بہار شریعت

طلاق کی عدت کے متعلق مسائل

طلاق کی عدت کے متعلق مسائل

اللہ عزوجل فرماتا ہے ۔

یا یھاالنبی اذاطلقتم النسائ فطلقوھن لعدتھن واحصواالعدۃ ج واتقوااللہ ربکم جلا تخرجوھن من م بیوتھن ولا یخرجن الا ان یا تین بفاحشۃٍ مبیتۃٍط

( اے نبی ﷺ لوگوں سے فرمادو کہ جب عورتوں کو طلاق دو تو انھیں عدت کے وقت کے لئے طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اللہ سے ڈرو جو تمھارا رب ہے ۔ نہ عدت میں عورتوں کو ان کے رہنے کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ کھلی ہوئی بے حیائی کی بات کریں ۔)

اور فرماتا ہے ۔

والمطلقت یتربصن بانفسھن ثلثۃ قروئٍ ط ولا یحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن ان کن یؤمن باللہ والیوم الاخرط

( طلاق والیاں اپنے کو تین حیض تک روکے رہیں اور انھیں یہ حلال نہیں کی جو کچھ خدا نے ان کے پیٹوں میں پیدا کیا اسے چھپائیں اگر وہ اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں ۔)

اور فرماتا ہے ۔

والتی یئسن من المحیض من نسائکم ان ارتبتم فعدتھن ثلثۃ اشھرٍوالئی لم یحضن ط واولا ت الا حمال اجلھن ان بضعن حملھن۔

( اور تمھاری عورتوں میں جو حیض سے نا امید ہوگئیں اگر تم کو کچھ شک ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور ان کی بھی جنھیں ابھی حیض نہیں آیا ہے اور حمل والیوں کی عدت یہ ہے کہ اپنا حمل جن لیں )

اور فرماتا ہے ۔

والذین یتوفون منکم ویذرون ازوجًا یتربصن بانفسھن اربعۃ اشھرٍو عشرًا ج فاذا بلغن اجلھن فلا جناح علیکم فیما فعلن فٓی انفسھن بالمعروف ط واللہ بما تعملون خبیرٌ o

(تم میں جو مرجائیں اور بی بیاں چھوڑیں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں پھر جب ان کی عدت پوری ہو جائے تو تم پر کچھ مؤاخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے معاملہ میں شرع کے موافق کریں اور اللہ کو تمھارے کاموں کی خبر ہے )

حدیث ۱: صحیح بخاری شریف میں مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے وفات شوہر کے چند دن بعد بچہ پیدا ہوا نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر نکاح کی اجازت طلب کی حضور نے اجازت دیدی نیز اس میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سورۂ طلاق ( جس میں حمل کی عدت کے متعلق مسائل ہے ) سورۂ بقرہ ( کہ اس میں عدت وفات چار مہینے دس دن ہے ) کے بعد نازل ہوئی یعنی حمل والی کی عدت چار ماہ دس دن نہیں بلکہ وضع حمل ہے اور ایک روایت میں ہے کہ میں اس پر مباہلہ کر سکتا ہوں کہ وہ اس کے بعد نازل ہوئی۔

حدیث۲: امام مالک و شافعی وبیہقی حضرت امیرا لمومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ وفات کے بعد اگر بچہ پیدا ہو گیا اور ہنوز مردہ چار پائی پر ہو تو عدت پوری ہو گئی ۔

مسائل فقہیہ

مسئلہ۱: نکاح زائل ہونے یا شبہۂ نکاح کے بعد عورت کا نکاح سے ممنوع ہونا اور ایک زمانہ تک انتظار کرنا عدت ہے ۔

مسئلہ۲: نکاح زائل ہونے کے بعد اسوقت عدت ہے کہ شوہر کا انتقال ہوا ہو یا خلوت صحیحہ ہوئی ہو۔ زانیہ کے لئے عدت نہیں اگر چہ حاملہ ہو اور یہ نکاح کر سکتی ہے مگر جس کے زنا سے حمل ہے اس کے سوا دوسرے سے نکاح کرے تو جب تک بچہ پیدا نہ ہو وطی جائز نہیں ۔ نکاح فاسد میں دخول سے قبل تفریق ہوئی تو عدت نہیں اور دخول کے بعد ہوئی تو ہے ۔( عامہ کتب)

مسئلہ۳: جس عورت کامقام بند ہے اس سے خلوت ہوئی تو طلاق کے بعد عدت نہیں ۔ ( درمختار)

