شکار کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتا ہے:
یا ایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود ط احلت لکم بھیمۃ الانعام الا ما یتلی علیکم غیر محلی الصید وانتم حرمٌ ط
( اے ایمان والو اپنے قول پورے کرو تمہارے لئے حلال ہوئے بے زبان مویشی مگر وہ جو آگے سنا یا جائے گا تم کو لیکن شکار حلال نہ سمجھو جب تم احرام میں ہو)
اور فرماتا ہے:
واذا حللتم فاصطادوا
(اور جب تم احرام سے باہر ہو جائوتو شکار کر سکتے ہو)
اور فرماتا ہے:
یسئلونک ما ذا احل لھم ط قل احل لکم الطیبت وما علمتم من الجوارح مکلبین تعلمونھن مما علمکم اللہ ز فکلوا مما امسکن علیکم واذکروا اسم اللہ علیہ ص واتقواللہ ط ان اللہ سریع الحساب ہ
(اے محبوب تم سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال ہو۔ تم فرما دو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں اور جو شکاری جانور تم نے سکھالئے انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس میں انہیں سکھاتے تو دکھائو اس میں سے جو مار کر تمہارے لئے رہنے دیں اور اس پر اللہ کا نام لو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ جلد حساب کرنے والا ہے)
اور فرماتا ہے:
یا ایھا الذین امنوا لا تقتلوا الصید وانتم حرمٌ
(اے ایمان والو شکار نہ مارو جب تم احرام میں ہو)
اور فرماتا ہے:
احل لکم صید البحر وطعامہ‘ متاعًا لکم وللسیارۃ ج وحرم علیکم صید البر ما دمتم حرمًا ط
(دریا کا شکار تمہارے لئے حلال ہے اور اس کا کھانا تمہارے اور مسافروں کے فائدہ کو اور تم پر حرام ہے خشکی کا شکار جب تک تم احرام میں ہو)
حدیث ۱: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا شکار کو حلال جانو اس لئے کہ اللہ عزوجل نے اس کو حلال فرمایا مجھ سے پہلے اللہ کے بہت سے رسول تھے وہ سب شکار کیا کرتے تھے۔ اپنے لئے اور اپنے بال بچوں کے لئے حلال رزق تلاش کرو اس لئے کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ کی طرح ہے اور جان لو کہ اللہ صالح تجار کا مددگار ہے۔
حدیث ۲: صحیح بخاری و مسلم میں عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم اپنا کتا چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو اگر اس نے پکڑ لیا اور تم نے جانور کو زندہ پا لیا تو ذبح کر لو اور اگر کتے نے مار ڈالا ہے اور اس میں سے کچھ کھایا نہیں تو کھائو اور اگر کھا لیا تو نہ کھائو کیونکہ اس نے اپنے لئے شکار پکڑا اور اگر تمہارے کتے کے ساتھ دوسرا کتا شریک ہو گیا اور جانور مر گیا تو نہ کھائو کیونکہ تمہیں یہ نہیں معلوم کہ کس نے قتل کیا اور جب شکار پر تیر چھوڑو تو بسم اللہ کہہ لو اور اگر شکار غائب ہو گیا اور ایک دن تک نہ ملا اور اس میں تمہارے تیر کے سوا کوئی دوسرا نشان نہیں ہے تو اگر چاہو کھا سکتے ہو اور اگر شکار پانی میں ڈوبا ہوا ملا تو نہ کھائو۔
حدیث ۳: صحیح بخاری و مسلم میں عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم سکھائے ہوئے کتے کو شکار پر چھوڑتے ہیں فرمایا کہ جو تمہارے لئے اس نے پکڑا ہے اسے کھائو میں نے عرض کی اگرچہ مار ڈالیں فرمایا اگرچہ مار ڈالیں میں نے عرض کی ہم تیر سے شکار کرتے ہیں فرمایا تیر نے جسے چھید دیا اسے کھائو اور پٹ تیر شکار کو لگے اور مر جائے تو نہ کھائو کیونکہ دب کر مرا ہے۔
حدیث ۴: امام بخاری نے عطا رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ اگر کتے نے شکار کا خون پی لیا اور گوشت نہ کھایا تو اس جانور کو کھا سکتے ہو۔
حدیث ۵: صحیح بخاری و مسلم میں ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم اہل کتاب کی زمین میں رہتے ہیں کیا ان کے برتن میں کھا سکتے ہیں اور شکار کی زمین میں رہتے ہیں اور میں کمان سے شکار کرتا ہوں اور ایسے کتے سے شکار کرتا ہوں جو معلم نہیں ہے اور معلم کتے سے بھی شکار کرتا ہوں اس میں کیا چیز میرے لئے درست ہے ۔ ارشاد فرمایا ، وہ جو تم نے اہل کتاب کے برتن کا ذکر کیا (اس کا حکم یہ ہے) کہ اگر تمہیں دوسرا برتن ملے تو اس میں نہ کھائو اور دوسرا برتن نہ ملے تو اسے دھو لو پھر کھائو۔ اور کمان سے جو تم نے شکار کیا اور بسم اللہ کہہ لی تو کھائو اور معلم کتے سے جو شکار کیا اور بسم اللہ کہہ لی تو کھائو اور غیر معلم سے جو شکار کیا ہے اور اسے ذبح کر لیا تو کھائو۔
حدیث ۶: صحیح مسلم میں انہیں سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تیر سے شکار مارو غائب ہو جائے پھر مل جائے تو کھا لو جب کہ بدبو دار نہ ہو۔
حدیث ۷: ابودائود نے عدی بن حاتم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کتے یا باز کو اگر تم نے سکھا لیا ہے پھر اسے شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہہ لی ہے تو کھائو جو تمہارے لئے پکڑے میں نے کہا اگرچہ مار ڈالے فرمایا اگرچہ مار ڈالے اور اس میں سے نہ کھائے تو تمہارے لئے پکڑا ہے۔
