بہار شریعت

شرکت عنا ن کے مسائل:

شرکت عنا ن کے مسائل:

مسئلہ۳۵: شرکت عنا ن یہ ہے کہ دوشخص کسی خاص نوع کی تجارت یا ہر قسم کی تجارت میں شرکت کریں مگر ہرایک دوسرے کا ضامن نہ ہو صرف دونوں شریک آپس میں ایک دوسرے کے وکیل ہونگے لہذا شرکت عنان میں یہ شرط ہے کہ ہر ایک ایسا ہو جو دوسرے کو وکیل بنا سکے ۔(درمختار ‘ عالمگیری)

مسئلہ۳۶: شرکت عنان مردو عورت کے درمیان مسلم و کافر کے درمیان بالغ اور نا بالغ عاقل کے درمیان جبکہ نا بالغ کو اسکے ولی نے اجازت دیدی ہو اور آزادو غلام ماذون کے درمیان ہو سکتی ہے ۔( خانیہ)

مسئلہ۳۷: شرکت عنان میں یہ ہوسکتا ہے کہ اسکی میعاد مقرر کر دیجائے مثلاًایک سال کے لئے ہم دونوں شرکت کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں کے مال کم و بیش ہوں برابر نہ ہوں اور نفع برابر یا مال برابر ہوں اور نفع کم وبیش اور کل مال کے ساتھ بھی شرکت ہوسکتی ہے اور بعض مال کے ساتھ بھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں کے مال دوقسم کے ہوں مثلاًایک کا روپیہ ہو دوسرے کی اشرفی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صفت میں اختلاف ہو مثلاًایک کے کھوٹے روپے ہوں دوسرے کے کھرے اگرچہ دونوں کی قیمتوں میں تفاوت ہو اور یہ بھی شرط ہے کہ دونوں کے مال ایک میں خلط کردیئے جائیں ۔( درمختار)

مسئلہ۳۸: اگر دونوں نے اسطرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کریگا اور نفع دونوں لینگے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لینگے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گاتو جائز ہے اور اگر کام نہ کرنے والے کو زیادہ ملے گا تو شرکت ناجائز۔ یونہی اگر یہ ٹھہرا کہ کل نفع ایک شخص لے گا تو شرکت نہ ہوئی اور اگر کام دونوں کریں گے مگر ایک زیادہ کام کریگا دوسرا کم اور جو زیادہ کام کریگا نفع میں اس کا حصہ زیادہ قرار پایا یا برابر قرار پایا یہ بھی جائز ہے ۔(عالمگیری ‘ ردالمحتار)

مسئلہ۳۹: ٹھہرا یہ تھا کہ کام دونوں کریں گے مگر صرف ایک نے کیا دوسرے نے بوجہ عذر یا بلاعذر کچھ نہ کیا تو دونوں کا کرنا قرار پائے گا۔( عالمگیری)

مسئلہ۴۰: ایک نے کوئی چیز خریدی تو بائع ثمن کا مطالبہ اسی سے کرسکتا ہے اسکے شریک سے نہیں کرسکتا کیونکہ شریک نہ عاقد ہے نہ ضامن پھر اگر خریدار نے مال شرکت سے ثمن ادا کیا جب تو خیراور اگر اپنے مال سے ثمن ادا کیا تو شریک سے بقدر اسکے حصہ کے رجوع کرسکتا ہے اور یہ حکم اس وقت ہے کہ مال شرکت نقد کی صورت میں موجود ہو اور اگر شرکت کامال جو کچھ تھا وہ سامان تجارت خریدنے میں صرف کیا جاچکا ہے اور نقد کچھ باقی نہیں ہے تو اب جوکچھ خریدیگا وہ خاص خریدار ہی کی ہے شرکت کی چیز نہیں اور اسکا ثمن خریدار کو اپنے پاس سے دینا ہوگا اور شریک سے رجوع کرنے کا حقدار نہیں ۔( درمختار‘ ردالمحتار)

