سوگ کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتا ہے ۔
ولاجناح علیکم فیماعرضتم بہٖ من خطبۃ النسائ اواکننتم فی انفسکمطعلم اللہ انکم ستذکرونھن ولکن لا تو اعد وھن سراالا ان تقولو اقولًا معروفًاط ولا تعزمو اعقدۃ النکاح حتی یبلغ الکتب اجلہٗ ط واعلمو ٓاان اللہ یعلم مافی انفسکم فاحذروہ ج واعلمو ٓاان اللہ غفورٌٌ حلیمٌہ
(اور تم پر گناہ نہیں اس میں کہ اشارۃً عورتوں کے نکاح کا پیغام دویا اپنے دل میں چھپا رکھو اللہ کو معلوم ہے کہ تم ان کی یاد کروگے ہاں ان سے خفیہ وعدہ مت کر و مگر یہ کہ اتنی ہی بات کر جو شرع کے موافق ہے ۔ اور عقد نکاح کا پکا ارادہ نہ کر و جب تک کتاب کا حکم اپنی میعاد کو نہ پہنچ جائے اور جان لو کہ اللہ اس کو جانتا ہے جو تمھارے دلوں میں ہے تو اس سے ڈرو اورجان لو کہ اللہ بخشنے والا حلم والا ہے )
حدیث ۱: صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی کہ ایک عورت نے حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ میری بیٹی کے شوہر کی وفات ہوگئی ( یعنی و ہ عدت میں ہے ) اور اس کی آنکھیں دکھتی ہیں کیا اسے سرمہ لگائیں ارشاد فرمایا نہیں دو یا تین بار یہی فرمایا کہ نہیں پھر فرمایا کہ یہ تو یہی چار مہینے دس دن ہیں اور جاہلیت میں تو ایک سال گزرنے پر مینگنی پھینکا کرتی تھی۔( یہ جاہلیت کی رسم تھی کہ سال بھر کی عدت ایک جھونپڑے میں گزارتی اور نہایت میلے کچیلے کپڑے پہنتی جب سال پورا ہوتا تو وہاں سے مینگنی پھینکتی ہوئی نکلتی اور اب عدت پوری ہوتی )۔
حدیث۲: صحیحین میں ام المومنین ام حبیبہ و ام المومنین زینب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہ حضور نے ارشاد فرمایا جو عورت اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اسے یہ حلال نہیں کہ کسی میت پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے مگر شوہر پر کہ چار مہینے دس دن سوگ کرے ۔
حدیث۳: ام عطیہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کوئی عورت کسی میت پرتین دن سے زیادہ سوگ نہ کرے مگر شوہر پر چار مہینے دس دن سوگ کرے اور رنگاہوا کپڑا نہ پہنے مگر وہ کپڑا کہ بننے سے پہلے اس کا سوت جگہ جگہ باندھ کر رنگتے ہیں اور سرمہ نہ لگائے اور نہ خوشبو چھوئے مگر جب حیض سے پاک ہو تو تھوڑا سا عود استعمال کر سکتی ہے اور ابو داود کی روایت میں یہ بھی ہے کہ منہدی نہ لگائے ۔
حدیث۴: ابوداود و نسائی نے ام المؤ منین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ حضور ﷺنے فرمایا جس عورت کا شوہر مر گیا ہے وہ نہ کسم کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور نہ گیرو کا رنگا ہوااورنہ زیور پہنے اور نہ مہندی لگائے اور نہ سرمہ۔
حدیثد۵: ابوداودو نسائی انھیں سے راوی کہ جب میرے شوہر ابوسلمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات ہوئی حضور ﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میں نے مصبر ( ایلوہ ) لگا رکھا تھا فرمایا ام سلمہ یہ کیا ہے میں نے عرض کی یہ ایلوہ ہے اس میں خوشبونہیں فرمایا اس سے چہرہ میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اگر لگانا ہی ہے تو رات میں لگا لیا کرو اور دن میں صاف کر ڈالا کرو اور خوشبو اور مہندی سے بال نہ سنوارومیں نے عرض کی تو کنگھا کرنے کے لئے کیا چیز سرپر لگاؤں فرمایا کہ بیری کے پتے سر پر تھوپ لیا کرو پھر کنگھا کرو۔
حدیث ۶: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن کے شوہر کوان کے غلاموں نے قتل کر ڈالا تھا وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتی ہیں کہ مجھے میکے میں عدت گزارنے کی اجازت دی جائے کہ میرے شوہر نے کوئی اپنا مکان نہیں چھوڑا اور نہ خرچ چھوڑا ۔ اجازت دیدی پھر بلا کر فرمایا اسی گھر میں رہو جس میں رہتی ہو جب تک عدت پوری نہ ہو لہذا انھوں نے چار ماہ دس دن اسی مکان میں پورے کئے ۔
مسائل فقہیہ