حدیث ۸: کتاب الآثار میں امام محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی ہے کہ تمہارے کتے نے جس چیز کو تمہارے لئے پکڑا ہے اسے کھائو اگر وہ سیکھا ہوا ہے پھر اگر اس کتے نے اس سے کچھ کھا لیا تو نہ کھائو اس لئے کہ اس نے اپنے ہی لئے پکڑا ہے لیکن اگر شکرہ اور باز نے کھا بھی لیا ہے تب بھی کھا سکتے ہو اس واسطے کہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ جب تم اسے بلائو تو آجائے اور وہ تمہاری مار کی برداشت نہیں کر سکتا کہ مار کھانا چھڑا دو۔
حدیث ۹: ابودائود نے انہیں سے روایت کی کہتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ میں شکار کو تیر مارتا ہوں اور دوسرے دن اپنا تیر اس میں پاتا ہوں ۔ فرمایا کہ جب تمہیں معلوم ہو کہ تمہارے تیر نے اسے مارا ہے اور اس میں کسی درندہ کا نشان نہ دیکھو توکھا لو۔
حدیث ۱۰: امام احمد نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ حضور نے فرمایا ایسی چیز کو کھائو جس کو تمہاری کمان یا تمہارے ہاتھ نے شکار کیا ہو۔ ذبح کیا ہو یا نہ کیا ہو اگرچہ وہ آنکھوں سے غائب ہو جائے جب تک اس میں تمہارے تیر کے سوا دوسرا نشان نہ ہو۔
حدیث ۱۱: ترمذی نے جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں مجوسی کے کتے نے جو شکار کیا ہے اس کی ہمیں ممانعت ہے۔
حدیث ۱۲: امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی فرماتے ہیں کہ غلہ مارنے سے جو جانور مر گیا وہ موقوذہ ہے (یعنی اس کا کھانا حرام ہے)۔
حدیث ۱۳: صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت حسن بصری اور ابراہیم نخعی رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا کہ جب شکار کو مارا جائے اور اس کا ہاتھ یا پیر کٹ کر الگ ہو جائے تو الگ ہونے والے کو نہ کھایا جائے اور باقی کھا سکتا ہے ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ جب گردن یا وسط جسم میں مارو تو کھا سکتے ہو (یعنی گردن جدا ہو جائے یا وسط کٹ جائے تو اس ٹکڑے کو بھی کھایا جائے گا۔
حدیث ۱۴: طبرانی اور حاکم اور بیہقی و ابن عساکر نے رزین بن جیش سے روایت کی انھوں نے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ خرگوش کو لکڑی یا پتھر سے مار کر (بغیر ذبح کئے ) نہ کھائولیکن بھالے اور برچھی اور تیر سے مار کر کھائو۔
حدیث ۱۵: صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جانوروں کی حفاظت اور شکاری کتے کے سوا جس نے اور کتا پالا اس کے عمل سے ہر دن دو قیراط کم ہو جائے گا۔
مسائل فقہیہ
شکار اس وحشی جانور کو کہتے ہیں جو آدمیوں سے بھاگتا ہو اور بغیر حیلہ نہ پکڑا جا سکتا ہو اور کبھی فعل یعنی اس جانور کے پکڑنے کو بھی شکار کہتے ہیں ۔ حرام و حلال دونوں قسم کے جانور کو شکار کہتے ہیں شکار سے جانور حلال ہونے کے لئے پندرہ شرطیں ہیں ۔ پانچ شکار کرنے والے میں اور پانچ کتے میں اور پانچ شکار میں :
(۱) شکاری ان میں سے ہو جن کا ذبیحہ جائز ہوتا ہے۔
(۲) اس نے کتے وغیرہ کو شکار پر چھوڑا ہو۔
(۳) چھوڑنے میں ایسے شخص کی شرکت نہ ہو جس کا شکار حرام ہو۔
(۴) بسم اللہ قصداً ترک نہ کی ہو۔
(۵) چھوڑنے اور پکڑے کے درمیان کسی دوسرے کام میں مشغول نہ ہوا ہو۔
(۶) کتا معلم (سکھایا ہوا) ہو۔
(۷) جدھر چھوڑا گیا ہو ادھر ہی جائے۔
(۸) شکار پکڑنے میں ایسا کتا شریک نہ ہوا ہو جس کا شکار حرام ہے۔
(۹) شکار کو زخمی کر کے قتل کرے۔
(۱۰) اس میں سے کچھ نہ کھائے۔
(۱۱) شکار حشرات الارض میں سے نہ ہو۔
(۱۲) پانی کا جانور ہو تو مچھلی ہی ہو۔
(۱۳) بازوئوں یا پائوں سے اپنے آپ کو شکار سے بچائے۔
(۱۵) کیلے یا پنجہ والا جانور نہ ہو۔
(۱۵) شکاری کے وہاں تک پہنچنے سے پہلے ہی مر جائے۔ یعنی ذبح کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو۔
یہ شرائط اس جانور کے متعلق ہیں جو مر گیا ہو اور اس کا کھانا حلال ہو۔
مسئلہ ۱: شکار کرنا ایک مباح فعل ہے مگر حرم یا احرام میں خشکی کاجانور شکار کرنا حرام ہے اسی طرح اگر شکار محض لہو کے طور پر ہو تو وہ مباح نہیں ۔ (درمختار) اکثر اس فعل سے مقصود ہی کھیل اور تفریح ہوتی ہے اسی لئے عرف عام میں شکار کھیلنا بولا جاتا ہے جتنا وقت اور پیسہ شکار میں خرچ کیا جاتا ہے اگر اس سے بہت کم داموں میں گھر بیٹھے ان لوگوں کو وہ جانور مل جایا کرے تو ہرگز راضی نہ ہوں گے وہ یہی چاہیں گے کہ جو کچھ ہو ہم تو خود اپنے ہاتھ سے شکار کریں گے اس سے معلوم ہوا کہ ان کا مقصد کھیل اور لہو ہی ہے۔ شکار کرنا جائز و مباح اس وقت ہے کہ اس کا صحیح مقصد ہو مثلاً کھانا یا بیچنا یا دوست احباب کو ہدیہ کرنا یا اس کے چمڑے کو کام میں لانا یا اس جانور سے اذیت کا اندیشہ ہے اس لئے قتل کرنا وغیرہ ذلک۔