مسئلہ۴۱: ایک نے کوئی چیز خریدی اسکا شریک کہتا ہے کہ یہ شرکت کی چیز ہے اور یہ کہتا ہے میں نے خاص اپنے واسطے خریدی اور شرکت سے پہلے کی خریدی ہوئی ہے تو قسم کے ساتھ اسکا قول معتبر ہے اور اگر عقد شرکت کے بعد خریدی اور یہ چیز اس نوع میں سے ہے جسکی تجارت پر عقد شرکت واقع ہوا ہے تو شرکت ہی کی چیز قرار پائیگی اگر چہ خریدتے وقت کسی کو گواہ بنالیا ہوکہ میں اپنے لئے خریدتا ہوں کیونکہ جب اس نوع تجارت پر عقد شرکت واقع ہوچکا ہے تو اسے خاص اپنی ذات کے لئے خریداری جائز ہی نہیں جو کچھ خریدے گا شرکت میں ہوگا اوراگر وہ چیز اس جنس تجارت سے نہ ہو تو خاص اسکے لئے ہوگی۔( ردالمحتار)

مسئلہ۴۲: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہر ایک شریک اپنی شرکت کی دوکان سے چیز یں خریدتا ہے یہ خریداری جائز ہے اگر چہ بظاہر اپنی ہی چیز خریدنا ہے ۔( ردالمحتار)

مسئلہ۴۳: اگر دونوں کے مال خریداری کے پہلے ہلاک ہوگئے یا ایک کا مال ہلاک ہوا تو شرکت باطل ہوگئی پھرمال مخلوط تھا تو جو کچھ ہلاک ہوا ہے دونوں کے ذمہ ہے اور مخلوط نہ تھا تو جس کا تھا اسکے ذمہ اور اگر عقد شرکت کے بعد ایک نے اپنے مال سے کوئی چیزخریدی اور دوسرے کا مال ہلاک ہو گیا اور ابھی اس سے کوئی چیز خریدی نہیں گئی ہے تو شرکت باطل نہیں اور وہ خریدی ہوئی چیز دونوں میں مشترک ہے مشتری اپنے شریک سے بقدر شرکت اسکے ثمن سے وصول کرسکتا ہے ۔اور اگر عقد شرکت کے بعد خریدامگر خریدنے سے پہلے شریک کا مال ہلاک ہوچکا ہے تو اسکی دو صورتیں ہیں اگر دونوں نے باہم صراحۃًہرایک کو وکیل کردیا ہے یہ کہدیا ہے کہ ہم میں جو کوئی اپنے اس مال شرکت سے جو کچھ خریدیگا وہ مشترک ہوگی تو اس صورت میں وہ چیز مشترک ہوگی کہ اسکے حصہ کی قدر چیز دیدے اور اس حصہ کا ثمن لے لے اور اگر صراحۃًوکیل نہیں کیا ہے تو اس چیز میں دوسرے کی شرکت نہیں کہ مال ہلاک ہونے سے شرکت باطل ہوچکی ہے اور اسکے ضمن میں جو وکالت تھی وہ بھی باطل ہے اور وکالت کی صراحت نہیں کہ اسکے ذریعہ سے شرکت ہوتی ۔( درمختار)

مسئلہ۴۴: شرکت عنان میں بھی اگر نفع کے روپے ایک شریک نے معین کردیے کہ مثلاًدس روپے میں نفع کے لونگا تو شرکت فاسد ہے کہ ہوسکتا ہے کل نفع اتنا ہی ہو پھر شرکت کہاں ہوئی ۔(درمختار)

