طلاق سپرد کرنے کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتا ہے ۔
یا یھا النبی قل لا زواجک ان کنتن تردن الحیوۃ الدنیا وزینتھا فتعالین امتعکن واسر حکن سرا حاً جمیلاً o وان کنتن تردن اللہ ورسولہٗ والد ارالا خرۃ فان اللہ اعد للمحسنت منکن اجراً عظیمًا۔
(اے نبی اپنی بی بیوں سے فرما دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آ ؤ میں تمھیں مال دوں اور تم کو اچھی طرح چھوڑدوں اور اگر اللہ و رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تا اللہ نے تم میں نیکی والوں کے لیے بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ۔)
حدیث۱: صحیح مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا اے عائشہ میں تجھ سے ایک بات پیش کرتا ہوں اس میں جلدی نہ کرنا جب تک اپنے والدین سے مشورہ نہ کرلینا جواب نہ دینا ( اور حضور ﷺ کو معلوم تھا کہ ان کے والدین جدائی کے لیے مشورہ نہ دینگے )ام المومنین نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ حضور کے بارے میں مجھے والدین سے مشورہ کی کیا حاجت ہے بلکہ میں اللہ و رسول اور آخرت کے گھر کو اختیار کرتی ہوں اور میں یہ چاہتی ہوں ازواج مطہرات میں سے کسی کو میرے جواب کی حضور خبر نہ دیں ارشاد فرمایا جو مجھ سے پوچھے گی کہ عائشہ نے کیا جواب دیا ہے میں ا سے خبر کردونگا اللہ نے مجھے مشقت میں ڈالنے والا اور مشقت میں پڑنے والا بنا کر نہیں بھیجا ہے اس نے مجھے معلم اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔
حدیث۲: صحیح بخاری شریف میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی فرماتی ہیں نبی ﷺ نے ہمیں اختیار دیا ہم نے اللہ و رسول کو اختیار کیا اور اس کو کچھ (یعنی طلاق) نہیں شمار کیا ۔ اسی میں ہے مسروق کہتے ہیں مجھے کچھ پرواہ نہیں کہ اس کو ایک دفعہ اختیار دو ں یا سودفعہ جب کہ وہ مجھے اختیار کرے یعنی اس صورت میں طلاق نہیں ہوتی ۔
احکام فقہیہ
مسئلہ ا: عورت سے کہا تجھے اختیار ہے یا تیرامعاملہ تیرے ہاتھ ہے اور اس سے مقصود طلاق کا اختیار دینا ہے تو عورت اس مجلس میں اپنے کو طلاق دے سکتی ہے اگر چہ وہ مجلس کتنی ہی طویل ہواور مجلس بدلنے کے بعد کچھ نہیں کرسکتی ۔اور اگر عورت وہاں موجود نہ تھی یا موجود تھی مگر سنا نہیں اور اسے اختیار انھیں لفظوں سے دیا تو جس مجلس میں اسے اسکا علم ہوااس کا اعتبار ہے۔ ہاں اگر شوہرنے کوئی وقت مقرر کردیا تھا مثلاً آج اسے اختیار ہے اور وقت گزرنے کے بعد اسے علم ہو اتو ا ب کچھ نہیں کرسکتی ۔اور اگر ان لفظوں سے شوہر نے طلاق کی نیت ہی نہ کی تو کچھ نہیں کہ یہ کنایہ ہیں اور کنایہ میں بے نیت طلاق نہیں ہاں اگر غضب کی حالت میں کہا یا اس وقت طلاق کی بات چیت تھی تو اب نیت نہیں دیکھی جائے گی ۔اور اگر عورت نے ابھی کچھ نہ کہا تھا کہ شوہر نے اپنے کلام کو واپس لیا تو مجلس کے اندر واپس نہ ہوگا یعنی بعد واپسی شوہر بھی عورت اپنے کو طلاق دے سکتی ہے اور شوہر اسے منع بھی نہیں کرسکتا ۔اور اگر شوہر نے یہ لفظ کہے کہ تو اپنے کو طلاق دیدے یا تجھے اپنی طلاق کا اختیار ہے جب بھی یہی سب احکام ہیں مگر اس صورت میں عورت نے طلاق دیدی تو رجعی پڑیگی ہاں اس صورت میں عورت نے تین طلاقیں دیں اور مرد نے تین کی نیت بھی کر لی ہے تو تین ہوں گی اور مرد کہتا ہے میں نے ایک کی نیت کی تھی تو ایک بھی واقع نہ ہو گی۔ اور اگر شوہر نے تین کی نیت کی یا یہ کہا کہ تو اپنے کو تین طلاقیں دے لے اور عورت نے ایک دی تو ایک پڑے گی۔ اور اگر کہا تو اگر چاہے تو اپنے کو تین طلاقیں دے عورت نے ایک دی یا کہا تو اگر چاہے تو اپنے کو ایک طلاق دے عورت نے تین دیں تو دونوں صورتوں میں کچھ نہیں مگر پہلی صورت میں اگر عورت نے کہا میں نے اپنے کو طلاق دی ایک اور ایک اورایک تو تین پڑیگی ۔ (جوہرہ ‘ درمختار‘ عالمگیری وغیرہا)
مسئلہ۲: ان الفاظ مذکورہ کے ساتھ یہ بھی کہا کہ تو جب چاہے یا جس وقت چاہے تو اب مجلس بدلنے سے اختیار باطل نہ ہوگا اور شوہر کو کلام واپس لینے کا اب بھی اختیار نہ ہو گا ۔ (درمختار)
