طلاق کی اضافت کے متعلق مسائل
مسئلہ۲۲: طلاق میں اضافت ضرور ہونی چاہیئے بغیر اضافت طلاق واقع نہ ہوگی خواہ حاضر کے صیغہ سے بیان کرے مثلاًتجھے طلاق ہے یا اشارہ کے ساتھ مثلاًاسے یا اسے یا نام لے کر کہے کہ فلانی کو طلاق ہے یا اس کے جسم و بدن یا روح کی طرف نسبت کرے یا اس کے کسی ایسے عضو کی طرف نسبت کرے جو کل کے قائم مقام تصور کیا جاتا ہو مثلاً گردن یا سر یا شرمگاہ یا جزو شائع کی طرف نسبت کرے مثلاً نصف تہائی چوتھائی وغیرہ یہاں تک کہ اگر کہا تیرے ہزار حصوں میں سے ایک حصہ کو طلاق ہے تو طلاق ہو جائیگی (درمختار)
مسئلہ۲۳: اگر سر یا گردن پر ہا تھ رکھکر کہا تیرے اس سر یا اس گردن کو طلاق تو واقع نہ ہوگی اور اگرہاتھ نہ رکھا اور(۷۶) یوں کہا اس سر کو طلاق اور عورت کے سر کی طرف اشارہ کیا تو واقع ہو جائے گی (درمختار و غیرہ)
مسئلہ ۲۴: ہاتھ یا انگلی یا نا خن یا پاؤں یا بال یا ناک یا پنڈلی یا ران یا پیٹھ یا پیٹ یا زبان یا کان یا مونہہ یا ٹھوڑی یادانت یا سینہ یا پستان کو کہا کہ اسے طلاق تو واقع نہ ہو گی (جوہرہ درمختار)
مسئلہ ۲۵: جزو طلاق بھی پوری طلاق ہے اگر چہ ایک طلاق کا ہزارواں حصہ ہو مثلاً کہا تجھے آدھی یا چوتھائی طلاق ہے تو پوری ایک طلاق پڑے گی کہ طلاق کے حصے نہیں ہو سکتے ۔ اگر چند اجزا ذکر کئے جن کا مجموعہ ایک سے زیادہ نہ ہو تو ایک ہو گی اور ایک سے زیادہ ہو تو دوسری بھی پڑجائے گی مثلاًکہا ایک طلاق کا نصف اور اس کی تہائی اور چو تھائی کہ نصف اور تہائی اور چو تھائی کا مجموعہ ایک سے زیادہ ہے لہذا دو (۲) واقع ہوئیں اور اگر اجزا کا مجموعہ دو سے زیادہ ہے تو تین ہونگی ۔ یوہیں ڈیڑھ میں دو(۲) اور ڈھائی میں تین اور اگر دو(۲) طلاق کے تین نصف کہے تو تین ہونگی ۔ اور ایک طلاق کے تین نصف میں دو(۲) اور اگر کہا ایک سے دو(۲) تک تو ایک اورایک سے تین تک تو دو(۲) (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲۶: (۷۷)اگر کہا تجھے طلاق ہے یہاں سے ملک شام تک تو ایک رجعی ہو گی ۔ہاں (۷۸)اگر یوں کہا کہ اتنی بڑی یا اتنی لمبی کہ یہاں سے ملک شام تک تو بائن ہو گی(درمختار)
مسئلہ ۲۷: (۷۹)اگر کہا تجھے مکہ میں طلاق ہے یا(۸۰) گھرمیں یا(۸۱) سایہ میں یا(۸۲) دھوپ میں تو فوراً پڑ جائے گی یہ نہیں کہ مکہ کو جائے جب پڑے ہاں اگر یہ کہے میر ا مطلب یہ تھا کہ جب مکہ کو جائے طلاق ہے تو دیا نۃً یہ قول معتبر ہے قضاً نہیں اور اگر کہا تجھے قیامت کے دن طلاق ہے تو کچھ نہیں بلکہ یہ کلام لغو ہے اور(۸۳) اگر کہا قیامت سے پہلے تو ابھی پڑجائے گی (درمختار)
مسئلہ ۲۸: (۸۴)اگر کہا تجھے کل طلاق ہے تو دوسرے دن صبح چمکتے ہی طلاق ہو جائے گی یونہی اگر کہا(۸۵) شعبان میں طلاق ہے توجس دن رجب کا مہینہ ختم ہو گا اس دن آفتاب ڈوبتے ہی طلاق ہو گی (درمختار)
