بہار شریعت

صلح کے متعلق مسائل

صلح کے متعلق مسائل

اللہ عزوجل فرماتا ہے:

لا خیر فی کثیرٍمن نجوھم الا من امر بصدقۃٍ اومعروفٍ او اصلاحٍ بین الناس

متعلقہ مضامین

(ان کی بہتیری سرگوشیوں میں بھلائی نہیں ہے مگر اس کی سرگوشی میں جوصدقہ یا اچھی بات یا لوگوں کے مابین صلح کا حکم کرے)

اور فرماتا ہے:

ٍ وان امرأۃٌ خافت من بعلھا نشوزًا او اعراضًا فلا جناح علیھما ان یصلحا بینھما صلحًا والصلح خیرٌ

(اگر کسی عورت کو اپنے خاوند سے بد خلقی اور بے توجہی کا اندیشہ ہو تو ان دونوں پر یہ گناہ نہیں کہ آپس میں صلح کرلیں اور صلح اچھی چیز ہے)

اور فرماتا ہے؛

وان طائفتن من المؤمنین اقتتلوا فاصلحوا بینھما فان م بغت احدھما علی الاخری فقاتلوا التی تبغی حتی تفیٔ الی امر اللہ فان فائ ت فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین ہ انما المؤمنون اخوۃٌ فاصلحوا بین اخویکم واتقوا للہ لعلکم ترحمون ہ

(اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ لڑ جائیں تو ان میں صلح کرا دو پھر اگر ایک گروہ دوسرے پر بغاوت کرے تو اس بغاوت کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے پھر جب وہ لوٹ آیا تو دونوں میں عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو بیشک انصاف کرنے والوں کو اللہ دوست رکھتا ہے۔ مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرائو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے)

حدیث ۱ : صحیح بخاری شریف میں سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں کہ بنی عمر بن عوف کے مابین کچھ مناقشہ تھا نبی کریم ﷺ چند اصحاب کے ساتھ ان میں صلح کرانے کے لئے تشریف لے گئے تھے نماز کا وقت آگیا اور حضور تشریف نہیں لائے حضرت بلال نے اذان کہی اور اب بھی تشریف نہیں لائے حضرت بلال نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس آکر یہ کہا حضور وہاں رک گئے اور نماز تیار ہے کیا آپ امامت کریں گے فرمایا اگر تم کہو تو پڑھا دوں گا حضرت بلال نے اقامت کہی اور حضرت ابوبکر آگے آگئے کچھ دیر بعد حضورتشریف لائے اور صفوں سے گزر کر صف اول میں تشریف لے جا کر قیام فرمایا لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا حضرت ابوبکر ادہر متوجہ ہوں مگر وہ جب نماز میں کھڑے ہوتے تو کسی طرف متوجہ نہ ہوتے مگر

جب لوگوں نے بکثرت ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا حضرت ابوبکر نے ادہر توجہ کی دیکھا کہ حضور ان کے پیچھے تشریف فرما ہیں حضور کے لئے آگے تشریف لے جانے کا اشارہ کیا حضور نے فرمایا کہ تم نماز جیسے پڑھا رہے ہو پڑھائو حضرت ابوبکر نے ہاتھ اٹھا کر حمد کی اور الٹے پائوں چل کر صف میں شامل ہو گئے۔ حضور آگے بڑھے اور نماز پڑھائی نماز سے فارغ ہو کر لوگوں سے فرمایا اے لوگو نماز میں کوئی بات پیش آجائے تو تم نے ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا یہ کام عورتوں کے لئے ہے اگر کوئی چیز نماز میں کسی کو پیش آجائے تو سبحن اللہ سبحن اللہ کہے امام جب اس کو سنے تو متوجہ ہو جائے گا۔ اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ، اے ابوبکر جب میں نے اشارہ کر دیا تھا پھر تمہیں نماز پڑھانے سے کون سا امر مانع آیا عرض کی ابو قحافہ کے بیٹے (ابوبکر) کو یہ سزاوار نہیں کہ نبی ﷺ کے آگے نماز پڑھے (امام بنے)

حدیث ۲ : صحیح بخاری میں ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔

حدیث ۳ : بخاری شریف وغیرہ میں مروی حضور اقدس ﷺ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں میرا یہ بیٹا سردار ہے اللہ تعالی اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کرا دے گا۔

حدیث ۴ : صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی رسول اللہ ﷺ نے دروازہ پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی ان میں ایک دوسرے سے کچھ معاف کرانا چاہتا تھا اور اس سے آسانی کرنے کی خواہش کرتا تھا اور دوسرا کہتا تھا خدا کی قسم ایسا نہیں کروں گا۔ حضور باہر تشریف لائے فرمایا کہاں ہے وہ جو اللہ کی قسم کھاتا ہے کہ نیک کام نہیں کرے گا اس نے عرض کی میں حاضر ہوں یارسول اللہ وہ جو چاہے مجھے منظور ہے۔

حدیث ۵ : صحیح بخاری میں ہے کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ابن ابی حدود رضی اللہ تعالی عنہ پر میرا دین تھا میں نے تقاضا کیا اس میں دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں کہ حضور نے کاشانہ ٔ اقدس میں ان کی آوازیں سنیں ، تشریف لائے اور حجرہ کا پردہ ہٹا کر کعب بن مالک کو پکارا عرض کی لبیک یارسول اللہ حضور نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ آدھا دین معاف کر دو کعب نے کہا میں نے معاف کیا دوسرے صاحب سے فرمایا اب تم اٹھو اور ادا کر دو۔