مسئلہ۴۵: اس میں بھی شریک کو اختیار ہے کہ نجات کے لئے یا مال کی حفاظت کے لئے کسی کو نوکر رکھے بشرطیکہ دوسرے شریک نے منع نہ کیا ہو اور یہ بھی اختیار ہے کہ کسی سے مفت کام کرائے کہ وہ کام کر دے اور نفع اس کو کچھ نہ دیا جائے اور مال کو امانت بھی رکھ سکتا ہے اور مضاربت کے طورپر بھی دے سکتا ہے کہ وہ کام کرے اورنفع میں اس کو نصف یا تہائی وغیرہ کا شریک کیا جائے اور جو کچھ نفع ہوگا اس میں سے مضارب کا حصہ نکال کر باقی دونوں شریکوں میں تقسیم ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ شریک دوسرے سے مضاربت کے طور پر مال لے پھر اگر یہ مضاربت ایسی چیز میں ہے جو شرکت کی تجارت سے علیحدہ ہے مثلاًشرکت کپڑے کی تجارت میں تھی اور مضاربت پر روپیہ غلہ کی تجارت کے لئے لیا ہے تو مضاربت کا جو نفع ملے گا وہ خاص اسکا ہوگا شریک کو اس میں سے کچھ نہ ملے گا اور اگر یہ مضاربت اسی تجارت میں ہے جس میں شرکت کی ہے مگر شریک کی موجودگی مضاربت کی جب بھی مضاربت کا نفع خاص اسی کا ہے اور اگر شریک کی غیبت میں ہو یا مضاربت میں کسی تجارت کی قیدنہ ہو تو جو کچھ ملے گا شریک بھی اس میں شریک ہے ۔(درمختار)

مسئلہ۴۶: شریک کو یہ اختیار ہے کہ نقد یا ادھارجس طرح مناسب سمجھے خریدوفروخت کرے مگر شرکت کا روپیہ نقد موجود نہ ہوتا ادھار خریدنے کی اجازت نہیں جو کچھ اس صورت میں خریدے گا خاص اسکا ہوگا البتہ اگر شریک اس پر راضی ہے تو اس میں بھی شرکت ہوگی او ر یہ بھی اختیار ہے کہ ارزاں یا گراں فروخت کرے ۔(درمختار ردالمحتار)

مسئلہ۴۷: شریک کو یہ اختیار ہے کہ مال تجارت سفر میں لیجائے جب کہ شریک نے اسکی اجازت دی ہو یا یہ کہہ دیا ہو کہ تم اپنی رائے سے کام کرو اور مصارف سفر مثلاًاپنا یا سامان کا کرایہ اور اپنے کھانے پینے کے تمام ضروریات سب اسی مال شرکت پر ڈالے جائیں یعنی اگرنفع ہوا جب تو اخراجات نفع سے مجرا دیکر باقی نفع دونوں میں مشترک ہوگا اور نفع نہ ہو ا تو یہ اخراجات راس المال میں سے دیئے جائیں ۔ ( عالمگیری ‘ درمختار)

مسئلہ۴۸: ان میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں کہ کسی کو اس تجارت میں شریک کرے ہاں اگر شریک نے اجازت دیدی ہے تو شریک کرنا جائز ہے اور اس وقت اس تیسرے کے خریدو فروخت کرنے سے کچھ نفع ہوا تو یہ شخص ثالث اپنا حصہ لیگا اور اسکے بعد جو کچھ بچے گا اس میں وہ دونوں شریک ہیں اور ان دونوں میں سے جس نے اس تیسرے کو شریک نہیں کیا ہے اسکی خریدو فروخت سے کچھ نفع ہوا تو یہ انھیں دونوں پر منقسم ہوگا ثالث کو اس میں سے کچھ نہ دیں گے۔( درمختار‘ ردالمحتار)

مسئلہ۴۹: شریک کو یہ اختیار نہیں کہ بغیر اجازت مال شرکت کو کسی کے پاس رہن رکھدے ہاں مگر اس صورت میں کہ خود اسی نے کوئی چیز خریدی تھی جس کا ثمن باقی تھا اور اس دین کے مقابل مال شرکت کو رہن کر دیا تو یہ جائز ہے اور اگر کسی دوسرے سے خریدوایا تھا یا دونوں شریکوں نے مل کر خریدا تھا تو اب تنہا ایک شریک اس دین کے بدلے میں رہن نہیں رکھ سکتا۔ یونہی اگر کسی شخص پر شرکت کا دین تھا اس نے ایک شریک کے پاس رہن رکھ دیا تو یہ رہن رکھ لینا بھی بغیر اجازت شریک جائز نہیں یعنی اگر وہ چیز اس شریک مرتہن کے پاس ہلاک ہوگئی اور اسکی قیمت دین کے برابر تھی تو دوسرا شریک اس مدیون سے اپنے حصہ کی قدر مطالبہ کرکے لے سکتا ہے پھر وہ مدیون شریک مرتہن سے یہ رقم واپس لیگا اور اگر چاہے تو غیر مر تہن خود اپنے شریک ہی سے بقدر حصہ کے وصول کرنے اور جس صورت میں رہن رکھ سکتا ہے اوس میں رہن کا اقرار بھی کرسکتا ہے کہ میں نے فلاں کے پاس رہن رکھا ہے یا فلاں نے میرے پاس رہن رکھا ہے اور یہ اقرار دونوں پر نافذ ہوگا اور جہاں رہن رکھ نہیں سکتا اس میں رہن کا اقراربھی نہیں کرسکتا یعنی اگر اقرار کریگا تو تنہا اسکے حق میں وہ اقرار نافذ ہوگا شریک سے اسکو تعلق نہ ہوگا اور اگر شرکت دونوں نے توڑدی تو اب رہن کا اقرار شریک کے حق میں صحیح نہیں ۔(درمختار ‘ ردالمحتار)

