الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بعض لوگ ایسے لوگوں کو بھی حاجی کہتے ہیں جنہوں نے صرف عمرہ ادا کیا ہوتاہے ، کبھی حج نہیں کیا ، کیا ایسا کہنا شرعادرست ہے ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یاد رہے حج کے دو رکن ہیں ایک وقوف عرفہ یعنی نو ذوالحجہ کواحرام حج کے ساتھ عرفات میں پایا جانا۔ اسی لئے نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : الحج عرفۃ۔(107) یعنی، حج عرفہ میں قیام کانام ہے ۔ اور دوسرا رکن طواف زیارت ہے ۔ جبکہ عمرہ کارکن احرام عمرہ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرنا ہے اور حج کے ایام مخصوص ہیں جبکہ عمرہ کے ایام مخصوص نہیں ہیں ۔ حج سال میں صرف ایک بار ادا کیاجا سکتا ہے جبکہ عمرہ سال میں جب چاہیں ادا کرسکتے ہیں ۔ نیز قران کریم میں حج اور عمرہ کو الگ الگ ذکر کیاگیا ہے ، چنانچہ فرمایا : {فمن حج البیت اواعتمر فلا جناح علیہ}(108) ترجمہ : توجواس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے ۔(109) حدیث شریف میں ہے : الحجاج والعمار، وفد اللٰہ ، ان دعوہ اجابہم، وان استغفروہٗ غفر لہم۔(110) یعنی،حج و عمرہ کرنے والے اللہ(عزوجل)کے وفد ہیں ،اگر وہ دعا کریں تو ان کی دعا قبول ہوگی اوراگر وہ مغفرت طلب کریں توان کی مغفرت ہوگی۔ حدیث شریف میں ہے کہ : تابعوا بین الحج والعمرۃ، فانہما ینفیان الفقر والذنوب، کما ینفی الکیر خبث الحدید، والذہب، والفضۃ ولیس للحجۃ المبرورۃ ثواب دون الجنۃ۔(111) یعنی،پے درپے حج اور عمرہ کرو کیونکہ یہ دونوں (حج و عمرہ ) محتاجی اور گناہوں کواس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے ، سونے اور چاندی کے میل کو دور کرتی ہے اور حج مبرور(مقبول) کا ثواب جنت ہے ۔ اور حدیث شریف میں اتاہے : من خرج حاجا او معتمًرا او غازیًا ثم مات فی طریقہٖ کتب اللٰہ لہٗ اجر الغازی والحاج والمعتمرالٰی یوم القیامۃ۔(112) یعنی،جو حج یا عمرہ یا جہاد کرنے کے لئے نکلا پھر وہ راستے میں مرگیا اللہ (عزوجل) اس کے لئے روز قیامت تک کے لئے غازی (جہاد کرنے والے ) اور حاجی (حج کرنے والے )اور معتمر (عمرہ کرنے والے )کا ثواب لکھ دے گا۔ اور ’’صحیح مسلم شریف‘‘میں ہے : فانطلقت انا وحمید بن عبد الرحمٰن الحمیری حاجین اومعتمرین۔(113) یعنی،(یحییٰ بن یعمرفرماتے ہیں )کہ میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری حج یا عمرہ کی غرض سے چلے ۔ اس عبارت میں ’’حاجین او معتمرین‘‘ایا ہے اور ’’او‘‘احد المذکورین کے لئے اتاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے چلے تھے یا عمرہ کے ارادے سے اور اس کا مفہوم یہی ہے کہ حج اور عمرہ الگ الگ ہیں ۔ اور عربی زبان میں حج کرنے والے کو حاجی اورعمرہ کرنے والے کو معتمر کہا جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا مفصل بحث سے یہ بات عیاں ہوگئی کہ عمرہ کرنے والا حاجی نہیں ہے ۔ باقی جو حدیث شریف میں عمرہ کو حج اصغر کہا گیا ہے جیساکہ : وان العمرۃ الحج الاصغر۔(114) یعنی، بیشک عمرہ حج اصغر ہے ۔ اس بنا پر اگر کوئی عمرہ کرنے والے کو حاجی کہے تو درست ہوگا لیکن فی زمانہ لوگ جو عمرہ کرنے والے کو حاجی کہتے ہیں وہ اس حدیث شریف کی بنا پر نہیں کہتے بلکہ حرمین طیبین کی حاضری کی بنا پر عمرہ کرنے والے کو حاجی کہہ دیتے ہیں جوکہ درست نہیں ہوگا۔ واللٰہ تعالی اعلم بالصواب یوم
السبت،6رجب،1439ھ۔24 مارچ 2018م FU-11
حوالہ جات
(107) سنن الترمذی ، کتاب الحج،باب ماجاء فیمن ادرک الامام …. الخ، برقم : 889، 2/52
المسند للا مام احمد،4/359
سنن ابن ماجۃ، کتاب المناسک، باب (57)من اتٰی عرفۃ الخ،برقم : 3015، 3/473
السنن الکبریٰ للبیھقی ، کتاب الحج ، (249)باب ادراک الحج……الخ،برقم : 9812، 5/282
سنن النسائی ، کتاب مناسک الحج، باب فیمن لم یدرک صلاۃ الصبح ……الخ، برقم : 3041، 5/272
سنن الدارقطنی، کتاب الحج، باب المواقیت، برقم : 2494
(108) البقرۃ : 2/158
(109) کنزالایمان
(110) سنن ابن ماجۃ، کتاب المناسک ، باب : فضل دعا ء الحاج ، برقم : 2892، 3/2892
(111) المسند للامام احمد بن حنبل،برقم3669،1/387
سنن الترمذی، کتاب الحج، باب ماجاء فی ثواب الحج والعمرۃ، برقم : 810،2/4
سنن النسائی، کتاب مناسک الحج، باب فضل المتابعۃ بین الحج والعمرۃ، برقم : 2627، 5/118
(112) الجامع لشعب الایمان،وھو باب فی المناسک، فضل الحج والعمرۃ، برقم : 3806، 6/15
(113) صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان الایمان…..الخ، برقم : 1،1/36
(114) سنن الدارقطنی،کتاب الحج، باب المواقیت، برقم : 2697، 2/251