حدیث ۶ : صحیح مسلم وغیرہ میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ، ایک شخص نے دوسرے سے زمین خریدی مشتری کو اس زمین میں ایک گھڑا ملا جس میں سونا تھا اس نے بائع سے کہا یہ سونا تم لے لو کیوں کہ میں نے زمین خریدی ہے سونا نہیں خریدا ہے بائع نے کہا میں نے زمین اور جو کچھ زمین میں تھا سب کو بیع کر دیا ان دونوں نے مقدمہ ایک شخص کے پاس پیش کیا اس حاکم نے دریافت کیا تم دونوں کی اولادیں ہیں ایک نے کہا میرے لڑکا ہے دوسرے نے کہا میری ایک لڑکی حاکم نے کہا ان دونوں کا نکاح آپس میں کر دو اور یہ سونا ان پر خرچ کر دو اور مہر میں دے دو۔

حدیث ۷ : ابودائود نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیں مسلمانوں کے مابین صلح جائز ہے مگر وہ صلح کہ حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔

مسئلہ ۱: نزاع دور کرنے کے لئے جو عقد کیا جائے اس کو صلح کہتے ہیں ۔ وہ حق جو باعث نزاع تھا اس کو مصالح عنہ اور جس پر صلح ہوئی اس کو بدل صلح اور مصالح علیہ کہتے ہیں ۔ صلح میں ایجاب ضروری ہے اور معین چیز میں قبول بھی ضروری ہے اور غیر معین میں قبول ضروری نہیں ۔ مثلاً مدعی نے معین چیز کا دعوی کیا مدعی علیہ نے کہا اتنے روپے پر اس معاملہ میں مجھ سے صلح کر لو مدعی نے کہا میں نے کی جب تک مدعی علیہ قبول نہ کرے صلح نہیں ہو گی۔ اور اگر روپے اشرفی کا دعوی ہے اور صلح کسی دوسری جنس پر ہوئی تو اس میں بھی قبول ضرور ہے کہ یہ صلح بیع کے حکم میں ہے اور بیع میں قبول ضروری ہے اور اسی جنس پر ہوئی مثلاً سو روپے کا دعوی تھا پچاس پر صلح ہوئی یہ جائز ہے اگرچہ مدعی علیہ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے قبول کیا یعنی پہلے مدعی علیہ نے صلح کو خود کہا کہ اتنے میں صلح کر لو اس کے بعد مدعی نے کہا کہ میں نے کی صلح ہو گئی اگرچہ مدعی علیہ نے قبول نہ کیا ہو کہ یہ اسقاط ہے یعنی اپنے حق کو چھوڑ دینا۔ (عالمگیری ، درمختار)

صلح کے لئے شرائط حسب ذیل ہیں ۔

(۱) عاقل ہونا ۔ بالغ اور آزاد ہونا شرط نہیں لہذا نابالغ کی صلح بھی جائز ہے جب کہ اس کی صلح میں کھلا ہوا ضرر نہ ہو۔ غلام ماذون اور مکاتب کی صلح بھی جائز ہے جب کہ اس میں نفع ہو۔ نشہ والے کی صلح بھی جائزہے۔

(۲) مصالح علیہ کے قبضہ کرنے کی ضرورت ہو تو اس کا معلوم ہونا مثلاً اتنے روپے پر صلح ہوئی یا مدعی علیہ فلاں چیز مدعی کو دیدے گا اور اگر اس کے قبضہ کی ضرورت نہ ہو تو معلوم ہونا شرط نہیں مثلاً ایک شخص نے دوسرے کے مکان میں ایک حق کا دعوی کیا تھا کہ میرا اس میں کچھ حصہ ہے دوسرے نے اس کی زمین کے متعلق دعوی کیا کہ میرا اس میں کچھ حق ہے اور صلح یوں ہوئی کہ دونوں اپنے اپنے دعوے سے دست بردار ہو جائیں ۔

(۳) مصالح عنہ کا عوض لینا جائز ہو یعنی مصالح عنہ مصالح کا حق ہو اپنے محل میں ثابت ہو عام ازیں کہ مصالح عنہ مال ہو یا غیر مال مثلاً قصاص و تعزیر جب کہ تعزیر حق العبد کی وجہ سے ہو اور اگر حق اللہ کی وجہ سے ہو تو اس کا عوض لینا جائز نہیں مثلاً کسی اجنبیہ کا بوسہ لیا اور کچھ دے کر صلح کر لی یہ جائز نہیں ۔ اور اگر مصالح عنہ کے عوض میں کچھ لینا جائز نہ ہو تو صلح جائز نہیں مثلاً حق شفعہ کے بدلے میں شفیع کا کچھ لے کر صلح کر لینا یا کسی نے زنا کی تہمت لگائی تھی اور کچھ مال لے کر صلح ہو گئی یا زانی اور چور یا شراب خوار کو پکڑا تھا اس نے کہا مجھے حاکم کے پاس پیش نہ کرو اور کچھ لے کر چھوڑ دیا یہ ناجائز ہے۔ کفالت بالنفس میں مکفول عنہ نے کفیل سے مال

