بہار شریعت

شادی کے رسوم

شادی کے رسوم

شادیوں میں طرح طرح کے رسمیں برتی جاتی ہے ہر ملک میں نئے نئے رسوم ہر قوم و خاندان کے رواج اور طریقے جداگانہ جو رسمیں ہمارے ملک میں جاری ہیں ان میں بعض کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ رسوم کی بنا عرف پر ہے یہ کوئی نہیں سمجھتا کہ شرعاً واجب یا سنت یا مستحب ہیں لہذا جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہواس وقت تک اسے حرام و ناجائز نہیں کہہ سکتے کھینچ تان کر ممنوع قرار دینا زیادتی ہے۔

مگر یہ ضرور ہے کہ رسوم کی پابندی اسی حد تک کر سکتا ہے کہ کسی فعل حرام میں مبتلا نہ ہو۔ بعض لوگ اسقدر پابندی کرتے ہیں کہ ناجائز فعل کرنا پڑے تو پڑے مگر رسم کا چھوڑنا گوارا نہیں مثلاً لڑکی جوان ہے اور رسوم ادا کرنے کو روپیہ نہیں تو یہ نہ ہو گا کہ رسوم چھوڑ دیں اور نکاح کر دیں کہ سبکدوش ہوں اور فتنہ کا دروازہ بند ہو۔ اب رسوم کے پورا کرنے کو بھیک مانگتے طرح طرح کی فکریں کرتے۔ اس خیال میں کہ کہیں سے مل جائے تو شادی کریں برسوں گزار دیتے ہیں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ بعض لوگ قرض لے کر رسوم کو انجام دیتے ہیں ۔ یہ ظاہر کہ مفلس کو قرض دے کون ؟ پھر جب یوں قرض نہ ملا تو بنیوں کے پاس گئے اور سودی قرض کی نوبت آئی سود لینا جس طرح حرام اسی طرح دینا بھی حرام حدیث میں دونوں پر لعنت آئی اللہ اور رسول کی لعنت کے مستحق ہوتے اور شریعت کی مخالفت کرتے ہوتے مگر رسم چھوڑنا گوارا نہیں کرتے۔

پھر اگر باپ دادا کی کمائی ہوئی کچھ جائداد ہے تو اسے سودی قرض میں مکفول کیا ورنہ رہنے کا جھونپڑا ہی گروی رکھا تھوڑے دنوں میں سود کا سیلاب سب کو بہا لے گیا۔ جائداد نیلام ہو گئی مکان بنیے کے قبضہ میں گیا دربدر مارے مارے پھرتے ہیں نہ کھانے کا ٹھکانہ نہ رہنے کی جگہ اسکی مثالیں ہر جگہ بکثرت ملیں گی کہ ایسے ہی غیر ضروری مصارف کی وجہ سے مسلمانوں کی بیشتر جائدادیں سود کی نذر ہو گئیں پھر قرضخواہ کے تقاضے اور اسکے تشدد آمیر لہجہ سے رہی سہی عزت پر بھی پانی پڑ جاتا ہے۔ یہ ساری تبارہی بربادی آنکھوں دیکھ رہے ہیں مگر اب بھی عبرت نہیں ہو تی اور مسلمان اپنی فضول خرچیوں سے باز نہیں آتے یہی نہیں کہ اس پر بس ہو اس کی خرابیاں اسی زندگی دنیا ہی تک محدود ہوں بلکہ آخر ت کا وبال الگ ہے۔ بمو جب حدیث صحیح لعنت کا استحقاق والعیاذ باللہ تعالی۔

اکثر جاہلوں میں رواج ہے کہ محلہ یا رشتہ کی عورتیں جمع ہوتی ہیں اور گاتی بجاتی ہیں یہ حرام ہے کہ اولاً ڈھول بجانا ہی حرام پھر عورتوں کا گانا مزید برآن عورت کی آواز نامحرموں کو پہنچنا اور وہ بھی گانے کی اور وہ بھی عشق و ہجر و وصال کے اشعار یا گیت۔ جو عورتیں اپنے گھروں میں چلا کر بات کرنا پسند نہیں کرتیں گھر سے باہر آواز جانے کو معیوب جانتی ہیں ایسے موقعوں پر وہ بھی شریک ہو جاتی ہیں گویا ان کے نزدیک گانا کوئی عیب ہی نہیں کتنی ہی دور تک آواز جائے کوئی حرج نہیں ۔ نیز ایسے گانے میں جوان جوان کنواری لڑکیاں بھی ہوتی ہیں ان کا ایسے اشعار پڑھنا یا سننا کس حد تک ان کے دبے جوش کو ابھارے گا اور کیسے کیسے ولولے پیدا کرے گا اور اخلاق و عادات پر اس کا کہاں تک اثر پڑے گا۔ یہ باتیں ایسی نہیں جن کے سمجھانے کی ضرورت ہو ثبوت پیش کرنے کی حاجت ہو۔

