شرب یعنی پینے کے متعلق مسائل
حدیث۱: صحیح بخاری میں عروہ سے روایت ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ سے اور ایک انصاری سے حرہ کی نالیوں کے متعلق جھگڑا ہوگیانبی اکرمﷺ نے زبیر سے فرمایا کے بقدر ضرورت پانی لے لو پھر اپنے پڑوسی کے لئے چھوڑ دواس انصاری نے کہا کہ یہ فیصلہ اس لئے کیا کہ وہ آپ کی پھوپھی کے بیٹے ہیں یہ سن کر حضور کا چہرہ متغیرہوگیا اور فرمایا اے زبیر اپنے باغ کو پانی دو پھر روک لو یہاں تک کہ مینڈھ تک پانی پہنچ جائے پھر اپنے پڑوسی کے لئے چھوڑو اس انصاری نے ناراض کردیا لہذا حضور نے صاف حکم میں زبیر کا پورا حق دلوایا اور پہلے ایسی بات فرمادی تھی جس میں دونوں کے لئے گنجائش تھی۔
حدیث۲: صحیح بخاری ومسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسولﷺنے فرمایا تین شخص ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالی ان سے نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر فرمائیگا ۔ ایک شخص وہ جس نے کسی بیچنے کی چیز کے متعلق یہ قسم کھائی کہ جو کچھ اس کے دام مل رہے ہیں اس سے زیادہ ملتے تھے (اور نہیں بیچا)حالانکہ یہ اپنی قسم میں جھوٹا ہے دوسرا وہ شخص کہ عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائی تاکہ کسی مردمسلم کا مال لے لے اور تیسرا وہ شخص جس نے بچے ہوئے پانی کو روکا ۔ اللہ تعالی فرمائے گا آج میں اپنا فضل تجھ سے روکتا ہوں جس طرح تونے بچے ہوئے پانی کو روکا جس کو تیرے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا۔
حدیث۳: صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسولﷺنے فرمایا بچے ہوئے پانی سے منع نہ کرو کہ اس کی وجہ سے بچی ہوئی گھاس کو منع کروگے۔
حدیث۴: ابودائودابن ماجہ نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسولﷺنے فرمایا تمام مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں پانی اور گھاس اور آگ ۔
حدیث۵: صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسولﷺ نے بچے ہوئے پانی کے بیچنے سے منع فرمایا ۔
حدیث ۶: صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺنے فرمایا بچا ہوا پانی نہ بیچا جائے کہ اس کی وجہ سے گھاس کی بیع ہوجائیگی ۔
مسائل فقہیہ
کھیت کی آبپاشی یا جانوروں کو پانی پلانے کے لئے جو باری مقرر کرلی جاتی ہے اس کو شرب کہتے ہیں اس لفظ میں شین کو زبر ہے ۔
مسئلہ۱: جس پانی کو برتن میں محفوظ نہ کرلیا ہو اس کو ہر شخص پی سکتا ہے اور اپنے جانوروں کو پلا سکتا ہے کوئی شخص پینے یا پلانے سے نہیں روک سکتا (درمختار)