لے کر صلح کر لی۔ یہ صلحیں تو ناجائز ہی ہیں اس صلح سے شفعہ بھی باطل ہو جائے گا اور کفالت بھی جاتی رہی اسی طرح حد قذف بھی اگر قاضی کے یہاں پیش کرنے سے پہلے صلح ہو گئی۔ حد زنا اور حد شرب خمر میں بھی صلح اگرچہ ناجائز ہے مگر صلح کی وجہ سے حد باطل نہیں ہوتی۔ چور نے مکان سے مال نکال لیا اس نے پکڑا چور نے کسی اپنے مال کے عوض میں مصالحت کی یہ صلح ناجائز ہے مال دینا چور پر واجب نہیں اور چوری کا مال چور نے وا پس دیدیا ہے تو مقدمہ بھی نہیں چل سکتا اور اگر چور کو قاضی کے پاس پیش کرنے کے بعد مصالحت کی اور اسے معاف کر دیا تو معافی صحیح نہیں اور اگر اس کو مال ہبہ کر دیا تو حد سرقہ یعنی ہاتھ کاٹنا اب نہیں ہو سکتا۔ گواہ سے مصالحت کر لی کہ گواہی نہ دے یہ صلح باطل ہے۔ (درمختاروغیرہ)

(۴) نابالغ کی طرف سے کسی نے صلح کی تو اس صلح میں نابالغ کا کھلا ہوا نقصان نہ ہو مثلاً نابالغ پر دعوی تھا اس کے باپ نے صلح کی اگر مدعی کے پاس گواہ تھے اور اتنے ہی پر مصالحت ہوئی جتنا حق تھا یا کچھ زیادہ پر تو صلح جائز ہے اور غبن فاحش پر صلح ہوئی یا مدعی کے پاس گواہ نہ تھے تو صلح ناجائز ہے اور اگر باپ نے اپنا مال دے کر صلح کی ہے تو بہرحال جائز ہے کہ اس میں نابالغ کا کچھ نقصان نہیں ۔

(۵) نابالغ کی طرف سے صلح کرنے والا وہ شخص ہو جو اس کے مال میں تصرف کر سکتا ہو مثلاً باپ دادا وصی۔ (۶) بدل صلح مال متقوم ہو اگر مسلمان نے شراب کے بدلے میں صلح کی یہ صلح صحیح نہیں ۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۲: بدل صلح کبھی مال ہوتا ہے اور کبھی منفعت مثلاً مدعی علیہ نے اس پر صلح کی کہ میرا غلام مدعی کی سال بھر خدمت کرے گا وہ میری زمین میں ایک سال کاشت کرے گا یا میرے مکان میں اتنے دنوں رہے گا۔ (درر ، غرر)

مسئلہ ۳: صلح کا حکم یہ ہے کہ مدعی علیہ دعوی سے بری ہو جائے گا اور مصالح علیہ مدعی کی ملک ہو جائے گا چاہے مدعی علیہ حق مدعی سے منکر ہو یا اقراری ہو اور مصالح عنہ ملک مدعی علیہ ہو جائے گا اگر مدعی علیہ اقراری تھابشرطیکہ وہ قابل تملیک بھی ہو یعنی مال ہو اور اگر وہ قابل ملک ہی نہ ہو مثلاً قصاص یا مدعی علیہ اس امر سے انکاری تھا کہ یہ حق مدعی ہے تو ان دونوں صورتوں میں مدعی علیہ کے حق میں فقط دعوے سے برأت ہو گی۔ (درمختار)

مسئلہ ۴: صلح کی تین صورتیں ہیں کبھی یوں ہوتی ہے کہ مدعی علیہ حق مدعی کا مقر ہوتا ہے اور کبھی یوں کہ منکر تھا اور کبھی یوں کہ اس نے سکوت کیا تھا اقرار انکار کچھ نہیں کیا تھا۔ پہلی قسم یعنی اقرار کے بعد صلح اس کی چند صورتیں ہیں اگر مال کا دعوی تھا اور مال پر صلح ہوئی تو یہ صلح بیع کے حکم میں ہے۔ اس صلح پر بیع کے تمام احکام جاری ہوں گے مثلاً مکان وغیرہ جائداد غیر منقولہ پر صلح ہوئی یعنی مدعی علیہ نے یہ چیزیں دے دیں تو اس میں شفیع کو شفعہ کرنے کا حق حاصل ہو گا اور اگر بدل صلح میں کوئی عیب ہو تو واپس کرنے کا حق ہے خیار رویٔت

بھی ہے خیار شرط بھی ہو سکتا ہے اور مصالح علیہ یعنی بدل صلح مجہول ہے تو صلح فاسد ہے مصالح عنہ کا مجہول ہونا صلح کو فاسد نہیں کرتا کیونکہ اس کو ساقط کرتا ہے اسکی جہالت سبب نزاع نہیں ہو سکتی بدل صلح کی تسلیم پر قدرت بھی شرط ہے۔ مصالح عنہ یعنی جس کا دعوی تھا اگر اس میں کسی نے اپنا حق ثابت کر دیا تو مدعی کو بدل صلح اس کے عوض میں پھیرنا ہو گا کل کا استحقاق ہوا کل پھیرنا ہو گا اور بعض کاہوا بعض پھیرنا ہو گا اور بدل صلح میں استحقاق ہو جائے تو اس کے مقابل میں مدعی مصالح عنہ سے لے گا یعنی کل میں استحقاق ہوا تو کل لے گا اور بعض میں ہوا تو بعض یعنی بقدر حصہ۔ (متون)