مسئلہ ۲: جس جانور کا گوشت حلال ہے اس کے شکار سے بڑا مقصود کھانا ہے اور حرام جانور کو بھی کسی غرض صحیح سے شکار کرنا جائز ہے مثلاً اس کی کھال یا بال کو کام میں لانا مقصود ہے یا وہ موذی جانور ہے اس کے ایذا سے بچنا مقصود ہے۔ (شلبیہ) بعض آدمی جنگلی خنزیر کا شکار کرتے ہیں یا شیر وغیرہ کا جنگلوں میں جا کر شکار کرتے ہیں اس غرض سے نہیں کہ لوگوں کو ان کی اذیت سے بچائیں بلکہ محض تفریح خاطر اور اپنی بہادری کے لئے اس قسم کے شکار کھیلے جاتے ہیں یہ شکار مباح نہیں ۔
مسئلہ ۳: شکار کو پیشہ بنا لینا اور کسب کا ذریعہ کر لینا جائز ہے بعض فقہا نے اس کو ناجائز یا مکروہ کہا یہ صحیح نہیں کیونکہ کراہت جب ہی ہو سکتی ہے کہ اس کے لئے دلیل شرعی ہو اور دلیل میں یہ کہنا کہ جان مارنے کا پیشہ کر لینا قساوت قلب کا سبب ہوتا ہے اس سے بھی کراہت ثابت نہیں صرف اتنا ہی ثابت ہو گا کہ دوسرے جائز پیشے اس سے بہتر ہیں ورنہ لازم آئے گا کہ قصاب کا پیشہ بھی مکروہ ہو حالانکہ اس کی کراہت کا قول کسی سے منقول نہیں ۔ (ردالمحتار)
مسئلہ۴: جنگلی جانور کو جو شخص پکڑے اس کی ملک ہو جاتا ہے پکڑنا حقیقۃً ہو یا حکماً۔ حکماً کی صورت یہ ہے کہ جو چیز شکار کے لئے موضوع ہو اس کا استعمال کرے اور استعمال سے مقصود شکار کرنا نہ ہو لہذا اگر جال تانا اور اس میں جانور پھنس گیا تو جال والے کا ہو گیا۔ جال اسی مقصد سے تانا ہو یا کچھ مقصد نہ ہو ہاں اگر کھانے کے لئے تانا تو اس کی ملک نہیں جب تک پکڑ نہ لے ۔ حکماً پکڑنے کی دوسری صورت یہ ہے ک جو چیز شکار کے لئے موضوع نہ ہو اس کو بقصد شکار استعمال کرے مثلاً شکار پکڑنے کے لئے دیرہ نصب کیا اور اس میں شکار آگیا اور بند ہو گیا تو دیرہ والا مالک ہو گیا یا مکان کا دروازہ اس غرض سے کھول رکھا تھا اس میں ہرن آگیا اور دروازہ بند کر لیا۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۵: جال تانا تھا اس میں شکار پھنسا کسی دوسرے نے اس کو پکڑ لیا تو شکار والے کا ہے اس کا نہیں جس نے پکڑ لیا ہاں اگر وہ جال نے نکل کر بھا گ گیا یا اڑ گیا اور دوسرے نے پکڑ لیا تو اس پکڑنے والے کا ہے جال والے کا نہیں اور اگر جال میں پھنسا اور جال والے نے پکڑلیا پھر اس سے چھوٹ کر بھاگا اور دوسرے نے پکڑا تو جال والے ہی کا ہے کہ پکڑنے سے اس کی ملک ہو گیا اور بھاگنے سے ملک نہیں جاتی۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۶: پانی کاٹ کر اپنی زمین میں لایا اس غرض سے پانی کے ساتھ مچھلیاں آئیں گی اور ان کو شکار کرے گا پانی کے ساتھ مچھلیاں آئیں اور پانی جاتا رہا مچھلیاں زمین پر پڑی رہیں یا تھوڑا سا پانی باقی ہے کہ بغیر شکار کئے مچھلیاں ویسے ہی پکڑی جا سکتی ہیں یہ مچھلیاں زمین والے کی ہیں دوسرا شخص ان کو نہیں پکڑ سکتا جو پکڑے گا اسے تاوان دینا ہوگا اور اگر پانی زیادہ ہے کہ بغیر شکار کئے مچھلیاں ہاتھ نہیں آتیں تو جو چاہے پکڑ لے تو یہی پکڑنے والا مالک ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۷: ایک شخص نے پانی میں جال ڈالا دوسرے نے شص پھینکی مچھلی جال میں آئی اور اس نے شص کو بھی پکڑ لیا اگر جال کے باریک حصہ میں آ چکی ہے تو جال والے کی ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۸: پانی میں کانٹا والا مچھلی پھنسی اس نے باہر پھینکی خشکی میں گری اور ایسی جگہ گری کہ یہ اس کے پکڑنے پر قادر ہے پھر تڑپ کر پانی میں چلی گئی تو یہ شخص اس کا مالک ہو گیا اور اگر باہر نکالنے سے پہلے ہی ڈورا ٹوٹ گیا تو مالک نہ ہوا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۹: کسی شخص نے گڑھا کھودا تھا اس میں شکار آکر گرا تو جو شخص پکڑ لے اسی کا ہے اور اگر گڑھا کھودنے سے مقصود ہی یہ تھا کہ اس میں شکار گرے گا اور پکڑوں گا تو شکار اسی کا ہے دوسرے کو اس کا پکڑنا جائز نہیں ۔ (خانیہ)
مسئلہ ۱۰: کنواں کھودا تھا اور یہ مقصد تھا کہ اس کے ذریعہ سے شکار پکڑے گا اس میں شکار گرا اگر کنویں والا وہاں سے قریب ہے کہ ہاتھ بڑھا کر شکار پکڑ سکتا ہے اسی کا ہے دوسرا شخص نہیں پکڑ سکتا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۱: پھندے میں شکار پھنسا مگر رسی توڑ کر بھاگا دوسرے نے پکڑ لیا تو اسی کا ہے اور اگر پھندے والا اتنا قریب آچکا ہے کہ ہاتھ بڑھا کر پکڑ سکتا ہے اتنے میں شکار نے رسی توڑائی اور دوسرے نے پکڑ لیا تو پھندے والے کا ہے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۲: کسی کے مکان میں دوسرے لوگوں کے کبوتروں نے انڈے بچے کئے تو یہ انڈے بچے اسی کے ہیں جس کے کبوتر ہیں دوسرے لوگوں کو یا مالک مکان کو ان کا پکڑنا اور رکھنا جائز نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۳: شکار کو مارا وہ زخمی ہو ا مگر چوٹ سے بیہوش ہو گیا تھوڑی دیر بعد اٹھ کے بھاگا اب دوسرے شخص نے مارا اور پکڑ لیا تو اسی دوسرے کا ہے اور اگر بے ہوشی میں پہلے شخص نے پکڑ لیا تھا تو پہلے کا ہے۔ اور اگر شکار زخمی ہو گیا تھا مگر پہلے نے پکڑا نہیں کچھ دنوں بعد اچھا ہو گیا پھر دوسرے نے مارا اور پکڑا تو اس کا نہیں پہلے ہی شخص کا ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۴: شکار کی ملک کے متلعق یہ چند جزئیات اس لئے ذکر کئے کہ شکاریوں کو شکار کے لینے میں اس قدر شغف ہوتا ہے کہ وہ بالکل اس بات کا لحاظ نہیں رکھتے کہ یہ چیز ہمیں لینی جائز بھی ہے یا نہیں ۔ ان مسائل سے ان کو یہ کرنا چاہئیے کہ کس صورت میں ہماری ملک ہے اور کس صورت میں دوسرے کی تاکہ اپنی ملک نہ ہو تو لینے سے بچیں ۔
جانوروں سے شکار کے متعلق مسائل
مسئلہ ۱: ہر درندہ جانور سے شکار کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ وہ نجس العین نہ ہو اور اس میں تعلیم کی قابلیت ہو اور اسے سکھا بھی لیا ہو۔ درندہ کی دو قسمیں ہیں ۔ (۱) چوپایہ جیسے کتا وغیرہ جس میں کیلا ہوتا ہے (۲) پنجہ والا پرندہ جیسے باز ، شکرا وغیرہ ۔ جس درندہ میں قابلیت تعلیم نہ ہو اس کا شکار حلال نہیں مگر اس صورت میں کہ شکار پکڑ کر ذبح کر لیا جائے لہذا شیر اور ریچھ سے شکار حلال نہیں کہ ان دونوں میں تعلیم کی قابلیت ہی نہیں ۔ شیر اپنی علو ہمت اور ریچھ اپنی دنات اور خساست کی وجہ سے تعلیم کی قابلیت نہیں رکھتے۔ بعض فقہا نے چیل کو بھی قابل تعلیم نہیں مانا ہے کہ یہ بھی اپنی خساست کی وجہ سے تعلیم نہیں حاصل کرتی۔ (ہدایہ ، درمختار)
مسئلہ ۲: کتا چیتا وغیرہ چوپایہ کے معلم ہونے کی علامت یہ ہے کہ پے درپے تین مرتبہ ایسا ہو کہ شکار کو پکڑے اور اس میں سے نہ کھائے تو معلوم ہو گیا کہ یہ سیکھ گیا۔ اب اس کے بعد جو شکار کرے گا اور وہ مر بھی جائے تو اس کا کھانا حلال ہے بشرطیکہ دیگر شرائط بھی پائے جائیں کہ اس کا پکڑنا ہی ذبح کے قائم مقام ہے اور شکرا باز وغیرہ شکاری پرندکے معلم ہونے کی پہچان یہ ہے کہ اسے شکار پر چھوڑا اس کے بعد واپس بلا لیا تو واپس آجائے اگر واپس نہ آئے تو معلوم ہوا کہ ابھی تمہارے قابو میں نہیں ہے معلم نہیں ہوا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳: کتے نے شکار کو پکڑنے کے بعد اس کاگوشت نہیں کھایا مگر خون پی لیا تو کوئی حرج نہیں ۔ شکرے باز وغیرہ پرند شکاریوں نے اگر گوشت میں سے کچھ کھا لیا تو جانور حلال ہے کہ یہ بات اس کے معلم ہونے کے خلاف نہیں اور اگر مالک نے شکار میں سے ٹکڑا کاٹ کر کتے کو دیا اور اس نے کھا لیا تو مابقی گوشت کھایا جائے گا کہ اس صورت میں اس نے خود نہیں کھایا مالک نے کھلایا تب کھایا اسی طرح اگر مالک نے شکار کو محفوظ کر لیا اس کے بعد کتے نے اس میں سے چھین جھپٹ کر کچھ کھا لیا تو مابقی گوشت جائز ہے کہ یہ بات اس کے معلم ہونے کے خلاف نہیں ۔ (زیلعی)
مسئلہ ۴: کتے کو شکار پر چھوڑا اس نے شکار کی بوٹی کاٹ لی اور اسے کھا لیا اس کے بعد شکار کو پکڑا اور مار ڈالا تو یہ شکار حرام ہے کہ جب کتے نے کھالیا تو معلم نہ رہا اور اس کا مارا ہوا شکار حلال نہیں اور اگرکتے نے بوٹی کاٹی مگر اس کو کھایا نہیں چھوڑ دیا اور شکار کا پیچھا کیا شکار پکڑنے کے بعد جب مالک نے شکار پر قبضہ کر لیا اب کتے نے وہ بوٹی کھائی تو جانور حلال ہے۔ (زیلعی)
مسئلہ ۵: یہ ضروری ہے کہ شکاری جانور نے شکار کو زخمی کر کے مارا ہو محض دبوچنے سے مر گیا ہو توکھانا حلال نہیں ۔ کسی خاص جگہ پر زخم کرنا ضروری نہیں بلکہ جس مقام پر گھائل کر دیا ہو حلال ہونے کے لئے کافی ہے۔ (زیلعی) شکرا اپنے مالک کے پاس سے اڑ گیا ایک مدت کے بعد پھر آگیا مالک نے اس سے شکار کیا تو بغیر ذبح یہ شکار حلال نہیں کہ بھاگ جانے سے وہ معلم نہ رہا اب پھر جب تک اس کا معلم ہونا ثابت نہ ہو جائے اس کا مارا ہوا شکار حلال قرار نہیں پائے گا۔ (زیلعی)
مسئلہ ۶: جو کتا معلم ہو چکا تھا جب کبھی شکار میں سے کچھ کھا لے گا وہ شکار حرام ہے بلکہ اس کے بعد کے شکار بھی حرام ہیں بلکہ اس سے پہلے کا شکار جو ابھی محفوظ ہے وہ بھی حرام ہاں جو کھایا جا چکا ہے اس کو حرام نہیں کہا جا سکتا۔ اس کتے کو پھر سے سکھانا ہو گا کیونکہ شکار میں سے کھانے کی وجہ سے معلم نہ رہا جاہل ہو گیا اب اس کا شکار اس وقت حلال ہو گا کہ سکھا لیا جائے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۷: مسلم یا کتابی نے بسم اللہ پڑھ کر شکاری جانور کو شکار پر چھوڑا تب مرا ہوا شکار حلال ہو گا۔ اگر مجوسی یا بت پرست یا مرتد نے چھوڑا تو حلال نہیں جس طرح ان کا ذبیحہ حلال نہیں اگرچہ انہوں نے بسم اللہ پڑھی ہو اور اگر جانور کو چھوڑا نہیں بلکہ وہ خود ہی اپنے آپ شکار پر دوڑ پڑا اور پکڑ کر مار ڈالا یہ شکار حرام نہیں ۔ یونہی اگر یہ معلوم نہ ہو کہ کسی نے چھوڑا یا خود ہی جا کر پکڑ لایا یہ معلوم نہیں کہ کس نے مسلم نے یا مجوسی نے تو جانور حلال نہیں ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۸: شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو جانورحلال ہے جس طرح ذبح کرتے وقت اگر بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو حلال ہے ۔حرام اس وقت ہے جب قصداً نہ پڑھے۔ (درمختار)