مسئلہ۳: اگر عورت سے کہا تو اپنی سوت کو طلاق دیدے یا کسی اور شخص سے کہا تو میری عورت کو طلاق دیدے تو مجلس کے ساتھ مقید نہیں بعد مجلس بھی طلاق ہو سکتی ہے اور اس میں رجوع کرسکتا ہے کہ یہ وکیل ہے اور مؤکل کو اختیار کہ وکیل کو معزول کردے مگر جبکہ مشیت پر معلق کردیا ہو یعنی کہہ دیا ہو کہ اگر تو چاہے تو طلاق دیدے تو اب توکیل نہیں بلکہ تملیک ہے لہذا مجلس کے ساتھ خاص ہے اور رجوع نہ کرسکے گا اور اگر عورت سے کہا تو اپنے کو اور اپنی سوت کو طلاق دیدے تو خود اس کے حق میں تملیک ہے اور سوت کے حق میں توکیل اور ہر ایک کا حکم وہ ہے جو اوپر مذکور ہو ا یعنی اپنے کو مجلس بعد نہیں دے سکتی اور سوت کو دے سکتی ہے ۔(جوہرہ ‘درمختار)
مسئلہ ۴: تملیک و توکیل میں چند باتوں کا فرق ہے تملیک میں رجوع نہیں کرسکتا ۔ معزول نہیں کرسکتا بعد تملیک کے شوہر مجنون ہو جائے تو باطل نہ ہوگی ۔ جس کو مالک بنا یا اسکا عاقل ہونا ضروری نہیں اور مجلس کے ساتھ مقید ہے۔ اور توکیل میں ان سب کا عکس ہے اگر بالکل نہ سمجھ بچے سے کہا تو میری عورت کو اگر چاہے طلاق دیدے اور وہ بول سکتاہے اس نے طلاق دیدی واقع ہوگئی یونہی اگر مجنوں کو مالک کردیا اور اس نے دیدی تو ہوگئی اور وکیل بنایا تو نہیں اور مالک کرنے کی صورت میں اگر اچھا تھا اس کے بعد مجنون ہوگیا تو واقع نہ ہو گی۔( درمختار)
مسئلہ۵: بیٹھی تھی کھڑی ہوگئی یا ایک کام کررہی تھی اسے چھوڑ کر دوسرا کام کرنے لگی مثلاً کھانا منگوایا یا سو گئی یا غسل کرنے لگی یا مہندی لگانے لگی یا کسی سے خریدو فروخت کی بات کی یا کھڑی تھی مگر جانور کھڑا تھا چلنے لگا تو ان سب صورتوں میں مجلس بدل گئی اور اب طلاق کا اختیار نہ رہا۔ اور اگر کھڑی تھی بیٹھ گئی یا کھڑی تھی اور مکان میں ٹہلنے لگی یا بیٹھی ہوئی تھی تکیہ لگالیا یا تکیہ لگائے ہوئے تھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی یا اپنے باپ وغیرہ کسی کو مشورہ کے لئے بلایا یا گواہوں کو بلانے گئی کہ ان کے سامنے طلاق دے بشرطیکہ وہاں کوئی ایسا نہیں جو بلادے یا سواری پر جارہی تھی اسے روک دیا یا پانی پیا کھانا وہاں موجود تھا کچھ تھوڑا سا کھا لیا ان سب صورتوں میں مجلس نہیں بدلی (عالمگیری درمختار وغیرہما)
مسئلہ۶: کشتی گھر کے حکم میں ہے کہ کشتی کے چلنے سے مجلس نہ بدلے گی اور جانور پر سوار ہے اور جانور چل رہا ہے تو مجلس بدل رہی ہے ہاں اگر شوہر کے سکوت کرتے ہی فور ا ً اسی قدم میں جواب دیا تو طلاق ہوگئی اور اگر محمل میں دونوں سوارہیں جسے کوئی کھینچے لیئے جاتا ہے تو مجلس نہیں بدلی کہ یہ کشتی کے حکم میں ہے ۔ ( درمختار ) گاڑی پالکی کا بھی یہی حکم ہے ۔
مسئلہ۷: بیٹھی ہوئی تھی لیٹ گئی اگر تکیہ وغیرہ لگا کر اس طرح لیٹی جیسے سونے کے لیئے لیٹتے ہیں تو اختیار جاتا رہا ۔ (ردالمحتار )
مسئلہ۸: دو زا نوبیٹھی تھی چار زانو بیٹھ گئی یا عکس کیا یا بیٹھی سوگئی تو مجلس نہیں بدلی ۔(عالمگیری ‘ ردالمحتار)
مسئلہ۹: شوہر نے اسے مجبور کرکے کھڑا کیا یا جماع کیا تو اختیار نہ رہا ۔ (درمختار)
مسئلہ۱۰: شوہر کے اختیار دینے کے بعد عورت نے نماز شروع کردی اختیار جاتا رہا نماز فرض ہو یا واجب یا نفل ۔اور اگر عورت نماز پڑھ رہی تھی اسی حالت میں اختیار دیا تو اگر وہ نماز فرض یا واجب یا سنت مؤکدہ ہے تو پوری کرکے جواب دے اختیار باطل نہ ہوگا اور اگر نفل نماز ہے تو دو رکعت پڑھکر جواب دے اور اگر تیسری رکعت کے لئے کھڑی ہوئی تو اختیار جاتا رہا اگرچہ سلام نہ پھیرا ہو۔اور اگر سبحن اللہ کہا یا کچھ تھوڑا سا قرآن پڑھا تو باطل نہ ہو ا اور زیادہ پڑھا تو باطل ہو گیا۔ (جوہرہ) اور اگر عورت نے جواب میں کہا تو اپنی زبان سے کیوں طلاق نہیں دیتا تو اس کہنے سے اختیار باطل نہ ہوگا اور اگر یہ کہا اگر تو مجھے طلاق دیتا ہے تو اتنا مجھے دیدے تو اختیار باطل ہو گیا ۔
(عالمگیری ردالمحتار)
