شہید کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتا ہے۔
ولا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ امواتٌ ط بل احیآئٌ ولکن لا تشعرون ط
(جو اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں مگر تمہیں خبر نہیں )
اور فرماتا ہے :۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتًا بل احیآئٌ عند ربھم یرزقون ہ فرحین بما اتھم اللہ من فضلہٖ و یستبشرون بالذین لم یلحقوا بھم من خلفھم الا خوفٌ علیھم ولا ھم یحزنون ہ یستبشرون بنعمۃٍ من اللہ وفضل ان اللہ لا یضیع اجر المومنین ہ
(جو لوگ راہ خدا میں قتل کئے گئے انہیں مردہ نہ گمان کر بلکہ وہ اپنے رب کے یہاں زندہ ہیں ۔ انہیں روزی ملتی ہے۔ اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں دیا اس پر خوش ہیں اور جو لوگ بعد والے ان سے ابھی نہ ملے ان کے لئے خوشخبری کے طالب کہ ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے،ا للہ کی نعمت اور فضل کی خوشخبری چاہتے ہیں اور یہ کہ ایمان والوں کا اجر اللہ ضائع نہیں فرماتا)
احادیث میں اس کے فضائل بکثرت وارد ہیں شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے بلکہ:۔
حدیث ۱: ایک حدیث میں فرمایا اس کے سوا سات شہادتیں اور ہیں ۔ (۱) جو طاعون سے مرا شہید ہے (۲) جو ڈوب کر مرا شہید ہے (۳) ذات الجنب میں مرا شہید ہے (۴) جو پیٹ کی بیماری میں مرا شہید ہے (۵) جو جل کر مرا شہید ہے (۶) جس کے اوپر دیوار وغیرہ ڈھے پڑے اور مر جائے شہید ہے (۷) عورت کہ بچہ پیدا ہونے یا کنوارے پن میں مر جائے شہید ہے۔ اس حدیث کو امام مالک و ابودائود و نساء نے جابر بن عتیک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا اور:ـ۔
حدیث ۲: امام احمد کی روایت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طاعون سے بھاگنے والا اس کے مثل ہے جو جہادسے بھاگا اور جو صبر کرے اس کے لئے شہید کا اجر ہے۔
حدیث ۳: احمد و نسائی عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ جو طاعون میں مرے ان کے بارے میں اللہ عزوجل کے دربار میں مقدمہ پیش ہو گا۔ شہدا کہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں یہ ویسے ہی قتل کئے گئے جیسے ہم اور بچھونوں پر وفات پانے والے کہیں گے یہ ہمارے بھائی ہیں یہ اپنے بچھونوں پرمرے جیسے ہم۔ اللہ عزوجل فرمائے گا ،ان کے زخم دیکھو اگر ان کے زخم مقتولین کے مشابہ ہوں تو یہ انہیں میں ہے اور انہیں کے ساتھ ہیں دیکھیں گے تو ان کے زخم شہدا کے زخم سے مشابہ ہوں گے شہدا میں شامل کر دیئے جائیں گے۔
حدیث ۴: ابن ماجہ کی روایت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے ہے کہ ارشاد فرمایا، مسافرت کی موت شہادت ہے۔