مسئلہ ۹: شکار پر چھوڑتے وقت قصداً بسم اللہ نہیں پڑھی بلکہ جب کتے نے جانور پکڑا اس وقت بسم اللہ پڑھی جانور حلال نہ ہوا کہ بسم اللہ پڑھنا اس وقت ضروری تھا اب پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۰: مسلم نے شکار پر کتا چھوڑامجوسی یا ہندو نے کتے کو شہ دی جیسا کہ شکار کرتے وقت کتے کو جوش دلاتے ہیں اس کے شہ دینے پر جوش میں آیا اور شکار مارا یہ حلال ہے اور اگر مجوسی نے چھوڑا اور مسلم نے شہ دی تو حرام ہے یعنی کتا چھوڑنے کا اعتبار ہے اس کا اعتبار نہیں کہ کس نے جوش دلایا۔ اسی طرح اگر محرم نے شہ دی اور شکار پر جانور اس نے چھوڑا ہے جو احرام نہیں باندھے ہوئے ہے تو جانور حلال ہے مگر محرم کواس صورت میں شکار کا فدیہ دینا ہو گا کہ اس کو شکار میں مداخلت جائز نہیں ۔ (زیلعی)
مسئلہ ۱۱: کتا چھوڑا نہیں گیا بلکہ وہ خود چھوٹ گیا اور اپنے آپ شکار پر دوڑ پڑا کسی مسلم نے اس کو شہ دی اس سے جوش میں آیا اور شکار کو مارا یہ شکار حلا ل ہے اس صورت میں شہ دینا وہی چھوڑنے کے قائم مقام ہے ۔ ان باتوں میں شکرے اور باز کا وہی حکم ہے جو کتے کا ہے ۔ (زیلعی)
مسئلہ ۱۲: کتے کو شکار پر چھوڑا اس نے کئی پکڑلئے سب حلال ہیں اور جس شکار پر چھوڑا اس کو نہیں پکڑا دوسرے کو پکڑا یہ بھی حلال ہے اوراگرکتے کو شکار پر نہ چھوڑا ہو بلکہ کسی اور چیز پر چھوڑا اور اس نے شکار مارا یہ حلال نہیں کہ یہاں شکار کرنا ہی نہیں ہے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۳: شکاری جانور کو وحشی جانور پر چھوڑنا شکار ہے اگر پلائو اور مانوس جانور پر کتا چھوڑا جائے اور وہ مار ڈالے تو یہ جانور حلال نہیں ہو گا کہ ایسے جانوروں کے حلال ہونے کے لئے ذبح کرنا ضروری ہے۔ ذکاۃ اضطراری یہاں کافی ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۴: کتے کے ساتھ اگر شکار کرنے میں دوسرا کتا جس کا شکار حلال نہ ہو شریک ہو گیا تو یہ شکار حلال نہ ہو گا مثلاً دوسرا کتا جو معلم نہ تھا ااس کی شرکت میں شکار ہوا یا مجوسی کے کتے کی شرکت میں شکار ہوا یا دوسرے کو کسی نے چھوڑا ہی نہیں ہے اپنے آپ کو شریک ہو گیا یا اس دوسرے کے چھوڑنے کے وقت قصداً بسم اللہ چھوڑ دی ان سب صورتوں میں وہ جانور مردار ہے اس کا کھانا حرام ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۵: یہ بھی ضروری ہے کہ کتے کو جب شکار پر چھوڑا جائے فوراً دوڑ پڑے طویل وقفہ نہ ہونے پائے ورنہ جانور حلال نہ ہو گا۔ طویل وقفہ کا یہ مطلب ہے کہ دوسرے کام میں مشغول نہ ہو مثلاً چھوڑنے کے بعد پیشاب کرنے لگا یا کچھ کھانے لگا۔ اس صورت میں شکار حلال نہیں ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۶: چھوڑنے کے بعد کتا شکار پر دوڑا مگر بعد میں شکار سے دہنے یا بائیں کو مڑ گیا یا شکار کی طلب کے سوا کسی دوسرے کام میں لگ گیا یا سست پڑ گیا پھر کچھ وقفہ کے بعد شکار کا پیچھا کیا اور جانور کو مارا اس کا کھانا حلال نہیں ہاں ا ن صورتوں میں اگر کتے کو پھر سے چھوڑا جاتا تو جانور حلال ہوتا یا مالک کے للکارنے سے شکار پر جھپٹتا اور مارتا تو کھایا جاتا۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۷: اگر کتے کا رک جانا یا چھپ جانا آرام طلبی کے لئے نہ ہو بلکہ شکار کرنے کا یہ حیلہ دائوں ہو جس طرح چیتا شکار کو گھات سے پکڑتا ہے اس میں حرج نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۸: شکار اگر زندہ مل گیا اور ذبح کرنے پر قدرت ہے تو ذبح کرنا ضروری ہے کہ ذکاۃ اضطراری مجبوری کی صورت میں ہے اور یہاں مجبوری نہیں ہے اور اگر جانور اس کو زندہ ملا مگر یہ اس کے ذبح پر قدرت نہیں رکھتا ہے کہ وقت تنگ ہے یا ذبح کا آلہ موجود نہیں ہے اس کی دو صورتیں ہیں اگر جانور میں حیاۃ اتنی باقی ہے جو مذبوح سے زیادہ ہے تو حرام ہے ورنہ جائز ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۱۹: شکار تک پہنچ ہے گیا مگر اسے پکڑتا نہیں اگر اتنا وقت ہے کہ پکڑ کر ذبح کر سکتا تھا مگر کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ مر گیا تو جانورنہ کھایا جائے اور وقت اتنا نہیں ہے کہ ذبح کر سکے تو حلال ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۰: کتے کو شکار پر چھوڑا اس نے ایک شکار مارا پھر دوسرا مارا دونوں حلال ہیں اور اگر پہلا شکار کرنے کے بعد دیر تک رکا رہا پھر دوسرا مارا تو دوسرا حرام ہے کہ پہلے