مسئلہ۱۰: اگر بیک وقت اس کی اور شفعہ کی خبر پہنچی اور عورت دونوں کو اختیار کرنا چاہتی ہے تو یہ کہنا چاہئے کہ میں نے دونوں کو اختیار کیا ورنہ جس ایک کو اختیار کرے گی دوسرا جاتا رہے گا ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۱۱: مرد نے اپنی عورت سے کہا تو اپنے نفس کو اختیار کر عورت نے کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا یا کہا میں نے اختیار کیا یا اختیار کرتی ہوں تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی اور تین کی نیت صحیح نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ۱۲: تفویض طلاق میں یہ ضرورہے کہ زن و شوہر دونوں میں سے ایک کے کلام میں لفظ نفس یا طلاق کا ذکر ہو ۔ اگر شوہر نے کہا تجھے اختیار ہے عورت نے کہا میں نے اختیار کیا طلاق واقع نہ ہو گی اور اگر جواب میں کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا یا شوہر نے کہا تھا تو اپنے نفس کو اختیار کر عورت نے کہا میں نے اختیار کیا یا کہا میں نے کیا تو اگر نیت طلاق تھی تو ہوگئی ۔اور یہ بھی ضرورہے کہ لفظ نفس کو متصلاً ذکر کرے اور اگر اس لفظ کو کچھ دیر بعد کہا اور مجلس بدلی نہ ہو تو متصل ہی کے حکم میں ہے یعنی طلاق واقع ہوگی اور مجلس بدلنے کے بعد کہا تو بیکار ہے ۔ (عالمگیری وغیرہ)
مسئلہ۱۳: شوہر نے دوبار کہا اختیار کر اختیار کر یا کہا اپنی ماں کو اختیار کر تو اب لفظ نفس ذکر کرنے کی حاجت نہیں یہ اس کے قائم مقام ہو گیا یونہی عورت کا کہنا کہ میں نے اپنے باپ یا ماں یا اہل یا ازواج کو اختیار کیا لفظ نفس کے قائم مقام نہیں اورا گر عورت کے ماں باپ نہ ہو تو یہ کہنا بھی کہ میں نے اپنے بھائی کو اختیار کیا کافی ہے اور ماں باپ نہ ہونے کی صورت میں اس نے ماں باپ کو اختیار کیا جب بھی طلاق ہوجائے گی۔ عورت سے کہا تین کو اختیار کر عورت نے کہا میں نے اختیار کیا تو تین طلاقیں پڑجائیں گی ۔ (درمختار ‘ ردالمحتار‘ وغیرہما)
مسئلہ۱۴: عورت نے جواب میں کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا نہیں بلکہ اپنے شوہر کو تو واقع ہو جائے گی۔ اور یوں کہا میں نے اپنے شوہر کو اختیار کیا نہیں بلکہ اپنے نفس کو تو واقع نہ ہوگی ۔اور اگر کہا میں نے اپنے نفس یا شوہر کو اختیار کیا تو واقع نہ ہوگی ۔اوراگر کہا اپنے نفس اور شوہر کو تو واقع ہوگی ۔اور اگر کہا شوہر اور نفس کو تو نہیں ۔( فتح القدیر)
مسئلہ۱۵: مرد نے عورت کو اختیار دیا تھا عورت نے ابھی جواب نہ دیا تھا کہ شوہر نے کہا اگر تو اپنے کو اختیار کرلے تو ایک ہزار دونگا عورت نے اپنے کو اختیار کیا تو نہ طلاق ہوئی نہ مال دینا واجب آیا ۔ (فتح القدیر)
مسئلہ۱۶: شوہر نے اختیار دیا عورت نے جواب میں کہا میں نے اپنے کو بائن کیا یا حرام کردیا یا طلاق دی تو جواب ہو گیا اور ایک بائن طلاق پڑگئی ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۱۷: شوہر نے تین بار کہا تجھے اپنے نفس کا اختیار ہے عورت نے کہا میں نے اختیار کیا یا کہا پہلے کو اختیار کیا یا بیچ والے کو یا پچھلے کو یا ایک کو بہر حال تین طلاقیں واقع ہوں گی۔ اور اگر اس کے جواب میں کہا کہ میں نے اپنے نفس کو طلاق دی یا میں نے اپنے نفس کو ایک طلاق کے ساتھ اختیار کیا یا میں نے پہلی طلاق اختیار کی تو ایک بائن واقع ہوگی ۔(تنویرالابصار )
مسئلہ۱۸: شوہر نے تین مرتبہ کہا مگر عورت نے پہلی ہی بار کے جواب میں کہہ دیا میں نے اپنے نفس کا اختیار کیا تو بعد والے الفاظ باطل ہو گئے یونہی اگر عورت نے کہا میں نے ایک کو باطل کر دیا تو سب باطل ہوگئے ۔( عالمگیری )
مسئلہ۱۹: شوہر نے کہا تجھے اپنے نفس کا اختیار ہے کہ تو طلاق دیدے عورت نے طلاق دی تو بائن واقع ہوئی ۔(درمختار)
مسئلہ۲۰: عورت سے کہا تین طلاقوں میں سے جو چاہے تجھے اختیار ہے تو ایک یا دو کا اختیار ہے تین کا نہیں ۔(عالمگیری)
مسئلہ۲۱: عورت کو اختیار دیا اس نے جواب میں کہا میں تجھے نہیں اختیار کرتی یا تجھے نہیں چاہتی یا مجھے تیری حاجت نہیں تو یہ سب کچھ نہیں ۔ اور اگر کہا میں نے یہ اختیارکیا کہ تیری عورت نہ رہو تو بائن ہو گئی ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۲: کسی سے کہا تو میری عورت کو اخیتار دیدے تو جب تک یہ شخص اسے اختیار نہ دے گا عورت کو اختیار حاصل نہیں اور اگر اس شخص سے کہا تو عورت کو اختیار کی خبر دے تو عورت کو اختیار حاصل ہو گیا اگر چہ خبر نہ کرے۔(درمختار)
