاف مکشوفاً وجب الدم و قال شارحہ أی قدر ما لا تجوز الصلاۃ معہ (153)
یعنی، اگر اتنے کُھلے ہوئے حصے کے ساتھ طواف کیا کہ جس کے ساتھ نماز جائز نہیں تو دَم واجب ہو گیا۔ اور وہ حصہ کہ جس کے کُھلے ہونے سے نماز نہیں ہوتی اور طواف میں دَم لازم آتا ہے ہر عضو کا چوتھائی حصہ ہے اور اگر چند جگہ سے کُھلا ہو تو اُسے جمع کر کے دیکھا جائے گا اگر کم از کم اس عضو کا چوتھائی حصہ بنتا ہے تو اس سے نماز جائز نہ ہو گی اور طواف میں دَم لازم ہو گا چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و المانع کشف رُبع العضو فما زاد کما فی الصّلاۃ و إن انکشف أقلّ من الرّبع لا یمنع و یجمع المتفرّق (154)
یعنی، وہ مقدار جو مانع ہے وہ عضو کے چوتھائی حصہ یا زیادہ کا کُھلا ہونا ہے جیسا کہ نماز میں اور اگر چوتھائی عضو سے کم کُھلا تو مانع نہیں اور متفرق جمع کیا جائے گا۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : طواف کرتے وقت ستر چُھپا ہونا (واجب ہے ) یعنی اگر ایک عضو کی چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ کُھلا رہا تو دَم واجب ہو گا اور چند جگہ کُھلا رہا جمع کریں گے ، غرض نماز میں ستر کھلنے سے جہاں نماز فاسد ہوتی ہے یہاں دَم واجب ہو گا۔ (155) اور اگر چند اعضاء تھوڑے تھوڑے کُھلے ہوں اور کوئی بھی اس عضو کا چوتھائی نہ ہو تو سب کے مجموعے کو دیکھا جائے کہ کسی بھی عضو کا چوتھائی حصہ بنتا ہے تو اس سے بھی دَم واجب ہو گا، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
چون منکشف قدرے از اعضاء متعددہ از ہر یکے کمتر از رُبع جمع کردہ شود آن ہمہ را چنانکہ در نماز (156)
یعنی، اگر چند اعضاء ننگے ہوں مگر ہر ایک چوتھائی سے کم ہو تو سب کو ملا کر دیکھا جائے گا جیسا کہ نماز میں (کہ مجموعہ چوتھائی عضو ہے تو وہی حکم ہو گا جو ایک عضو کے چوتھائی حصہ کے ننگے ہونے کا ہے )۔ اور کشفِ عضو کسی عذر صحیح کی وجہ سے ہو تو دَم لازم نہ ہو گا چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی لکھتے ہیں :
مگر آنکہ بعُذر کردہ باشد (157)
یعنی، مگر کسی عذرکی بنا پر ایسا ہوا تو دَم واجب نہ ہو گا۔ اور طواف اگر فرض یا واجب ہے تو کشفِ عورت میں وہی حکم ہے جو بیان ہوا یعنی دَم واجب ہے اور اگر طواف سنّت یا نفل ہے تو صدقہ ہے ، چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی مصنّف کی عبارت ’’دم واجب ہے ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں :
ہذا فی الطوافِ الواجب، و إلاّ تجبُ الصدقۃ (158)
یعنی، یہ (دم کا) حکم طواف واجب میں ہے ورنہ صدقہ واجب ہو گا۔ اور اعادہ کر لینے کی صورت میں دَم ہو یا صدقہ ساقط ہو جائیں گے جیسا کہ مندرجہ بالا سطور میں مذکور عبارات فقہاء سے واضح ہے او راسی لئے بعض نے پہلے اِعادہ کا حکم لکھا ہے اور اِعادہ نہ کرنے کی صورت میں دَم کا وجوب لکھا ہے جیسا کہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں : اگر طواف کردو حال آنکہ رُبع عضواز عورات او مکشوف بود واجب باشد اعادۂ آن طواف مع الستر و اگرطواف اعادہ نکرد دَم لازم گردد مگر آنکہ بعذر کردہ باشد (159) یعنی، اگر کسی نے اس حال میں طواف کیا کہ اس کے عضو کا چوتھائی حصہ کُھلا ہوا تھا تو اس طواف کا ستر کے ساتھ اِعادہ واجب ہے اگر نہ لوٹائے گا تو دَم واجب ہو گا مگر یہ کہ کسی عذر کی بنا پر ہو تو (دَم واجب نہ ہو گا)۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مرد و عورت کے وہ اعضاء کہ جن کا نماز میں چُھپا ہونا فرض ہے حالتِ طواف میں اُن کا چھپا ہوناواجب ہے اور حالتِ طواف میں اُن میں سے کسی بھی عضو کا چوتھائی حصہ اگر کُھلا ہو گا یا متعدّد اعضاء کا تھوڑا تھوڑا حصہ کُھلا ہو، اور سب کو جمع کیا جائے تو ایک عضو کا چوتھائی ہو جائے ، تو اس صورت میں طواف فرض یا واجب ہو یا نفل بہر صورت اِعادہ واجب ہے اور اِعادہ نہ کرنے کی صورت میں فرض ، واجب میں دَم اور ا ن کے غیر میں صدقہ لازم ہوگا، اور تمام صورتوں میں توبہ بھی لازم ہو گی اور اگر کسی ایسے عُذر کی بنا پر ہو جو عُذر شرع میں مقبول ہو تو نہ دَم و صدقہ لازم ہے اور نہ گُناہ۔ ستر کے اعضائے عورت صدر الشریعہ محمد امجد علی لکھتے ہیں : مرد کے اعضائے عورت نو (9) ہیں علامہ ابراہیم حلبی و علامہ شامی و علامہ طحطاوی وغیرہم نے (8)گنے ہیں : ذکر (آلہ تناسل) مع سب اجزاء، حشفہ، قصبہ و قلقہکے اُنثیین یہ دونوں مل کر ایک عضو ہیں ان میں فقط ایک کی چوتھائی کُھلنا مُفسدِ نماز نہیں ، دُبُریعنی پائخانہ کا مقام ہر ایک سُرِین جُدا عورت ہے ، ہر ران جُدا عورت ہے ، چڈھے سے گھٹنے تک ران ہے گھٹنا بھی اس میں داخل ہے الگ عضو نہیں تو اگر پورا گھٹنا بلکہ دونوں کُھل جائیں تو نماز ہو جائے گی کہ دونوں مل کر ایک ران کی چوتھائی کو نہیں پہنچے ، ناف کے نیچے سے عُضوِ تناسل کی جڑ تک اور اس کی سیدھ میں پُشت اور دونوں کروٹوں کی جانب سب مل کر ایک عورت ہے ، اعلیٰ حضرت مجدِّدِ مأتہ حاضرہ نے یہ تحقیق فرمائی ہے کہ دُبُر و اُنثیین کے درمیان کی جگہ ایک مستقل عورت ہے اور ان اعضاء کا شمار اور ان کے تمام احکام کو ان چار شعروں میں جمع فرمایا۔
ستر عورت بمرد نہ عضو است از تہ ناف تا تِہ زانو! ہر چہ رُبعش بقدر رُکن کشود باکشودی دمے نماز مجو ذَکَر و اُنثیین و حلقہ پس دو سرین ہر فخذ بہ زانوئے او ظاہر افضل اُنثیین و دُبُر باقی زیر ناف از ہر سو
آزاد عورت کے اعضاء عورت آزاد عورتوں کے لئے باستثناء پانچ عُضو کے جن کا بیان گزرا سارا بدن عورت ہے (وہ پانچ جو کہ مستثنیٰ ہیں منہ کی ٹکلی، دونوں ہتھیلیاں ، دونوں پاوؤں کے تلوے ہیں ) اور وہ تیس اعضاء پر مشتمل کہ اُن میں سے جس کی چوتھائی کُھل جائے نماز کا وہی حکم ہے جو اوپر بیان ہوا سر یعنی پیشانی کے اوپر سے شروع گردن تک اور ایک کان سے دوسرے کان تک یعنی جتنی جگہ پر بال جمتے ہیں بال جو لٹکتے ہوں دونوں کان گردن اس میں گلابھی داخل ہے دونوں شانے دونوں بازو اِن میں کہنیاں بھی داخل ہیں دونوں کلائیاں یعنی کہنی کے بعد گٹوں کے نیچے تک، سینہ یعنی گلے کے جوڑ سے دونوں پستان کی حد زیریں تک دونوں