مسئلہ۲: پانی کی چار قسمیں ہیں ۔ اول سمندر کا پانی اس سے ہر شخص نفع اٹھا سکتا ہے خود پئے جانوروں کو پلائے کھیت کی آبپاشی کرے اس میں نہر نکال کر اپنے کھیتوں کو لیجائے جس طرح چاہے کام میں لائے کوئی منع نہیں کرسکتا۔ دوم بڑے دریا کا پانی جیسے سیحون ،جیجون،دجلہ، فرات، نیل یا ہندوستان میں گنگا ،گھاگرااس کو ہر شخص پی سکتا ہے اپنے جانوروں کو پلاسکتا ہے مگر زمین کو سیراب کرنے اور اس سے نہر نکالنے میں یہ شرط ہے کہ عام لوگوں کو ضرر نہ پہنچے۔ سوم وہ ندی نالے جو کسی خاص جماعت کی ملک ہوں پینے پلانے کی اس میں بھی اجازت ہے مگر دوسرے لوگ اپنے کھیت کی اس سے آبپاشی نہیں کرسکتے۔ چوتھے وہ پانی جس کو گھڑوں ،مٹکوں یا برتنوں میں محفوظ کردیا گیا ہو اس کو بغیر اجازت مالک کوئی شخص صرف میں نہیں لاسکتا اور اس پانی کو اس کا مالک بیع بھی کرسکتا ہے (ہدایہ،عالمگیری)
مسئلہ ۳: کنواں اگرچہ مملوک ہو مگر اس کا پانی مملوک نہیں دوسرا شخص اس پانی کو پی سکتا ہے اپنے جانوروں کو پلا سکتا ہے جس کا کنواں ہے وہ روک نہیں سکتا اور نہ اس کے بھرے ہوئے پانی کو چھین سکتا ہے۔
مسئلہ ۴: کنواں یا چشمہ جس کی ملک میں ہے دوسرا شخص وہاں جا کر پانی پینا چاہتا ہے وہ مالک اپنی ملک مثلاً مکان یا باغ میں اسکو جانے سے روک سکتا ہے بشرطیکہ وہاں قریب میں دوسری جگہ پانی ہو جو کسی کی ملک میں نہیں ہے اور اگر پانی نہ ہو تو مالک سے کہا جائے گا کہ خود اپنے باغ یا مکان سے پینے کے لیے پانی لادے یا اسے اجازت دے کہ یہ خود بھر کرپی لے (ہدایہ)
مسئلہ۵: کنویں سے پانی بھرا ڈول منہ تک آگیا ہے ابھی باہر نہیں نکلا ہے یہ بھرنے والا اس پانی کا ابھی مالک نہیں ہوا جب باہر نکال لیگا اس وقت مالک ہوگا (ردالمحتار)
مسئلہ۶: حمام میں گیا اور حوض میں سے پانی نکالا مگر جس برتن میں پانی لیا وہ حمام والے کا ہے تویہ شخص پانی کا مالک نہیں ہوا بلکہ وہ پانی حمام والے ہی کا ہے ۔ مگر دوسرا شخص اس سے نہیں لے سکتا کہ زیادہ حقدار یہی ہے(ردالمحتار)
مسئلہ۷: دوسرے کے کنویں سے بغیر اجازت نہ اپنے کھیت کو سینچ سکتا ہے نہ درختوں کو پلاسکتا ہے نہ اس پر رہٹ یا چرسا وغیرہ لگاسکتا ہے مگر گھڑے وغیرہ میں بھر کر لایا ہو تواس سے گھر میں جودرخت ہے یا گھر میں جو ترکاری بوئی ہیں ان کو سیراب کر سکتا ہے ۔کنویں والے سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے(درمختار)
مسئلہ۸: نہر خاص یا کسی کے مملوک حوض یا کنوئیں سے وضو کرنے یا کپڑے دھونے کے لیے گھڑے میں پانی بھر کر لاسکتا ہے (عالمگیری)
مسئلہ۹: حوض میں اگر پانی خود ہی جمع ہوگیا مالک حوض نے پانی جمع کرنے کی کوئی ترکیب نہیں کی ہے یہ حوض نہر خاص کے حکم میں ہے (ردالمحتار)دیہاتوں میں تالاب اور گڑھے ہوتے ہیں برسات میں ادھر ادھر سے پانی بہہ کر آتا ہے اور ان میں جمع ہوجاتا ہے انکا بھی یہی حکم ہے کہ بغیر اجازت مالک دوسرے لوگ اپنے کھیتوں کی اس سے آبپاشی نہیں کرسکتے۔
مسئلہ۱۰: بعض جگہ مکانوں میں حوض بنا رکھتے ہیں برساتی پانی اس میں جمع کرلیتے ہیں اور اپنے استعمال میں لاتے ہیں عربی میں ایسے حوض کو صہریج کہتے ہیں (ہندوستان میں بفضلہٖ تعالی پانی کی کثرت ہے صہریج بنانے کی ضرورت نہیں مگر جہاں پانی کی کمی ہے بنانا پڑتا ہی ہے جیسا کہ مارواڑکے بعض علاقوں میں بکثرت ہیں )یہ پانی خاص اس شخص کی ملک ہے جس کے گھر میں ہے اور یہ پانی ویسا ہی ہے جیسا گھڑے وغیرہ میں بھر لیا جاتا ہے کہ بغیر اجازت مالک کوئی شخص اپنے کسی صرف میں نہیں لاسکتا (ردالمحتار)
