بہار شریعت

طلاق کی تعلیق کے متعلق مسائل

طلاق کی تعلیق کے متعلق مسائل

تعلیق کے معنے یہ ہیں کہ کسی چیز کا ہونا دوسری چیز کے ہونے پر موقوف کیا جائے یہ دوسری چیز جس پر پہلی موقوف ہے اس کو شرط کہتے ہیں ۔ تعلیق صحیح ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ ’’شرط‘‘ فی الحال معدوم ہومگر عادۃًہو سکتی ہو۔ لہذا اگر شرط معدوم نہ ہو مثلاًیہ کہے کہ اگر آسمان ہمارے اوپر ہو تو تجھ کو طلاق ہے یہ تعلیق نہیں بلکہ فوراً طلاق واقع ہو جائیگی۔ اور اگر شرط عادۃًمحال ہو مثلاً یہ کہ اگر سوئی کے ناکے میں اونٹ چلا جائے تو تجھ کو طلاق ہے یہ کلام لغو ہے اس سے کچھ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی شرط ہے کہ’’ شرط‘‘ متصلاًبولی جائے ۔اور یہ کہ سزا دینا مقصودنہ ہو مثلاً عورت نے شوہر کو کمینہ کہا شوہر نے کہا اگر میں کمینہ ہوں تو تجھ پر طلاق ہے تو طلاق ہوگئی اگر چہ کمینہ نہ ہو ایسے کلام سے تعلیق مقصود نہیں ہوتی بلکہ عورت کو ایذا دینا ۔اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ فعل ذکر کیا جائے جسے شرط ٹھہرایا لہذا اگر یوں کہا تجھے طلاق ہے اگر‘ اور اس کے بعد کچھ نہ کہا تو یہ کلام لغو ہے طلاق نہ واقع ہوئی نہ ہوگی۔ تعلیق کے لئے شرط یہ ہے کہ عورت تعلیق کے وقت اس کے نکاح میں ہو مثلاً اپنی منکوحہ سے یا جو عورت اس کی عدت میں ہے کہا اگر تو فلاں کام کرے یا فلاں کے گھر جائے تو تجھ پر طلاق ہے یا نکاح کی طرف اضافت ہو مثلاً کہا اگر میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے یا اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھپر طلاق ہے یا جس عورت سے نکاح کروں اسے طلاق ہے۔ اور کسی اجنبیہ سے کہا اگر تو فلاں کے گھر گئی تو تجھ پر طلاق پھر اس سے نکاح کیااور وہ عورت اس کے یہاں گئی طلاق نہ ہوئی یا کہا جو عورت میرے ساتھ سوئے اسے طلاق ہے پھر نکاح کیا اور ساتھ سوئی طلاق نہ ہوئی یونہی اگر والدین سے کہا اگر تم میرا نکاح کرو گے تو اسے طلاق پھر والدین نے اس کے بے کہے نکاح کر دیا طلاق واقع نہ ہوگی یونہی اگر طلاق ثبوت ملک یا زوال ملک کے مقارن ہو تو کلام لغو ہے طلاق نہ ہوگی مثلاً تجھ پر طلاق ہے تیرے نکاح کے ساتھ یا میری یا تیری موت کے ساتھ۔ (درمختار‘ ردالمحتار وغیرہما)

مسئلہ ۱: طلاق کسی شرط پر معلق کی تھی اور شرط پائی جانے سے پہلے تین طلاقیں دیدیں تو تعلیق باطل ہوگئی یعنی وہ عورت پھر اس کے نکاح میں آئے اور اب شرط پائی جائے تو طلاق واقع نہ ہوگی اور اگر تعلیق کے بعد تین سے کم طلاقیں دیں تو تعلیق باطل نہ ہوئی لہذا اب اگرعورت اس کے نکاح میں آئے اور شرط پائی جائے تو جتنی طلاقیں معلق کی تھیں سب واقع ہو جائیں گی یہ اس صورت میں ہے کہ دوسرے شوہر کے بعد اس کے نکاح میں آئی۔ اور اگر دو ایک طلاق دیدی پھر بغیر دوسرے کے نکاح کے خود نکاح کرلیا تو اب تین میں جو باقی ہے واقع ہوگی اگر چہ بائن طلاق دی ہو یا رجعی کی عدت ختم ہوگئی ہو کہ بعد عدت رجعی میں بھی عورت نکاح سے نکل جاتی ہے خلاصہ یہ ہے کہ ملک نکاح جانے سے تعلیق باطل نہیں ہوتی۔ (درمختار وغیرہ)