مسئلہ۲۳: کہا تجھے اس سال یا اس مہینے یا آج دن میں اختیار ہے تو جب تک وقت باقی ہے اختیار ہے اگر چہ مجلس بدل گئی ہو۔ اور اگر ایک دن کہا تو چوبیس گھنٹے اور ایک ماہ کہا تو تیس دن تک اختیار ہے اور چاند جس وقت دکھائی دیا اس وقت ایک مہینے کا اختیار دیا تو تیس دی ضرور نہیں بلکہ دوسرے ہلال تک ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ ۲۴: نکاح سے پیشتر تفویض طلاق کی مثلاً عورت سے کہا اگر میں دوسری عورت سے نکاح کروں توتجھے اپنے نفس کو طلاق دینے کا اختیار ہے تو یہ تفویض نہ ہوئی کہ اضافت ملک کی طرف نہیں یونہی اگر ایجاب و قبول میں شرط کی اور ایجاب شوہر کی طرف سے ہو مثلاًکہا میں تجھے اس شرط پر نکاح میں لایا عورت نے کہا میں نے قبول کیا جب بھی تفویض نہ ہوئی ۔اور اگر عقد میں شرط کی اور ایجاب عورت یا اس کے وکیل نے کہا مثلاً میں نے اپنے نفس کو یا اپنی فلاں موکلہ کو اس شرط پر تیرے نکاح میں دیا مرد نے کہا میں نے اس شرط پر قبول کیا تو تفویض طلاق ہوگئی شرط پائی جائے تو عورت کو جس مجلس میں علم ہو ا اپنے کو طلاق دینے کا اختیار ہے۔(ردالمحتار)
مسئلہ۲۵: مرد نے عورت سے کہا تیرا امر تیرے ہاتھ ہے تو اس میں بھی وہی شرائط و احکام ہیں جو اختیار کے ہیں کہ نیت طلاق سے کہا ہو اور نفس کو ذکر ہو اور جس مجلس میں کہا یا جس مجلس میں علم ہوا اسی میں عورت نے طلاق دی ہو تو واقع ہو جائے گی اور شوہر رجوع نہیں کرسکتاصرف ایک بات میں فرق ہے وہاں تین کی نیت صحیح نہیں اور اس میں اگر تین طلاق کہ نیت کی تو تین واقع ہونگی اگر چہ عورت نے اپنے کو ایک طلاق دی یا کہا میں نے اپنے نفس کو قبول کیا یا اپنے امر کو اختیار کیا یا تو مجھ پر حرام ہے یا مجھ سے جدا ہے یا میں تجھ سے جدا ہوں یا مجھے طلاق ہے ۔اوراگر مرد نے دو(۲) کی نیت کی یا ایک کی یا نیت میں کوئی عدد نہ ہو تو ایک ہوگی ۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ۲۶: زوجہ نابالغہ ہے اس سے یہ کہا کہ تیر اامر تیرے ہاتھ ہے اس نے اپنے کو طلاق دیدی ہوگئی اور اگر عورت کے باپ سے کہا کہ اس کا امر تیرے ہاتھ ہے اس نے کہا میں نے قبول کیا یا کوئی اور لفظ طلاق کا کہا طلاق ہوگئی۔ (ردالمحتار)
مسئلہ۲۷: عورت کے لئے یہ لفظ کہا مگر اسے اس کا علم نہ ہوااور طلاق دے لی واقع نہ ہوئی ۔(خانیہ)
مسئلہ۲۸: شوہر نے کہا تیرا امر تیرے ہاتھ ہے اس کے جواب میں عورت نے کہا میراامر میرے ہاتھ ہے تو یہ جواب نہ ہوا یعنی طلاق نہ ہوئی بلکہ جواب میں وہ لفظ ہونا چاہیئے جس کی نسبت عورت کی طرف اگر زوج کرتا تو طلاق ہوتی ۔(درمختار) مثلاً کہے میں نے اپنے نفس کو حرام کیا‘ بائن کیا‘ طلاق دی‘ وغیرہا۔ یونہی اگر جواب میں کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا کہا قبول کیا یا عورت کے باپ نے قبول کیا جب بھی طلاق ہوگئی یوہیں اگر جواب میں کہا تو مجھ پر حرام ہے یا میں تجھ پر حرام ہوئی یا تو مجھ سے جدا ہے یا میں تجھ سے جدا ہوں یا کہا میں حرام ہوں یا میں جدا ہوں تو ان سب صورتوں میں طلاق ہے ۔اوراگر کہا تو حرام ہے اور یہ نہ کہا مجھ پر یا تو جدا ہے اور یہ نہ کہا کہ مجھ سے تو باطل ہے طلاق نہ ہوئی ۔(عالمگیری)
مسئلہ۲۹: اس کے جواب میں اگر چہ رجعی کا لفظ ہو طلاق بائن پڑے گی ہاں اگر شوہر نے کہا تیراامر تیرے ہاتھ ہے طلاق دینے میں تو رجعی ہوگی یا شوہر نے کہا تین طلاق کا امر تیرے ہاتھ ہے اور عورت نے ایک یا دودی تو رجعی ہے ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۳۰: کہا تیرا امر ہتھیلی میں ہے یا دہنے یا بائیں ہاتھ میں یا تیرا امر تیرے ہاتھ میں کر دیا یا تیرے ہاتھ کو سپرد کردیا یا تیرے منہ میں ہے یا زبان میں جب بھی وہی حکم ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۳۱: اگر ان الفاظ کو بہ نیت طلاق نہ کہا تو کچھ نہیں مگر حالت غضب یا مذاکرۂ طلاق میں کہا تو نیت نہیں دیکھی جائے گی بلکہ حکم طلاق دیدیں گے۔ اور اگر مرد کو حالت غضب یا مذاکرۂ طلاق سے انکار ہے تو عورت سے گواہ لیئے جائیں گواہ نہ پیش کرسکے تو قسم لیکر شوہر کا قول مانا جائے ۔اور نیت طلاق پر اگر عورت گواہ پیش کرے تو مقبول ہیں ۔(عالمگیری)