مسئلہ۱۱: بارش کے وقت آگن یا چھت پر پانی جمع کرنے کیلئے طشت یا کنڈا وغیرہ رکھدیا ہے تو جو کچھ پانی جمع ہوگا اس کا ہے جس نے طشت وغیرہ رکھا ہے دوسرا شخص اس پانی کو نہیں لے سکتا اور اگر پانی جمع کرنے کے لئے طشت نہیں رکھا ہے تو جو چاہے لے لے اس کو منع نہیں کیا جاسکتا (ردالمحتار)
مسئلہ۱۲: زمین غیر مملوکہ کی گھاس کسی کی ملک نہیں جو چاہے کاٹ لائے یا اپنے جانوروں کو چرائے دوسرا شخص اس کو منع نہیں کرسکتا یہ گھاس دریا کے پانی کی طرح سب کے لیے مباح ہے ۔ زمین مملوک میں گھاس خود ہی جمی ہے بوئی نہیں گئی ہے یہ گھا س بھی مالک زمین کی ملک نہیں جب تک اسے محفوظ نہ کرلے جو چاہے اس کو لے سکتا ہے ۔ مگر مالک زمین لوگوں کو اپنی زمین میں آنے سے روک سکتا ہے ۔اس صورت میں اگر مالک زمین لوگوں کو اوران کے جانوروں کو اپنی زمین میں آنے سے منع کرتا ہے اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم گھاس کاٹیں گے یا اپنے جانور چرائیں گے اگر قریب میں زمین غیر مملوکہ ہے جس میں گھاس موجودہے تو لوگوں سے کہا جائے گا کہ اپنے جانوروں کو وہاں چرالو یا وہاں سے گھاس کاٹ لو اور اگر زمین قریب میں نہ ہو تو مالک زمین سے کہا جائے گا کہ ان لوگوں کواجازت دو یا تم خود اپنی زمین سے گھاس کاٹ کر ان کو دے دو۔ اور اگر مالک زمین نے گھاس کاٹ کر محفوظ کرلی تو دوسرا شخص اس کو لے نہیں سکتا کہ یہ مملوک ہوگئی ، اگر مالک زمین نے گھاس بو رکھی ہے یا اپنی زمین کو جوت کر اس میں پانی دیا ہے اور اسی لئے چھوڑرکھا ہے کہ اس میں گھاس جمے تو یہ گھاس مالک زمین کی ہے ۔دوسرا شخص نہ اسے لے سکتا ہے نہ اپنے جانوروں کو چرا سکتا ہے ۔ کسی دوسرے نے یہ گھاس کاٹ لی تو مالک زمین والا اس کو واپس لے سکتا ہے اور گھاس کو بیچ سکتا ہے ۔(عالمگیری،درمختار)
مسئلہ۱۳: آگ میں بھی سب لوگ شریک ہیں دوسروں کو منع نہیں کر سکتا یعنی اگر کسی نے میدان میں آگ جلائی ہے ۔ تو جس کا جی چاہے تاپ سکتا ہے اپنے کپڑے اس سے سکھا سکتا ہے اس کی روشنی میں کام کرسکتا ہے مگر بغیر اجازت اس میں سے انگارہ نہیں لے سکتا ۔ اگر کسی نے اس میں سے تھوڑی سی آگ لے لی کہ بجھانے کے بعد اتنے کوئلے نہیں ہونگے جن کی کچھ قیمت ہوتو اس سے واپس نہیں لے سکتا اور اتنی آگ بغیر اجازت بھی لے سکتا ہے کہ عادۃً اس کو کوئی منع بھی نہیں کرتا ۔ اور اگر اتنی زیادہ ہے کہ بجھنے کے بعد کوئلوں کی قیمت ہوگی تو واپس لے سکتا ہے(عالمگیری)
مسئلہ۱۴: کنویں یا حوض یا نہر خاص کے پانی سے روکتا ہے اور اس شخص کو روکا گیا پیاس سے ہلاکت کا اندیشہ ہے یا اس کے جانور کے ہلاک ہونے کا ڈر ہے۔ تو زبردستی پانی وصول کرے نہ دے تو لڑ کر لے اگرچہ ہتھیار سے لڑنا پڑے اور برتن میں جمع کر رکھا ہے تو اس میں بھی لڑ کر وصول کرنے کی اجازت ہے مگر یہاں ہتھیار سے لڑنے کی اجازت نہیں اور یہ حکم اس وقت ہے کہ پانی اس کی حاجت سے زائد ہے یہی حکم مخمصہ کا بھی ہے کہ کسی کو بھوک سے ہلاکت کا اندیشہ ہے اور دوسرے کے پاس حاجت سے زائد کھانا ہے اوراس کو نہیں دیتا تو لڑسکتا ہے مگر ہتھیار سے لڑنے کی اجازت نہیں (درمختار)