متعلقہ مضامین

مسئلہ۲: شوہر مرتد ہوکر دارالحرب کو چلا گیا تو تعلیق باطل ہوگئی یعنی اب اگر مسلمان ہوااور اس عورت سے نکاح کیا پھر شرط پائی گئی تو طلاق واقع نہ ہوگی ۔(درمختار)

مسئلہ۳: شرط کا محل جاتا رہا تعلیق باطل ہو گئی مثلاً کہا اگر فلاں سے بات کرے تو تجھ پر طلاق اب وہ شخص مر گیا تو تعلیق باطل ہو گئی لہذا اگر کسی ولی کی کرامت سے جی گیا اب کلام کیا طلاق واقع نہ ہو گی یا کہا اگر تو اس گھر میں گئی تو تجھ پر طلاق اور وہ مکان منہدم ہو کر کھیت یا باغ بن گیا تعلیق جاتی رہی اگر چہ پھر دوبارہ اس جگہ مکان بنایا گیاہو (درمختار ‘ردالمحتار)

مسئلہ۴: یہ کہا اگر تو اس گلاس میں کا پاتی پیئے گی تو تجھ پر طلاق ہے اور گلاس میں اس وقت پانی نہ تھا تو تعلیق باطل ہے اور اگر پانی اس وقت موجودتھا پھر گرادیا گیا تو تعلیق صحیح ہے۔

مسئلہ۵: زوجہ کنیز ہے اس سے کہا اگر تو اس گھر میں گئی تو تجھ پر تین طلاقیں پھر اس کے مالک نے اسے آزاد کر دیا اب گھر میں گئی تو دو طلاقیں پڑیں اور شوہر کو رجعت کا حق حاصل ہے کہ بوقت تعلیق تین طلاق کی اس میں صلاحیت نہ تھی لہذا دوہی کی تعلیق ہوگی اور اب کہ آزاد ہوگئی تین کی صلاحیت اس میں ہے مگر اس تعلیق کے سبب دوہی واقع ہونگی کہ ایک طلاق کا اختیار شوہر کو اب جدید حاصل ہوا۔ ( درمختار )

مسئلہ۶: حروف شرط اردوزبان میں یہ ہیں ۔اگر ۔جب ۔ جس وقت۔ہر وقت۔جو۔ہر۔جس۔جب کبھی۔ہربار۔

مسئلہ۷: ایک مرتبہ شرط پائی جانے سے تعلیق ختم ہو جاتی ہے یعنی دوبارہ شرط پائی جانے سے طلاق نہ ہوگی مثلاًعورت سے کہا اگر توفلاں کے گھر میں گئی یا تو نے فلاں سے بات کی تو تجھ کو طلاق ہے عورت اس کے گھر گئی تو طلاق ہوگئی دوبارہ پھر گئی تو اب واقع نہ ہو گی کہ اب تعلیق کا حکم باقی نہیں ۔مگر جب کبھی یا جب جب یا ہر بار کے لفظ سے تعلیق کی ہے تو ایک دوبار تعلیق ختم نہ ہوگی بلکہ تین بارمیں تین طلاقیں واقع ہونگی کہ یہ کلما کا ترجمہ ہے اور یہ لفظ عموم افعال کے واسطے آتا ہے مثلاًعورت سے کہا جب کبھی تو فلاں کے گھر جائے یا فلاں سے بات کرے تو تجھ کو طلاق ہے تو اگر اس کے گھر تین بار گئی تین طلاقیں ہو گئیں اب تعلیق کا حکم ختم ہو گیا یعنی اگر وہ عورت بعد حلالہ پھر اس کے نکاح میں آئی اب پھر اس کے گھر گئی تو طلاق واقع نہ ہوگی ہاں اگر یوں کہا ہے کہ جب کبھی میں اس سے نکاح کروں تو اسے طلاق ہے تو تین پر بس نہیں بلکہ سوبار بھی نکاح کرے تو ہر بار طلاق واقع ہوگی (عامہ کتب ) یونہی اگر یہ کہا کہ جس جس شخص سے تو کلام کرے تجھ کو طلاق ہے یا ہر اس عورت سے کہ میں نکاح کروں اسے طلاق ہے یا جس جس وقت تو یہ کام کرے تجھ پر طلاق ہے کہ یہ الفاظ بھی عموم کے واسطے ہیں لہذا ایک بار تعلیق ختم نہ ہوگی۔

