طلاق کے الفاظ میں استثنا کے متعلق مسائل
استثنا کے لئے شرط یہ ہے کہ کلام کے ساتھ متصل ہو یعنی بلاوجہ نہ سکوت کیا ہونہ کوئی بیکار بات درمیان میں کہی ہو اور یہ بھی شرط ہے کہ اتنی آواز سے کہے کہ اگر شوروغل وغیرہ کوئی مانع نہ ہو تو خودسن سکے بہرے کا استثنا صحیح ہے ۔
مسئلہ۱: عورت نے طلاق کے الفاظ سنے مگر استثنا نہ سنا تو جس طرح ممکن ہو شوہر سے علیحدہ ہو جائے اسے جماع نہ کرنے دے ۔( خانیہ)
مسئلہ۱: سانس یا چھینک یا کھانسی یا ڈکار یا جماہی یا زبان کی گرانی کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ کسی نے اس کا مونہہ بند کر دیا اگر وقفہ ہوا تو اتصال کے منافی نہیں ۔ یونہی اگر درمیان میں کوئی مفید بات کہی تو اتصال کے منافی نہیں مثلاً تاکید کی نیت سے لفظ طلاق دو بار کہ کر استثنا کا لفظ بولا ۔(درمختار وغیرہ)
مسئلہ۲: درمیان میں کوئی غیر مفید بات کہی پھر استثنا کیا تو صحیح نہیں مثلاً تجھ کو طلاق رجعی ہے انشأاللہ طلاق ہوگئی اور اگر کہا تجھ کو طلاق بائن ہے انشأاللہ تو واقع نہ ہوئی ۔( درمختار)
مسئلہ۳: لفظ انشأاللہ اگر چہ بظاہر شرط معلوم ہوتا ہے مگر اس کا شمار استثنا میں ہے مگر انھیں چیزوں میں جن کا وجود بولنے پر موقوف ہے مثلاً طلاق و حلف وغیرہما اور جن چیزوں کو تلفظ سے خصوصیت نہیں وہاں استثنا کے معنی نہیں مثلاً یہ کہا نویت ان اصوم غداً انشأاللہ تعالی کہ یہاں نہ استثنا ہے نہ نیت روزہ پر اسکا اثر بلکہ یہ لفظ ایسے مقام پر برکت و طلب توفیق کے لئے ہوتا ہے ۔ (ردالمحتار)
مسئلہ۴: عورت سے کہا تجھ کو طلاق ہے انشأاللہ تعالی طلاق واقع نہ ہوئی اگر چہ انشأاللہ کہنے سے پہلے مرگئی اور اگر شوہر اتنا لفظ کہ کر کہ تجھ کو طلاق ہے مر گیا انشأاللہ کہنے کی نوبت نہ آئی مگر اس کا ارادہ اس کے کہنے کا بھی تھا تو طلاق ہو گئی رہا یہ کہ کیونکر معلوم ہوا کہ اس کا ارادہ ایسا تھا یہ یوں معلوم ہوا کہ پہلے سے اس نے کہدیا تھا کہ میں اپنی عورت کو طلاق دے کر استثنا کروں گا۔(درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۵: استثنا میں یہ شرط نہیں کہ بالقصد کہا ہو بلکہ بلا قصد زبان سے نکل گیا جب بھی طلاق واقع نہ ہوگی بلکہ اگر اس کے معنے بھی نہ جانتا ہو جب بھی واقع نہ ہو گی اور یہ بھی شرط نہیں کہ لفظ طلاق و استثنا دونوں بولے بلکہ اگر زبان سے طلاق کا لفظ کہا اور فوراً لفظ انشأاللہ لکھ دیا یا طلاق لکھی اور زبان سے انشاء اللہ کہہ دیا جب بھی طلاق واقع نہ ہوئی یا دونوں کو لکھا پھر لفظ استثنا مٹا دیا طلاق واقع نہ ہوئی ۔(درمختار)
مسئلہ۶: دوشخصوں نے شہادت دی کہ تو نے انشاء اللہ کہا تھا مگر اسے یاد نہیں تو اگر اس وقت غصہ زیادہ تھا اور لڑائی جھگڑے کی وجہ سے یہ احتمال ہے کہ بوجہ مشغولی یا دنہ ہو گا تو ان کی بات پر عمل کر سکتا ہے اور اگر اتنی مشغولی نہ تھی کہ بھول جاتا تو ان کا قول نہ مانے ۔ ( درمختار ‘ ردالمحتار)