اشربہ کے متعلق مسائل
حدیث۱: صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے لئے مشک میں ہم نبیذ بناتے صبح کو بناتے تو عشا تک پیتے اور عشا کو بناتے تو صبح تک پیتے(یہ گرمی کے زمانے میں ہوتا تھا)
حدیث۲: صحیح مسلم میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ رسولﷺ کے لئے اول شب میں نبیذ بنائی جاتی صبح کے وقت اسے پیتے دن میں اور رات میں پھر دوسرے روز دن اور رات میں اور تیسرے دن عصر تک پھر اگر بچ رہتی تو خادم کو پلا دیتے یا گرا دی جاتی ( یہ جاڑے کے زمانے میں ہوتا)۔
حدیث۳: صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ کے مشک میں نبیذ بنائی جاتی۔ مشک نہ ہوتی تو پتھر کے برتن میں بنائی جاتی۔
حدیث۴: امام بخاری اپنی صحیح میں سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابو اسید ساعدی حضور ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور حضور کو اپنی شادی کی دعوت دی (جب حضور تشریف لائے) تو ان کی زوجہ جو دلھن تھیں وہی خادمہ کا کام انجام دے رہی تھیں انھوں نے حضور کے لئے پانی میں کھجوریں رات میں ڈال دی تھیں وہی پانی حضور ﷺ کو پلایا۔
حدیث۵: امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے کہ حضرت عمر اور ابو عبیدہ اور معاذ رضی اللہ تعالی عنہم نے مثلث کے پینے کو جائز فرمایا ہے اور براء بن عازب و ابو حجیفہ رضی اللہ تعالی عنہما سے نصف حصہ پکا دینے کے بعد انگور کا شیرہ پیا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا کہ انگور کا رس جب تک تازہ ہے پیو۔
حدیث۶: بخاری نے اپنی صحیح میں ابوجوہر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں میں نے ابن عباس سے باذق (ایک قسم کی شراب ہے) کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ محمد ﷺ باذق سے پہلے گزر چکے ہیں لہذا جو نشہ پیدا کرے وہ حرام ہے اور فرمایا کہ پینے کی چیزیں حلال و طیب ہیں اور حلال و طیب کے علاوہ حرام و خبیث ہیں ۔
حدیث۷: امام بخاری اپنی صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک معراج کی رات ایلیا (بیت المقدس) میں حضور کے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا دوسرا دودھ کا حضور نے دونوں کو دیکھ کر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ جبرئیل نے کہا الحمد للہ خدا تعالی نے آپ کو فطرت کی ہدایت کی اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
حدیث۸: ابودائود و ابن ماجہ نے ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ خمر (شراب) پئیں گے اور اس کا نام کچھ دوسرا رکھ لیں گے۔
مسائل فقہیہ