مسئلہ۴: عورت کو طلاق دی بائن یا رجعی یا کسی طرح نکاح فسخ ہو گیا اگر چہ یوں کہ شوہر کے بیٹے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا اور ان صورتوں میں دخول ہوچکا یا خلوت ہوئی ہو اور اس وقت حمل نہ ہواور عورت کوحیض آتا ہے تو عدت پورے تین حیض ہے جبکہ عورت آزاد ہواور باندی ہو تو دوحیض ۔اور اگر عورت ام ولد ہے اس کے مولی کا انتقال ہو گیا یا اس نے آزاد کر دیا تو اس کی عدت بھی تین حیض ہے ۔( درمختار)

مسئلہ۵: ان صورتوں میں اگر عورت کو حیض نہیں آتا ہے کہ ابھی ایسے سن کو نہیں پہنچی یا سن ایاس کو پہنچ چکی ہے یا عمر کے حسابوں بالغہ ہو چکی ہے مگر ابھی حیض نہیں آیا ہے تو عدت تین مہینے ہے اور باندی ہے تو ڈیڑھ ماہ۔

مسئلہ۶: اگر طلاق یا فسخ پہلی تا ریخ کو ہواگر چہ عصر کے وقت تو چاند کے حساب سے تین مہینے ورنہ ہر مہینہ تیس دن کا قرار دیا جائے یعنی عدت کے کل دن نوے ہونگے ۔ ( عالمگیری ‘جوہرہ)

مسئلہ۷: عورت کو حیض آچکا ہے مگر اب نہیں آتا اور ابھی سن ایاس کو بھی نہ پہنچی ہے اس کی عدت بھی حیض سے ہے جب تک تین حیض نہ آلیں یا سن ایاس کو نہ پہنچے اس کی عدت ختم نہیں ہوسکتی اور اگر حیض آیا ہی نہ تھا اور مہینوں سے عدت گزاررہی تھی کہ اثنائے عدت میں حیض آگیا تو اب حیض سے عدت گزارے یعنی جب تک تین حیض نہ آلیں عدت پوری نہ ہوگی۔( عالمگیری)

مسئلہ۸: حیض کی حالت میں طلاق دی تو یہ حیض عدت میں شمار نہ کیا جائے بلکہ اس کے بعد پورے تین حیض ختم ہونے پر عدت پوری ہوگی۔( عامہ کتب)

مسئلہ۹: جس عورت سے نکاح فاسد ہوا اور دخول ہو چکا ہو یا جس عورت سے شبہۃً وطی ہوئی اس کی عدت فرقت و موت دونوں میں حیض سے ہے اور حیض نہ آتا ہو تو تین مہینے ۔( جوہرہ‘ نیرہ) اور وہ عورت کسی کی باندی ہو تو عدت ڈیڑھ ماہ ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۰: اس کی عورت کسی کی کنیزہے اس نے خود خریدلی تو نکاح جاتا رہا مگر عدت نہیں یعنی اس کو وطی کرنا جائز مگر دوسرے سے اسکا نکاح نہیں ہوسکتا جب تک دو حیض نہ گزرلیں ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۱: اپنی عورت کو جوکنیزتھی خریدااور ایک حیض آنے کے بعد آزاد کر دیا تو اس حیض کے بعد دو حیض اور عدت میں رہے اور حرہ کا سا سوگ کرے اور اگر ایک بائن طلاق دیکر خریدی تو ملک یمین کی وجہ سے وطی کرسکتا ہے اور دو طلاقیں دیں تو بغیر حلالہ وطی نہیں کرسکتا اور اگر دوحیض کے بعد آزاد کردی تو نکاح کی وجہ سے عدت نہیں ہاں عتق کی وجہ سے عدت گزارے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۲: جس عورت سے نابالغ نے شبہۃً یا نکاح فاسد میں وطی کی اس پر بھی یہی عدت ہے یونہی اگر نا بالغی میں خلوت ہوئی اور بالغ ہونے کے بعد طلاق دی جب بھی یہی عدت ہے ۔( ردالمحتار)