مسئلہ۷: تجھ کو طلاق ہے مگر یہ کہ خدا چاہے یا اگر خدانہ چاہے یا جو اللہ چاہے یا جب خدا چاہے یا مگر جو خدا چاہے یا جب تک خدا نہ چاہے یا اللہ کی مشیت یا ارادہ یا رضا کے ساتھ یا اللہ کی مشیت یا ارادہ یا اس کی رضا یاحکم یا اذن یا امر میں تو طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر یوں کہا کہ اللہ کے امر یا حکم یا اذن یا علم یا قضا یا قدرت سے یا اللہ کے علم میں اس کی مشیت یا ارادہ یا حکم وغیرہا کے سبب تو ہو جائے گی۔(عالمگیری ، درمختار)
مسئلہ۸: ایسے کی مشیت پر طلاق معلق کی جس کی مشیت کا حال معلوم نہ ہوسکے یا اس کے لئے مشیت ہی نہ ہو تو طلاق نہ ہوگی جیسے جن و ملائکہ اور دیوار اور گدھا وغیرہا ۔یونہی اگر کہا کہ خدا چاہے اور فلاں تو طلاق نہ ہوگی اگر چہ فلاں کا چاہنا معلوم ہو یونہی اگرکسی سے کہا تو میری عورت کو طلاق دیدی اگر اللہ چاہے اور تو یا جو اللہ چاہے اور تو اور اس نے طلاق دیدی طلاق واقع نہ ہوئی ۔ (عالمگیری ‘درمختار)
مسئلہ۹: عورت سے کہا تجھ کو طلاق ہے اگر اللہ میری مدد کرے یا اللہ کی مدد سے اور نیت استثنا کی ہے تو دیانۃًطلاق نہ ہوئی۔(عالمگیری)
مسئلہ۱۰: تجھ کو طلاق ہے اگر فلاں چاہے یا ارادہ کرے یا پسند کرے یا خواہش کرے ۔یا مگر یہ کہ فلاں اس کے غیر کا ارادہ کرے یا پسند کرے یا خواہش کرے یا چاہے یا مناسب جانے تو یہ تملیک ہے لہذا جس مجلس میں اس شخص کو علم ہوااگر اس نے طلاق چاہی تو ہوئی ورنہ نہیں یعنی اپنی زبان سے اگر طلاق چاہنا ظاہر کیا ہوگئی اگر چہ دل میں نہ چاہتا ہو ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۱۱: تجھ کو طلاق اگر تیرا مہر نہ ہوتا یا تیری شرافت نہ ہوتی یا تیرا باپ نہ ہوتا یا تیرا حسن و جمال نہ ہوتا یا اگر میں تجھ سے محبت نہ کرتا ہوتا ان سب صورتوں میں طلاق نہ ہوگی۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۱۲: اگر انشاء اللہ کو مقدم کیا یعنی یوں کہا انشاء اللہ تجھ کو طلاق ہے جب بھی طلاق نہ ہوگی۔ اور اگر یوں کہا کہ تجھ کو طلاق ہے انشاء اللہ اگر تو گھر میں گئی تو مکان میں جانے سے طلاق نہ ہوگی ۔اور اگر انشاء اللہ دوجملے طلاق کے درمیان میں ہو مثلاً کہا تجھ کو طلاق ہے انشاء اللہ تجھ کو طلاق ہے تو استثنا پہلے کی طرف رجوع کرے گا لہذا دوسرے سے طلاق ہو جائے گی ۔یونہی اگر کہا تجھ کو تین طلاقیں ہیں انشاء اللہ تجھ پر طلاق ہے تو ایک واقع ہوگی۔( بحر ‘ درمختار‘ خانیہ)