لغت میں پینے کی چیز کو شراب کہتے ہیں اور اصطلاح فقہا میں شراب اسے کہتے ہیں جس سے نشہ ہوتا ہے اس کی بہت قسمیں ہیں ۔ خمر انگور کی شراب کو کہتے ہیں یعنی انگور کا کچا پانی جس میں جوش آجائے اور شدت پیدا ہو جائے ۔ امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں جھاگ پیدا ہو ۔اور کبھی ہر کر شراب کو مجازاً خمر کہہ دیتے ہیں ۔
مسئلہ ۱ : خمر حرام بعینہٖ ہے اس کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے اور اس کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اس کا قلیل و کثیر سب حرام ہیں اور یہ پیشاب کی طرح نجس ہے اور اس کی نجاست غلیظہ ہے جو اس کو حلال بتائے کافر ہے کہ نص قرآنی کا منکر ہے مسلم کے حق میں یہ متقوم نہیں یعنی اگر کسی نے مسلمان کی یہ شراب تلف کر دی تو اس پر ضمان نہیں اور اس کو خریدنا صحیح نہیں ۔ اس سے کسی قسم کا انتقاع جائز نہیں نہ دوا کے طور پر استعمال کر سکتا ہے نہ جانور کو پلا سکتا ہے نہ اسے مٹی بھگا سکتا ہے نہ حقنہ کے کام میں لائی جا سکتی ہے۔ اس کے پینے والے کو حد ماری جائے گی اگرچہ نشہ نہ ہوا ہو۔ (درمختار وغیرہ)
مسئلہ ۲ : جانوروں کے زخم میں بھی بطور علاج اس کو نہیں لگا سکتے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۳ : شیرہ انگور کو پکایا یہاں تک کہ دو تہائی سے کم جل گیا یعنی ایک تہائی سے زیادہ باقی ہے اور اس میں نشہ ہو یہ بھی حرام اور نجس ہے ۔(درمختار)
مسئلہ ۴ : رطب یعنی تر کھجور کا پانی اور منقی کو پانی میں بھگایا گیا جب یہ پانی تیز ہو جائے اور جھاگ پھینکے یہ بھی حرام و نجس ہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ۵ : شہد ، انجیر ، گیہوں ، جو وغیرہ کی شرابیں بھی حرام ہیں مثلاً یہاں ہندوستان میں کہوے کی شراب بنتی ہے جب ان میں نشہ ہو حرام ہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۶ : کافر یا بچہ کو شراب پلانا بھی حرام ہے اگرچہ بطور علاج پلائے اور گناہ اسی پلانے والے کے ذمہ ہے۔ (ہدایہ) بعض مسلمان انگریزوں کی دعوت کرتے ہیں اور شراب بھی پلاتے ہیں وہ گنہگار ہیں اس شراب نوشی کا وبال انھیں پر ہے۔
مسئلہ ۷ : نبیذ یعنی کھجور یا منقی کو پانی میں بھگویا جائے وہ پانی نشہ پیدا ہونے سے پہلے پیا جائے یہ جائز ہے احادیث سے اس کا جواز ثابت ہے۔
مسئلہ ۸ : تونبے اور ہر قسم کے برتنوں میں نبیذ بنانا جائز ہے بعض خاص برتنوں میں نبیذ بنانے کی ابتدا میں ممانعت آئی تھی مگر بعد میں یہ ممانعت منسوخ ہو گئی۔
مسئلہ ۹ : گھوڑی کے دودھ میں بھی نشہ ہوتا ہے اس کا پینا بھی ناجائز ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۰ : بھنگ اور افیون اتنی استعمال کرنا کہ عقل فاسد ہو جائے ناجائز ہے جیسا کہ افیونی اور بھنگیڑے استعمال کرتے ہیں اور اگر کمی کے ساتھ اتنی استعمال کی گئی کہ عقل میں فتور نہیں آیا جیسا کہ بعض نسخوں میں افیون قلیل جز ہوتا ہے کہ فی خوراک اس کااتنا خفیف جز ہوتا ہے کہ استعمال کرنے والے کو پتا بھی نہیں چلتا کہ افیون کھائی ہے اس میں حرج نہیں ۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۱ : بعض عورتیں بچوں کو افیون کھلایا کرتی ہیں اور ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے نشہ میں پڑا رہے گا پریشان نہیں کرے گا یہ بھی ناجائز ہے کیونکہ اگر بچہ کو اگرچہ تھوڑی مقدار میں دی جاتی ہے مگر وہ اتنی ضرور ہوتی ہے کہ اس کی عقل میں فتور آجائے۔