مسئلہ ۵: جو صلح بیع کے حکم میں ہے اس میں دو باتوں میں بیع کا حکم نہیں ہے۔ (۱) دین کا دعوی کیا اور مدعی علیہ اقراری تھا ایک غلام دے کر مصالحت ہوئی اور مدعی نے اس پر قبضہ کر لیا اس غلام کا مرابحہ و تولیہ اگر کرنا چاہے گا تو بیان کرنا ہو گا کہ مصالحت میں یہ غلام ہاتھ آیا ہے بغیر بیان جائز نہیں ۔ (۲) صلح کے بعد دونوں بالاتفاق یہ کہتے ہیں کہ دین تھا ہی نہیں صلح باطل ہو جائے گی۔ جس طرح حق وصول پانے کے بعد بالاتفاق یہ کہتے ہیں کہ دین تھا ہی نہیں جو کچھ لیا ہے دے دینا ہو گا اور اگر دین کے بدلے میں کوئی چیز خریدی پھر دونوں یہ کہتے ہیں کہ دین نہیں تھا تو خریداری باطل نہیں اور اگرہزار کا دعوی تھا اور دوسری چیز مثلاً غلام لے کر صلح کی پھر دونوں کہتے ہیں کہ دین نہیں تھا تو مدعی کو اختیار ہے کہ غلام کو واپس کرے یا ہزار روپے دے۔ (عالمگیری ، بحرالرائق)

مسئلہ ۶: بیع کے حکم میں اس وقت ہے جب خلاف جنس پر مصالحت ہوئی مثلاً دعوی تھا روپے کا اور صلح ہوئی اشرفی یا کسی اور چیز پر اور اگر اسی جنس پر مصالحت ہوئی جس کا دعوی تھا یعنی روپے کا دعوی تھا اور روپے ہی پر مصالحت ہوئی اور کم پر ہوئی یعنی سو کا دعوی تھا پچاس پر صلح ہوئی تو یہ ابرا ہے یعنی معاف کر دینا اور اگر اتنے پر ہی صلح ہوئی جتنے کا دعوی تھا تو استیفا ہے یعنی اپنا حق وصول پا لیا اور اگر زیادہ پر صلح ہوئی تو ربا یعنی سود ہے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۷: مال کا دعوی تھا اور روپے پر صلح ہوئی اور اسکی میعادیہ قرار پائی کہ کھیت کٹے گا یہ روپیہ دیا جائے گا یعنی مدت مجہول ہے یہ صلح جائز نہیں کہ بیع میں مدت مجہول ہونا ناجائز ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۸: مال کا دعوی تھا اور منفعت پر مصالحت ہوئی یہ صلح اجارہ کے حکم میں ہے اور اس میں اجارہ کے احکام جاری ہوں گے اگر منفعت کی تعیین وقت سے ہوتی ہو تووقت بیان کرنا ضروری ہو گا مثلاً اس پر صلح ہوئی کہ مدعی علیہ کا غلام مدعی کی خدمت کرے گا یا مدعی علیہ کے مکان میں سکونت کرے گا ایسی چیزوں میں وقت بیان کرنا ضرور ہو گا کیونکہ بغیر اس کے اجارہ صحیح نہیں اور اگر کوئی عمل معقود علیہ ہے تو وقت بیان کرنے کی ضرورت نہیں مثلاً اس پر صلح ہوئی کہ مدعی علیہ مدعی کا یہ کپڑا رنگ دے گا۔ اور چونکہ یہ اجارہ کے حکم میں ہے لہذا اندرون مدت اگر دونوں میں سے کوئی مر گیا صلح باطل ہو جائے گی۔ یونہی اندرون مدت محل ہلاک ہو جائے جب بھی صلح باطل ہے مثلاً وہ غلام مر گیا جس کی خدمت بدل صلح تھی۔ (درمختاروغیرہ)

