ARTICLESشرعی سوالات

صرف تلبیہ کہہ لینے سے احرام والا نہ ہو گا

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص نیت کر لے اور تلبیہ نہ کہے تو مُحرم نہیں ہوتا اور جو شخص تلبیہ کہے اور نیت نہ کرے تو کیا مُحرم ہو جائے گا یا نہیں ؟

(السائل : حافظ محمد رضوان، نور مسجد، میٹھادر)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یاد رہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے ، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا ہر ایک کے لئے ہر وقت ضروری نہیں ، چنانچہ علامہ علاؤالدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :

و ہی الإرادۃُ المُرجَّحۃُ لأَحدِ المُتَسَاویَینِ لا مطلق العلم فی الأصحِّ، و المُعتبرُ فیہا عملُ القلبِ اللَّازِم للإرادۃِ، فلا عِبرَۃَ لِلذِّکرِ باللّسانِ و إن خالفَ القلبَ لأنَّہ کلامٌ لا نیَّۃٌ ’’مجتبی‘‘ (45)

یعنی، نیت دو متساوی چیزوں میں سے ایک کے لئے مُرجَّح ارادہ ہے ، نیت میں معتبر دل کا عمل ہے جو ارادہ کو لازم ہو، صحیح ترین قول کے مطابق مطلق علم (نیت) نہیں ہے ، پس (صرف) زبان کے ذکر کا اعتبار نہیں اگر وہ دل کے مخالف ہو کیونکہ وہ کلام ہے نیت نہیں ہے ’’مجتبی‘‘۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

لأنَّ النیّۃَ عملُ القلبِ لا اللِّسانِ، و إنَّما الذِّکرُ باللِّسانِ کلامٌ، و مِن ثَمَّ حُکِیَ الإِجماعُ علی کونِہا بالقلبِ (46)

یعنی، کیونکہ نیت دل کا عمل ہے نہ کہ زبان کا، صرف زبان کے ساتھ ذکر کلام ہے اور اسی لئے نیت کے دل سے ہونے پر اجماع حکایت کیا گیا ہے ۔ اور دل کے عمل سے مراد ہے کہ جو کرنا چاہتا ہے اُسے غور و فکر کے بغیر ارادے کے وقت جان لے کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے چنانچہ علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں :

و ہو أی : عملُ القلبِ أن یَعلمَ عند الإرادۃِ بداھۃً بلا تأمُّلٍ أیَّ صلاۃٍ یُصلّی (47)

یعنی، دل کا عمل یہ ہے کہ ارادے کے وقت بداہۃً بلا تأمُّل جان لے کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے ۔ اور عام حالات میں زبان سے نیت کرنا مستحب ہے ، چنانچہ علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں :

و التَّلفُّظُ عند الإرادۃِ بہا مستحبٌّ ہو المختارُ (48)

یعنی، ارادے کے وقت اُس کے الفاظ کو زبان سے ادا کرنا مستحب ہے یہی مختار ہے ۔ اور فقہاء کرام نے تصریح کی ہے کہ حج کی نیت دل سے کی تو حج درست ہو جائے گا چنانچہ علامہ حصکفی حنفی لکھتے ہیں :

فیصحُّ الحجُّ بمطلق النیَّۃِ لو بقلبِہ (49)

یعنی، پس حج مطلق نیت سے درست ہو جائے گا اگرچہ نیت دل سے ہو۔ ہاں جب دل میں نیت مجتمع نہ ہو نیت کرنے والا خود تذبذب کا شکار ہو تو اُس وقت زبان سے نیت کے کلمات کہنا کافی ہوتے ہیں چنانچہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں :

إلاَّ إذا عجَزَ عن احضارِہِ لہمومٍ اصابتْہُ فیکفیہِ اللِّسانُ’’مجتبی‘‘ (50)

یعنی، مگر جب پہنچے والے غموں کی وجہ سے دل میں نیت حاضر کرنے سے عاجز ہو تو اُسے زبانی ذکر کافی ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شخص تلبیہ کہے اور اُس کے دل میں حج یا عمرہ یا صرف احرام کی نیت نہ ہو اور وہ نہ کوئی ایسا کام کرے جسے نیت کے قائم مقام قرار دیا گیا ہو تو وہ صرف تلبیہ کہنے سے احرام والا نہ ہو گا، چنانچہ شمس الدین احمد بن سلیمان ابن کمال پاشا شافعی حنفی متوفی 940ھ لکھتے ہیں :

کذا لا یصیرُ مُحرمٌ بالتلبیۃِ ما لم یأتِ بِالنیَّۃِ أو ما یقومُ مقامہَا من الہَدْی (51)

یعنی، اسی طرح تلبیہ کہنے سے احرام والا نہ ہو گا جب تک نیت یا جو نیت کے قائم مقام ہے اُسے نہ لائے جیسے ہدی ۔ اس لئے بلانیت تلبیہ کہنے سے تلبیہ کہنے والا احرام والا نہیں ہو گا اگر ایسا ہوتا تو عام حالات میں خصوصاً حج تربیت کلاسز میں حاجی حضرات جو مناسک سیکھنے آتے ہیں وہ کتنی بار تلبیہ کہتے ہیں وہ سارے کے سارے اسی وقت سے احرام والے ہو چکے ہوتے ، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الإثنین، 16 ذوالقعدہ 1431ھ، 25اکتوبر 2010 م 674-F

حوالہ جات

45۔ الدُّر المختار، کتاب الصّلاۃ، باب شروط الصّلاۃ، ص59

46۔ ردّ المحتار علی الدّر المختار، کتاب الطّہارۃ، تحت قول التّنویر، تکفیہ النیَّۃ بلسانہ، 2/265

47۔ الدُّر المختار، کتاب الصّلاۃ، باب شروط الصّلاۃ، و الخامس النیّۃ إلخ، ص59

48۔ الدُّر المختار، کتاب الصّلاۃ، باب شروط الصّلاۃ، و الخامس النیَّۃُ إلخ، ص59

49۔ الدُّر المختار، کتاب الحجّ، فصل فی الإحرام و صفۃ المراد بالحجّ، تحت قولہ : ثم نبّی و بر صلاتہ ناویاً بہا الحجّ، ص159

50۔ الدُّر المختار، کتاب الصّلاۃ، باب شروط الصّلاۃ، و الخامس النیَّۃُ، ص59

51۔ الإیضاح فی شرح الإصلاح، کتاب الحجّ، 10/241

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button