شرعی سوالات

شیرز (حصص) کی خرید و فروخت میں نفع معین ہونے کی بنا پر شرکت جائز نہیں ہوتی ہے۔

سوال :

(۱)اکثر بڑی بڑی کمپنیاں اپنے نام کا شیئرز لوگوں کو دیتی ہیں کہ جو بھی معین رقم کمپنی کو بھیجے اور اس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آئے تو اسے سند شیئرز روانہ کر دیتی ہیں ۔اس بات کے ثبوت کے لیے کہ تم بھی کمپنی میں شریک ہو اور اگر قرعہ اندازی میں نام نہ آئے وہ رقم بلا کسی کمی بیشی کے دو ڈھائی سال بعد واپس کر دیتی ہیں ۔اور ایسے ہر صاحب سند کو مقررہ مدت کے بعد اگر کمپنی میں کمائی ہوئی ہے تو ایک سال یا پانچ سال نفع اور ر پوٹ وغیرہ بھیج دیتی ہیں ور نہ ر پورٹ پر ہی اکتفا  کر لیا جا تا ہے تو کیا اسی کمپنی میں رقم دیا اور شیئرز لینا جائز ہے۔ اور کارکنان کمپنی کے کافر و مسلم ہونے سے حکم میں کچھ فرق ہو گا۔

 (۲)  پھر اس سند کی قیمت مثل مال تجارت کم و بیش ہوتی رہتی ہے ۔ اگر فروخت کرنا چاہے تو اصل رقم کے علاوہ نفع حاصل کر کے فروخت کر سکتا ہے ۔اگر کمپنی حیثیت سے کمزور ہو تو فروخت کرنے پر اس میں دس بیس فیصد نقصان بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔مشتری بائع سے دست خط کروا لیتا ہے پھر دست خط ہو جانے کے بعد یا تو مشتری اپنے نام کی سند کروا لیتا ہے ۔ یا دوسرے کو فروخت کر دیتا ہے ۔اور دوسرا تیسرے کو علی ہذا القیاس جس کو تبدیل نام منظور ہو وہ اپنے نام پر کروا لیتا ہے ۔اس سند کو فروخت کرنا یا خریدنا اور اس سودے میں نفع حاصل کرنا  نفع کسی کو دے کر خریدنا جائز ہے یا نہیں؟ اس لین دین میں نفع نقصان کا پورا پورا امکان ہے ۔

(۳) کبھی بھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سند شیئرز ایک مدت تک دست بدست منتقل ہوتی رہتی ہے ۔اور کمپنی میں نام دوسرے کا رہتا ہے۔ کوئی اسے نام بدلنے کیلیے کمپنی میں ارسال کرتا نہیں ہے ۔ بعد مدت مدید کے کوئی بھیجتا ہے ۔اور کمپنی میں جو کچھ نفع ہوتا ہے ۔ وہ نفع کا چیک کمپنی والے اصل آدمی کے نام روانہ کرتے ہیں حالانکہ اس نے سند کو ایک مدت ہوئے فروخت کر دیا ہے ۔ تو کیا وہ نفع کا چیک اور اس رقم کو استعمال میں لانا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر سال بھر کے بعد کمپنی نے کچھ  رقم اسے نفع کی بھیجی  اور اس آدمی نے چھ ماہ تک اس رقم (سند)کو اپنے پاس رکھا تھا۔ اور بعد چھ ماہ فروخت کیا تو چھ ماہ کا نفع لے سکتا ہے؟ تو کس حساب سے لے بر تقدیر عدم جواز اس رقم کو کیا کرے جب کہ یہ معلوم نہ ہو کہ اس سند کا مالک اس وقت کون ہے۔

جواب:

آپ کے پہلے سوال کا جواب فتاوی رضویہ جلد ہفتم، ص ۱۱۵میں ہے۔ جس میں سائل نے کمپنیوں کے اس کاروبار کی شرکت اور مضاربت ہونے پر زور دیا تھا ۔ جیسا کہ آپ کے پہلے سوال میں بھی ’’تم بھی کمپنی میں شریک ہونے‘‘ کے لفظ سے ظاہر ہے مگر انہوں نے اپنے سوال میں شیئرز ہولڈروں کے کو فکس منافع کی بات بھی کی تھی جس کا نام انہوں نے منقح منافع رکھا تھا۔ اعلی حضرت نے اس بنیاد پراس کے ناجائز ہونے کا حکم دیا تھا۔ اور اگر نفع و نقصان میں فریقین کی حسب حصہ شرکت ہو تو اس کو جائز قرار دیا تھا۔

ص ۱۱۱ میں اس کاروبار کو لفظ فروخت سے تعبیر کیا تھا۔ تو اعلی حضرت نے اس کا حکم سوال نمبر 2 کے ضمن میں بیان کیا کہ کمپنی شیئرز ہولڈروں کے ساتھ حصص کی بیع کرے۔ یا شیئرز ہولڈر دوسروں کے ہاتھ اپنے حصے فروخت کریں، دونوں صورتوں میں بیع کاغذ کی نہیں جسے کمپنی نے جاری کیا۔ وہ تو صرف اس بات کی سند ہے کہ ان کا اتنا رو پیہ کمپنی میں جمع ہے ۔اور بیع در اصل ان روپیوں کی ہوتی ہے جو سند پر تحریر ہو تے ہیں اور خریدار بھی دام کو روپیوں کے لفظ سے ہی بیان کرتا ہے کہ اتنے روپے کو خریدا اس لیے یہ بیع  صرف ہوئی۔ اور مساوات کی صورت میں عدم جواز کی وجہ عدم تقابض بدلین ہوئی ۔اور کمی بیشی کی صورت میں تفاضل  بلا عوض بھی پایا گیا جو سود ہے ۔یہاں کے غیر مسلموں سے عقود فاسدہ کے ذریعہ حصول مال کا جواز صحیح ہے ۔لیکن صورت موجودہ میں کمپنی کا مکمل طور پر غیر مسلموں کی ہونا محل نظر ہے۔ کیونکہ شیئرز ہولڈروں کو بھی حصہ دار کہتے ہیں اور منافع دیتے ہیں اور ان میں بہت سے مسلمان بھی ہوتے ہیں ۔

(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ30، شبیر برادرز، لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button