مسئلہ۸: عورت سے کہا جب کبھی میں تجھے طلاق دوں تو تجھے طلاق ہے اور عورت کو ایک طلاق دی تو دو واقع ہوئیں ایک طلاق تو خود اب اس نے دی اور ایک اس تعلیق کے سبب اور اگر یوں کہا کہ جب کبھی تجھے طلاق ہو تو تجھ کوطلاق ہے اور ایک طلاق دی تو تین ہوئیں ایک تو خود اس نے دی اور ایک تعلیق کے سبب اور دوسری طلاق واقع ہونے سے طلاق ہونا پایا گیا لہذا ایک اور پڑیگی کہ یہ لفظ عموم کیلئے ہے مگر بہر صورت تین سے متجاوز نہیں ہو سکتی ۔ (درمختار)

مسئلہ۹: شرط پائی جانے سے تعلیق ختم ہو جاتی ہے اگر چہ شرط اس وقت پائی گئی کہ عورت نکاح سے نکل گئی ہو البتہ اگر عورت نکاح میں نہ رہی تو طلاق واقع نہ ہو گی مثلاً عورت سے کہا تھا اگر تو فلاں کے گھر جائے تو تجھ کو طلاق ہے اس کے بعد عورت کو طلاق دیدی اور عدت گزر گئی اب عورت اس کے گھر گئی پھر شوہر نے اس سے نکاح کرلیا اب پھر گئی تو طلاق واقع نہ ہوگی کہ تعلیق ختم ہوچکی ہے لہذا اگر کسی نے یہ کہا ہو کہ اگر تو فلاں کے گھر جائے تو تجھ پر تین طلاقیں اور چاہتا ہو کہ اس کے گھر آمدورفت شروع ہو جائے تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ عورت کو ایک طلاق دیدے پھر عدـت کے بعد عورت اس کے گھر جائے پھر نکاح کر لے اب جایا آیا کرے طلاق واقع نہ ہوگی مگر عموم کے الفاظ استعمال کیئے ہوں تو یہ حیلہ کام نہیں دیگا۔ (درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ۱۰: یہ کہا کہ ہر اس عورت سے کہ میں نکاح کروں اسے طلاق ہے تو جتنی عورتوں سے نکاح کریگا سب کو طلاق ہو جائے گی اور اگر ایک ہی عورت سے دوبار نکاح کیا تو صرف پہلی بار طلاق پڑیگی دوبارہ نہیں ۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۱: یہ کہا کہ جب کبھی میں فلاں کے گھر جاؤں تو میری عورت کو طلاق ہے اور اس شخص کی چار عورتیں ہیں اور چار مرتبہ اس کے گھر گیا تو ہربار میں ایک طلاق واقع ہوئی لہذا اگر عورت کو معین نہ کیا ہو تو اب اختیار ہے کہ چاہے تو سب طلاقیں ایک پر کردے یا ایک ایک ایک ایک پر ۔اور اگر دوشخصوں سے یہ کہاجب کبھی میں تم دونوں کے یہاں کھانا کھاؤں تو میری عورت کو طلاق ہے اور ایک دن ایک کے یہاں کھاناکھایا دوسرے دن دوسرے کے یہاں تو عورت کو تین طلاقیں پڑگئیں یعنی جبکہ تین لقمے یا زیادہ کھایا ہو۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۲: یہ کہا کہ جب کبھی میں کوئی اچھا کلام زبان سے نکالوں تو تجھ پر طلاق ہے اس کے بعد کہا سبحان اللہ والحمدللہ ولاالہ الااللہ واللہ اکبر تو ایک طلاق واقع ہوگی اور اگر بغیر واو کے سبحن اللہ الحمدللہ لاالہ الااللہ اللہ اکبرکہا تو تین ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۱۳: یہ کہا کہ جب کبھی میں اس مکان میں جاؤں اور فلاں سے کلام کروں تو میری عورت کو طلاق ہے اس کے بعد اس گھر میں کئی مرتبہ گیا مگر اس سے کلام نہ کیا تو عورت کو طلاق نہ ہوئی اور اگر جانا کئی بار ہوااور کلام ایک بار تو ایک طلاق ہوئی ۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۴: شوہر نے دروازہ کی کنڈی بجائی کہ کھول دیا جائے اور کھولانہ گیا اس نے کہا اگر آج رات میں تو دروازہ نہ کھولے تو تجھ کو طلاق ہے اور گھر میں کوئی تھا ہی نہیں کہ دروازہ کھولتا یوہیں رات گزر گئی تو طلاق نہ ہوئی یونہی اگر جیب میں روپیہ تھا مگر ملا نہیں اس پر کہا اگر وہ روپیہ کہ تو نے میری جیب سے لیا ہے واپس نہ کرے تو تجھ کو طلاق ہے پھر دیکھا تو روپیہ جیب ہی میں تھا تو طلاق واقع نہ ہوئی ( خانیہ وغیرہا)