مسئلہ۳۲: شوہر نے کہا تیراامر تیرے ہاتھ ہے آج اور پر سوں تو دونوں راتیں درمیان کی داخل نہیں اور یہ دوتفویضین جدا جدا ہیں لہذا اگر آج ردکردیا تو پرسوں عورت کو اختیار ہے گا اوررات میں طلاق دیگی تو واقع نہ ہوگی اور ایک دن میں ایک ہی بار طلاق دے سکتی ہے۔ اور اگر کہا آج اور کل تو رات داخل ہے اور آج رد کردیگی تو کل کے لئے بھی اختیار نہ رہا کہ یہ ایک تفویض ہے ۔ اور اگر یوں کہا آج تیرا امر تیرے ہاتھ ہے اور کل تیراامر تیرے ہاتھ ہے تو رات داخل نہیں اور جدا جدا دو تفویضیں ہیں ۔اور اگر کہا تیراامر تیرے ہاتھ ہے آج اور کل اور پرسوں تو ایک تفویض ہے اور راتیں داخل ہیں اور جہاں دو تفویضیں ہیں اگر آج اس نے طلاق دے لی پھر کل آنے سے پہلے اسی سے نکاح کر لیا تو کل پھر اسے طلاق دینے کا اختیار حاصل ہے ۔ (عالمگیری‘ درمختار)
مسئلہ۳۳: عورت نے یہ دعوی کیا کہ شوہر نے میراامر میرے ہاتھ میں دیا تو یہ دعوی نہ سنا جائے کہ بیکار ہے۔ ہاں عورت نے اس امر کے سبب اپنے کو طلاق دے پھر طلاق ہونے اور مہر لینے کے لئے دعوی کیا تو اب سنا جائیگا۔( عالمگیری)
مسئلہ۳۴: اگر یہ کہا تیراامر تیرے ہاتھ ہے جس دن فلاں آئے تو صرف دن کے لئے ہے اگر رات میں آیا تو طلاق نہیں دے سکتی اور اگر وہ دن میں آیا مگر عورت کو اس کے آنے کا علم نہ ہوا یہاں تک کہ آفتاب ڈوب گیاتو اب اختیار نہ رہا ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۳۵: اگر کوئی وقت معین نہ کیا تو مجلس بدلنے سے اختیار جاتا رہے گا جیسا اوپر مذکور ہوااور اگر وقت معین کردیا ہو مثلاً آج یا کل یا اس مہینے یا اس سال میں تو اس پورے وقت میں اختیار حاصل ہے ۔
مسئلہ۳۶: کاتب سے کہا تو لکھ دے اگر میں اپنی عورت کی بغیر اجازت سفر کو جاؤں تو وہ جب چاہے اپنے کو ایک طلاق دے لے عورت نے کہا میں ایک طلاق نہیں چاہتی تین طلاقیں لکھوامگر شوہر نے انکار کردیا اور لکھنے کی نوبت نہ آئی تو عورت کو ایک طلاق کا اختیار حاصل رہا ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۳۷: اجنبی شخص سے کہا کہ میری عورت کا امر تیرے ہاتھ ہے تو اس کو طلاق دینے کا اختیار حاصل ہے اور وہی احکام ہیں جو خود عورت کے ہاتھ میں اختیار دینے کے ہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۳۸: دوشخصوں کے ہاتھ میں دیا تو تنہا ایک کچھ نہیں کرسکتا اوراگر کہا میرے ہاتھ میں ہے اور تیرے اور مخاطب نے طلاق دے دی تو جب تک شوہر اس طلاق کو جائز نہ کریگا نہ ہوگی اور اگر کہا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تیرے ہاتھ میں اور مخاطب نے طلاق دیدی تو ہوگئی ۔ ( عالمگیری )
مسئلہ ۳۹: عورت کے اولیا نے طلاق لینی چاہی شوہر عورت کے باپ سے یہ کہ کر چلا گیا کہ تم جو چاہو کرو اور والد زوجہ نے طلاق دیدی تو اگر شوہر نے تفویض کے ارادہ سے نہ کہا ہو طلاق نہ ہو گی۔ (درمختار )
مسئلہ۴۰: عورت سے کہا اگر تیرے ہوتے ساتے نکاح کروں تو اسکا امر تیرے ہاتھ میں ہے پھر کسی فضولی نے اس کا نکاح کردیا اور اس نے کوئی کام ایسا کیا جس سے وہ نکاح جائز ہوگیا مثلاً مہر بھیج دیا یا وطی کی۔ زبان سے کہہ کر جائز نہ کیا تو پہلی عورت کو اختیار نہیں کہ اسے طلاق دیدے ۔اور اگر اس کے وکیل نے نکاح کردیا یا فضولی کے نکاح کو زبان سے جائز کیا یا کہا تھا کہ میرے نکاح میں اگرکوئی عورت آئے تو ایسا ہے تو ان سب صورتوں میں عورت کو اختیار ہے ۔ (درمختار)
مسئلہ۴۱: اپنی دوعورتوں سے کہا کہ تمھارا امر تمھارے ہاتھ ہے تو اگر دونوں اپنے کو طلاق دیں تو ہوگی ورنہ نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۴۲: اپنی عورت سے کہا کہ میری عورتوں کا امر تیرے ہاتھ میں ہے یا تو میری جس عورت کو چاہے طلاق دیدے تو خود اپنے کو وہ طلاق نہیں دے سکتی۔ (عالمگیری)
مسئلہ۴۳: فضولی نے کسی کی عورت سے کہا تیرا امر تیرے ہاتھ ہے عورت نے کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا اور یہ خبر شوہر کو پہنچی اس نے جائز کر دیا تو طلاق واقع نہ ہوئی مگر جس مجلس میں عورت کو اجازت شوہر کا علم ہوااسے اختیار حاصل ہوگیا یعنی اب چاہے تو طلاق دے سکتی ہے یونہی اگر عورت نے خود ہی کہا کہ میں نے اپنا امر اپنے ہاتھ میں کیا پھر کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا اور شوہر نے جائز کر دیا تو طلاق نہ ہوئی مگر اختیار طلاق حاصل ہوگیا۔ اور اگر عورت نے یہ کہا کہ میں نے اپنا امر اپنے ہاتھ میں کیا اور اپنے کو میں نے طلاق دی شوہر نے جائز کر دیا تو ایک طلاق رجعی ہوگئی اور عورت کو اختیار بھی حاصل ہو گیا یعنی اب اگر عورت اپنے نفس کو اختیار کرے تو دوسری بائن طلاق واقع ہوگی۔ عورت نے کہا میں نے اپنے کو بائن کردیا شوہر نے جائز کیا اور شوہر کی نیت طلاق کی ہے تو طلاق بائن ہوگئی ۔اور عورت نے طلاق دینا کہا تو اجازت شوہر کے وقت اگر شوہر کی نیت نہ بھی ہو طلاق ہوجائیگی اور تین کی نیت صحیح نہیں ۔اور عورت نے کہا میں نے اپنے کو تجھ پر حرام کردیا شوہر نے جائز کر دیا طلاق ہوگئی ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۴۴: شوہر سے کسی نے کہا فلاں شخص نے تیری عورت کو طلاق دیدی اس نے جواب میں کہا اچھا کیا تو طلاق ہوگئی اور اگر کہا برا کیا تو نہ ہوئی۔ (عالمگیری)
مسئلہ۴۵: اپنی عورت سے کہا جب تک تو میرے نکاح میں ہے اگر میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اس کا امر تیرے ہاتھ میں ہے پھر اس عورت سے خلع کیا یا طلاق بائن یا تین طلاقیں دیں اب دوسری عورت سے نکاح کیا تو پہلی عورت کو کچھ اختیار نہیں اور اگر یہ کہا تھا کہ کسی عورت سے نکاح کر وں تو اس کا امر تیرے ہاتھ ہے تو خلع وغیرہ کے بعد بھی اس کو اختیار ہے ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ ۴۶: عورت سے کہا تو اپنے کو طلاق دیدے اور نیت کچھ نہ ہو یا ایک یا دو(۲) کی نیت ہو اور عورت آزاد ہو تو عورت کے طلاق دینے سے ایک رجعی واقع ہوگی اور تین کی نیت کی ہو تو تین پڑیگی اور عورت باندی ہو تو دو(۲) کی نیت بھی صحیح ہے۔ اور اگر عورت نے جواب میں کہا کہ میں نے اپنے کو بائن کیا یا جدا کیا یا میں حرام ہوں یا بری ہوں جب بھی ایک رجعی واقع ہو گی۔ اور اگر کہا میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو کچھ نہیں اگر چہ شوہر نے جائز کر دیا ہو۔ (درمختار) کسی اور سے کہا تو میری عورت کو رجعی طلاق دے اس نے بائن دی جب بھی رجعی ہوگی اور اگر وکیل نے طلاق کا لفظ نہ کہا بلکہ کہا میں نے اسے بائن کر دیا یا جدا کر دیا تو کچھ نہیں ۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۴۷: عورت سے کہا اگر تو چاہے تو اپنے کو دس (۱۰) طلاقیں دے عورت نے تین دیں یا کہا اگر چاہے تو ایک طلاق دے عورت نے آدھی دی تو دونوں صورتوں میں ایک بھی واقع نہیں ۔ ( خانیہ)
مسئلہ۴۸: شوہر نے کہا تو اپنے کو رجعی طلاق دے عورت نے بائن دی یا شوہر نے کہا بائن طلاق دے عورت نے رجعی دی تو جو شوہر کہا وہ واقع ہو گی عورت نے جیسی دی وہ نہیں اور اگر شوہر نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ تو اگر چاہے اور عورت نے اس کے حکم کے خلاف بائن یا رجعی دی تو کچھ نہیں ۔ ( درمختار)
مسئلہ۴۹: کسی کی دوعورتیں ہیں اور دونوں مدخولہ ہیں اس نے دونوں کو مخاطب کرکے کہا تم دونوں اپنے کو یعنی خود کو اور دوسری کو تین طلاقیں دو ہر ایک نے اپنے کو اور سوت کو آگے پیچھے تین طلاقیں دی تو پہلی ہی کے طلاق دینے سے دونوں مطلقہ ہو گئیں اور اگر پہلے سوت کو طلاق دی پھر اپنے کو تو سوت کو پڑگئی اسے نہیں کہ اختیار ساقط ہو چکا لہذا دوسری نے اگر اسے طلاق دی تو یہ بھی مطلقہ ہو جائے گی ورنہ نہیں ۔اور اگر شوہر نے اس طرح اختیار دینے کے بعد منع کر دیا کہ طلاق نہ دو جب تک مجلس باقی ہے ہر ایک اپنے کو طلاق دے سکتی ہے سوت کو نہیں کہ دوسری کے حق میں وکیل ہے اور منع کر دینے سے وکالت باطل ہوگئی ۔اور اگر اس لفظ کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ اگر تم چاہو تو فقط ایک طلاق دینے سے طلاق نہ ہوگی جب تک دونوں اسی مجلس میں اپنے کو اور دوسری کو طلاق نہ دیں طلاق نہ ہوگی اور مجلس کے بعد کچھ نہیں ہو سکتا۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۰: کسی سے کہا اگر تو چاہے عورت کو طلاق دیدے اس نے کہا میں نے چاہا تو طلاق نہ ہوئی اور اگر کہا اس کو طلاق ہے اگر توچاہے اس نے کہا میں نے چاہا تو ہوگئی ۔ (ردالمحتار)