مسئلہ ۹: دعوی منفعت کا تھا اور صلح مال پر ہوئی مثلاً یہ دعوی تھا کہ میرے مکان کا پانی اس کے مکان سے ہو کر جاتا ہے یا میری چھت کا پانی اس کی چھت پر سے بہتا ہے اس نہر سے میرے کھیت کی آبپاشی ہوتی ہے اور مال لے کر صلح کر لی یا ایک قسم کی منفعت کا دعوی تھا دوسری قسم کی منفعت پر مصالحت ہوئی مثلاً دعوی تھا کہ یہ مکان میرے کرایہ میں ہے اتنے دنوں کے لئے اور صلح اس پر ہوئی کہ اتنے دن مدعی علیہ کا غلام مدعی کی خدمت کرے گا یہ دونوں صورتیں بھی اجارہ کے حکم میں ہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۰: انکار و سکوت کے بعد جو صلح ہوتی ہے وہ مدعی کے حق میں معاوضہ ہے یعنی جس چیز کا دعوی تھا اس کا عوض پا لیا اور مدعی علیہ کے حق میں یہ بدل صلح یمین اور قسم کا فدیہ ہے یعنی اس کے ذمہ جو یمین تھی اس کے فدیہ میں مال دے دیا اور قطع نزاع ہے یعنی جھگڑے اور مقدمہ بازی کی مصیبتوں میں کون پڑے یہ مال دے کر جھگڑا کاٹنا ہے لہذا ان دونوں صورتوں میں اگر مکان کا دعوی تھا اور مدعی علیہ منکر یا ساکت تھا اور کوئی چیز دے کر مصالحت کی اس مدعی علیہ پر شفعہ نہیں ہو سکتا کہ یہ صلح بیع کے حکم میں نہیں ہے بلکہ مدعی علیہ کا خیال تو یہ ہے کہ یہ میرا ہی مکان تھا میں نے اس کو صلح کے ذریعہ سے اپنے پاس سے جانے نہ دیا اور مدعی کی خصومت کومال کے ذریعہ سے دفع کر دیا پھر اس نے جب مکان خریدا نہیں ہے تو شفعہ کیسا اور مدعی کا یہ خیال کہ مکان میرا تھا مال لے کر دے دیا اس خیال کی پابندی مدعی علیہ کے ذمہ نہیں ہے تاکہ شفعہ کیا جا سکے۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۱: مکان پر صلح ہوئی یعنی مدعی نے کسی چیز کا دعوی کیا اور مدعی علیہ نے انکار یا سکوت کے بعد اپنا مکان دے کر پیچھا چھوڑایا اس سے صلح کر لی اس مکان پر شفعہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس صورت میں مکان مدعی کو ملتا ہے اور اس کا گمان یہ ہے کہ میں اس کو اپنے حق کے عوض میں لیتا ہوں لہذا اس کے لحاظ سے یہ صلح بیع کے معنی میں ہے تو اس پر شفعہ بھی ہو گا۔ (بحر)

مسئلہ۱۲: انکار یا سکوت کے بعد جو صلح ہوتی ہے اگر واقع میں مدعی کا غلط دعوی تھا جس کا مدعی کو بھی علم تھا تو صلح میں جو چیز ملی ہے اس کا لینا جائز نہیں اور اگر مدعی علیہ جھوٹا ہے تو اس صلح سے وہ حق مدعی سے بری نہیں ہو گا یعنی صلح کے بعد قضائً تو کچھ نہیں ہو سکتا دنیا کا موأخذہ ختم ہو گیا مگرآخرت کا موأخذہ باقی ہے مدعی کے حق ادا کرنے میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا موأخذہ ہے مگر جب کہ مدعی خود مابقی سے معایف دیدے۔ (بحر) لہذا صلح ہونے کے بعد اگر حقوق سے ابرا و معافی ہو جائے تو موأخذہ اخروی سے بھی نجات ہو جائے عین کے علاوہ کیونکہ عین کا ابرا درست نہیں ۔

مسئلہ۱۳: جس چیز کا دعوی تھا بعد صلح کے اس کا کوئی حق دار پیدا ہو گیا تو مدعی کو اس مستحق سے خصومت اور مقدمہ بازی کرنی ہو گی اور مستحق نے حق ثابت کر ہی دیا تو اس کے عوض میں مدعی کو بدل صلح واپس کرنا ہو گا اور اگر بدل

صلح میں کوئی دوسرا شخص حقدار نکلا اور اس نے کل یا جز لے لیا تو مدعی پھر دعوے کی طرف رجوع کرے گا کل میں کل کا دعوی بعض میں بعض کا دعوی کر سکتا ہے ہاں اگر غیر متعین چیز یعنی روپے اشرفی کا دعوی تھا اور اسی پر مصالحت ہوئی یعنی جس چیز کا دعوی تھا اسی جنس پر مصالحت ہوئی اور حقدار نے اپنا حق ثابت کر کے لے لیا تو صلح باطل نہیں ہو گی بلکہ مستحق نے جتنا لیا اتنا ہی یہ مدعی علیہ سے لے مثلاً ہزار کا دعوی تھا اور سو روپے میں صلح ہوئی مستحق نے کہا یہ روپے میرے ہیں تو مدعی دوسرے سو روپے مدعی علیہ سے لے سکتا ہے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ۱۴: انکار یا سکوت کے بعد صلح ہوئی اور اس صلح میں لفظ بیع استعمال کیا مدعی علیہ نے کہا اتنے میں یا اس کے عوض بیع کی یا خریدی اور بدل صلح کا کوئی حقدار پیدا ہو گیا اور لے گیا تو مدعی مدعی علیہ سے وہ چیز لے گا جس کا دعوی تھا یہ نہیں کہ پھر دعوے کی طرف رجوع کرے کیونکہ مدعی علیہ کا بیع کرنا مدعی کی ملک تسلیم کر لینا ہے لہذا اس صورت میں انکار یا سکوت نہیں ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۱۵: بدل صلح ابھی تک مدعی کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے اور ہلاک ہو گیا اس کا حکم وہی ہے جو استحقاق کا ہے خواہ وہ صلح اقرار کے بعد ہو یا انکار و سکوت کے بعد دونوں صورتوں میں فرق نہیں ۔ یہ اس صورت میں ہے کہ بدل صلح معین ہونے والی چیز ہو اور اگر غیر معین چیز ہو تو ہلاک ہونے سے صلح پر کچھ اثر نہیں پڑے گا مدعی علیہ سے اتنا لے سکتا ہے جو مقرر ہوا۔ (درمختار ، بحر)