مسئلہ۱۵: عورت کو حیض ہے اور کہا اگر تو حائض ہو تو تجھ کو طلاق یا عورت بیمار ہے اور کہا اگر تو بیمار ہو تو تجھ کو طلاق تو اس سے وہ حیض یا مرض مراد ہے کہ زمانہ آئندہ میں ہواور اگر اس موجود کی نیت کی تو صحیح ہے اور اگر کہا کہ کل اگر تو حائض ہو تو تجھ کو طلاق اور اسے علم ہے کہ حیض سے ہے تو یہی حیض مراد ہے ۔لہذا اگر صبح چمکتے وقت حیض رہا تو طلاق ہوگئی جبکہ اس وقت تین دن پورے یا اس سے زائد ہوں ۔اور اگر اسے اس حیض کا علم نہیں تو جدید حیض مراد ہوگا لہذا طلاق نہ ہوگی ۔اور اگر کھڑے ہونے بیٹھنے سوار ہونے مکان میں رہنے پر تعلیق کی اور کہتے وقت وہ بات موجود تھی تو اس کہنے کے کچھ بعد تک اگر عورت اسی حالت پر رہی تو طلاق ہوگئی۔ اور مکان میں داخل ہونے یامکان سے نکلنے پر تعلیق کی تو آئندہ کا جانا اور نکلنا مراد ہے ۔اور مارنے اور کھانے سے مراد وہ ہے جواب کہنے کے بعد ہوگا اور روزہ رکھنے پر معلق کیا اور تھوڑی دیر بھی روزہ کی نیت سے رہی تو طلاق ہوگئی۔ اور اگر یہ کہا کہ ایک دن اگر تو روزہ رکھے تو اس وقت طلاق ہوگی کہ اس دن کاآفتاب ڈوب جائے ۔ (عالمگیری)

مسئلہ۱۶: یہ کہا اگر تجھے حیض آئے تو طلاق ہے تو عورت کو خون آتے ہی طلاق کا حکم نہ دینگے جب تک تین دن رات تک مستمر نہ ہو اور جب یہ مدت پوری ہوگی تو اسی وقت سے طلاق کا حکم دینگے جب سے خون دیکھا ہے اور یہ طلاق بدعی ہوگی کہ حیض میں واقع ہوئی ۔اور یہ کہا کہ اگر تجھے پورا حیض آئے یا آدھا یا تہائی یا چوتھائی تو ان سب صورتوں میں حیض ختم ہونے پر طلاق ہوگی پھر اگر دس دن پر حیض ختم ہو تو ختم ہوتے ہی اور کم میں منقطع ہوتو نہانے یا نماز کا وقت گزر جانے پر ہوگی ۔(درمختار)