مسئلہ۱۳: نکاح فاسد میں تفریق یا متارکہ کے وقت سے عدت شمار کی جائے گی متارکہ یہ کہ مرد نے یہ کہا کہ میں نے اسے چھوڑا یا اس سے وطی ترک کی یا اسی قسم کے اور الفاظ کہے جب تک متارکہ یا تفریق نہ ہو کتنا ہی زمانہ گزر جائے عدت نہیں اگر چہ دل میں ارادہ کرلیا کہ وطی نہ کریگااور اگر عورت کے سامنے نکاح سے انکار کرتا ہے تویہ متارکہ ہے ورنہ نہیں لہذا اس کا اعتبار نہیں ۔( جوہرہ‘ درمختار)

مسئلہ۱۴: طلاق کی عدت وقت طلاق سے ہے اگرچہ عورت کو اس کی اطلاع نہ ہو کہ شوہر نے اسے طلاق دی ہے اور تین حیض آنے کے بعد معلوم ہواتو عدت ختم ہوچکی اور اگر شوہر یہ کہتا ہے کہ میں نے اس کو اتنے زمانہ سے طلاق دی ہے تو عورت اسکی تصدیق کرے یا تکذیب عدت وقت اقرار سے شمار ہوگی۔(جوہرہ)

مسئلہ۱۵: عورت کوکسی نے خبر دی کہ اس کے شوہر نے تین طلاقیں دیدیں یا شوہر کا خط آیا ا س میں اسے طلاق لکھی ہے اگر عورت کا غالب گمان ہے کہ وہ سچ کہتا ہے یا یہ خط اسی کا ہے تو عدت گزار کر نکاح کرسکتی ہے ۔( جوہرہ)

مسئلہ۱۶: عورت کو تین طلاقیں دیدیں مگر لوگوں پر ظاہر نہ کیا اور دوحیض آنے کے بعد عورت سے وطی کی اور حمل رہ گیا اب اس نے لوگوں سے طلاق دینا بیان کیا تو عدت وضع حمل ہے اور وضع حمل تک نفقہ اس پر واجب ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۱۷: طلاق دیکر مکر گیا عورت نے قاضی کے پاس دعوی کیا اور گواہ سے طلاق دینا ثابت کر دیا اور قاضی نے تفریق کا حکم دیا تو عدت وقت طلاق سے ہے اس وقت سے نہیں ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۸ : پچھلا حیض اگر پورے دس دن پر ختم ہوا ہے تو ختم ہوتے ہی عدت ختم ہو گئی اگرچہ ابھی غسل نہ کیا بلکہ اگر چہ اتنا وقت بھی ابھی نہیں گزرا ہے کہ اس میں غسل کر سکتی اور طلاق رجعی تھی تو شوہر اب رجعت نہیں کرسکتا اور اب یہ عورت نکاح کرسکتی ہے ۔اور اگر دس دن سے کم میں ختم ہوا ہے تو جب تک نہا نہ لے یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزرلے عدت ختم نہ ہوگی یہ حکم مسلمان عورت کے ہیں اور کتابیہ ہو تو بہر حال حیض ختم ہوتے ہی عدت پوری ہوجائیگی ۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۹: وطی بالشبہہ کی چند صورتیں ہیں ۔

(۱) عورت عدت میں تھی اور شوہر کے سواکسی اور کے پاس بھیج دی گئی اور یہ ظاہر کیا گیا کہ تیری عورت ہے اس نے وطی کی بعد کو حال کھلا ۔

(۲) عورت کو تین طلاقیں دیکر بغیر حلالہ اس سے نکاح کرلیا اور وطی کی ۔

(۳) عورت کو تین طلاقیں دیکر عدت میں وطی کی اور کہتا ہے کہ میرا گمان یہ تھا کہ اس سے وطی حلال ہے ۔

(۴) مال کے عوض یا لفظ کنایہ سے طلاق دی اور عدت میں وطی کی ۔

(۵) خاوند والی عورت تھی اور شبہۃًاس سے کسی اور نے وطی کی پھر شوہر نے اس کو طلاق دیدی ان سب صورتوں میں عورت پر دو عدتیں ہیں اور بعد تفریق دوسری عدت پہلی عدت میں داخل ہو جائے گی یعنی اب جو حیض آئیگا دونوں عدتوں میں شمار ہوگا۔( جوہرۂ نیرہ)

