ARTICLESشرعی سوالات

صدقہ کی مقدار اور اس کی ادائیگی کا حکم

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حج کے باب میں جہاں صدقہ کا حکم دیا جاتا ہے تو اس کی مقدار کیا ہوتی ہے اور وہ حرم میں ہی دینا لازم ہوتا ہے یا حرم سے باہر اپنے وطن جا کر بھی دے سکتا ہے ؟

(السائل : C/O محمد عارف عطاری)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : اس باب میں صدقہ کی مقدار وہی ہے جو صدقۂ فطر میں ہوتی ہے یعنی اگر جَو یا کھجور یا کشمش سے دے تو ایک صاع اور گندم سے دے تو نصف صاع چنانچہ سیر کے پیمانے کے مطابق تقریباً سوا دو سیر (دو کلو پینتالیس گرام تقریباً) گندم یا اس کی قیمت دے گا۔ اور صدقہ سرزمین حرم پر دینا ضروری نہیں لیکن افضل یہی ہے کہ صدقہ سرزمینِ حرم میں دے کیونکہ حرمِ مکہ میں ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اور اگر قیمت دیتا ہے تو اس کا تعین اسی مقام کے موجودہ نرخ سے کیا جائے جہاں وہ ہے مثلاً اس سال (1427ھ/2006م)نصف صاع گندم کی قیمت مکہ مکرمہ میں پانچ ریال ہے تو اگر مکہ میں اسی سال ادا کرے گا تو پانچ ریال ہی دے گا اور دوسرے سال اگر یہ قیمت چھ ریال ہو جائے تو چھ دے گا اور اسی طرح مدینہ منورہ میں اگر نصف صاع گیہوں کی قیمت ساڑھے پانچ ریال ہو اور وہاں ادا کرنا چاہے تو ساڑھے پانچ ریال ادا کرے گا۔ اسی طرح جہاں ادا کرتا ہے وہاں کے اعتبار سے ہی قیمت کا تعیّن کیا جائے گا مثلاً اگر مکہ مکرمہ میں نصف صاع گندم کی وہ قیمت ادا کرے جو پاکستان میں ہے پھر چاہے وہ سعودی کرنسی میں ادا کرے یا پاکستانی کرنسی میں ، بہر صورت جائز نہ ہو گا بلکہ اُسے مکہ مکرمہ میں رائج کرنسی یعنی ریال میں وہاں کا نرخ معلوم کرنا ہو گا پھر چاہے اس قیمت کو سعودی کرنسی میں ادا کرے یا کسی اور کرنسی میں ۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأحد، 26ذی القعدۃ1427ھ، 17دیسمبر 2006م (295-F)

حوالہ جات

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button