مسئلہ۱۷: حیض اور احتلام وغیرہ مخفی چیزیں عورت کے کہنے پر مان لی جائینگی مگر دوسرے پر اس کا کچھ اثر نہیں مثلاًعورت سے کہا اگر تجھے حیض آئے تو تجھ کو اور فلانی کو طلاق ہے اور عورت نے اپنا حائض ہونا بتا یا تو خود اس کو طلاق ہوگئی دوسری کو نہیں ہاں اگر شوہر نے اس کے کہنے کی تصدیق کی یا اس کاحائض ہونا یقین کے ساتھ معلوم ہوا تو دوسری کو بھی طلاق ہوگی۔(درمختار)

مسئلہ۱۸: کسی کی دو عورتیں ہیں دونوں سے کہا جب تم دونوں کو حیض آئے تو دونوں کو طلاق ہے دونوں نے کہا ہمیں حیض آیا اور شوہر نے دونوں کی تصدیق کی اور ایک کی تکذیب تو جس کی تصدیق کی ہے اسے طلاق ہوئی اور جس کی تکذیب کی اس کو نہیں ۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۹: یہ کہا کہ تو لڑکا جنے تو ایک طلاق اور لڑکی جنے تو دو اور لڑکا لڑکی دونوں پیدا ہوئے تو جو پہلے پیداہوااسی کے بموجب طلاق واقع ہوگی اور معلوم نہ ہو کہ پہلے کیا پیدا ہوا تو قاضی ایک طلاق کا حکم دیگا اور احتیاط یہ ہے کہ شوہر دو طلاقیں سمجھے اور عد ت بھی دوسرے بچے کے پیدا ہونے سے پوری ہوگئی لہذا اب رجعت بھی نہیں کرسکتا اور دونوں ایک ساتھ پیدا ہوں تو تین طلاقیں ہوں گی اور عدت حیض سے پوری کرے اور خنثی پیدا ہوا تو ایک ابھی واقع مانی جائے گی اور دوسری کا حکم اس وقت تک موقوف رہیگا جبتک اس کا حال نہ کھلے اور اگر ایک لڑکا اور دو لڑکیاں ہوئیں تو قاضی ایک کا حکم دیگا اور احتیاط یہ ہے کہ تین سمجھے اور اگر دولڑکے اور ایک لڑکی ہوئی تو قاضی ایک کا حکم دیگا اور احتیاطاً تین سمجھے ۔(درمختار ردالمحتار)

مسئلہ۲۰: یہ کہا کہ جو کچھ تیرے شکم میں ہے اگر لڑکا ہے تو تجھ کو ایک طلاق اور لڑکی ہے تو دو اور لڑکا لڑکی دونوں پیدا ہوئے تو کچھ نہیں یونہی اگر کہا کہ بوری میں جو کچھ ہے اگر گیہوں ہیں تو تجھے طلاق یا آٹا ہے تو تجھے طلاق اور بوری میں گیہوں اور آٹا دونوں ہیں تو کچھ نہیں ۔ اور یوں کہا کہ اگر تیرے پیٹ میں لڑکا ہے تو ایک طلاق اور لڑکی تو دو اور دونوں ہوئے تو تین طلاقیں ہوئیں ۔ (درمختار)

مسئلہ۲۱: عورت سے کہا اگر تیرے بچہ پیدا ہو تو تجھ کو طلاق اب عورت کہتی ہے میرے بچہ پیدا ہوااور شوہر تکذیب کرتا ہے اور حمل ظاہر نہ تھانہ شوہر نے حمل کا اقرار کیا تھا تو صرف جنائی کی شہادت پر حکم طلاق نہ دینگے ۔ (عالمگیری)

مسئلہ۲۲: یہ کہا کہ اگر تو بچہ جنے تو طلاق ہے اور مردہ بچہ پیدا ہوا طلاق ہوگئی اور کچا بچہ جنی اور بعض اعضا بن چکے تھے جب بھی طلاق ہوگئی ورنہ نہیں (جوہرہ وغیرہا)

مسئلہ۲۳: عورت سے کہا اگر تو بچہ جنے تو تجھ کو طلاق پھر کہا اگر تو اسے لڑکا جنے تو دو طلاقیں اور لڑکا ہوا تو تین واقع ہوگئیں ( ردالمحتار ) اور اگر یوں کہا کہ تو اگر بچہ جنے تو تجھ کو دوطلاقیں پھر کہا وہ بچہ کہ تیرے شکم میں ہے لڑکا ہوتو تجھ کو طلاق اور لڑکا ہوا تو ایک ہی طلاق ہوگی اور بچہ پیدا ہوتے ہی عدت بھی گزر جائے گی ۔(عالمگیری)

مسئلہ۲۴: حمل پر طلاق معلق کی ہو تو مستحب یہ ہے کہ استبرأ یعنی حیض کے بعد وطی کرے کہ شاید حمل ہو۔(عالمگیری)

مسئلہ۲۵: اگر دوشرطوں پر طلاق معلق کی مثلاً جب زید آئے اور جب عمرو آئے یا جب زیدو عمر آئیں تو تجھ کو طلاق ہے تو طلاق اس وقت واقع ہوگی کہ پچھلی شرط اس کی ملک میں پائی جائے اگر چہ پہلی اس وقت پائی گئی کہ عورت ملک میں نہ تھی مثلاً اسے طلاق دیدی تھی اور عدت گزر چکی تھی اب زید آیا پھر اس سے نکاح کیا اب عمرو آیا تو طلاق واقع ہوگئی اور دوسری شرط ملک میں نہ ہو تو پہلی اگر چہ ملک میں پائی گئی طلاق نہ ہوئی۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ۲۶: وطی پر تین طلاقیں معلق کی تھیں تو حشفہ داخل ہونے سے طلاق ہو جائے گی اور واجب ہے کہ فوراً جدا ہو جائے ۔ ( درمختار)

مسئلہ۲۷: اپنی عورت سے کہا جب تک تو میرے نکاح میں ہے اگر میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق پھر عورت کو طلاق بائن دی اور عدت کے اندر دوسری عورت سے نکاح کیا تو طلاق نہ ہو ئی اور رجعی کی عدت میں تھی تو ہوگئی۔ ( درمختار)

مسئلہ۲۸: کسی کی تین عورتیں ہیں ایک سے کہا اگر تجھے طلاق دوں تو ان دونوں کو بھی طلاق ہے پھر دوسری اور تیسری سے بھی یوہیں کہا پھر پہلی کو ایک طلاق دی تو ان دونوں کو بھی ایک ایک ہوئی اور اگر دوسری کو ایک طلاق دی تو پہلی کو ایک ہوئی اور دوسری اور تیسری پر دودو اور اگر تیسری عور ت کو ایک طلاق دی تو اس پر تین ہوئیں اور دوسری پر دو اور پہلی پر ایک ۔ (عالمگیری)

مسئلہ۲۹: یہ کہا کہ اگر اس شب میں تو میرے پاس نہ آئی تو تجھے طلاق عورت دروازہ تک آئی اندر نہ گئی طلاق ہو گئی اور اگر اندر گئی مگر شوہر سو رہاتھا تو نہ ہوئی اور پاس آنے میں یہ شرط ہے کہ اتنی قریب آجائے کہ شوہر ہاتھ بڑھائے تو عورت تک پہنچ جائے ۔ مرد نے عورت کو بلایا اس نے انکار کیا اس پر کہا اگر تو نہ آئی تو تجھ کو طلاق ہے پھر شوہر خود زبر دستی اسے لے آیا طلاق نہ ہوئی۔ (عالمگیری)

مسئلہ۳۰: کوئی شخص مکان میں ہے لوگ اسے نکلنے نہیں دیتے اس نے کہا اگر میں یہاں سوؤں تو میری عورت کو طلاق ہے اسکا مقصد خاص وہ جگہ ہے جہاں بیٹھا یا کھڑا ہے پھر اسی مکان میں سویا مگر اس جگہ سے ہٹ کر تو قضائً طلاق ہو جائے گی دیانۃً نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ۳۱: عورت سے کہا اگر تو اپنے بھائی سے میری شکایت کریگی تو تجھ کو طلاق ہے اس کا بھائی آیا عورت نے کسی بچہ کو مخاطب کرکے کہا میرے شوہر نے ایسا کیا ایسا کیا اور اسکا بھائی سب سن رہا ہے طلاق نہ ہو گی۔(عالمگیری)