مسئلہ۵۱: عورت سے کہا تو اگر چاہے تو اپنے کو طلاق دیدے عورت نے جواب میں کہا میں نے چاہا کہ اپنے کو طلاق دیدوں تو کچھ نہیں ۔ اگر کہا تو چاہے تو اپنے کو تین طلاقیں دیدے عورت نے کہا مجھے طلاق ہے تو طلاق نہ ہوئی جب تک یہ نہ کہے کہ مجھے تین طلاقیں ہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۲: عورت سے کہا اپنے کو تو طلاق دیدے جیسی تو چاہے تو عورت کو اختیار ہے بائن دے یا رجعی ایک دے یا دو یا تین مگر مجلس بدلنے کے بعد اختیار نہ رہے گا۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۳: اگر کہا تو چاہے تو اپنے کو طلاق دیدے اور تو چاہے تو میری فلاں بی بی کو طلاق دیدے تو پہلے اپنے کو طلاق دے یا اس کو دونوں مطلقہ ہو جائیں گی ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۴: عورت سے کہا تو جب چاہے اپنے کو ایک طلاق بائن دیدے پھر کہا تو جب چاہے اپنے کو ایک وہ طلاق دے جس میں رجعت کا میں مالک رہوں عورت نے کچھ دنوں بعد اپنے کو طلاق دی تو رجعی ہوگی اور شوہر کے پچھلے کلام کا جواب سمجھا جائیگا ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۵: عورت سے کہا تجھ کو طلاق ہے اگر تو ارادہ کرے یا پسند کرے یا خواہش کرے یا محبوب رکھے جواب میں کہا میں نے چاہا یا ارادہ کیا ہوگئی ۔ یونہی اگر کہا تجھے موافق آئے جواب میں کہا میں نے چاہا ہوگئی اور جواب میں کہا میں نے محبوب رکھا تونہ ہوئی ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۶: عورت سے کہا اگر تو چاہے تو تجھ کو طلاق ہے جواب میں کہا ہاں یا میں نے قبول کیا یا میں راضی ہوئی واقع نہ ہوئی اور اگر کہا تو اگر قبول کرے تو تجھ کو طلاق ہے جواب میں کہا میں نے چاہی تو ہوگئی ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۵۷: عورت سے کہا تجھ کو طلاق ہے اگر توچاہے جواب میں کہا میں نے چاہا اگر تو چاہے مرد نے بہ نیت طلاق کہا میں نے چاہا تو واقع نہ ہوئی اور اگر مرد نے آخر میں کہا میں نے تیری طلاق چاہی تو ہوگئی جبکہ نیت بھی ہو۔ (ہدایہ) اگر عورت نے جواب میں کہا میں نے چاہا اگر فلاں بات ہوئی ہو کسی ایسی چیز کے لئے جو ہو چکی ہو یا اس وقت موجود ہو مثلاًاگر فلاں شخص آیا ہو یا میرا باپ گھر میں ہو اور واقع میں وہ آچکا ہے یا وہ گھر میں ہے تو طلاق واقع ہو گئی اور اگر وہ ایسی چیز ہے جواب تک نہ ہوئی ہو اگر چہ اس کا ہونا یقینی ہو مثلاً کہا میں نے چاہا اگر رات آئے یا اس کا ہو نا محتمل ہو مثلاً اگر میراباپ چاہے تو طلاق نہ ہوئی اگر چہ اس کے باپ نے کہہ دیا کہ میں نے چاہا ۔ (عالمگیری‘ درمختار )
مسئلہ۵۸: عورت سے کہا تجھ کو ایک طلاق ہے اگر تو چاہے تجھ کو دو (۲) طلاقیں ہیں اگر تو چاہے جواب میں کہا میں نے ایک چاہی میں نے دو چاہی اگر دونوں جملے متصل ہوں تو تین طلاقیں ہوگئیں یوہیں اگر کہا تجھ کو طلاق ہے اگر تو چاہے ایک اور اگر تو چاہے دو اس نے جواب میں کہا میں نے چاہی تو تین طلاقیں ہوگئیں ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۵۹: شوہر نے کہا اگر تو چاہے اور نہ چاہے تو تجھ کو طلاق ہے ۔ یا تجھ کو طلاق ہے اگر تو چاہے اور نہ چاہے تو طلاق نہیں ہو سکتی چاہے یا نہ چاہے۔ اور اگر کہا تجھ کو طلاق ہے اگرتو چاہے اور اگر تو نہ چاہے تو بہر حال طلاق ہے چاہے یا نہ چاہے ۔ اگر عورت سے کہا تو طلاق کو محبوب رکھتی ہے تو تجھ کو طلاق اور اگر تو اس کو مبغوض رکھتی ہے تو تجھ کو طلاق اگر عورت کہے میں محبوب رکھتی ہو یا برا جانتی ہوں تو طلاق ہو جائے گی اور اگر کچھ نہ کہے یا کہے میں نہ محبوب رکھتی ہوں نہ برا جانتی تو نہ ہوگی ۔ (درمختار ردالمحتار)
مسئلہ ۶۰: اپنی دوعورتوں سے کہا تم دونوں میں سے جسے طلاق کی زیادہ خواہش ہے اس کو طلاق دونوں نے اپنی خواہش دوسری سے زیادہ بتائی اگر شوہر دونوں کی تصدیق کرے تو دونوں مطلقہ ہو گیئں ورنہ کوئی نہیں ۔ (درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۶۱: عورت سے کہا اگر تو مجھ سے محبت یا عداوت رکھتی ہے تو تجھ پر طلاق عورت نے اسی مجلس میں محبت یا عداوت ظاہر کی طلاق ہوگئی اگر چہ اسکے دل میں جو کچھ ہے اس کے خلاف ظاہر کیا ہواور اگر شوہر نے کہا اگر دل سے تو مجھ سے محبت رکھتی ہے تو تجھ پر طلاق عورت نے جواب میں کہا میں تجھے محبوب رکھتی ہوں طلاق ہو جائیگی اگر چہ جھوٹی ہو ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۶۲: عورت سے کہا تجھ پر ایک طلاق اور اگر تجھے ناگوار ہو تو دو عورت نے نا گواری ظاہر کی تو تین طلاقیں ہوئیں اور چپ رہی تو ایک ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۶۳: تجھ کو طلاق ہے جب تو چاہے یا جس وقت چاہے یا جس زمانہ میں چاہے عورت نے رد کر دیا یعنی کہا میں نہیں چاہتی تو رد نہ ہوا بلکہ آئندہ جس وقت چاہے طلاق دے سکتی ہے مگر ایک ہی دے سکتی ہے زیادہ نہیں ۔ اور اگر یہ کہا کہ جب کبھی تو چاہے تو تین طلاقیں بھی دے سکتی ہے مگر دو ایک ساتھ یا تینوں ایک ساتھ نہیں دے سکتی بلکہ متفرق طور پر اگر چہ ایک ہی مجلس میں تین بار میں تین طلاقیں دیں اور اس لفظ میں اگر دو یا تین اکھٹا دیں تو ایک بھی نہ ہوئی۔ اور اگر عورت نے متفرق طور پر اپنے کو تین طلاقیں دیکر دوسرے سے نکاح کیا اس کے بعد پھر شوہر اول سے نکاح کیا تو اب عورت کو طلاق دینے کا اختیار نہ رہا۔اور اگر خود طلاق نہ دی یا ایک یا دودے کر بعد عدت دوسرے سے نکاح کیا پھر شوہر اول کے نکاح میں آئی تو اب پھر اسے تین طلاقیں متفرق طور پر دینے کا اختیار ہے ۔(درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۶۴: تو طالق ہے جس جگہ چاہے تو اسی مجلس تک اختیارہے بعد مجلس چاہا کرے کچھ نہیں ہو سکتا ۔(درمختار)
مسئلہ۶۵: اگر کہا جتنی تو چاہے یا جس قدر یا جو تو چاہے تو عورت کو اختیار ہے اس مجلس میں جتنی طلاقیں چاہے دے اگر چہ شوہر کی کچھ نیت ہو اور بعد مجلس کچھ اختیار نہیں ۔ اور اگر کہا تین میں سے جو چاہے یا جس قدر یا جتنی تو ایک اور دو کا اختیار ہے تین کا نہیں اور ان صورتوں میں تین یا دو طلاقیں دینا یا حالت حیض میں طلاق دینا بدعت نہیں ۔ (درمختار‘ردالمحتار)
مسئلہ۶۶: شوہر نے کسی شخص سے کہا میں نے تجھے اپنے تمام کاموں میں وکیل بنایا۔ وکیل نے اس کی عورت کو طلاق دے دی واقع نہ ہوئی اور اگر کہا تمام امور میں وکیل کیا جن میں وکیل بنانا جائز ہے تو تما م باتوں میں وکیل بن گیا(خانیہ) یعنی اس کی عورت کو طلاق بھی دے سکتا ہے ۔
مسئلہ۶۷: ایک طلاق دینے کے لئے وکیل کیا وکیل نے دو دیدیں تو واقع نہ ہوئی اور بائن کے لئے وکیل کیا وکیل نے رجعی دی تو بائن ہوگی اور رجعی کے لئے وکیل سے کہا اس نے بائن دی تو رجعی ہوئی۔ اور اگر ایسے کو وکیل کیا جو غائب ہے اور اسے ابھی تک وکالت کی خبر نہیں اور موکل کی عورت کو طلاق دیدی تو واقع نہ ہوئی کہ ابھی تک وکیل ہی نہیں ۔ اور اگر کسی سے کہا میں تجھے اپنی عورت کو طلاق دینے سے منع نہیں کرتا تو اس کہنے سے وکیل نہ ہوایا اس کے سامنے اسکی عورت کو کسی نے طلاق دی اور اس نے اسے منع نہ کیا جب بھی وکیل نہ ہوا۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۶۸: طلاق دینے کے لئے وکیل کیا اور وکیل کے طلاق دینے سے پہلے خود موکل نے عورت کو طلاق بائن یا رجعی دے دی تو جب تک عورت عدت میں ہے وکیل طلاق دے سکتا ہے ۔اور اگر وکیل نے طلاق نہیں دی اور موکل نے خود طلاق دیکر عدت کے اندر اس عورت سے نکاح کر لیا تو وکیل اب بھی طلاق دے سکتا ہے اور عدت گزر نے کے بعد اگر نکاح کیا تو نہیں ۔ اور اگر میاں بی بی میں کوئی معاذاللہ مرتد ہو گیا جب بھی عدت کے اندر وکیل طلاق دے سکتا ہے ہاں اگر مرتدہو کر دارالحرب کو چلا گیا اور قاضی نے حکم بھی دیدیا تو اب وکالت باطل ہوگئی یونہی اگر وکیل معاذاللہ مرتد ہو جائے تو وکالت باطل نہ ہوگی ہاں اگر دارالحرب کو چلاگیا اور قاضی نے حکم بھی دیدیا تو باطل ۔(خانیہ)
مسئلہ۶۹: طلاق کے وکیل کو یہ اختیار نہیں کہ دوسرے کو وکیل بنادے ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۷۰: کسی کو وکیل بنایا اور وکیل نے منظور نہ کیا تو وکیل نہ ہوااور اگر چپ رہا پھر طلاق دیدی ہوگئی۔سمجھ دار بچہ اور غلام کو بھی وکیل بنا سکتا ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ۷۱: وکیل سے کہا تو میری عورت کو کل طلاق دیدینااس نے آج ہی کہہ دیا تجھ پر کل طلاق ہے تو واقع نہ ہوئی۔ یونہی اگر وکیل سے کہا طلاق دے دے اس نے طلاق کو کسی شرط پر معلق کیا مثلاً کہا اگر تو گھر میں جائے تو تجھ پر طلاق ہے اور عورت گھر میں گئی طلاق نہ ہوئی ۔یونہی وکیل سے تین طلاق کے لئے کہا وکیل نے ہزار طلاقیں دیدی یا آدھی کے لئے کہا وکیل نے ایک طلاق دی تو واقع نہ ہوئی ۔( بحرالرائق)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