مسئلہ۱۶: یہ دعوی تھا کہ اس مکان میں میرا حق ہے کسی چیز کو دے کر صلح ہو گئی پھر اس مکان کے کسی جز میں استحقاق ہوا اگرچہ مستحق کا یہ دعوی ہے کہ ایک ہاتھ کے سوا باقی یہ سارا مکان میرا ہے اور مستحق نے لے لیا مدعی علیہ سے کچھ واپس نہیں لے سکتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک ہاتھ جو بچا ہے وہی مدعی کا ہوا ور اگر مستحق نے پورے مکان کو اپنا ثابت کیا تو جو کچھ مدعی کو دیا گیا ہے واپس لیا جائے گا۔ (ہدایہ)

مسئلہ۱۷: جس عین کا دعوی تھا اسی کے ایک جز پر مصالحت ہوئی مثلاً مکان کا دعوی تھا اسی مکان کا ایک کمرہ یا کوٹھری دے کر صلح کی گئی یہ صلح جائز نہیں کیونکہ مدعی نے جو کچھ لیا یہ تو خود مدعی کا تھا ہی اور مکان کے باقی اجزا ء و حصص کا ابرا کر دیا اور عین میں ابرا درست نہیں ہاں اس کے جواز کی صورت یہ بن سکتی ہے کہ مدعی کو علاوہ اس جز و مکان کے ایک روپیہ یا کپڑا یا کوئی چیز بدل صلح میں اضافہ کی جائے کہ یہ چیز بقیہ حصص مکان کے عوض میں ہو جائے گی دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک جز پر صلح ہوئی اور باقی اجزا کے دعوے سے دست برداری دے دے۔ (بحر ، درمختار)

مسئلہ۱۸: مکان کا دعوی تھا اور اس بات پر صلح ہوئی کہ مدعی اس کے ایک کمرہ میں ہمیشہ یا عمر بھر سکونت کرے گا یہ صلح بھی صحیح نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ۱۹: دین کا دعوی تھا اور اس کے ایک جز پر مصالحت ہوئی مثلاً ہزار کا دعوی تھا پانچ سو پر صلح ہو گئی یا عین کا دعوی ہو اور دوسری عین کے جز پر صلح ہوئی مثلاً ایک مکان کا دعوی تھا دوسرے مکان کے ایک کمرہ کے عوض میں مصالحت ہوئی یہ صلح جائز ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۲۰: مال کے دعوے میں مطلقاً صلح جائز ہے چاہے مال پر صلح ہو یا منفعت پر ہو اقرار کے بعد یا انکار و سکوت کے بعد کیونکہ یہ صلح بیع یا اجارہ کے معنی میں ہے اور جہاں وہ جائز یہ بھی جائز۔ دعوی منفعت میں بھی صلح مطلقاً جائز ہے مال کے بدلے میں بھی ہو سکتی ہے اور منفعت کے بدلہ میں بھی مگر منفعت کو اگر بدل صلح قرار دیں تو ضرور ہے کہ دونوں منفعتیں دو طرح کی ہوں ایک ہی جنس کی نہ ہوں مثلاً مکان کرایہ پر لیا اور صلح خدمت غلام پر ہوئی یہ جائز ہے اور اگر ایک ہی جنس کی ہوں مثلاً مکان کی سکونت کا دعوی تھا اور سکونت مکان ہی کو بدل صلح قرار دیا یہ جائز نہیں مثلاً وارث پر دعوی کیا کہ تیرے مورث نے اس مکان کی سکونت کی میرے لئے وصیت کی ہے وارث نے اقرار کیا یا انکار پھر مال پر صلح ہو یا دوسری جنس کی منفعت پر صلح ہو جائز ہے۔ (درر ، غرر)

مسئلہ۲۱: ایک مجہول الحال شخص پر دعوی کیا کہ یہ میرا غلام ہے اس نے مال دے کر مصالحت کی یہ صلح جائز ہے اور اس کو مال کے عوض میں عتق قرار دیں گے۔ پھر اگر اقرار کے بعد صلح ہوئی تو مدعی کو ولا ملے گا ورنہ نہیں ہاں اگر بینہ سے اس کا غلام ہونا ثابت کر دے تو اگرچہ مدعی علیہ منکر ہے مدعی کو ولا ملے گا بینہ سے ثابت کرنے کی وجہ سے وہ غلام نہیں بنایا جا سکتا یہی حکم سب جگہ ہے یعنی صلح کے بعد اگر گواہوں سے اپنا حق ثابت کرے اور یہ چاہے کہ میں اس چیز کو لے لوں یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ چیز اگر اس کی ہے تومعاوضہ اس چیز کا لے چکا پھر مطالبہ کے کیا معنی۔ (درر ، درمختار)

مسئلہ۲۲: مرد نے ایک عورت پر جو شوہر والی نہیں ہے نکاح کا دعوی کیا عورت نے مال دے کر صلح کی یہ صلح خلع کے حکم میں ہے مگر مرد نے اگر جھوٹا دعوی کیا تھا تو اس مال کو لینا حلال نہیں اور عورت کو اسی وقت دوسرا نکاح کرنا جائز ہے یعنی اس پر عدت نہیں ہے کیونکہ دخول پایا نہیں گیا اور اگر عورت نے مرد پر نکاح کا دعوی کیا اور مرد نے مال دے کر صلح کی یہ صلح ناجائز ہے کیونکہ اس صلح کو کسی عقد کے تحت میں داخل نہیں کر سکتے۔ (درر)