ان کے سوا اور بہت صورتوں میں جن میں شہادت کا ثواب ملتا ہے امام جلال الدین سیوطی وغیرہ ائمہ نے ان کو ذکر کیا ہے بعض یہ ہیں (۹) سل کی بیماری میں (۱۰) سواری سے گر کر یا مر گی سے مرا (۱۱) بخار میں مرا (۱۲) مال یا (۱۳) جان یا (۱۴) اہل یا (۱۵) کسی حق کے بچانے میں قتل کیا گیا (۱۶) عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور چھپایا ہو (۱۷) کسی درندہ نے پھاڑ کھایا (۱۸) بادشاہ نے ظلماً قید کیا یا (۱۹) مارا اور مر گیا (۲۰) کسی موذی جانور کے کاٹنے سے مرا (۲۱) علم دین کی طلب میں مرا (۲۲) مؤذن کے طلب ثواب کے لئے اذان کہتا ہو (۲۳) تاجر راست گو (۲۴) جسے سمندر کے سفر میں متلی اور قے آئی (۲۵) جو اپنے بال بچوں کے لئے سعی کرے ان میں امر الہی قائم کرے اور انہیں حلال کھلائے (۲۶) جو ہر روز پچیس بار یہ پڑھے اللھم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت (۲۷) جو چاشت کی نماز پڑھے اور ہر مہینے میں تین روزے رکھے اور وتر کو سفر و حضر میں کہیں ترک نہ کرے (۲۸) فساد امت کے وقت سنت پر عمل کرنے والا اس کے لئے سو شہید کا ثواب ہے (۲۹) جو مرض میں لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین چالیس بار کہے اور اسی مرض میں مر جائے اور اچھا ہو گیا تو اس کی مغفرت ہو جائے گی (۳۰) کفار سے مقابلہ کے لئے سرحد پر گھوڑا باندھنے والا (۳۱) جوہر رات میں سورۂ یسین شریف پڑھے (۳۲) جو با طہارت سویا اور مر گیا (۳۳) جو نبی ﷺ پر سو باردرود شریف پڑھے (۳۴) جو سچے دل سے یہ سوال کرے کہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائوں (۳۵) جو جمعہ کے دن مرے (۳۶) جو صبح کو اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطن الرجیم تین بار پڑھکر سورۂ حشر کی پچھلی تین آیتیں پڑھے اللہ تعالی ستر ہزار فرشتے مقرر فرمائے گا کہ اس کے لئے شام تک استغفار کریں اور اگر اس دن میں مرا تو شہید مرا اور جو شام کو کہے صبح تک کے لئے یہی بات ہے۔
مسائل فقہیہ
مسئلہ ۱: اصطلاح فقہ میں شہید اس مسلمان عاقل بالغ طاہر کو کہتے ہیں جو بطور ظلم کسی آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا اور نفس قتل سے مال نہ واجب ہوا ہو، اوردنیا سے نفع نہ اٹھایا ہو ، شہید کا حکم یہ ہے کہ غسل نہ دیا جائے ویسے ہی خون سمیت دفن کر دیا جائے۔ (ج ۱ ص ۸۴۹، ۸۴۸) تو جہاں یہ حکم پایا جائے گا فقہا اسے شہید کہیں گے ورنہ نہیں مگر شہید فقہی نہ ہونے سے سے یہ لازم نہیں کہ شہید کا ثواب نہ پائے صرف اس کا مطلب اتنا ہو گا کہ غسل دیا جائے و بس۔
مسئلہ ۲: نابالغ اور مجنوں کو غسل دیا جائے اگرچہ وہ کسی طرح قتل کئے گئے ، جنب اور حیض و نفاس والی عورت خواہ ابھی حیض و نفاس میں ہو یا ختم ہو گیا مگر ابھی غسل نہ کیا تو ان سب کو غسل دیا جائے گا ۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۸)
مسئلہ ۳: حیض شروع ہوئے ابھی پورے تین دن نہ ہوئے تھے کہ قتل کی گئی تو اسے غسل نہ دیں گے کہ ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ حائض ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۴۸)
مسئلہ ۴: جنب ہونا یوں معلوم ہوگا کہ قتل سے پہلے اس نے خود بیان کیا ہو یا اس کی عورت نے بتایا۔ (جوہرہ)
مسئلہ ۵: آلۂ جارحہ وہ جس سے قتل کرنے سے قاتل پر قصاص واجب ہوتا ہے یعنی جو اعضا کو جدا کر دے جیسے تلوار، بندوق کو بھی آلۂ جارحہ کہیں گے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۹)
