شرعی سوالات

صدقات وصول کرنےپر کمیشن لینا اجارہ ہی ایک صورت ہے لہذا اجارہ کی شرائط کو پورا کیا جائے

سوال:

            رمضان میں مدارس کے لیے چندہ وصول کرنے کے لیے جو سفراء نکلتے ہیں ان میں اکثر چندہ کمیشن پر  وصول کرتے ہیں  بعض خود صاحب نصاب ہوتے ہیں اور بعض سادات ہوتے ہیں۔ کیا کمیشن پر چندہ وصول کرنا جائز ہے؟

جواب:

            عہد رسالت اور زمانہ ما بعد میں جب تک اسلامی حکومتیں رہیں حکومت کی طرف سے زکوۃ و صدقات اور دیگر محال کی وصولی پر عامل مقرر  کئے جاتے تھے اور حاکم اسلام مصارف اخراجات دوران وصولی اور اتنی مدت کے خانگی اخراجات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو وصول شدہ مال زکوۃ میں سے دیتاجو کسی حال میں پوی وصولی کے نصف سے زائد نہ ہوتا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے حضرات بنو ہاشم اور ان کے غلاموں کے لیے اسے بھی ناجائز قرار دیا تھا ۔

بعض مدارس میں سنا جا تا ہے کہ مدارس کے ذمہ داروں اور محصلین میں پیشگی کوئی معاہدہ اور معاملہ نہیں ہوتا البتہ وصولی کے بعد مہتمم ان کی خدمت مدرسہ کی طرف سے کرد تا ہے تو جو رقم محصلین کو خدمت کے طور پر دی جائے وہ زکوۃ وفطرہ کی رقم نہ ہو یا اس رقم کا حیلہ کر لیا جائے ۔اب وہ رقم مدرسہ کے تمام مصارف خیر میں صرف ہو سکے گی۔

ایک صورت کمیشن کی ہے جس کا ذکر آپ نے سوال میں کیا ہے اور آج کل لوگ عام طور سے اسی طرح معاملہ کرتے ہیں یہ ا جرت اور مزدوری کا معاملہ ہے ۔اس میں مندرجہ ذیل چند خرابیاں ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے،

اجارہ کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وقت کے حساب سے اجارہ ہو تو وقت کی مقدار معلوم ہونا چاہیے اور اجرت کی مقدار بھی پیشگی معلوم اور تعین ہونا چاہیے جیسے یومیہ، ماہانہ یا سالانہ اجرت مقرر کی جائے اور کام کے حساب سے اجارہ ہو تو کام کی مقدار معلوم ہونا چاہیے۔ اور کمیشن والی صورت میں نہ کام کی مقدار معلوم ہوتی ہے نہ مزدوری کی مقدار کا علم ہوتا ہے کیونکہ اجرت کی تعیین تو وصولی کی فیصد کے حساب سے ہے اور وصولی کتنی ہو گی اس کا پیشگی علم کیسے ہو سکتا ہے؟ اور تیسری خرابی سفرا کی پیدا کردہ ہے کہ وہ اپنی وصولی میں سے اپنی رقم کاٹ کر بقیہ رقم مدرسہ میں جمع کرتے ہیں جب کہ اجارہ میں مزدوری اس رقم سے لینا جائز نہیں جو مزدور کی محنت کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہو۔ سفرا حضرات ایک بد احتیاطی یہ  بھی کرتے ہیں کہ زکوۃ کی رقم بغیر حیلہ کے اپنی اجرت میں وضع کر لیتے ہیں یہ بالکل ناجائز ہے۔

مذکورہ بالا خرابیوں  میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جن کا اثر عقد اجارہ کو فاسد کر دیتا ہے اور جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ مزدور طے شدہ اجرت پانے  کا مستحق نہیں ہوتا۔ بلکہ طے شدہ رقم اور اجرت مثل میں سے جو کم ہو اس کا مستحق ہو گا ۔ پس کمیشن پر وصولی کی صورت میں سب سے پہلی اصلاح تو یہ ہونی چاہیے کہ محصلین وصولی کی پوری رقم مدرسہ میں جمع کریں اور ذمہ داران زکوۃ کی رقم کا حیلہ کرا لیا کر یں۔ تا کہ مزدور کی محنت کی آمدنی سے اجرت ادا کر نے کی خرابی سے نجات حاصل ہو ۔ اور مال زکوۃ سے مزدوری حاصل کرنے کی قباحت بھی دور ہو اور پوری وصولی کا فیصد کمیشن نکال کر یہ دیکھا جائے کہ اس قسم کے کام کی بازار میں کیا اجرت ہے جس کوا جرت مثل کہا جا تا ہے اور اجرت مقررہ اور اجرت مثل میں سے جو کم ہو وہ دیا جائے اور چونکہ ان معاملہ کی نوعیت بدل کر اجارہ ہو گیا اس لیے مالدار اور غریب اور سید اور غیر سید سبھی لے سکتے ہیں۔

(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ44، شبیر برادرز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button