مسئلہ۲۳: غلام ماذون نے کسی کو عمداً قتل کیا تھا اور ولی مقتول سے خود غلام نے صلح کی یعنی قصاص نہ لو اس کے عوض میں یہ مال لو یہ صلح جائز نہیں مگر اس صلح کا یہ اثر ہو گا کہ قصاص ساقط ہو جائے گا اور غلام جب آزاد ہو گا اس وقت بدل صلح وصول کیا جائے گا اور ماذون کے غلام نے اگرکسی کو قتل کیا تھا اس ماذون نے مال پر صلح کی یہ صلح جائز ہے کیونکہ یہ اس کی تجارت کی چیز ہے اور خود تجارت کی چیز نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ۲۴: مال مغصوب ہلاک ہو گیا مالک نے غاصب سے مصالحت کی اس کی چند صورتیں ہیں اگر مغصوب مثلی ہے اور جس چیز پر مصالحت ہوئی وہ اسی جنس کی ہے تو زیادہ پر صلح جائز نہیں اور اگر دوسری جنس کی چیز پر صلح ہوئی تو

جائز ہے اور اگر وہ چیز قیمی ہے اور جتنی قیمت اس کی ہے اس سے زیادہ پر صلح ہوئی یہ بھی جائز ہے یعنی کم و برابر تو جائز ہی ہے زیادہ پر بھی جائز ہے اور اگر کسی متاع پر صلح ہو یہ بھی جائز ہے مثلاً ایک غلام غصب کیا جس کی قیمت ایک ہزار تھی اور ہلاک ہو گیا دو ہزار روپے پر مصالحت کی یا کپڑے کے تھان پر صلح ہوئی جائز ہے اور اگر غاصب نے خود ہلاک کیا ہے جب بھی یہی حکم ہے۔ اور اگر اس کے متعلق قاضی کا حکم مثلاً ایک ہزار ضمان کا ہو چکا یا اتنا ہی کہ قیمت تاوان میں دے تو زیادہ پر صلح نہیں ہو سکتی۔ (درمختار)

مسئلہ۲۵: صورت مذکورہ میں کہ قیمت سے زیادہ پر یا متاع پر صلح ہوئی غاصب گواہ پیش کرنا چاہتا ہے کہ اس مغصوب کی قیمت اس سے کم ہے جس پر صلح ہوئی ہے یہ گواہ مقبول نہ ہوں گے اور اگر دونوں متفق ہو کر بھی یہ کہیں کہ قیمت کم تھی جب بھی غاصب مالک سے کچھ واپس نہیں لے سکتا۔ (بحر)

مسئلہ۲۶: غلام مشترک کو ایک شریک نے آزاد کر دیا اور یہ آزاد کرنے والا مالدار ہے تو حکم یہ ہے کہ نصف قیمت دوسرے کو ضمان دے اب اس صورت میں اگر نصف قیمت سے زیادہ پر صلح ہوئی یہ جائز نہیں کہ شرع نے جب نصف قیمت مقررکر دی ہے تو اس پر زیادتی نہیں ہو سکتی جس طرح مغصوب کی قیمت کا تاوان قاضی نے مقرر کر دیا تو اب زیادہ پر صلح نہیں ہو سکتی کہ قاضی کا مقرر کرنا بھی شرع کا مقرر کرنا ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۲۷: مغصوب چیز کو غاصب کے سوا کسی دوسرے نے ہلاک کر دیا اورمالک نے غاصب سے قیمت سے کم پر صلح کر لی یہ جائز ہے اور غاصب اس ہلاک کنندہ سے پوری قیمت وصول کر سکتا ہے۔ مگر جتنا زیادہ لیا ہے اس کو صدقہ کر دے اور مالک کو یہ بھی اختیار ہے کہ ہلاک کنندہ ہی سے قیمت سے کم پر صلح کر لے ۔ (بحر)

مسئلہ۲۸: جنایت عمد جس میں قصاص واجب ہوتا ہے خواہ وہ قتل ہو یا اس سے کم مثلاً قطع عضو اس میں اگر دیت سے زیادہ پر صلح ہوئی یہ جائز ہے اور جنایت خطا میں دیت سے زیادہ پر صلح ناجائز ہے کہ اس میں شرع کی طرف سے دیت مقرر ہے اس پر زیادتی نہیں ہو سکتی ہاں دیت میں جو چیزیں مقرر ہیں ان کے علاوہ دوسری جنس پر صلح ہو اور یہ چیز قیمت میں زیادہ ہو تو یہ صلح جائز ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۲۹: مدعی علیہ نے کسی کو صلح کے لئے وکیل کیا اس وکیل نے صلح کی اگر دعوی دین کا تھا اور دین کے بعض حصہ پر صلح ہوئی یا خون عمد کا دعوی تھا اور صلح ہوئی اس صورت میں یہ وکیل سفیر محض ہے مدعی اس سے بدل صلح کا مطالبہ نہیں کر سکتا بلکہ وہ بدل صلح مؤکل پر لازم ہے اسی سے مطالبہ ہو گا ہاں اگر وکیل نے بدل صلح کی ضمانت کر لی تو وکیل سے اس ضمانت کی وجہ سے مطالبہ ہو گا۔ یونہی مال کا دعوی تھا اور مال پر صلح ہوئی اور مدعی علیہ اقراری تھا تو وکیل سے مطالبہ ہو گا کہ یہ صلح بیع کے حکم میں ہے اور بیع کا وکیل سفیر محض نہیں ہوگا بلکہ حقوق اسی کے طرف عائد ہوتے ہیں اور اگر مدعی علیہ منکر ہو تو وکیل سے مطلقاً مطالبہ نہیں مال پر صلح ہو یا کسی اور چیز پر۔ (درمختار)