شکار کے بعد جب وقفہ ہوا تو شکار پر چھوڑنا دوسرے کے بارے میں نہیں پایا گیا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۱: معلم کتے کے ساتھ دوسرے کتے نے شرکت کی جس کا شکار حرام ہے مگر اس نے شکار کرنے میں شرکت نہیں کی ہے بلکہ یہ کتا گھیر گھار کر شکار کو ادھر لایا اور پہلے ہی کتے نے شکار کو زخمی کیا اور مارا ہوتو اس کا کھانا مکروہ ہے اور اگر وہ دوسرا کتا گھیر کر ادھر نہیں لایا بلکہ اس نے پہلے کتے کو دوڑایا اور اس نے شکار کو دوڑا کر زخمی کیا اور مارا تو یہ شکار حلال ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۲: مسلم نے کتے کو بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا اور اس نے شکار کو جھنجھوڑا یعنی اچھی طرح زخمی کیا اس کے بعد پھر حملہ کیا اور مار ڈالا یہ شکار حلال ہے اسی طرح اگر دو کتے چھوڑے ایک نے اسے جھنجھوڑا اور دوسرے کتے نے مار ڈالا یہ شکار بھی حلال ہے۔ یونہی اگر دو شخصوں نے بسم اللہ کہہ کر دو کتے چھوڑے ایک کے کتے نے جھنجھوڑ ڈالا اور دوسرے کتے نے مار ڈالا یہ جانور حلال ہے کھایا جائے گا مگر ملک پہلے شخص کی ہے دوسرے کی نہیں کیونکہ پہلے نے جب اسے گھائل کر دیا اور بھاگنے کے قابل نہ رہا اسی وقت اس کی ملک ہو چکی۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۳: ایک کتے نے شکار کو پچھاڑ لیا اور شکار کی حد سے خارج ہو گیا اب اس کے بعد دوسرے شخص نے اسی جانور پر اپنا کتا چھوڑا اور اس کتے نے مار ڈالا حرام ہے۔ کھایا نہ جائے کہ جب وہ جانور بھاگ نہیں سکتا تو اگر موقع ملتا ذبح کیا جاتا ایسی حالت میں ذکاۃ اضطراری نہیں ہے لہذا حرام ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۴: شکار کی دوسری نوع تیر وغیرہ سے جانور مارنا ہے اس میں بھی شرط یہ ہے کہ تیر چلاتے وقت بسم اللہ پڑھے اور تیر سے جانور زخمی ہو جائے ایسا نہ ہو کہ تیر کی لکڑی جانور کو لگی اور اس سے دب کر مر گیا کہ اس صورت میں وہ جانور حرام ہے۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲۵: شکار اگر غائب ہو گیا کتے کا ہو یا تیر کا تو یہ اس وقت حلال ہو گا کہ شکاری برابر اس کی جستجو جاری رکھے بیٹھ نہ رہے اور اگر بیٹھ رہا اور پھر شکار مرا ہوا ہو تو حلال نہیں اور پہلی صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ شکار میں تمہارے تیر کے سوا کوئی دوسرا زخم نہ ہو ورنہ حرام ہو جائے گا۔ (درمختار)
مسئلہ ۲۶: شکار کے حلال ہونے کے لئے یہ ضرور ہے کہ کتا چھوڑنے یا تیر چلانے کے بعد کسی دوسرے کام میں مشغول نہ ہو بلکہ شکار اور کتے کو تلاش میں رہے۔ اگر نظر سے شکار غائب ہو گیا پھر دیر کے بعد ملا اور اس کی دو صورتیں ہیں اگر جستجو جاری رکھی اور شکار کو مرا ہوا پایا اور کتا بھی شکار کے پاس ہی تھا تو کھایا جا سکتا ہے اور اگر کتا وہاں سے چلا آیا ہے تو نہ کھایا جائے اور اگر شکار کی تلاش میں نہ رہا کسی دوسرے کام میں مشغول ہو گیا پھر شکار کو پایا مگر معلوم نہیں کہ کتے نے زخمی کیا ہے یا کسی دوسری چیز نے تو نہ کھایا جائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۲۷: شکار کی آہٹ محسوس ہوئی اور اس شخص کو یہی گمان ہے کہ یہ شکار کی آہٹ ہے اس نے کتا یا باز چھوڑ دیا یا تیر چلا دیا اور شکار کو مارا یہ جانور حلال ہے جب کہ بعد میں یہی ثابت ہو کہ یہ آہٹ شکار ہی کی تھی کہ اس کا یہ فعل شکار کرنا قرار پائے گا اگرچہ شکار کو آنکھ سے دیکھا نہ ہو۔اوراگر بعد میں یہ پتہ چلا کہ وہ شکار کی آہٹ نہ تھی کسی آدمی کی پہل چہل تھی یا گھریلو جانور کی تھی تو وہ شکار حلال نہیں کہ جس چیز پر کتا چھوڑا یا تیر چلایا وہ شکار نہ تھی لہذا شکار کرنانہ پایا گیا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۸: پرند پر تیر چلایا وہ تو اڑ گیا دوسرے شکار کو لگا یہ حلال ہے اگرچہ معلوم نہ ہو کہ وہ پرند جس پر تیر چلایا وحشی ہے یا نہیں ۔ چونکہ پرند میں یہی غالب ہے کہ وحشی ہو اور اگر اونٹ پر تیر چلایا اور اونٹ کو نہیں لگا بلکہ کسی شکار کو لگا اس کی دو صورتیں ہیں اگر معلوم ہے کہ اونٹ بھاگ گیا ہے کسی طرح قابو میں نہیں آتا یعنی وہ اس حالت میں ہے کہ اس کا ذبح اضطراری ہو سکتا ہے تو وہ شکار حلال ہے اور اگر یہ پتہ نہ ہو تو شکار حلال نہیں کہ اس کا یہ فعل شکار کرنا نہیں ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۹: جس جانور کو تیر سے مارا اگر زندہ مل گیا تو ذبح کرے۔ بغیر ذبح کئے حلال نہیں یہی حکم کتے کے شکار کا بھی ہے یہاں حیاۃ سے مراد یہ ہے کہ اس کی زندگی مذبوح سے کچھ زیادہ ہو اور مترویہ و نطیحہ و موقوذہ و مریضہ وغیرہا میں مطلقاً زندگی مراد ہے یعنی اگر ان جانورں میں کچھ بھی زندگی باقی ہے اور ذبح کر لیا تو حلال ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۰: بسم اللہ پڑھ کر تیر چھوڑا ایک شکار کو چھیدتا ہوا دوسرے کو لگا دونوں حلال ہیں اور اگر ہوانے تیر کا رخ بدل دیا اس کو دہنے یا بائیں کو موڑ دیا اس صورت میں شکار کو لگا تو نہیں کھایا جائے گا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳۱: تیر شکار پر چلایا وہ درخت یا دیوار پر لگا اور لوٹا پھر شکار کو لگا یہ جانور حلال نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳۲: مسلم کے ساتھ مجوسی نے بھی کمان پر ہاتھ رکھ دیا اور اس کے ساتھ اس نے بھی کھینچا تو شکار حرام ہے یہ ویسا ہی ہے جیسے ذبح کرتے وقت مجوسی نے بھی چھری کو چلا دیا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳۳: شکار حلال ہونے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی موت دوسرے سبب سے نہ ہو یعنی کتے یا باز یا تیر وغیرہ جس سے شکار کیا اس سے مرا ہو اور اگر یہ شبہ ہو کہ دوسرے سبب سے اس کی موت ہوئی تو حلال نہیں مثلاً زخمی ہو کر وہ جانور پانی میں گرایا اونچی جگہ پہاڑ یا ٹیلے سے لڑھکا اور یہ احتمال ہو کہ پانی کی وجہ سے یا لڑھکنے سے مرا ہے تو نہ کھایا جائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۳۴: تیر سے شکار کومارا وہ اوپر سے زمین پر گرا یا وہاں اینٹیں بچھی ہوئی تھیں ان پر گرا اور مر گیا تو یہ شکار حلال ہے اگرچہ یہ احتمال ہے کہ گرنے سے چوٹ لگی اور مر گیاہو اس احتمال کا اعتبار نہیں کہ اس احتمال سے بچنے کی صورت نہیں اور اگر پہاڑ پر یا پتھر کی چٹان پر گرا پھر لڑھک کر زمین پر آیا اور مرا یا درخت پر گرایا نیزہ کھڑا ہوا تھا اس کی انی پر گرایا یا پکی اینٹ کی کور پر گرا ان سب کے بعد پھر زمین پر گرا اور مر گیا تو نہ کھایا جائے کہ ہو سکتا ہے ان چیزوں پر گرنے کی وجہ سے مرا ہو۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳۵: مرغابی کو تیر مارا وہ پانی میں گری اور مر گئی اس کا زخم پانی میں ڈوب گیا ہے تو نہ کھائی جائے اور نہیں ڈوبا ہے تو کھائی جائے۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۶: پانی وغیرہ میں گرنے سے مرنا یہ اس وقت معتبر ہے جب کہ شکار کو ایسا زخم پہنچا ہے کہ ہو سکتا تھا ابھی نہ مرتا تو کہا جا سکتا ہے کہ شاید اس وجہ سے مرا ہو اور اگر کاری زخم لگا ہے کہ بچنے کی امید ہی نہیں ہے اس میں زندگی کا اتنا ہی حصہ ہے جتنا مذبوح میں ہوتا ہے تو اس کا کھانا جائز ہے مثلاً سر جدا ہو گیا اورابھی زندہ ہے اور پانی میں گرا اور مرا اس صورت میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پانی میں گرنے سے مرا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳۷: شکار اگر زمین کے سوا کسی اور چیز پر گر کر مرا اگر وہ چیز مسطح ہے مثلاً چھت یا پہاڑ پر گر کر مر گیا تو حلال ہے کہ اس پر گرنا ویسا ہی ہے جیسے زمین پر گرنا اور اگر مسطح چیز پر نہ ہو مثلاً نیزہ پر یا اینٹ کی کور پر یا لاٹھی کی نوک پر تو حرام ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳۸: غلیل سے شکار کیا اور جانور مر گیا تو کھایا نہ جائے اگرچہ جانور مجروح ہو گیا ہو کہ غلیلہ کاٹتا نہیں بلکہ توڑتا ہے یہ موقوذہ ہے جس طرح تیر مارا اور اس کی نوک نہیں لگی بلکہ پٹ ہو کر شکار پر لگا اور مر گیا جس کی حدیث میں حرمت مذکور ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۹: بندوق کا شکار مرجائے یہ بھی حرام ہے کہ گولی یا چھرا بھی آلۂ جارحہ نہیں بلکہ اپنی قوت مدافعت کی وجہ سے توڑا کرتا ہے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۴۰: دھار دار پتھر سے مارا اگر پتھر بھاری ہے تو کھایا نہ جائے کیونکہ اس میں اگر یہ احتمال ہے کہ زخمی کرنے سے مرا تو یہ احتمال بھی ہے کہ پتھر کے بوجھ سے مرا ہو اور اگر وہ ہلکا ہے تو کھایا جائے کہ یہاں مرنا جراحت کی وجہ سے ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ۴۱: لاٹھی یا لکڑی سے شکار کو مار ڈالا تو کھایا نہ جائے کہ یہ آلہ جارحہ نہیں بلکہ اس کی چوٹ سے مرتا ہے اس باب میں قائدہ کلیہ یہ ہے کہ جانور کا مرنا اگر جراحت سے ہونا یقینا معلوم ہو تو حلال ہے اور اگر ثقل اور دینے سے ہو تو حرام ہے اور گر شک ہے کہ جراحت ہے یا نہیں تو احتیاطاً یہاں بھی حرمت ہی کا حکم دیا جائے گا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴۲: چھری یا تلوار سے مارا اگر اس کی دھار سے زخمی ہو کر مر گیا تو حلال ہے اور اگر الٹی طرف سے لگی یا تلوار کا قبضہ یا چھری کادستہ لگا تو حرام ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴۵: شکار کو مارا ا س کا کوئی عضو کٹ کر جدا ہو گیا تو شکار کھایا جائے اور وہ عضو نہ کھایا جائے جب کہ اس عضو کے کٹ جانے سے جانور کا زندہ رہنا ممکن ہو اور اگر نا ممکن ہو تو وہ عضو بھی کھایا جا سکتا ہے اور اگر جانور کو مارا اس کے دو ٹکڑے ہو گئے اور دونوں برابر نہیں دونوں کھائے جائیں اور ایک ٹکڑا ایک تہائی ہے دوسرا دو تہائی اور یہ بڑا ٹکڑا دم کی جانب کا ہے جب بھی کھائے جائیں اور اگر بڑا ٹکڑا سر کی طرف کا ہے تو صرف یہ بڑا ٹکڑا کھایا جائے دوسرا نہ کھایا جائے۔ اور اگر سر آدھا یا آدھے سے زیادہ کٹ کر جدا ہو گیا تو یہ ٹکڑا بھی کھا یا جا سکتا ہے۔ (ہدایہ، عنایہ)
