ARTICLES

صحن مسجدمیں نفلی طواف کرنے کاحکم

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اجکل فقط عمرہ کرنے والوں کومسجدحرام کے مطاف والے حصے میں طواف کرنے کی اجازت ہے جبکہ نفلی طواف کرنے والوں کونیچے کے حصے میں اس کی پابندی ہے البتہ پہلی منزل سے وہ طواف کرسکتے ہیں لیکن بات دراصل یہ ہے کہ اوپرکے حصے سے طوالت کے سبب طواف کرنامشکل امرہے ،لہٰذا اگر کوئی شخص صرف احرام کی چادریں پہن کرعمرہ کرنے والوں کے ساتھ نچلے حصے میں شریک ہوجائے اورنفلی طواف کرے ، تواس کے بارے میں کیاحکم ہے کیایہ عمل دھوکہ دہی کے زمرے میں نہیں ائے گا؟ (سائل : کاشف،کھارادر،کراچی)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں نفلی طواف کرنے والے ایسا کرسکتے ہیں کہ یہ ان کے حق میں دھوکہ نہیں ہے ،مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ مسجدحرام شریف کسی فردیاحکومت کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اس پرتمام مسلمان برابرحق رکھتے ہیں چاہے وہ زائرین عمرہ ہوں یااس کے علاوہ۔چنانچہ قران کریم میں ہے : ان الذین كفروا و یصدون عن سبیل اللٰه و المسجد الحرام الذی جعلنٰه للناس سواء ﰳالعاكف فیه و الباد( ) ترجمہ : بے شک وہ جنہوں نے کفر کیا اور روکتے ہیں اللہ کی راہ اور اس ادب والی مسجد سے جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے مقرر کیا کہ اس میں ایک سا حق ہے وہاں کے رہنے والے اور پردیسی کا۔(کنز الایمان) لہٰذا مسلمان اس کے اوپرنیچے تمام ہی حصوں میں عبادت کرسکتے ہیں کہ یہ ان کاحق ہے اوراس کے حصول کیلئے وہ احرام کی دوچادریں پہننے کاسہارا بھی لے سکتے ہیں ، اگرچہ یہ بظاہردھوکے کی صورت ہے کیونکہ اس میں اپنی اصلی حالت یعنی محرم نہ ہونے کو چھپاناہے ۔چنانچہ دھوکے کی تعریف بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالرؤف مناوی شافعی متوفی1031ھ لکھتے ہیں : الغش ستر حال الشیء۔( ) یعنی،کسی چیزکی(اصلی)حالت کوپوشیدہ رکھنادھوکہ ہے ۔ اورشریعت میں دھوکہ دہی کی حرمت ومذمت(برائی)واردہے ۔چنانچہ امام مسلم بن حجاج قشیری اپنی سندکے ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : من غشنا فليس منا۔( ) یعنی،نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریمﷺنے ارشادفرمایا : جودھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : غدر (دھوکہ)و بدعہدی مطلقًا سب سے حرام ہے ،مسلم ہویا کافر،ذمی ہو یا حربی،مستامن ہو یا غیرمستامن،اصلی ہو یامرتد۔( ) لیکن اپنے حق کو حاصل کرنے کیلئے فعل حرام کے ارتکاب سے بندہ مومن گنہگارنہیں ہوتاہے ،جیسے رشوت کالین دین اشدحرام ہے لیکن اگرکوئی شخص اپنے حق کے حصول کیلئے رشوت دے تووہ دینے والے کے حق میں رشوت نہیں ہے ،لہٰذاوہ گنہگار بھی نہیں ہوگا،ہاں لینے والاضرورگنہگارہوگا۔چنانچہ ملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : الرشوة اذا اعطى ليتوصل به الى حق، او ليدفع به عن نفسه ظلمًا فلا باس به۔ملخصا ( ) یعنی،جب کوئی شخص اپنے حق کوحاصل کرنے کیلئے یااپنے نفس سے ظلم کودورکرنے کیلئے رشوت دے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔ اورعلامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں : دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه وماله ولاستخراج حق له ليس برشوةٍ : يعني في حق الدافع۔ ( ) یعنی،ظالم بادشاہ کواپنے نفس ومال سے ظلم دورکرنے کیلئے یااپنے حق کوحاصل کرنے کیلئے مال دینا رشوت نہیں ہے یعنی دینے والے کے حق میں ۔ لہٰذا ثابت ہواکہ اگرنفلی طواف کرنے والے مذکورعمل اختیارکرتے ہیں ، توان کے حق میں یہ دھوکہ نہیں ہے کیونکہ مسجدکے صحن میں طواف کرناان کاحق ہے ، لہٰذاوہ گنہگاربھی نہیں ہوں گے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب منگل،4/شعبان المعظم،1443ھ۔8/مارچ،2022م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button