ہاتھوں کی پشت، دونوں پستانیں جب کہ اچھی طرح اُٹھ چکی ہوں اگر بالکل نہ اٹھی ہوں یا خفیف ابھری ہوں کہ سینہ سے جُدا عضو کی ہیئات نہ پیدا ہوئی ہو تو سینہ کی تابع ہیں جُدا عضو نہیں اور پہلی صورت میں بھی ان کے درمیان کی جگہ سینہ ہی میں داخل ہے جُدا عضو نہیں یعنی سینہ کی حد مذکور سے ناف کے کنارہ زیریں تک یعنی ناف کا بھی پیٹ میں شمار ہے ، پیٹھ یعنی پیچھے کی جانب سینہ کے مقابل سے کمر تک دونوں شانوں کے بیچ میں جو جگہ بغل کے نیچے سینہ کی حد زیریں تک دونوں کروٹوں میں جو جگہ ہے اس کا اگلا حصہ سینہ میں اور پچھلا حصہ پیٹھ میں داخل ہے اور اس کے بعد سے دونوں کروٹوں میں کم تک جو جگہ ہے اس کا اگلا حصہ پیٹ میں اور پچھلا حصہ پیٹھ میں داخل ہے دونوں سُرِین فَرج و دُبر دونوں رانیں گھٹنے بھی انہیں میں شامل ہیں ناف کے نیچے پیڑو اور اس کے متصل جو جگہ ہے اور ان کے مقابل پشت کی جانب سب مل کر ایک عورت ہے ، دونوں پنڈلیاں ٹخنوں سمیت دونوں تلوے اور بعض علماء پشتِ نے دست اور تلوؤں کو عورت میں داخل نہیں کیا ۔ (160) عورت کا چہرہ عورت کا چہرہ اگرچہ عورت نہیں مگر بوجہ فتنہ غیر محرم کے سامنے منہ کھولنا منع ہے ، یونہی اس کی طرف منہ کرنا غیر محرم کے لئے جائز نہیں اور چُھونا تو اور زیادہ منع ہے بحوالہ ’’در مختار‘‘ (161) باریک کپڑوں کا حکم اتنا باریک کپڑا جس سے بدن چمکتا ہو ستر کے لئے کافی نہیں اس سے نماز پڑھی نہ ہوئی بحوالہ ’’عالمگیری‘‘۔ یونہی اگر چادر میں سے عورت کے بالوں کی سیاہی چمکے نماز نہ ہو گی (رضا) بعض عورتیں باریک ساڑھیاں اور بعض مرد تہبند باندھ کر نماز پڑھتے ہیں کہ ران چمکتی ہے اُن کی نمازیں نہیں ہوتیں ۔ (162) چُست لباس کا حکم دبیز کپڑا جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو مگر بدن سے بالکل ایسا چپکا ہوا ہے کہ دیکھنے سے عضو کی ہیئت معلوم ہوتی ہے ایسے کپڑے سے نماز ہو جائے گی مگر اس عضو کی طرف دوسرے کو نگاہ کرنا جائز نہیں بحوالہ ’’رد المحتار‘‘ اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا منع ہے اور عورتوں کے لئے بدرجۂ اَولیٰ ممانعت، بعض عورتیں بہت چُست جامے پہنتی ہیں اس مسئلہ سے سبق لیں ۔ (163) اور جس کپڑے سے سترِ عورت نہ ہو سکے علاوہ نماز کے بھی حرام ہے ۔ (164) باریک و چُست لباس کی ممانعت کی دلیل نبی کا فرمان ہے :
کَمْ مِنْ کَاسِیَاتٍ عَارِیَاتٌ (165)
یعنی، کتنی کپڑے پہننے والیاں ننگیاں ہوں گی۔ عورتوں کو اس حدیث شریف پر غور کرنا چاہئے کہ نبی انے ان باریک اور چُست لباس پہننے والی عورتوں کو ننگی فرمایا گویا کہ انہوں نے لباس ہی نہیں پہنا ہوا اگرچہ بظاہر ان کے جسم پر لباس ہے ۔ بہر حال جس بے ستری سے نماز فاسد ہو جاتی ہے وہ بے ستری طواف میں مکروہ تحریمی ہو گی، یعنی جو ستر پوشی نماز میں فرض ہے وہی طواف میں واجب اور سابقہ صفحات میں مرد اور عورت کے اعضائِ ستر تفصیل کے ساتھ بیان کر دئیے گئے ہیں وہاں سے دیکھ کر حکم معلوم کیا جا سکتا ہے اور باریک لباس جس کی تفصیل پہلے گزری وہ اگر بظاہر کسی عضو کو ڈھکے ہوئے ہے لیکن حقیقت میں وہ عضو ننگا ہے یعنی نماز میں وہ عضو ننگا شمار ہو گا جس سے نماز فاسد ہو جائے گی اور طواف میں اس سے واجب کا (یعنی ستر عورت) ترک ہو گا اور چُست لباس کہ جس کا ذکر پہلے کیا گیا اگرچہ اس سے نماز کا فرض اور طواف کا واجب ادا ہو جائے گا جب کہ مو ٹا ہو مگر ممنوع ہے دوسروں کو تشویش میں ڈالنے اور گناہ میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے اس سے بھی اجتناب ضروری ہے ۔ عورتوں کی بے باکی مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ اپنے دَور میں دورانِ طواف عورتوں کی بے باکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و من المنکر الفاحش ما یفعلہ الآن نسوۃ بمکۃ فی تلک البقعۃ من الاختلاط بالرّجال و مزاحمتہنّ لہم فی تلک الحالۃ مع تزیُّنہنّ بأنواع الزّینۃ، و استعمالہنّ ما یفوح منہ الرّوائح العطر فیشوّش بذلک علی متورّعی الطّائفین، و یستجلبن بسببہ نظر الباقین، و ربما طاف بعضہنّ بکشف شیٔ من اعضائہنّ لاسیما من أیدیہنّ و أرجلہنّ، و قد تقع مماستہنّ فتنتقض الطّہارۃ عند الشّافعیۃ و تنعدم صحۃ طوافہنّ وطواف من مسہنّ (166)
یعنی، مُنکَراتِ فاحشہ میں سے ہے جو اَب عورتیں مکہ معظمہ میں کرتی ہیں اس مبارک خطے میں مردوں کے ساتھ اختلاط اور اس حال میں مختلف قسم کی زینتوں سے مُزیّن ہو کر اُن کے مردوں کے ساتھ بھیڑ اور اُن کا ایسی خوشبوئیں استعمال کرنا کہ جن کی خوشبو اٹھتی ہو پس وہ اس سے پرہیزگار طواف کرنے والوں پر تشویش کا سبب بنتی ہیں ، اور باقیوں کی نظریں اپنی طرف متوجہ کراتی ہیں ، بسا اوقات بعض اعضاء کے ننگے ہونے کے ساتھ طواف کرتی ہیں خاص طور پر ان کی کلائیاں اور پاؤں اور کبھی ننگے ہاتھ پاؤں دوسروں سے مَس ہوتے ہیں کہ جس سے شافعی حضرات کے ہاں وضو ٹوٹ جاتا ہے ، ان کا اپنا طواف اور جسے وہ لگیں سب کے طواف کا صحیح ہونا مُنعدم ہو جاتا ہے ۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی متوفی 1367ھ اپنے دَور میں دَورانِ سعی عورتو ں کی بے باکی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بعض عورتوں کو میں نے دیکھا ہے کہ نہایت بے باکی سے سعی کرتی ہیں کہ ان کی کلائیاں اور گلا کُھلا رہتا ہے اور یہ خیال نہیں کہ مکہ معظمہ میں معصیت (گناہ)کرنا نہایت سخت بات ہے کہ یہاں جس طرح ایک نیکی لاکھ کے برابر ہے یوہیں ایک گناہ لاکھ کے برابر بلکہ یہاں تو یہاں کعبہ معظمہ کے سامنے بھی وہ اسی حالت سے رہتی ہیں بلکہ اِسی حالت میں طواف کرتے دیکھا حالانکہ طواف میں ستر کا چُھپانا علاوہ اُس فرض دائمی کے واجب بھی ہے تو ایک دوسرے واجب کے ترک سے دو گناہ کئے وہ بھی کہاں بیت اللہ کے سامنے اور خاص طواف کی حالت میں ، بلکہ بعض عورتیں طواف کرنے میں خصوصاً حجر اسود کو بوسہ دینے میں مردوں میں گُھس جاتی ہیں اور اُن کا بدن مردوں کے بدن سے مَس ہوتا رہتا ہے مگر اُن کو اس کی کچھ پرواہ نہیں حالانکہ طواف یا بوسۂ حجر اسود ثواب کے لئے کیا جاتا ہے مگر وہ عورتیں ثواب کے بدلے گناہ مول لیتی ہیں ، لہٰذا اِن اُمور کی طرف حجاج کو خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے اور اُن کے ساتھ جو عورتیں ہوں انہیں بتاکید ایسی حرکات سے منع کرنا چاہئے ۔ (167) مُلّا علی قاری اور صدر الشریعہ علیہما الرحمہ نے اپنے اپنے دَور کی بات کی، جن عورتوں کو انہوں نے دیکھا وہ بے باکی، بے پردگی، بے حیائی، بے حسی، نافرمانی میں آج کی عورتوں سے ہزارہا درجے مذکورہ اُمور میں کم تھیں ، وہ اُس دَور کی بات کرتے ہیں جب چادر، چادر دیواری کا تصوّر موجود تھا آج یہ تصوّر عُنَقا ہو چکا ہے ۔ اُس دَور میں عورتوں کی اکثریت باپردہ تھی آج اکثر مردوں کی عقل باپردہ ہے ، اُس دَور میں بے پردگی و بے حیائی عیب سمجھی جاتی تھی اور آج پردہ و حیاء عیب تصوّر کئے جانے لگے ہیں الامان و الحفیظ اس وقت مرد حاکم تھے اب ان کی اکثریت محکوم ، لہٰذا اس وقت کا مرد غیرت مند تھا آج غیرت اقل قلیل ہوتی جا رہی ہے ، اس وقت بے حیائی و فحاشی کو فروغ دینے کے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا موجود نہ تھا، آج ملکی وغیر ملکی میڈیا ان کے فروغ میں دن رات کوشاں ہے ، اس دَور میں عورت اپنے شوہر کی فرمانبردار تھی آج اکثریت نافرمان، اس دَور میں شوہر کی فرمانبرداری عورت کا فخر تھی، آج نافرمانی باعثِ افتخار، وغیر ذالک تو اتنے بڑے فرق اور اتنی عظیم تبدیلی کے بعد یہ اندازہ لگانا کہ آج کیا حالت ہو گی یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے ، جب گناہ ثواب سمجھ کر، نافرمانی طاعت سمجھ کر کئے جانے لگیں تو بات ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ مردوں کی ذمہ داری جو عورتیں ممنوعاتِ شرعیہ کا دیدہ دانستہ ارتکاب کرتی ہیں اُن کے وارث یا شوہر اگر انہیں اس سے منع نہیں کرتے یا اس پر راضی ہیں تو وہ بھی اُن کی طرح سخت گنہگار ہوں گے کیونکہ اُن کی عورتیں اُن کی رعیت ہیں اور قیامت میں ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا اور پھر گُناہ پر رضا بھی گناہ ہے ۔ لہٰذا مردوں پر فرض ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو گُناہ سے روکیں ورنہ بھی ان عورتوں کی طرح آخرت میں عذاب خداوندی میں گرفتار ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مردوں اورعورتوں کو ہدایت عطا فرمائے ، آمین بجاہ سید المرسلین سیدنا محمد و آلہ و اصحابہ اجمعین۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الثلثاء، 16ذی الحجۃ 1428ھ، 25دیسمبر 2007 م (New 31-F)
حوالہ جات
148۔ لُباب المناسک، باب أنواع الأطوفۃ، فصل : فی واجبات الطّواف، ص113
149۔ مجامع المناسک ونفع الناسک، باب أنواع الأطوفۃ، فصل : فی واجبات الطواف، ص125، ا؛جمودیۃ، ص187، أفغانستان
150۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم دربیان طواف وانواع آن،، فصل دویم در بیان شرائط صحۃ طواف،اما واجبات الطواف الخ، ص118
151۔ ردّ المحتار، کتاب الحج، مطلب فی فروض الحجّ و واجباتہ، تحت قولہ : و ستر العورۃ فیہ، 3/540