مسئلہ۱۲ : چانڈو اور مدک بھی افیون کے استعمال کے طریقہ ہیں کہ اس کا دھواں پیا جاتا ہے جیسا کہ تمباکو پیتے ہیں یہ بھی ناجائز ہے بلکہ غالباً افیون استعمال کرنے کی سب صورتوں میں یہ صورت زیادہ قبیح و مضر ہے۔
مسئلہ ۱۳ : چرس گانجا یہ بھی ایسی چیز ہے کہ اس سے عقل میں فتور آجاتا ہے اس کا پینا ناجائز ہے۔
مسئلہ ۱۴: جواز الطیب میں نشہ ہوتا ہے اس کا استعمال بھی اتنی مقدار میں ناجائز ہے کہ نشہ پیدا ہوجائے اگرچہ اس کا حکم بھنگ سے کم درجہ کا ہے۔
مسئلہ ۱۵ : خشک چیزیں جو نشہ لاتی ہیں جیسے بھنگ وغیرہ یہ نجس نہیں ہیں ۔ لہذا ضماد وغیرہ میں خارجی طور پر ان کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ اس طرح استعمال میں نشہ نہیں پیدا ہو گا پھر ناجائز کیوں ہو۔
مسئلہ۱۶ : حقہ کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں مگر قول فیصل یہ ہے کہ اس کی مختلف صورتیں ہیں ایک یہ کہ حقہ پی کر عقل جاتی رہتی ہے جیسا کہ رام پور بریلی شاہ جہاں پور میں بعض لوگ رمضان شریف میں افطار کے بعد خاص اہتمام سے حقہ بھرتے ہیں اور اس زور سے دم لگاتے ہیں کہ چلم سے اونچی اونچی لو اٹھتی ہے اور پینے والے بیہوش ہو کر گر پڑتے ہیں اور بہت دیر تک بیہوش پڑے رہتے ہیں ۔ پانی کے چھینٹے دینے اور پانی پلانے سے ہوش آتا ہے اس طرح حقہ پینا حرام ہے ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ نہ بیہوش ہو نہ عقل میں فتور پیدا ہو مگر گھٹیا خراب تمباکو پیا جائے۔ اور حقہ تازہ کرنے کا بھی چنداں خیال نہ ہو جس سے منہ میں بدبو ہو جاتی ہے ایسا حقہ مکروہ ہے اور اس حقہ کو پی کربغیر منہ صاف کئے مسجد میں جانا منع ہے اس کا وہی حکم ہے جو کچے لہسن پیاز کھانے کا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ تمباکو بھی اچھا ہو اورحقہ بھی بار بار تازہ کیا جاتا ہو کہ پینے سے منہ میں بدبو نہ پیدا ہویہ مباح ہے اس میں اصلاً کراہت نہیں ۔ بعض لوگوں نے حقہ کے حرام بتانے میں نہایت غلو کیا اور حد سے تجاوز کیا۔ یہاں تک کہ اس کے متعلق حدیثیں بھی معاذاللہ وضع کر ڈالیں ان کی باتیں قابل اعتبار نہیں ۔
مسئلہ۱۷: قہوہ ، کافی ، چائے کا پینا جائز ہے کہ ان میں نہ نشہ ہے نہ تفتیرعقل البتہ یہ چیزیں خشکی لاتی ہیں اور نیند کو دفع کرتی ہیں اسی لئے مشائخ ان کو پیتے ہیں کہ نیند کا غلبہ جاتا رہے اور شب بیداری میں مدد ملے اور کسل اور کاہلی کو بھی یہ چیزیں دفع کرتی ہیں ۔
مسئلہ۱۸ : جس شخص کو افیون کی عادت ہے اسے لازم ہے کہ ترک کرے اگر ایک دم چھوڑنے میں ہلاکت کا اندیشہ ہے تو آہستہ آہستہ کمی کرتا رہے یہاں تک کہ وہ عادت جاتی رہے اور ایسا نہ کیا تو گنہگار و فاسق ہے۔ (ردالمحتار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