مسئلہ ۲۹: اگر کہا تجھے میری پیدائش سے یا تیری پیدائش سے پہلے طلاق یا کہا میں نے اپنے بچپن میں یا جب سوتا تھا یا جب مجنون تھا تجھے طلاق دیدی تھی اور اس کا مجنون ہونا معلوم ہو تو طلاق نہ ہو گی بلکہ یہ کلام لغو ہے (درمختار)
مسئلہ ۳۰: (۸۶)کہا کہ تجھے میرے مرنے سے دو مہینے پہلے طلاق ہے اور دو مہینے گزرنے نہ پائے کہ مرگیا تو طلاق واقع نہ ہوئی ۔ اور اس کے بعد مرا تو ہو گئی اور اسی وقت سے مطلقہ قرار پائے گی جب اس نے کہا تھا (تنویر الابصار)
مسئلہ ۳۱: اگر کہا میرے نکاح سے پہلے تجھے طلاق یا کہا کل گزشتہ میں حالانکہ اس سے نکاح آج کیا ہے تو دونوں صورتوں میں کلام لغو ہے اور اگر دوسری صورت میں کل یا کل سے پہلے نکاح کرچکا ہے تو اس وقت طلاق ہو گئی (فتح وغیرہ) یونہی اگر(۸۷) کہا تجھے دو مہینے سے طلاق ہے اور واقع میں نہیں دی تھی تو اس وقت پڑیگی بشرطیکہ نکاح کو دو مہینے سے کم نہ ہوئے ہوں ورنہ کچھ نہیں اور اگر جھوٹی خبر کی نیت سے کہا تو عنداللہ نہ ہو گی مگر قضاً ہو گی۔
مسئلہ ۳۱: اگر (۸۸)کہا زید کے آنے سے ایک ماہ پہلے تجھے طلاق ہے اور زید ایک مہینے کے بعد آیا تو اس وقت طلاق ہو گی اس سے پہلے نہیں (درمختار)
مسئلہ ۳۲: (۸۹)یہ کہا کہ جب کبھی تجھے طلاق نہ دوں تو طلاق ہے یا(۹۰) جب تجھے طلاق نہ دوں تو طلاق ہے تو چپ ہوتے ہی طلاق پڑجائے گی ۔ اور یہ کہا کہ(۹۱) اگر تجھے طلاق نہ دوں تو طلاق ہے تو مرنے سے کچھ پہلے طلاق ہو گی(عامہ کتب)
مسئلہ ۳۳: (۹۲)یہ کہا کہ اگر آج تجھے تین طلاقیں نہ دوں تو تجھے تین طلاقیں تو دیگا جب بھی ہو نگی اور نہ دیگا جب بھی ۔ اور بچنے کی یہ صورت ہے کہ عورت کو ہزار روپے کے بدلے میں طلاق دیدے اور عورت کو چاہیے کہ قبول نہ کرے اب اگر دن گزر گیا تو طلاق واقع نہ ہو گی (خانیہ)
مسئلہ ۳۴: (۹۳)کسی عورت سے کہا تجھے طلاق ہے جس دن تجھ سے نکاح کروں اور رات میں نکاح کیا تو طلاق ہوگئی (تنویر)
مسئلہ ۳۵: (۹۴)کسی عورت سے کہا اگر تجھ سے نکاح کروں یا(۹۵) جب یا(۹۶) جس وقت تجھ سے نکاح کروں تو تجھے طلاق ہے تو نکاح ہوتے ہی طلاق ہو جائے گی یونہی اگر خاص عورت کو معین نہ کیا بلکہ کہا اگر یا جب یا جس وقت میں نکاح کروں تو اسے طلاق ہے تو نکاح کرتے ہی طلاق ہو جائیگی مگر اسکے بعد دوسری عورت سے نکاح کریگا تو اسے طلاق نہ ہو گی۔ ہاں اگر کہا(۹۷) جب کبھی میں کسی عورت سے نکاح کروں اسے طلاق ہے جب کبھی نکاح کریگا طلاق ہو جائیگی ۔ ان صورتوں میں اگر چاہے کہ نکاح ہو جائے اور طلاق نہ پڑے تو اسکی صورت یہ ہے کہ فضولی (یعنی جسے اس نے نکاح کا وکیل نہ کیا ہو) بغیر اس کے حکم کے اس عورت یا کسی عورت سے نکاح کردے اور جب اسے خبر پہنچے تو زبان سے نکاح کو نا فذنہ کرے بلکہ کوئی ایسا فعل کرے جس سے اجازت ہو جائے مثلاً مہر کا کچھ حصہ یا کل اس کے پاس بھیجدے یا اس کے ساتھ جماع کرے یا شہوت کے ساتھ ہاتھ لگائے یا بوسہ لے یا لوگ مبارکباد دیں تو خاموش رہے انکار نہ کرے تو ا س صورت میں نکاح ہو جائے گا اور طلاق نہ پڑیگی اور اگر کوئی خود نہیں کر دیتا اسے کہنے کی ضرورت پڑے تو کسی کو حکم نہ دے بلکہ تذکرہ کرے کہ کاش کوئی میرا نکاح کردے یا کاش تو میرا نکاح کر دے یاکیا اچھا ہو تا کہ میر ا نکاح ہو جاتا اب اگر کوئی نکاح کردیگا تو نکاح فضولی ہو گا اور اس کے بعد وہی طریقہ برتے جو اوپر مذکور ہوا(بحر، ردالمحتار، خیریہ)
مسئلہ ۳۶: اس کی عورت کہ باندی ہے اس نے اس سے کہا(۹۸) کل کا دن آئے تو تجھ کو دو(۲) طلاقیں اور مولی نے کہا کل کا دن آئے تو تو آزاد ہے تو دو(۲) طلاقیں ہو جائیں گی اور شوہر رجعت نہیں کرسکتا مگر اس کی عدت تیں حیض ہے اور شوہر مریض تھا تو یہ وارث نہ ہو گی (تنویر )
مسئلہ ۳۷: (۹۹)انگلیوں سے اشارہ کرکے کہا تجھے اتنی طلاقیں تو ایک دو تین جتنی انگلیوں سے اشارہ کیا اتنی طلاقیں ہوئیں یعنی جتنی انگلیاں اشارہ کے وقت کھلی ہوں انکا اعتبار ہے بند کا اعتبار نہیں اور اگر وہ کہتا ہے میری مراد بند انگلیاں یا ہتھیلی تھی تو یہ قول دیا نۃً معتبر ہو گا قضاً معتبر نہیں ۔ (۱۰۰)اور اگر تین انگلیوں سے اشارہ کرکے کہا تجھے اسکی مثل طلاق اور نیت تین کی ہو تو تین ورنہ ایک بائن اور(۱۰۱) اگر اشارہ کرکے کہا تجھے اتنی اور نیت طلاق ہے اور لفظ طلاق نہ بولا جب بھی طلاق ہو جائیگی (درمختار ردالمحتار)
مسئلہ ۳۸: طلاق کے ساتھ کوئی صفت ذکر کی جس سے شدت سمجھی جائے تو بائن ہو گی مثلاً (۱۰۲)بائن یا(۱۰۳) البتہ (۱۰۴)فحش طلاق(۱۰۵) طلاق شیطان(۱۰۶) طلاق بدعت(۱۰۷)بدتر طلاق(۱۰۸) پہاڑ برابر(۱۰۹) ہزار کی مثل(۱۱۰) ایسی کہ گھر بھر جائے۔(۱۱۱) سخت(۱۱۲) لمبی (۱۱۳) چوڑی(۱۱۴) کھر کھری(۱۱۵) سب سے بری(۱۱۶) سب سے کری(۱۱۷) سب سے گندی(۱۱۸) سب سے ناپاک (۱۱۹)سب سے کڑوی(۱۲۰) سب سے بڑی(۱۲۱) سب سے چوڑی(۱۲۲) سب سے لمبی(۱۲۳) سب سے موٹی پھر اگر تین کی نیت کی تو تین ہونگی ورنہ ایک اور اگر عورت باندی ہے تو دو کی نیت صحیح ہے (درمختاروغیرہ)
مسئلہ ۳۹: (۱۲۴)اگر کہا تجھے ایسی طلاق جس سے تو اپنے نفس کی مالک ہو جائے یا (۱۲۵)کہا تجھے ایسی طلاق جس میں میرے لئے رجعت نہیں تو بائن اور اگر(۱۲۶) کہا تجھے طلاق ہے اور میرے لئے رجعت نہیں تو رجعی ہو گی یو نہی اگر (۱۲۷)کہا تجھے طلاق ہے کوئی قاضی یا حاکم یا عالم تجھے واپس نہ کرے جب بھی رجعی ہو گی (درمختار ردالمحتار) اور اگر(۱۲۸) کہاتجھے طلاق ہے اس شرط پر کہ اس کے بعد رجعت نہیں یا یوں کہا(۱۲۹) تجھ پر وہ طلاق ہے جس کے بعد رجعت نہیں یا (۱۳۰)کہا تجھ پر وہ طلاق ہے جس کے بعد رجعت نہ ہو گی تو ان سب صورتوں میں رجعی ہو جانا چاہیئے(فتاوی رضویہ)اور(۱۳۱) کہا اگر تجھ پر وہ طلاق ہے جس کے بعد رجعت نہیں ہوتی تو بائن ہو نا چاہئیے ۔