مسئلہ۵۰: شرکت عنان میں اگر ایک نے کوئی چیز بیع کی ہے تو اسکے ثمن کا مطالبہ اسکا شریک نہیں کرسکتا یعنی مدیون اسکو دینے سے انکار کرسکتا ہے ۔یونہی شریک نہ دعوی کرسکتا ہے نہ اس پر دعوی ہو سکتا ہے بلکہ دین کے لیئے کوئی میعاد بھی نہیں مقرر کرسکتا جبکہ عاقد کوئی اور شخص ہے یا دونوں عاقدہوں اور خود تنہا یہی عاقد ہے تومیعاد مقرر کرسکتا ہے ۔( درمختار ‘ ردا لمحتار)

مسئلہ۵۱: شریک کے پاس جو کچھ مال ہے اس میں وہ امین ہے لہذا اگر یہ کہتا ہے کہ تجارت میں نقصان ہوا یا کل مال یا اتنا ضائع ہوگیا یا اس قدر نفع ملایا شریک کو میں نے مال دیدیا تو قسم کے ساتھ اس کا قول معتبر ہے اور اگر نفع کی کوئی مقدار اس نے پہلے بتائی پھر کہتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی اتنی نہیں بلکہ اتنی ہے مثلاًپہلے دس (۱۰) روپے نفع کے ہیں پھر کہتا ہے کہ دس (۱۰)نہیں بلکہ پانچ ہیں تو چونکہ اقرار کرکے رجوع کررہا ہے لہذا اسکی پچھلی بات مانی نہ جائیگی کہ اقرار سے رجوع کرتا ہے اور اسکا اسے حق نہیں ۔(درمختار)

مسئلہ۵۲: ایک نے کوئی چیز بیچی تھی اور دوسرے نے اس بیع کا اقالہ ( فسخ)کردیا تو یہ اقالہ جائز ہے اور اگر عیب کی وجہ سے وہ چیز خریدار نے واپس کردی اور بغیر قضاء قاضی اسنے واپس لے لی یا عیب کی وجہ سے ثمن سے کچھ کم کردیا یا ثمن کو مؤخر کردیا تو یہ تصرفات دونوں کے حق میں جائز و نافذ ہوں گے ۔(عالمگیری)

مسئلہ۵۳: ایک نے کوئی چیز خریدی ہے اور اس میں کوئی عیب نکلا تو خود یہ واپس کرسکتا ہے اسکے شریک کو واپس کرنے کا حق نہیں یا ایک نے کسی سے اجرت پر کچھ کام کرایا ہے تو اجرت کا مطالبہ اسی سے ہوگا شریک سے مطالبہ نہیں کیا جاسکتا ۔(عالمگیری)

مسئلہ۵۴: ایک نے کسی کی کوئی چیز غصب کرلی یا ہلاک کردی تو اسکا مطالبہ ومؤاخذہ اسی سے ہوگا اسکے شریک سے نہ ہوگا اور بطور بیع فاسد کوئی چیز خریدی اور اسکے پاس سے ہلاک ہوگئی تو اسکو تاوان دینا پڑیگا مگر جو کچھ تاوان دیگا اس کا نصف یعنی بقدر حصہ شریک سے واپس لے گا کہ وہ چیز شرکت کی ہے اور تاوان دونوں پر ہے ۔(مسبوط)