152۔ بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کی شرطوں کا بیان، 1/481
153۔ لُباب المناسک، باب أنواع الأطوفۃ وأحکامھا، فصل فی واجبات الطواف، ص113
154۔ لُباب المناسک ، باب أنواع الأطوفۃ وأحکامھا، فصل فی واجبات الطواف، ص113
155۔ بہار شریعت، حج کابیان، حج کے واجبات، برقم : 23، 1/1549
156۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم دربیان طواف انواع آن، فصل دویم دربیان شرائط صحۃ طواف، ص118
157۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم دربیان طواف انواع آن، فصل دویم دربیان شرائط صحۃ طواف، ص118
158۔ ردّ المحتار،کتاب الحج، مطلب : فی فروض الحج و واجباتہ، تحت قولہ : یجب الدم، ص541
159۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم دربیان طواف انواع آن، فصل دویم دربیان شرائط صحۃ طواف، ص118
160۔ بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کی شرطوں کابیان، 483۔484
161۔ بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کی شرطوں کابیان،1/484
162۔ بہار شریعت، حصہ سوم، نماز کی شرطوں کابیان،1/485
163۔ بہار شریعت، ، نماز کی شرطوں کابیان،1/485
164۔ بہار شریعت، نماز کی شرطوں کابیان،1/485
165۔ امام مسلم نے روایت کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا :
’’صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہْمَا : قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ، وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ، مُمِیْلَاتٌ مَائِلَاتٌ : رُؤُوسُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ المَائِلَۃِ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ، وَ لَا یَجِدْنَ رِیْحَہَا، وَ إِنَّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَۃِ کَذَا وکذا‘‘ (صحیح مسلم، کتاب اللباس و الزِّینۃ، باب النساء
الکاسِیَاتِ العاریات الخ، برقم : 2128، 3/1685، و کتاب الجنّۃ و صفۃ نعیمہا الخ، باب النّار یدخلون الجبّارون الخ، برقم : 2128،4/2193192)
یعنی، جہنمیوں کی دو ایسی قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے ہیں ، دوسری وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود ننگیاں ہوں گی، وہ راہِ حق سے ہٹانے والی اور خود بھی ہٹی ہوئی ہوں گی، اُن کے سر بُختی اونٹوں کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہوں گے وہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنّت کی خوشبو پائیں گی اورجنت کی خوشبو اتنی اتنی مسافت سے آتی ہے ۔
امام نووی شافعی فرماتے ہیں یہ حدیث نبی ا کے معجزات میں سے ہے ، کیونکہ یہ دونوں قسمیں اب موجود ہو گئی ہیں اس میں اُن دونوں قسموں کی مذمت ہے ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی، 7/14/92)
166۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أنواع الأطوفۃ، فصل فی مسائل شتی، ص245
167۔ بہار شریعت،حج کابیان، طواف وصفا ومروہ کی سعی و عمرہ کابیان،1/1115