مسئلہ۲۰: مطلقہ نے ایک حیض کے بعد دوسرے سے نکاح کیا اور اس دوسرے نے اس سے وطی کی پھر دونوں میں تفریق کر دی گئی اور تفریق کے بعد دوحیض آئے تو پہلی عدت ختم ہو گئی مگر ابھی دوسری ختم نہ ہوئی لہذا یہ شخص اس سے نکاح کر سکتا ہے کوئی اور نہیں کرسکتا جب تک بعد تفریق تین حیض نہ آلیں اور تین حیض آنے پر دونوں عدتیں ختم ہو گئیں ۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۱: عورت کو طلاق بائن دی تھی ایک یا دو اور عدت کے اندر وطی کی اور جانتا تھا کہ وطی حرام ہے اور حرام ہونے کا اقرار بھی کرتا ہے تو ہر بار کی وطی پر عدت ہے مگر سب متداخل ہونگی اور تین طلاقیں دے چکا ہے اور عدت میں وطی کی اور جانتا ہے کہ وطی حرام ہے اور مقر بھی ہے تو اس وطی کیلئے عدت نہیں ہے بلکہ مرد کو رجم کا حکم ہے اور عورت بھی اقرار کرتی ہے تو اس پر بھی ۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۲: موت کی عدت چار مہینے دس دن ہے یعنی دسویں رات بھی گزرلے بشرطیکہ نکاح صحیح ہو دخول ہوا ہو یا نہیں دونوں کا ایک حکم ہے اگر چہ شوہر نا بالغ ہو یا زوجہ نا بالغہ ہو یونہی اگر شوہر مسلمان تھا اور عورت کتابیہ تو اس کی بھی یہی عدت ہے مگر اس عدت میں شرط یہ ہے کہ عورت کو حمل نہ ہو ۔( جوہرہ وغیرہا)

مسئلہ۲۳: عورت کنیز ہے تو اس کی عدت دو(۲) مہینے پانچ دن ہے شوہر آزاد ہو یا غلام کہ عدت میں شوہر کے حال کالحاظ نہیں بلکہ عورت کے اعتبار سے ہے پھر موت پہلی تاریخ کو ہو تو چاند سے مہینے لئے جائیں ورنہ حرہ کے لئے ایک سوتیس دن اور باندی کے لئے پینسٹھ (۶۵)دن۔( درمختار)

مسئلہ۲۴: عورت حامل ہے توعدت وضع حمل ہے عورت حرہ ہو یا کنیز مسلمہ ہو یا کتا بیہ عدت طلاق کی ہو یا وفات کی یا متارکہ یا وطی بالشبہ کی حمل ثابت النسب ہو یا زنا کا مثلاًزانیہ حاملہ سے نکاح کیا اور شوہر مرگیا یا وطی کے بعد طلاق دی تو عدت وضع حمل ہے ۔( درمختار ‘عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ۲۵: وضع حمل سے عدت پوری ہونے کے لئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں موت یا طلاق کے بعد جس وقت بچہ پیدا ہو عدت ختم ہوجائے گی اگرچہ ایک منٹ بعد ۔ حمل ساقط ہو گیا اور اعضابن چکے ہیں عدت پوری ہوگئی ورنہ نہیں اور اگر دو یا تین بچے ایک حمل سے ہوئے تو پچھلے کے پیدا ہونے سے عدت پوری ہوگی۔( جوہرہ)

مسئلہ۲۶: بچہ کا اکثر حصہ باہر آچکا تو رجعت نہیں کر سکتا مگر دوسرے سے نکاح اس وقت حلال ہو گا کہ پورا بچہ پیدا ہولے ۔( ردالمحتار)

مسئلہ۲۷: موت کے بعد اگر حمل قرار پایا تو عدت وضع حمل سے نہ ہو گی بلکہ دنوں سے ۔( جوہرہ)

مسئلہ۲۸: بارہ برس سے کم عمر والے کا انتقال ہوااور اس کی عورت کے چھ مہینے سے کم کے اندر بچہ پیدا ہوا تو عدت وضع حمل ہے اور چھ مہینے یا زائد میں ہوا تو چار مہینے دس دن اور نسب بہر حال ثابت نہ ہوگا۔ اور اگر شوہر مراہق ہو تو دونوں صورت میں وضع حمل سے عدت پوری ہو گی اور بچہ ثابت النسب ہے ۔( جوہرہ ‘ درمختار)

مسئلہ۲۹: جو شخص خصی تھا اس کا انتقال ہوااور اس کی عورت حاملہ ہے یا مرنے کے بعد حاملہ ہونا معلوم ہوا تو عدت وضع حمل ہے اور بچہ ثابت النسب ہے ۔( جوہرہ)