مسئلہ۵۶: دونوں نے ملکر تجارت کا سامان خریدا تھا پھر ایک نے کہا میں تیرے ساتھ شرکت میں کام نہیں کرتا یہ کہ کر غائب ہوگیا دوسرے نے کام کیا تو جو کچھ نفع ہوا تنہا اسی کا ہے اور شریک کے حصہ کی قیمت کا ضامن ہے یعنی اس مال کی اس روز جو قیمت تھی اسکے حساب سے شریک کے حصہ کا روپیہ دیدے نفع نقصان سے اسکو کچھ واسطہ نہیں ۔( خانیہ)

مسئلہ۵۷: مال شرکت میں تعدی کی یعنی وہ کام کیا جو نا جائز نہ تھا اور اسکی وجہ سے مال ہلاک ہوگیا تو تاوان دینا پڑیگامثلاًاسکے شریک نے کہہ دیا تھا کہ مال لیکر پردیس کو نہ جانا یا فلاں جگہ مال لے کر جاؤ مگر وہاں سے آگے دوسرے شہر کو نہ جانا اور یہ پر دیس مال لیکر چلا گیا یا جو جگہ بتائی تھی وہاں سے آگے چلا گیا یا کہا تھا ادھار نہ بیچنا اسنے ادھار بیچ دیا تو ان صورتوں میں جو کچھ نقصان ہوگا اس کا ذمہ دار یہ خود ہے شریک کو اس سے تعلق نہیں ۔( درمختار ‘ردالمحتار)

مسئلہ ۵۸: اسکے پاس جو کچھ شرکت کا مال تھا اسے بغیر بیان کیے مر گیا یا لوگوں کے ذمہ شرکت کی بقایا تھی او ریہ بغیر بیان کئے مرگیا تو تاوان دینا پڑیگا کہ یہ امین تھا او ر بیان نہ کرجانا امانت کے خلاف ہے اور اسکی وجہ سے تاوان لازم ہوجاتا ہے مگر جبکہ ورثہ جانتے ہوں کہ یہ چیز یں شرکت کی ہیں یا شرکت کی تجارت کا فلاں فلاں شخص پر اتنا اتنا باقی ہے تو اس وقت بیان کرنیکی ضرورت نہیں اور تاوان لازم نہیں ۔اور اگر وارث کہتا ہے مجھے علم ہے اور شریک منکر ہے اور وارث تمام اشیاء کی تفصیل بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ چیزیں تھیں اور ہلاک و ضائع ہوگئیں تو وارث کا قول مان لیا جائیگا۔( درمختار‘ ردالمحتار)

مسئلہ۵۹: شریک نے ادھار بیچنے سے منع کردیا تھا اور اس نے ادھار بیچ دی تو اسکے حصہ میں بیع نافذ ہے اور شریک کے حصہ کی بیع موقوف ہے اگر شریک نے اجازت دیدی کل میں بیع ہوجائیگی اور نفع میں دونوں شریک ہیں اور اجازت نہ دی تو شریک کے حصہ کی بیع باطل ہوگئی ۔(درمختار)

مسئلہ۶۰: شریک نے پردیس میں مال تجارت لیجانے سے منع کر دیا تھا مگر یہ نہ مانا اور لے گیا اور وہاں نفع کے ساتھ فروخت کیا تو چونکہ شریک کی مخالفت کرنے سے غاصب ہوگیا اور شرکت فاسد ہوگئی لہذا نفع صرف اس کو ملے گا اور مال ضائع ہوگا تو تاوان دینا پڑیگا۔( درمختار)

مسئلہ۶۱: شریک پر خیانت کا دعوی کرے تو اگر دعوی صرف اتنا ہی ہے کہ اس نے خیانت کی یہ نہیں بتایا کہ کیا خیانت کی تو شریک پر حلف نہ دینگے ہاں اگر خیانت کی تفصیل بتا تا ہے تو اس پر حلف دینگے اور حلف کے ساتھ اس کا قول معتبر ہوگا۔( ردالمحتار)

مسئلہ۶۲: شرکت بالعمل کہ اسی کو شرکت بالابدان اور شرکت تقبل و شرکت صنائع بھی کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوکاریگر لوگوں کے یہاں سے کام لائیں اور شرکت میں کام کریں اور جو کچھ مزدوری ملے آپس میں بانٹ لیں ۔(درمختار)

مسئلہ۶۳: اس شرکت میں یہ ضروری نہیں کہ دونوں ایک ہی کام کے کاریگر ہوں بلکہ دو مختلف کاموں کے کاریگر بھی باہم یہ شرکت کرسکتے ہیں مثلاًایک درزی ہے دوسرا رنگریز دونوں کپڑے لاتے ہیں وہ سیتا ہے یہ رنگتا ہے اور سلائی رنگائی کی جو کچھ اجرت ملتی ہے اس میں دونوں کی شرکت ہوتی ہے اور یہ بھی ضرور نہیں کہ دونوں ایک ہی دوکان میں کام کریں بلکہ دونوں کی الگ الگ دوکانیں ہوں جب بھی شرکت ہوسکتی ہے مگر یہ ضرور ہے کہ وہ کام ایسے ہوں کہ عقداجارہ کی وجہ سے اس کام کا کرنا ان پر واجب ہو اور اگر وہ کام ایسا نہ ہو مثلاًحرام کام پر اجارہ ہوا جیسے دونوحہ کرنے والیاں کہ اجرت لیکر نوحہ کرتی ہوں ان میں باہم شرکت عمل ہوتو نہ ان کا اجارہ صحیح ہے نہ ان میں شرکت صحیح۔( درمختار)

مسئلہ۶۴: تعلیم قرآن و علم دین اور اذان و امامت پر چونکہ بنا بر قول مفتی یہ اجرت لینا جائز ہے اس میں شرکت عمل بھی ہوسکتی ہے ۔(درمختار)

مسئلہ۶۵: شرکت عمل میں ہر ایک دوسرے کا وکیل ہوتا ہے لہذا جہاں توکیل درست نہ ہویہ شرکت بھی صحیح نہیں مثلاًچند گداگروں نے باہم شرکت عمل کی تو یہ صحیح نہیں کہ سوال کی توکیل درست نہیں ۔(درمختار)

مسئلہ۶۶: اس میں یہ ضرور نہیں کہ جو کچھ کمائیں اس میں برابر کے شریک ہوں بلکہ کم وبیش کی بھی شرط ہوسکتی ہے اور باہم جو کچھ شرط کرلیں اسی کے موافق تقسیم ہوگی۔ یونہی عمل میں بھی برابر ی شرط نہیں بلکہ اگر یہ شرط کرلیں کہ وہ زیادہ کام کریگا اور یہ کم جب بھی جائز ہے اور کم کام والے کو آمدنی میں زیا دہ حصہ دینا ٹھہرا لیا جب بھی جائز ہے ۔(درمختار‘ ردالمحتار)

مسئلہ۶۷: یہ ٹھہرا ہے کہ آمدنی میں سے میں دو تہائی لوں گا اور تجھے ایک تہائی دوں گا اور اگر کچھ نقصان و تاوان دینا پڑے تو دونوں برابر دینگے تو آمدنی اسی شرط کے بموجب تقسیم ہوگی اور نقصان میں برابری کی شرط باطل ہے اس میں بھی اسی حساب سے تاوان دینا ہوگا یعنی ایک تہائی والا ایک تہائی تاوان دے اور دوسرادو تہائیاں ۔(عالمگیری)

مسئلہ ۶۸: جو کام اجرت کا ان میں ایک شخص لائیگا وہ دونوں پر لازم ہوگا لہذا جس نے کام دیا ہے وہ ہر ایک سے کام کا مطالبہ کرسکتا ہے شریک یہ نہیں کہ سکتاہے کہہ کام وہ لایا ہے اس سے کہو مجھے اس سے تعلق نہیں یوہیں ہر ایک اجرت کا مطالبہ بھی کرسکتا ہے اور کام والا ان میں جس کو اجرت دیدیگا بری ہوجائیگا دوسرا اس سے اب اجرت کا مطالبہ نہیں کرسکتا یہ نہیں کہ سکتا کہہ اس کو تم نے کیوں دیا۔(درمختار وغیرہ)

مسئلہ۶۹: دونوں میں سے ایک نے کام کیا ہے اور دوسرے نے کچھ نہ کیا مثلاًبیمار تھا یا سفر میں چلاگیا تھا جسکی وجہ سے کام نہ کرسکا یا بلاوجہ قصداًاس نے کام نہ کیا جب بھی آمدنی دونوں پر معاہدہ کے موافق تقسیم ہوگی۔(درمختار)

مسئلہ۷۰: یہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ شرکت عمل کبھی مفاوضہ ہوتی ہے اور کبھی شرکت عنان لہذا اگر مفاوضہ کالفظ یا اسکے معنے کا ذکر کر دیا یعنی کہدیا کہ دونوں کام لائینگے اور دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں اورنفع نقصان میں دونوں برابر کے شریک ہیں اور شرکت کی وجہ سے جو کچھ مطالبہ ہوگا اس میں ہر ایک دوسرے کا کفیل ہے تو شرکت مفاوضہ ہے اور اگر کام اور آمدنی یا نقصان میں برابری کی شرط نہ ہو یا لفظ عنان ذکر کرد یاہوتو شرکت عنان ہے ۔(عالمگیری)

مسئلہ۷۱: مطلق شرکت ذکر کی نہ مفاوضہ ذکر کیا نہ عنان کسی کے معنے کے متعلق مسائل کیا تو اس میں بعض احکام عنان نہ کے ہونگے مثلاًکسی ایسے دین کا اقرار کیا کہ شرکت کے کام کے لئے میں فلاں چیز لایا تھا اور وہ خرچ ہوچکی اور اسکے دام دینے ہیں یا فلاں مزدور کی مزدوری باقی ہے یا فلاں گزشتہ مہینہ کا کرایۂ دوکان باقی ہے تو اگر گواہوں سے ثابت کردے جب تو اسکے شریک کے ذمہ بھی ہے ورنہ تنہا اس کے ذمہ ہوگااور بعض احکام مفاوضہ کے ہوں گے مثلاًکسی نے ایک کو یا دونوں کو کوئی کام دیا ہے تو ہر ایک سے وہ مطالبہ کرسکتا ہے اور اگر ایک پر کوئی تاوان لازم ہوگا تو دوسرے سے بھی اس کامطالبہ ہوگا۔(عالمگیری)

مسئلہ۷۲: باپ بیٹے ملکر کام کرتے ہوں اور بیٹا باپ کے ساتھ رہتا ہو تو جوکچھ آمدنی ہوگی ہو باپ ہی کی ہے بیٹا شریک نہیں قرار پائیگا بلکہ مددگار تصور کیا جائیگا یہاں تک کہ بیٹا اگر درخت لگائے تو وہ بھی باپ ہی کا ہے یوہیں میاں بی بی مل کر کریں اور انکے پاس کچھ نہ تھا مگر دونوں نے کام کرکے بہت کچھ جمع کرلیاتو یہ سارا مال شوہر کا ہے اور عورت مددگار سمجھی جائیگی ہاں اگر عورت کا کام جدا گانہ ہے مثلاًمردکتا بت کا کام کرتا ہے اورعورت سلائی کرتی ہے تو سلائی کی جو کچھ آمدنی ہے اسکی مالک عورت ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۷۳: ایک شخص نے درزی کویہ کہہ کر کپڑا دیا کہ اسے تم خود ہی سینا اور اس درزی کا کوئی شریک ہے کہ دونوں میں شرکت مفاوضہ ہے تو کپڑا دینے والا ان دونوں میں جس سے چاہے مطالبہ کرسکتا ہے اور اگر شرکت ٹوٹ گئی یا جس کو اسنے کپڑا دیا تھا مرگیا تو اب دوسرے سے سینے کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور اگر یہ نہیں کہا تھا کہ تم خود ہی سینا تو مرنے اور شرکت جاتی رہنے کے بعد بھی دوسرے سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ اسے سی کردے ۔(عالمگیری)

مسئلہ۷۴: دو شریک ہیں ان پر کسی نے دعوی کیا کہ میں نے ان کو سینے کے لئے کپڑا دیا تھا ان میں ایک اقرار کرتا ہے دوسرا انکار تو وہ اقرار دونوں کے حق میں ہوگیا ۔(عالمگیری)