مسئلہ ۶: جب نفس قتل سے قاتل پر قصاس واجب نہ ہو بلکہ مال واجب ہو تو غسل دیا جائے گا مثلاً لاٹھی سے مارا یا قتل خطا کہ نشانہ پر مار رہا تھا مگر کسی آدمی کو لگا اور مر گیا یا کوئی شخص ننگی تلوار لئے سو گیا اور سونے میں کسی آدمی پر وہ تلوار گر پڑی وہ مر گیا یا کسی شہر یا گائوں میں یا ان کے قریب مقتول پڑا ملا اور اس کا قاتل معلوم نہیں ان سب صورتوں میں غسل دیں گے اور اگر مقتول شہر وغیرہ میں ملا اور معلوم ہے کہ چوروں نے قتل کیا ہے خواہ اسلحہ سے قتل کیا ہو یا کسی اور چیز سے تو غسل نہ دیا جائے اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ کس چور نے قتل کیا یونہی اگر جنگل میں ملا اور معلوم نہیں کہ کس نے قتل کیا تو غسل نہ دیں گے یونہی اگر ڈاکوئوں نے قتل کیا تو غسل نہ دیں گے ہتھیار سے قتل کیا ہو یا کسی اور چیز سے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۰،۸۴۹ وغیرہ)
مسئلہ ۷: اگر نفس قتل سے مال واجب نہ ہوا بلکہ وجوب مال کسی امر خارج سے ہے مثلاً قاتل و اولیائے مقتول میں صلح ہو گئی یا باپ نے بیٹے کو مار ڈالا یا کسی ایسے کو مارا کہ اس کا وارث بیٹا ہے مثلاً اپنی عورت کو مار ڈالا اور عورت کا وارث بیٹا ہے جو اسی شوہر سے ہے تو قصاص کا مالک یہی لڑکا ہو گا مگر چونکہ اس کا باپ قاتل ہے قصاص ساقط ہو گیا تو ان صورتوں میں غسل نہ دیا جائے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۸۴۹ وغیرہ)
مسئلہ ۸: اگر قتل بطور ظلم نہ ہو بلکہ قصاص یا حد تعزیر میں قتل کیا گیا یا درندہ نے مار ڈالا تو غسل دیں گے۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۴۹)
مسئلہ ۹: کوئی شخص گھائل ہوا مگر اس کے بعد دنیا سے متمتع ہوا مثلاً کھایا پیا یا سویا یا علاج کیا اگرچہ یہ چیزیں بہت قلیل ہوں یا خیمہ میں ٹھہرا یعنی وہیں جہاں زخمی ہوا یا نماز کا ایک وقت پورا ہوش میں گزرا، بشرطیکہ نماز ادا کرنے پر قادر ہو یا وہاں سے اٹھ کر دوسری جگہ کو چلا یا لوگ اسے معرکہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے گئے خواہ زندہ پہنچا ہو یا راستہ میں ہی انتقال ہوا یا کسی دینوی بات کی وصیت کی یا بیع کی یا کچھ خریدا یا بہت سی باتیں کیں تو ان سب صورتوں میں غسل دیں گے بشرطیکہ یہ امور جہاد ختم ہونے کے بعد واقع ہوئے اور اگر اثنائے جنگ میں ہوں تو یہ چیزیں مانع شہادت نہیں یعنی غسل نہ دیں گے اور وصیت اگر آخرت کے متعلق ہو یا دو ایک بات بولا اگرچہ لڑائی کے بعد تو شہید ہے غسل نہ دیں گے اور اگر لڑائی میں نہ قتل کیا گیا بلکہ ظلماً تو ان چیزوں میں سے اگر کوئی پائی گئی غسل دیں گے ورنہ نہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۵۱،۸۵۲)
مسئلہ ۱۰: جس کو حربی یا باغی یا ڈاکو نے کسی آلہ سے قتل کیا ہو یا ان کے جانوروں نے اپنے ہاتھ پائوں اس پر مارے یا دانت سے کاٹا یا اس کی سواری کو ان لوگوں نے بھڑکا دیا اس سے گر کر مر گیا یا انہوں نے اس پر آگ پھینکی یا ان کے یہاں سے ہوا آگ اڑا لائی یا انہوں نے کسی لکڑی میں آگ لگا دی جس کاایک کنارہ ادھر تھا اور ان صورتوں میں جل کر مر گیا یا معرکہ میں مرا ہوا ملا اور اس پر زخم کا نشان ہے مثلاً آنکھ کان سے خون نکلا تھا یا حلق سے صاف خون نکلا یا ان لوگوں نے شہر پناہ پر سے اسے پھینک دیا یا اس کے اوپر دیوار ڈھا دی یا پانی میں ڈوبا یا پانی بند تھا انہوں نے کھول کر ادھر بہا دیا کہ ڈوب گیا یا گلا گھونٹ دیا غرض وہ لوگ جس طرح بھی مسلمان کو قتل کریں یا قتل کے سبب بنیں وہ شہید ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۷،۱۶۸،درمختار ج ۱ ص ۸۵۰،۸۵۱ وغیرہما)