مسئلہ۴۶: شکار کا ہاتھ یا پائوں کٹ گیا مگر جدا نہ ہوا اگر اتنا کٹا ہے کہ جڑ جانا ممکن ہے اور وہ شکار مر گیا تو یہ ٹکڑا بھی کھایا جا سکتا ہے اور اگر جڑنا ناممکن ہے کہ پورا کٹ گیا ہے صرف چمڑا ہی باقی رہ گیا ہے تو شکار کھایا جائے۔ یہ کٹا ہوا ہاتھ یا پائوں نہ کھایا جائے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴۷: ایک شخص نے شکار کو تیر مارا اور لگا مگر ایسا نہیں لگا ہے کہ بھاگ نہ سکے بلکہ بھاگ سکتا ہے اور پکڑنے میں نہیں آسکتا اس کے بعد دوسرے شخص نے تیر مار دیا اور وہ مر گیا یہ کھایا جائے گا اور دوسرے کی ملک ہو گا اور اگر پہلے نے کاری زخم لگایا ہے کہ بھاگ نہیں سکتا پھر دوسرے نے تیر مارا اور مر گیا تو پہلے شخص کی ملک ہے اور کھایا نہ جائے کیونکہ اس کو ذبح کر سکتے تھے ایسے کو تیر مار کر ہلاک کرنے سے جانور حرام ہوجاتا ہے یعنی یہ حکم اس وقت ہے کہ تیر مارنے کے بعد اس میں اتنی جان تھی کہ ذبح اختیاری ہو سکے اور اگراتنی ہی جان باقی تھی جتنی مذبوح میں ہوتی ہے تو دوسرے کے تیر مارنے سے حرام نہیں ہوا۔ اور دوسرے کے مارنے سے تین صورت میں شکار حرام ہو گیا یہ دوسرا شخص پہلے شخص کو اس زخم خوردہ جانور کی قیمت تاوان دے کہ اس کی ملک کو ضائع کیا ہے اور اگر یہ معلوم ہے کہ جانور کی موت دونوں زخموں سے ہوئی یا معلوم نہ ہو دوسرا شخص جانور کے زخمی کرنے کا تاوان دے۔ پھر جس جانور کو دو زخم لگے ہیں اس کے نصف قیمت کا جو ہو وہ تاوان دے پھر گوشت کی نصف قیمت تاوان دے یعنی اس صورت میں یہ تاوان دینے ہوں گے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴۸: شکار کو تیر مارا پھر اس شخص نے دوسرا تیر مارا اور مر گیا اس جانور کے حلال یا حرام ہونے میں وہی حکم ہے جو دوسرے شخص کے تیر مارنے کی صورت میں ہے یہاں ضمان کی صورت نہیں ہے کہ دونوں تیر خود اسی نے مارے ہیں ۔ (ہدایہ ، عنایہ)
مسئلہ ۴۹: پہاڑ کی چوٹی پر شکار مارا اور پورا گھائل ہو گیا ہے کہ بھاگ نہیں سکتا اس نے پھر دوسرا تیر مار کر اتارا یعنی دوسرا تیر لگنے سے مر گیا اور گرا تو حلال نہیں ۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۵۰: پرند کو رات میں پکڑنا مباح ہے مگر بہتر یہ ہے کہ رات کو نہ پکڑے۔ (درمختار)
مسئلہ ۵۱: باز اور شکرے وغیرہ کو زندہ پرندپر سکھانا ممنوع ہے کہ اس پرند کو ایذا دینا ہے بلکہ ذبح کئے ہوئے جانور پر سکھائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۵۲: معلم باز نے کسی جانور کو پکڑا اور مار ڈالا اور یہ معلوم نہیں کہ کسی نے چھوڑا ہے یا نہیں ایسی حالت میں جانور حلال نہیں کہ شک سے حلت ثابت نہیں ہوتی اور اگر معلوم ہے کہ فلاں نے چھوڑا ہے تو پرایا مال ہے بغیر اجازت مالک اس کا لینا حلال نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۵۳: کسی دوسرے شخص کا معلم کتا یا باز مار ڈالا یا کسی کی بلی مار ڈالی اس کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا اسی طرح دوسرے کی ہر وہ چیز جس کی بیع جائز ہے تلف کر دینے سے تاوان دینا ہو گا۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۵۴: معلم کتے کا ہبہ اور وصیت جائز ہے ۔(عالمگیری)
مسئلہ ۵۵: بعض جگہ رئوسا اور زمیندار اپنے علاقہ میں دوسرے لوگوں کے لئے شکار کرنے کی ممانعت کر دیتے ہیں ان کا مقصد ان جنگلوں خود شکار کھیلنا ہوتا ہے کہ دوسرے جب نہیں کھیلیں گے تو بافراط شکار ملے گا ایسی جگہ کسی نے شکار کیا تو یہی مالک ہو گیا ان کی ممانعت کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں کہ شکار ان کی ملک نہیں کہ منع کرنے سے منع ہو جائے بلکہ جو پکڑے اسی کی ملک ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۵۶: بہت جگہ زمیندار تالابوں سے مچھلیاں نہیں مارنے دیتے اور جو مارتا ہے چھین لیتے ہیں یہ ان کا فعل ناجائز و حرام ہے جو مار لے اسی کی ہیں اور چھپ کر مارنا چوری میں داخل نہیں اگرچہ بعض لوگ اسے چوری کہتے ہیں کہ مال مباح میں چوری کیسی۔
مسئلہ ۵۷: بعض لوگ مچھلیوں کے شکار میں زندہ مچھلی یازندہ مینڈ کی کانٹے میں پرو دیتے ہیں اور اس سے بڑی مچھلی پھنساتے ہیں ایسا کرنا منع ہے کہ اس جانور کو ایذا دینا ہے اسی طرح زندہ گھینسا کانٹے پر پرو کر شکار کرتے ہیں یہ بھی منع ہے۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