مسئلہ ۴۰: (۱۳۲)عورت سے کہا اگر میں تجھے ایک طلاق دوں تو وہ بائن ہو گی یا کہا وہ تین ہو گی پھر اسے طلاق دی تو نہ بائن ہو گی نہ تین بلکہ ایک رجعی ہو گی ۔ یا(۱۳۳) کہا تھا کہ اگر تو گھر میں جائیگی تو تجھے طلاق ہے پھر مکان میں جانے سے پہلے کہا کہ اسے میں نے بائن یا تین کردیا جب بھی ایک رجعی ہو گی اور یہ کہنا بے کار ہے ۔
مسئلہ ۴۱: (۱۳۴)کہا تجھے ہزاروں طلاق یا(۱۳۵) چند بار طلاق تو تین واقع ہونگی اور اگر(۱۳۶) کہا تجھے طلاق نہ کم نہ زیادہ تو ظاہر الروایہ میں تین ہو نگی اور امام ابو جعفر ہندوانی و امام قاضی خاں اس کو تر جیح دیتے ہیں کہ دو واقع ہوں اور اگر(۱۳۷) کہا کمتر طلاق تو ایک رجعی ہو گی (درمختار ردالمحتار)
مسئلہ ۴۲: (۱۳۸)اگر کہا تجھے طلاق ہے پوری طلاق تو ایک ہو گی اور(۱۳۹) کہا کہ کل طلاقیں تو تین(درمختار)
مسئلہ۴۳: (۱۴۰)اگر طلاق کے عدد میں وہ چیز ذکر کی جس میں تعدد نہ ہو جیسے کہا بعد د خاک یا(۱۴۱) معلوم نہ ہو کہ اس میں تعدد ہے یا نہیں مثلاً کہا ابلیس کے بال کی گنتی برابر تو دونوں صورتوں میں ایک واقع ہو گی اور ان دونوں مثالوں میں وہ بائن ہو گی ۔ (۱۴۲)اور اگر معلوم ہے کہ اس میں تعدد ہے تو اس کی تعداد کے موافق ہو گی مگر تعدادتین سے زیادہ ہو تو تین ہی ہونگی باقی لغو مثلاً کہا اتنی جتنے میری پنڈلی یا کلائی میں بال ہیں یا اتنی جتنی اس تالاب میں مچھلیاں ہیں ۔ اور اگر تالاب میں کوئی مچھلی نہ ہو جب بھی ایک واقع ہو گی اور پنڈلی یا کلائی کے بال اڑادیئے ہوں اس وقت کوئی بال نہ ہو تو طلاق نہ ہو گی اور (۱۴۳)اگر یہ کہا کہ جتنے میری ہتھلی میں بال ہیں اور بال نہ ہو تو ایک ہو گی (درمختار ردالمحتار)
مسئلہ ۴۳: اس میں شک ہے کہ طلاق دی ہے یا نہیں تو کچھ نہیں اور اگر اس میں شک ہے کہ ایک دی ہے یا زیادہ تو قضأً ایک ہے دیا نۃً زیادہ ۔ اور اگر کسی کی طرف غالب گمان ہے تو اسی کا اعتبار ہے ۔ اور اگر اس کے خیال میں زیادہ ہے مگر اس مجلس میں جو لوگ تھے وہ کہتے ہیں کہ ایک دی تھی اگر یہ لوگ عادل ہوں اور اس بات میں انھیں سچا جانتا ہو تو اعتبار کرلے(ردالمحتار)
مسئلہ۴۴: جس عورت سے نکاح فاسد کیا پھر اس کو تین طلاقیں دیں تو بغیر حلالہ نکاح کرسکتا ہے کہ یہ حقیقۃً طلاق نہیں بلکہ متارکہ ہے (درمختار ردالمحتار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