(1)کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متےن اس بارے میں کہ بہارشریعت، جلد اول، حصہ 4، میں پڑھا ہے کہ اگرکسی کی فجر کی نماز رہ گئی (یعنی قضا ہو گئی ہو)اب وہ جمعہ کی نماز پڑھنے گیا ،توپہلے فجر کی نماز لوٹائے(یعنی اس کی قضاکرے)اگرچہ جمعہ کا خطبہ ہو رہا ہو پھر جمعہ کی نماز پڑھے(یعنی ایک وقت کی نماز قضا ہوگئی اور دوسری نماز کا وقت شروع ہو گیا تو پہلے والی نمازکی قضاکرے پھراس کے بعدموجودہ وقت کی نماز ادا کرے)۔برائے کرم یہ رہنمائی فرما دیں کہ اگر بندہ اس وقت پہنچے جب جماعت ہو رہی ہو یا جماعت شروع ہونے لگے اور اس دن کی فجر بھی رہتی ہو تو اسی وقت جماعت کے ساتھ مل جائے یا پہلے،پہلی والی نماز کی قضاپڑھے پھر جماعت میں شامل ہو؟
(2)یہ بھی بتادیں کہ مسئلہ کیاصاحب ترتیب کے بارے میں ہے یاپھرغیر صاحب ترتیب کے بارے میں بھی یہی مسئلہ ہے؟
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب
(1)صورت مسؤلہ میںاگر وہ صاحب ترتیب ہے تو وہ پہلے قضا نماز پڑھے پھر جمعہ میں شامل ہو بلکہ اگر قضا نماز پڑھنے کی وجہ سے جمعہ چھوٹ جائے گا لیکن ظہر پڑھ لے گا تو بھی پہلے قضا نماز پڑھے پھر ظہر پڑھ لے۔ اور اگر صرف اتنا وقت باقی ہو کہ قضا نماز پڑھنے کے بعد ظہر کا وقت بھی نہیں ملے گا تو جمعہ پڑھے پھر قضاپڑھے۔
(2) یہ مسئلہ صرف صاحب ترتیب کے لیے ہے۔غیر صاحب ترتیب (جس کی چھے نمازیں قضا ہو گئیں، اس) پر ترتیب فرض نہیں۔
فتاوی عالمگیری میں ہے”ولو کان بحیث انہ اذا قضا الفجر، ادرک الجمعۃ مع الامام فانہ یشتغل بالفجر اجماعا” ترجمہ: اگر صورتحال یہ ہے کہ وہ فجر کی نماز پڑھ کر امام کے ساتھ جمعہ میں شامل ہو جائے گا تو بالاجماع پہلے فجر پڑھے۔
(فتاوی عالمگیری،جلد1،صفحہ122،اسلامی کتب خانہ،لاہور)
اسی میں ہے”ولو ان مصلی الجمعۃ تذکر ان علیہ الفجر فان کان بحیث لو قطعھا واشتغل بالفجر تفوتہ الجمعۃ ولا یفوتہ الوقت فعند ابی حنیفۃ وابی یوسف یقطع الجمعۃ ویصلی الفجر ثم یصلی الظھر’‘ترجمہ: اگر جمعہ کی نماز پڑھنے والے کو یاد آگیا کہ اس پر فجر باقی ہے ، اگر تو وہ اس کو توڑ کر فجر پڑھے گا تو جمعہ فوت ہو جائے گا مگر ظہر پڑھ لے گا ،تو شیخین کے نزدیک جمعہ توڑ دے اور فجر قضا کرے پھر ظہر پڑھے ۔ (فتاوی عالمگیری،جلد1،صفحہ122،اسلامی کتب خانہ،لاہور)
اسی میں ہے”وان کان بحیث انہ اذا قطع الجمعۃ واشتغل بالفجر یفوتہ الوقت اتم الجمعہ اجماعا ثم یصلی الفجربعدھا کذا فی السراج الوھاج”ترجمہ:اور اگر صورتحال یہ ہے کہ اگر جمعہ توڑ کر فجر پڑھے گا تو وقت ختم ہو جائے گا ،تو بالاجماع جمعہ کی نماز مکمل کرے پھر اس کے بعد فجر پڑھے اسی طرح تبیین میں ہے۔ (فتاوی عالمگیری،جلد1،صفحہ122،اسلامی کتب خانہ،لاہور)
امام سرخسی کی المبسوط میں ہے”کثرۃ الفوائت فإنہ یسقط بہ الترتیب عندنا وحد الکثرۃ أن تصیر الفوائت ستا’‘ترجمہ:ہمارے نزدیک فوت شدہ نمازوں کی کثرت سے ترتیب ساقط ہو جاتی ہے اور کثرت کی حد چھے نمازوں کا فوت ہو جانا ہے۔
(المبسوط للسرخسی،جلد1،صفحہ100،مکتبہ حنفیہ،کوئٹہ)
بہار شریعت میں آپ کے بیان کردہ مسئلے کے فوراً بعد ہے”جمعہ کے دن فجر کی نماز قضا ہوگئی اگر فجر پڑھ کر جمعہ میں شریک ہوسکتا ہے تو فرض ہے کہ پہلے فجر پڑھے اگرچہ خطبہ ہوتا ہو اور اگر جمعہ نہ ملے گا مگر ظہر کا وقت باقی رہے گا جب بھی فجر پڑھ کر ظہر پڑھے اور اگر ایسا ہے کہ فجر پڑھنے میں جمعہ بھی جاتا رہے گا اور جمعہ کے ساتھ وقت بھی ختم ہو جائے گا تو جمعہ پڑھ لے پھر فجر پڑھے۔” (بہار شریعت ،جلد 1،صفحہ704،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
اسی میں ہے”چھ نمازیں جس کی قضا ہو گئیں کہ چھٹی کا وقت ختم ہوگیا اس پر ترتیب فرض نہیں۔”
(بہار شریعت ،جلد 1،صفحہ705،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم