سوال:
دور حاضر انٹرنیٹ کا ہے ، اگر درج ذیل شرائط پوری کی جائیں تو کیا اس کی کمائی جائز ہے؟
ا۔ جدا جدا کیبن بنا کر مرد و زن کے اختلاط کو روک دیا جائے ۔
۲۔ ایسی فلمیں جو نفسانی خواہشات کو ابھاریں، اور اخلاق سوز مواد بلاک کر دیا جائے ۔
۳۔مناسب معاوضہ رکھا جائے ۔ دینی و دنیوی معاملات اور معاشی استحکام کے لیے انٹرنیٹ سے مفید کام لیا جا سکتا ہے ؟
جواب:
شریعت مطہرہ میں کسب حلال کی تاکید اور اہمیت بہت زیادہ بیان کی گئی ہے۔ دور حاضر کی نئی ایجادات فی نفسہ بری نہیں ہیں بلکہ ان کا استعمال انہیں اچھا یا برا بناتا ہے۔ انٹرنیٹ ،موبائل اور جدید ٹیکنالوجی کے مزید وسائل بھی اپنے استعمال کی مناسبت سے اچھے یا برے شمار کیے جا سکتے ہیں ۔ موبائل کا استعمال ضرورت ، فوری اور بر وقت رابطے میں آسانی اور وقت کی بچت کے لیے ہو تو اس کے فوائد ہیں اور استعمال جائز ہے لیکن اگر معصیت کے ارتکاب یا انسانی جانوں سے کھیلنے کے لیے ہو تو گناہ ہے اور حرام ہے ۔ اسی طرح انٹرنیٹ کا استعمال اپنے اندر اچھائی اور برائی دونوں کا احتمال رکھتا ہے ۔ نیٹ کیفے کو فحاشی کے فروغ کے لیے استعمال کر نے والوں کو قرآن کریم کی اس وعید سے ڈرنا چاہیے۔
آپ نے سوال میں جو ضابطہ بیان کیا ہے ، اگر اس کے مطابق اپنا کاروبار کر یں تو برائی کے احتمالات ختم ہو سکتے ہیں اور رزق حلال کا حصول بھی ممکن ہے۔ یہ دراصل اجارہ کا معاملہ ہے، یعنی آپ ایک محدود مدت کے لیے اپنی جگہ (یعنی وہ کیبن ) اور انٹرنیٹ کا کنکشن کرائے پر دیتے ہیں ، کرائے پر دینے کا عمل جائز ہے اور اس کا کرایہ بھی آپ کے لئے جائز ہے ۔ اخلاق سوز مواد بلاک کر کے اور مرد و زن کے اختلاط کا موقع ختم کرنے سے انٹرنیٹ کے غیر شرعی استعمال کا کافی حد تک سد باب ہو سکتا ہے ۔انٹرنیٹ کیفے چلانے والے دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالی اس کی توفیق دے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی دنیا سنوارنے کے لیے اپنی اور دوسروں کی عاقبت بر باد کر دیں ۔اس کے خطرناک نتائج آئے دن میڈیا میں رپورٹ ہوتے رہتے ہیں حکومت کی بھی ذمے داری ہے کہ اس کاروبارکو قاعدے ضابطے کا پابند بنائے یعنی Regulate کرے ۔
(تفہیم المسائل، جلد8، صفحہ344،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)