مسئلہ۳۰: عورت کو طلاق رجعی دی تھی اور عدت میں مر گیا تو عورت موت کی عدت پوری کرے اور طلاق کی عدت جاتی رہی خواہ صحت کی حالت میں طلاق دی ہو یا مرض میں ۔ اور اگر بائن طلاق دی تھی یا تین تو طلاق کی عدت پوری کرے جبکہ صحت میں طلاق دی ہواگر مرض میں دی ہو تو دونوں عدتیں پوری کرے یعنی اگر چار مہینے دس دن میں تین حیض پورے ہو چکے تو عدت پوری ہوچکی اور اگر تین حیض پورے ہوچکے ہیں مگر چار مہینے دس دن پورے نہ ہوئے تو ان کو پورا کرے اور اگر یہ دن پورے ہوگئے مگر ابھی تین حیض پورے نہ ہوئے تو ان کو پورے ہونیکا انتظار کرے ۔( عامہ کتب)

مسئلہ۳۱: عورت کنیز تھی اسے رجعی طلاق دی اور عدت کے اندر آزاد ہوگئی تو حرہ کی عدت پوری کرے یعنی تین حیض یا تین مہینے اور طلاق بائن یا موت کی عدت میں آزاد ہو ئی توباندی کی عدت یعنی دو حیض یا ڈیڑھ مہینہ یا دومہینے پانچ دن ۔(درمختار)

مسئلہ۳۲: عورت کہتی ہے کہ عدت پوری ہوچکی اگر اتنا زمانہ گزرا ہے کہ پوری ہو سکتی ہے تو قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہے اور اگر اتنا زمانہ نہیں گزرا تو نہیں ۔ مہینوں سے عدت ہو جب تو ظاہر ہے کہ اتنے دن گزرنے پر عدت ہو چکی ۔اور حیض سے ہو تو آزاد عورت کے لئے کم از کم ساٹھ دن ہیں اور لونڈی کے لیئے چالیس بلکہ ایک روایت میں حرہ کے لئے انتالیس دن کہ تین حیض کی اقل مدت نو دن ہے اور دو طہر کی تیس دن اور باندی کے لئے اکیس دن کہ دو حیض کے چھ دن اور ایک طہر درمیان کا پندرہ دن ۔( درمختار ردالمحتار)

مسئلہ ۳۳: مطلقہ کہتی ہے کہ عدت پوری ہوگئی کہ حمل تھا ساقط ہو گیا اگر حمل کی مدت اتنی تھی کہ اعضا بن چکے تھے تو مان لیا جائیگا ورنہ نہیں مثلاً نکاح سے ایک مہینے بعد طلاق دی اور طلاق کے ایک ماہ بعد حمل ساقط ہونا بتاتی ہے تو عدت پوری نہ ہوئی کہ بچے کے اعضا چار ماہ میں بنتے ہیں ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۳۴: اپنی عورت مطلقہ سے عدت میں نکاح کیا اور قبل وطی طلاق دیدی تو پورامہر واجب ہوگا اور سرے سے عدت بیٹھے یونہی اگرپہلا نکاح فاسد تھا اور دخول کے بعد تفریق ہوئی اور عدت کے اندر نکاح صحیح کر کے طلاق دیدی یا دخول کے بعد کفو نہ ہونے کی وجہ سے تفریق ہوئی پھر نکاح کر کے طلاق دی یا نابالغہ سے نکاح کرکے وطی کی پھر طلاق دی اور عدت کے اندر نکاح کیا اب وہ لڑکی بالغہ ہوئی اور اپنے نفس کو اختیار کیا یا نا بالغہ سے نکاح کر کے وطی کی پھر لڑکی نے بالغہ ہوکر اپنے کو اختیار کیا اور عدت کے اندر پھر اس سے نکاح کیااور قبل دخول طلاق دیدی ان سب صورتوں میں دوسرے نکاح کا پورا مہراور طلاق کے بعد عدت واجب ہے اگر چہ دوسرے نکاح کے بعد وطی نہیں ہوئی کہ نکاح اول کی وطی نکاح ثانی میں بھی وطی قرار دی جائیگی ۔( درمختار ردالمحتار)

مسئلہ۳۵: بچہ پیدا ہونے کے بعد عورت کو طلاق دی تو جب تک اسے تین حیض نہ آلیں دوسرے سے نکاح نہیں کرسکتی یا سن ایاس کو پہنچ کر مہینوں سے عدت پوری کرے اگر چہ بچہ پیدا ہونے سے قبل اسے حیض نہ آیا ہو ۔( درمختار)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button