مسئلہ۳۰: مدعی علیہ نے اس سے صلح کے لئے نہیں کہا اس نے خود صلح کر لی یعنی فضولی ہو کر اگر مال کا ضامن ہو گیا یا صلح کو اپنے مال کی طرف نسبت کی یا کہہ دیا اس چیز پر یا کہا اتنے پر مثلاً ہزار روپے پر صلح کرتا ہوں اور دے دیئے تو صلح جائز ہے اور یہ فضولی ان صورتوں میں متبرع ہے مدعی علیہ سے واپس نہیں لے سکتا اور اگر اسکے حکم سے مصالحت کرتا تو واپس لیتا اور اگر فضولی نے کہہ دیا کہ اتنے پر صلح کرتا ہوں اور دیا نہیں تویہ صلح اجازت مدعی علیہ پر موقوف ہے وہ جائز کر دے گا جائز ہو جائے گی اور مال لازم آجائے گا ورنہ جائز نہیں ہو گی۔ فضولی نے خلع کیا اس میں بھی یہی پانچ صورتیں ہیں اور یہی احکام۔ (درمختار)

مسئلہ۳۱: ایک زمین کے وقف کادعوی کیا مدعی علیہ منکر ہے اور مدعی کے پاس ثبوت کے گواہ نہیں مدعی علیہ نے کچھ دے کر قطع منازعت کے لئے مصالحت کر لی یہ صلح جائز ہے اور اگر مدعی اپنے دعوی میں صادق ہے تو بدل صلح بھی اس کے لئے حلال ہے اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ حلال نہیں ۔ (درمختار) اور یہی قول من حیث الدلیل قوی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ صلح بیع کے حکم میں ہے اور وقف کی بیع درست نہیں بلکہ یہ صلح صحیح بھی نہ ہوناچاہیئے کیونکہ وقف اس کا حق نہیں جس کا معاوضہ لینا درست ہو۔

مسئلہ۳۲: صلح کے بعد پھر دوسری صلح ہوئی وہ پہلی ہی صحیح ہے اور دوسری باطل یہ جب کہ وہ صلح اسقاط ہو اور اگر معاوضہ ہو جو بیع کے معنی میں ہو تو پہلی صلح فسخ ہو گئی اور دوسری صحیح جس طرح بیع کا حکم ہے جب کہ بائع نے مبیع کو اسی مشتری کے ہاتھ بیع کیا۔ (درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ۳۳: مدعی علیہ نے دعوی سے انکار کر دیا تھا اس کے بعد صلح ہوئی اب وہ گواہ پیش کرتا ہے کہ مدعی نے صلح سے پہلے یہ کہا تھا کہ میرا اس مدعی علیہ پر کوئی حق نہیں ہے وہ صلح بدستور قائم رہے گی اور اگر مدعی نے صلح کے بعد یہ کہا کہ میرا اس کے ذمہ کوئی حق نہ تھا تو صلح باطل ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۳۴: امین کے پاس امانت تھی جب تک اس کے ہلاک کا دعوی نہ کرے صلح نہیں ہو سکتی۔ اور ہلاک کا دعوی کرنے کے بعد مصالحت ہو سکتی ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۳۵: امین نے امانت ہی سے انکار کیا کہتا ہے میرے پاس امانت رکھی نہیں اور مالک امانت رکھنے کا مدعی ہے صلح ہو سکتی ہے۔ امین امانت کا اقرار کرتا ہے اور مالک مطالبہ کرتا ہے مگر امین خاموش ہے مالک کہتا ہے اس نے میری چیز ہلاک کر دی صلح ہو سکتی ہے اور اگر مالک ہلاک کرنے کا دعوی کرتا ہے اور امین کہتا ہے میں نے واپس کر دی یا وہ چیز ہلاک ہو گئی اس صورت میں صلح جائز نہیں اور اگر امین کہتا ہے میں نے چیز واپس کر دی یا ہلاک ہو گئی اور مالک کچھ نہیں کہتا اس میں صلح جائز نہیں ۔ (ردالمحتار)

مسئلہ۳۶: مدعی علیہ کا صلح کی خواہش کرنا یا یہ کہنا کہ دعوے سے مجھے بری کر دو یہ اقرار نہیں ہے اور یہ کہنا کہ جس مال کا دعوی ہے اس سے صلح کر لو یا اس سے مجھے بری کر دو یہ مال کا اقرار ہے۔ (درمختار)

مسئلہ۳۷: مبیع میں عیب کا دعوی کیا اور صلح ہو گئی بعد میں ظاہر ہوا کہ عیب تھا ہی نہیں یا عیب زائل ہو گیا تھا صلح باطل ہو گئی جو کچھ لیا ہے واپس کرے۔ یونہی دین کا دعوی تھا اور صلح ہو گئی پھر معلوم ہوا کہ دین نہیں تھا صلح باطل ہو گئی جو کچھ لیا ہے واپس کر دے۔ (درمختار)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button