مسئلہ ۱۱: معرکہ میں مردہ ملا اور اس پر قتل کا کوئی نشان نہیں یا اس کی ناک یا پاخانہ پیشاب کے مقام سے خون نکلا ہے یا حلق سے بستہ خون نکلا یا دشمن کے خوف سے مر گیا تو غسل دیا جائے۔ (درمختار ج ۱ ص ۸۵۱،۸۵۰)
مسئلہ ۱۲: اپنی جان یا مال یا کسی مسلمان کے بچانے میں لڑا اور مارا گیا شہید ہے لوہے یا پتھر یا لکڑی کسی چیز سے قتل کیا گیا ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۸)
مسئلہ ۱۳: مشرک کا گھوڑا چھوٹ کر بھاگا اور اس پر کوئی سوار نہیں اس نے کسی مسلمان کو کچل دیا یا مسلمان نے کافر پر تیر چلایا وہ مسلمان کو لگا یا کافر کے گھوڑے سے مسلمان کو گھوڑا بھڑکا اس نے مسلمان سوار کر گرا دیا یا معاذ اللہ مسلمانوں نے فرار کی کافروں نے ان کو آگ یا خندق کی طرف مضطر کیا یا مسلمانوں نے اپنے گرد گھو کھرو بچھائے تھے پھر اس پر چلے اور مر گئے ان سب صورتوں میں غسل دیا جائے ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۸)
مسئلہ ۱۴: لڑائی میں کسی مسلمان کا گھوڑا بھڑکا یا کافروں کا جھنڈا دیکھ کر بدکا مگر کافروں نے اسے نہیں بھڑکایا اور اس نے سوار کو گرا دیا وہ مر گیا یا کافر قلعہ بند ہوئے اور مسلمانوں نے شہر پناہ پر چڑھائی کی اس پر سے پھسل کر کوئی گرا اور مر گیا یا معاذ اللہ مسلمانوں کو شکست ہوئی اور ایک مسلمان کی سواری نے دوسرے مسلمان کو کچل دیا خواہ وہ مسلمان اس پر سوار ہو یا باگ پکڑ کر لئیے جاتا یا پیچھے سے ہانکتا ہو یا دشمن پر حملہ کیا اور گھوڑے سے گر کر مر گیا ان سب صورتوں میں غسل دیا جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۴۸)
مسئلہ ۱۵: دونوں فریق آمنے سامنے ہوئے مگر لڑائی کی نوبت نہیں آئی اورایک شخص مردہ ملا تو جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ آلۂ جارحہ سے ظلماً قتل کیا گیا غسل دیا جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۸)
مسئلہ ۱۶: شہید کے بدن پر جو چیزں از قسم کفن نہ ہوں اتار لی جائیں مثلاً پوستین زرہ ٹوپی ہتھیار روئی کا کپڑا اور اگر کفن مسنون میں کچھ کمی پڑے تو اضافہ کیا جائے اور پاجامہ نہ اتارا جائے اور اگر کمی ہے مگر پوراکرنے کو کچھ نہیں تو پوستین اور روئی کا کپڑا نہ اتاریں ۔ شہید کے سب کپڑے اتار کرنئے کپڑے دینامکروہ ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۸، ردالمحتار ج ۱ ص ۸۵۱ وغیرہما)
مسئلہ ۱۷: جیسے اور مردوں کو خوشبو لگاتے ہیں شہید کو بھی لگائیں شہید کا خون نہ دھویا جائے خون سمیت دفن کریں اور اگر کپڑے میں نجاست لگی ہو تو دھو ڈالیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۶۸)
مسئلہ ۱۸: شہید کی نماز جنازہ پڑھی جائے ۔(عامہ کتب، شامی ج ۱ ص ۸۵۱)
مسئلہ ۱۹: دشمن پر وار کیا ضرب اس پر نہ پڑی بلکہ خود اس پر پڑی اور مر گیا تو عنداللہ شہید ہے مگر غسل دیں اور نماز پڑھیں ۔ (جوہرہ)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