مسئلہ۱۳: اگر کہا تجھ پر ایک طلاق ہے اگر خدا چاہے اور تجھ پر دو طلاقیں اگر خدانہ چاہے تو ایک بھی واقع نہ ہوگی اور اگر کہا تجھ پر آج ایک طلاق ہے اگر خد ا چاہے اور اگر خدا نہ چاہے تو دو اور آج کا دن گزر گیا اور عورت کو طلاق نہ دی تو دو واقع ہوئیں اور اگر اس دن ایک طلاق دیدی تو یہی ایک واقع ہوگی ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۱۴: اگر تین طلاقیں دیکر ان میں سے ایک یا دو کا استثنا کرے تو یہ استثنا صحیح ہے یعنی استثنا کے بعد جو باقی ہے واقع ہوگی مثلاً کہا تجھ کو تین طلاقیں ہیں مگر ایک تو دو ہونگی اور اگر کہا مگر دو تو ایک ہوگی۔ اور کل کا استثنا صحیح نہیں خواہ اسی لفظ سے ہو مثلاً تجھ پر تین طلاقیں مگر تین یا ایسے لفظ سے ہو جس کے معنی کل کے مساوی ہوں مثلاً کہا تجھ پر تین طلاقیں ہیں مگر ایک اور ایک اور ایک یا مگردو اور ایک تو ان صورتوں میں تینوں واقع ہونگی۔ یا اس کی کئی عورتیں ہیں سب کو مخاطب کرکے کہا تم سب کو طلاق ہے مگر فلانی اور فلانی اور فلانی نا م لیکر سب کا استثنا کردیاتو سب مطلقہ ہوجائیں گی اور اگر باعتبار معنی کے وہ لفظ مساوی نہ ہو اگر چہ اس خاص صورت میں مساوی ہو تو استثنا صحیح ہے مثلاًکہا میری ہر عورت پر طلاق مگر فلانی اور فلانی پر تو طلاق نہ ہوگی اگر چہ اسکی یہی دو عورتیں ہوں ۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ۱۵: تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے تجھ کو طلاق ہے مگر ایک یاکہا تجھ کو طلاق ہے ایک اور ایک اور ایک مگر ایک تو ان دونوں صورتوں میں تین پڑیگی کہ ہر ایک مستقل کلام ہے اور ہر ایک سے استثنا کا تعلق ہو سکتا ہے اور استثنا چونکہ ہر ایک کا مساوی ہے لہذا صحیح نہیں ۔ ( بحر )
مسئلہ۱۶: اگر تین سے زائد طلاق دے کر ان میں سے کم کا استثنا کیا تو صحیح ہے اور استثنا کے بعد جو باقی ہے واقع ہوگی مثلاً کہا تجھ پر دس (۱۰) طلاقیں ہیں مگر نوتو ایک ہوگی اور آٹھکا استثنا کیا تو دوہوں گی ۔ (درمختار)
مسئلہ۱۷: استثنا اگر اصل پر زیادہ ہو تو باطل ہے مثلاً کہا تجھ پر تین طلاقیں مگر چار یا پانچ تو تین واقع ہوں گی یونہی جزو طلاق کا استثنا بھی باطل ہے مثلاً کہا تجھ پر تین طلاقیں مگر نصف تو تین واقع ہوں گی اور تین میں سے ڈیڑھ کا استثنا کیا تو دو واقع ہوں گی ۔( عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۱۸: اگر کہا تجھ کو طلاق ہے مگر ایک تو دو واقع ہوں گی کہ ایک سے ایک کا استثنا تو ہو نہیں سکتا لہذا طلاق سے تین طلاقیں مراد ہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ۱۹: چند استثنا جمع کیے تو اس کی دوصورتیں ہیں ان کے درمیان ’’اور‘‘ کا لفظ ہے تو ہر ایک اسی اول کلام سے استثنا ہے مثلاًتجھ پر دس(۱۰)طلاقیں ہیں مگر پانچ اور مگر تین اور مگر ایک تو ایک ہوگی اور اگر درمیان میں اور کا لفظ نہیں تو ہر ایک اپنے ماقبل سے استثنا ہے مثلاً تجھ پر دس(۱۰)طلاقیں مگر نو مگر آٹھ مگر سات تو دوہوں گی ۔ ( درمختار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔
Leave a Reply