مسئلہ۷۵: تین شخص جو باہم شریک نہیں ہیں ان تینوں نے کسی سے کام لیا کہ ہم سب اس کا م کو کرینگے مگر وہ کام تنہا ایک نے کیا باقی دونے نہیں کیا تو اسکو صرف ایک تہائی اجرت ملے گی کہ اس صورت میں ایک تہائی کا م کا یہ ذمہ دار تھا بقیہ دو تہائیوں کا نہ اس سے مطالبہ ہوسکتا تھا نہ اسکے اجارہ میں ہے تو جو کچھ اسنے کیا بطور تطوع کیا اور اسکی اجرت کا مستحق نہیں ۔(عالمگیری)یہ حکم کہ صرف تہائی اجرت ملے گی قضائً ہے اور دیانت کا حکم یہ ہے کہ پوری اجرت اسے دیدی جائے کیونکہ اس نے پورا کام یہی خیال کرکے کیا ہے کہ مجھے پوری مزدوری ملے گی اور اگر اسے معلوم ہوتا کہ ایک ہی تہائی ملے گی تو ہر گز پورا کام انجام نہ دیتا ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۷۶: اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جوکسی کام کا استاد ہوتا ہے وہ اپنے شاگردوں کو دوکان پر بٹھا لیتا ہے کہ ضروری کام استاد کرتے ہیں باقی سب کام شاگردوں سے لیتے ہیں اگر ان استادوں نے شاگردوں کے ساتھ شرکت عمل کی مثلاًدرزی نے اپنی دوکان پر شاگرد کو بٹھالیا کہ کپڑوں کو استاد قطع کریگا اور شاگرد سیئے گا اور اجرت جو ہوگی اس میں برابر کے دونوں شریک ہونگے یا کاریگر نے اپنی دوکان پر کسی کو کام کرنے کے لئے بٹھا لیا کہ اسے کام دیتا ہے اور اجرت نصفانصف بانٹ لیتے ہیں یہ جائز ہے۔( عالمگیری)

مسئلہ۷۷: اگر یوں شرکت ہوئی کہ ایک کے اوزار ہونگے اور دوسرے کا مکان یا دوکان اور دونوں ملکر کام کرینگے تو شرکت جائز ہے اور یوں ہوئی کہ ایک کے اوزار ہونگے اور دوسرا کام کریگا تو یہ شرکت ناجائز ہے ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۷۸: شرکت وجوہ یہ ہے کہ دونوں بغیر مال عقد شرکت کریں کہ اپنی وجاہت اورآبروکی وجہ سے دوکانداروں سے ادھار خریدلائینگے اور مال بیچ کر ان کے دام دیدینگے اور جوکچھ بچے گا وہ دنوں بانٹ لینگے اور اسکی بھی دو قسمیں مفاوضہ و عنان ہیں اور دونوں کی صورتیں بھی وہی ہیں جو اوپر مذکورہوئیں اور مطلق شرکت مذکور ہو تو عنان ہوگی اور اس میں بھی اگر مفاوضہ ہے تو ہر ایک دوسرے کا وکیل بھی ہے اور کفیل بھی اور عنان ہے تو صرف وکیل ہی ہے کفیل نہیں ۔( درمختار وغیرہ)

مسئلہ۷۹: نفع میں یہاں بھی برابری ضرور نہیں اگر شرکت عنان ہے تو نفع میں برابری یا کم بیش جو چاہیں شرط کرلیں مگر یہ ضرورہے کہ نفع میں وہی صورت ہو جو خریدکی ہوئی چیزمیں ملک کی صورت میں ہومثلاًاگر وہ چیز ایک کی دو تہائی ہوگی اور ایک کی ایک تہائی تو نفع بھی اسی حساب سے ہوگا اور اگرملک میں کم و بیش ہے مگر نفع میں مساوات یا نفع کم وبیش ہے اور ملک میں برابر ی تو یہ شرط باطل و ناجائز ہے اورنفع اسی ملک کے حساب سے تقسیم ہوگا۔ ( درمختار‘ عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button