نیز اسی ضمن میں رتجگا بھی ہے کہ رات بھر گاتی ہیں اور گلگلے پکتے ہیں ۔ صبح کو مسجد میں طاق بھرنے جاتی ہیں ۔ یہ بہت سی خرافات پر مشتمل ہے۔ نیاز گھر میں بھی ہو سکتی ہے اور اگر مسجد ہی میں ہو تو مرد لے جا سکتے ہیں عورتوں کی کیا ضرورت پھر اگر اس رسم کی ادا کے لئے عورت ہی ہونا ضرور ہو تو اس جمگھٹے کی کیا حاجت۔ پھر جوانوں اور کنواریوں کی اس میں شرکت اور نامحرم کے سامنے جانے کی جرأت کس قدر حماقت ہے۔ پھر بعض جگہ یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رسم کے ادا کرنے کے لئے چلتی ہیں تو وہی گانا بجانا ساتھ ہوتا ہے اسی شان سے مسجد تک پہنچتی ہیں ہاتھ میں ایک چومک ہوتا ہے یہ سب ناجائز۔ جب صبح ہو گئی چراغ کی کیا ضرورت اور اگر چراغ کی حاجت تو مٹی کا کافی ہے آٹے کا چراغ بنانا اور تیل کی جگہ گھی جلانا فضول خرچی ہے۔

دولھا ، دلھن کو بٹنا لگانا ، مائیوں بٹھاناجائز ہے ان میں کوئی حرج نہیں ۔ دولھا کو مہندی لگانا ناجائز ہے۔ یونہی کنگنا باندھنا ، دال بری کی رسم کہ کپڑے وغیرہ بھیجے جاتے ہیں جائز۔ دولھا کو ریشمی کپڑے پہنانا حرام یونہی مغرق جوتے بھی ناجائزاور خالص پھولوں کا سہرا جائز۔ بلاوجہ ممنوع نہیں کہا جا سکتا۔

ناچ باجے آتش بازی حرام ہیں ۔ کون اس کی حرمت سے واقف نہیں مگر بعض لوگ ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ یہ نہ ہوں تو گویا شادی ہی نہ ہوئی بلکہ بعض تو اتنے بے باک ہوتے ہیں کہ اگر شادی میں یہ محرمات نہ ہوں تو اسے غمی اور جنازہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ ایک تو گناہ ہے اور شریعت کی مخالفت ہے دوسرے مال ضائع کرنا ہے تیسرے تمام تماشائیوں کے گناہ کا یہی سبب ہے اور سب کے مجموعہ کے برابر اس پر گناہ کا بوجھ۔ آتشبازی میں کبھی کپڑے جلتے کبھی کسی کے مکان یا چھپر میں آگ لگ جاتی ہے کوئی جل جاتا ہے۔

ناچ میں جن فواحش و بدکاریوں اور محزب اخلاق باتوں کا اجتماع ہے ان کے بیان کی حاجت نہیں ایسی ہی مجلسوں سے اکثر نوجوان آوارہ ہو جاتے ہیں ۔ دھن دولت برباد کر بیٹھتے ہیں ۔ بازاریوں سے تعلق اور گھر والی سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ کیسے برے برے نتائج رونما ہوتے ہیں اور اگر ان بیہودہ کاریوں سے کوئی محفوظ رہا تو اتنا ضرور ہوتا ہے کہ حیا و غیرت اٹھا کر طاق پر رکھ دیتا ہے۔ بعضوں کو یہاں تک سنا گیا ہے کہ خود بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ جوان بیٹیوں کو دکھاتے ہیں ۔ ایسی بد تہذیبی کے مجمع میں باپ بیٹے کا ساتھ ہونا کہاں تک حیا و غیرت کا پتا دیتا ہے، شادی میں ناچ باجے کا ہونا بعض کے نزدیک اتنا ضروری امر ہے کہ نسبت کے وقت طے کر لیتے ہیں کہ ناچ لانا ہو گا ورنہ ہم شادی نہ کریں گے۔ لڑکی والا یہ نہیں خیال کرتا کہ بیجا صرف نہ ہو تو اسی کی اولاد کے کام آئے گی۔ ایک وقتی خوشی میں یہ سب کچھ کر لیا مگر یہ نہ سمجھا کہ لڑکی جہاں بیاہ کر گئی وہاں تو اب اس کے بیٹھنے کا بھی ٹھکانہ نہ رہا۔ ایک مکان تھا وہ بھی سود میں گیا اب تکلیف ہوئی تو میاں بی بی میں لڑائی ٹھنی اور اس کا سلسلہ دراز ہوا تو اچھی خاصی جنگ قائم ہو گئی۔ یہ شادی ہوئی یا اعلان جنگ۔ ہم نے مانا کہ یہ خوشی کا موقع ہے اور مدت کی آرزو کے بعد یہ دن دیکھنے نصیب ہوئے بے شک خوشی کرو مگر حد سے گزرنا اور حدود شرع سے باہر ہو جانا کسی عاقل کا کام نہیں ۔

ولیمہ سنت ہے بہ نیت اتباع رسول اللہ ﷺ ولیمہ کرو خویش و اقارب اور دوسرے مسلمانوں کو کھانا کھلائو۔ بالجملہ مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے ہر کام کو شریعت کے موافق کرے اللہ ورسول کی مخالفت سے بچے اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button