مسئلہ۳۲: آپس میں جھگڑرہے تھے مرد نے کہا اگر تو چپ نہ رہے گی تو تجھ کو طلاق ہے عورت نے کہا نہیں چپ ہوں گی اس کے بعد خاموش ہوگئی طلاق نہ ہوئی۔ یونہی اگر کہا کہ توچیخے گی تو تجھ کو طلاق ہے عورت نے کہا چیخوں گی تو مگر چپ ہوگئی طلاق نہ ہوئی ۔یونہی اگر کہا کہ فلاں کا ذکر کرے گی تو ایسا ہے عورت نے کہا میں اس کا ذکر نہ کروں گی یا کہا جب تو منع کرتا ہے تو اس کا ذکر نہ کروں گی طلاق نہ ہوگی کہ اتنی بات مستثنی ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۳۳: عورت نے فاقہ کشی کی شکایت کی شوہر نے کہا اگر میرے گھر تو بھوکی رہے تو تجھے طلاق ہے تو علاوہ روزے کے بھوکی رہنے پر طلاق ہوگی۔(عالمگیری)

مسئلہ۳۴: اگر تو فلاں کے گھر جائے تو تجھ کو طلاق ہے اور وہ شخص مر گیا اور مکان ترکہ میں چھوڑااب وہاں جانے سے طلاق نہ ہوگی یوہیں اگر بیع یا ہبہ یا کسی اور وجہ سے اس کی ملک میں مکان نہ رہا جب بھی طلاق نہ ہوگی۔(عالمگیری)

مسئلہ۳۵: عورت سے کہا اگر تو بغیر میری اجازت کے گھر سے نکلی توتجھ پر طلاق پھر سائل نے دروازہ پر سوال کیا شوہر نے عورت سے کہا اسے روٹی کا ٹکڑا دے آ اگر سائل دروازہ سے اتنے فاصلہ پر ہے کہ بغیر باہر نکلے نہیں دے سکتی تو باہر نکلنے سے طلاق نہ ہوگی اوراگر بغیر باہر نکلے دے سکتی تھی مگر نکلی تو طلاق ہوگئی او ر اگر جس وقت شوہر نے عورت کو بھیجا تھا اس وقت سائل دروازہ سے قریب تھا اور جب عورت وہاں لے کر پہنچی تو ہٹ گیا تھا کہ عورت کو نکل کر دینا پڑا جب بھی طلاق ہوگئی۔ اور اگر عربی میں اجازت دی اور عورت عربی نہ جانتی ہو تو اجازت نہ ہوئی لہذا اگر نکلے گی طلاق ہو جائے گی یونہی سوتی تھی یا موجود نہ تھی یا اس نے سنا نہیں تو یہ اجازت نا کافی ہے یہاں تک کہ شوہر نے اگر لوگوں کے سامنے کہا کہ میں نے اسے نکلنے کی اجازت دی مگر یہ نہ کہا کہ اس سے کہہ دو یا خبر پہنچا دو اور لوگوں نے بطور خود عورت سے جاکر کہا اس نے اجازت دیدی اور ان کے کہنے سے عورت نکلی طلاق ہوگئی۔ اگر عورت نے میکے جانے کی اجازت مانگی شوہر نے اجازت دی مگر عورت اس وقت نہ گئی کسی اور وقت گئی تو طلاق ہو گئی۔ (عالمگیری)

مسئلہ۳۶: اس بچہ کو اگر گھر سے باہر نکلنے دیا تو تجھ کو طلاق ہے عورت غافل ہو گئی یا نماز پڑھنے لگی اور بچہ نکل بھا گا تو طلاق نہ ہو گی ۔اگر تو اس گھر کے دروازہ سے نکلی تو تجھ پر طلاق عورت چھت پر سے پڑوس کے مکان میں گئی طلاق نہ ہوئی۔ (عالمگیری)

مسئلہ۳۷: تجھ پر طلاق ہے یا میں مرد نہیں ‘ تو طلاق ہوگئی اور اگر کہا تجھ پر طلاق ہے یا میں مرد ہوں تو نہ ہوئی ۔( خانیہ)

مسئلہ۳۸: اپنی عورت سے کہا اگر تو میری عورت ہے تو تجھے تین طلاقیں اور اس کے متصل ہی اگر ایک طلاق بائن دیدی تو یہی ایک پڑے گی ورنہ تین ۔ ( خانیہ)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button