مسئلہ۱: سوگ کے یہ معنی ہیں کہ زینت کو ترک کرے یعنی ہر قسم کے زیور چاندی سونے جواہر وغیرہا کے اور ہر قسم اور ہر رنگ کے ریشم کے کپڑے اگرچہ سیاہ ہوں نہ پہنے اورخوشبو کا بدن یا کپڑوں میں استعمال نہ کرے اور نہ تیل کا استعمال کرے اگرچہ اس میں خوشبو نہ ہو جیسے روغن زیتون اور کنگھا کرنا اور سیاہ سرمہ لگانا۔ یونہی سفید خوشبودار سرمہ لگانا اور مہندی لگانا اور زعفران یا کسم یا گیرو کا رنگا ہوا یا سرخ رنگ کا کپڑا پہننا منع ہے ان سب چیزوں کا ترک واجب ہے ۔( جوہرہ‘ درمختار‘ عالمگیری) یونہی پڑیا کا رنگ گلابی ۔ دھانی ۔ چمپئی اور طرح طرح کے رنگ جن میں تزین ہوتا ہے سب کو ترک کرے ۔
مسئلہ۲: جس کپڑے کا رنگ پرانا ہوگیا کہ اب اسکا پہننا زینت نہیں اسے پہن سکتی ہے ۔یوہیں سیاہ رنگ کے کپڑے میں بھی حرج نہیں جبکہ ریشم کے نہ ہوں ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۳: عذر کی وجہ سے ان چیزوں کا استعمال کر سکتی ہے مگر اس حال میں اسکا استعمال زینت کے قصد سے نہ ہو مثلاً درد سر کی وجہ سے تیل لگاسکتی ہے یا تیل لگانے کی عادی ہے جانتی ہے کہ نہ لگانے میں دردسر ہو جائیگا تو لگانا جائز ہے۔ یا دردسر کے وقت کنگھا کرسکتی ہے مگر اس طرف سے جدھر کے دندانے موٹے ہیں ادھر سے نہیں جدھر باریک ہوں کہ یہ بال سنوارنے کے لئے ہوتے ہیں اور یہ ممنوع ہے ۔یا سرمہ لگانیکی ضرورت ہے کہ آنکھوں میں درد ہے۔ یا خارشت ہے تو ریشمی کپڑے پہن سکتی ہے ۔یا اس کے پاس اور کپڑا نہیں ہے تو یہی ریشمی یا رنگا ہوا پہنے مگر یہ ضرور ہے کہ ان کی اجازت ضرورت کے وقت ہے لہذا بقدر ضرورت اجازت ہے ضرورت سے زیادہ ممنوع مثلاًآنکھ کی بیماری میں سرمہ لگانیکی ضرورت ہو تو یہ لحاظ ضروری ہے کہ سیاہ سرمہ اس وقت لگاسکتی ہے جب سفید سرمہ سے کام نہ چلے اور اگر صرف رات میں لگانا کافی ہے تو دن میں لگانے کی اجازت نہیں ۔( عالمگیری ‘ درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۴: سوگ اس پر ہے جو عاقلہ بالغہ مسلمان ہواور موت یا طلاق بائن کی عدت ہو اگر چہ عورت باندی ہو۔ شوہر کے عنین ہونے یا عضو تناسل کے کٹے ہونے کی وجہ سے فرقت ہوئی تو اس کی عدت میں بھی سوگ واجب ہے ۔( درمختار ‘ عالمگیری)
مسئلہ۵: طلاق دینے والا سوگ کرنے سے منع کرتا ہے یا شوہر نے مرنے سے پہلے کہدیا تھا کہ سوگ نہ کرنا جب بھی سوگ کرنا واجب ہے ۔( درمختار)
مسئلہ۶: نابالغہ و مجنونہ و کا فرہ پر سوگ نہیں ۔ ہاں اگر اثنائے عدت میں نابالغہ بالغہ ہوئی مجنونہ کا جنون جاتا رہا اورکافرہ مسلمان ہوگئی تو جو دن باقی رہ گئے ہیں ان میں سوگ کرے ۔( ردالمحتار)
مسئلہ۷: ام ولد کو اس کے مولی نے آزاد کر دیا یا مولی کا انتقال ہو گیا تو عدت بیٹھے گی مگر اس عدت میں سوگ واجب نہیں ۔ یونہی نکاح فاسد اور وطی بالشبہہ اور طلاق رجعی کی عدت میں سوگ نہیں ۔( جوہرہ عالمگیری)
مسئلہ۸: کسی قریب کے مرجانے پر عورت کو تین دن تک سوگ کرنے کی اجازت ہے اس سے زائد کی نہیں اور عورت شوہر والی ہو تو شوہر اس سے بھی منع کرسکتا ہے ۔ ( ردالمحتار)
مسئلہ۹: کسی کے مرنے کے غم میں سیاہ کپڑے پہننا جائز نہیں مگر عورت کو تین دن تک شوہر کے مرنے پر غم کی وجہ سے سیاہ کپڑے پہننا جائز ہے اور سیاہ کپڑے غم ظاہر کرنے کیلئے نہ ہوں تو مطلقاً جائز ہیں ۔( درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۱۰: عدت کے اندر چار پائی پر سو سکتی ہے کہ یہ زینت میں داخل نہیں ۔
مسئلہ۱۱: جو عورت عدت میں ہو اس کے پاس صراحۃً نکاح کا پیغام دینا حرام ہے اگر چہ نکاح فاسد یا عتق کی عدت میں ہوا ور موت کی عدت ہو تو اشارۃً کہہ سکتے ہیں اور طلاق رجعی یا بائن یا فسخ کی عدت میں اشارۃًبھی نہیں کہہ سکتے اور وطی بالشبہہ یا نکاح فاسد کی عدت میں اشارۃً کہہ سکتے ہیں اشارۃً کہنے کی صورت یہ ہے کہ کہے میں نکاح کرنا چاہتاہوں مگر یہ نہ کہے کہ تجھ سے ورنہ صراحت ہو جائیگی یا کہے میں ایسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہوں جس میں یہ یہ وصف ہوں اور وہ اوصاف بیان کرے جو اس عورت میں ہیں یا مجھے تجھ جیسی کہاں ملیگی۔( درمختار ‘ عالمگیری)
مسئلہ۱۲: جو عورت طلاق رجعی یا بائن کی عدت میں ہے یا کسی وجہ سے فرقت ہوئی اگرچہ شوہر کے بیٹے کا بوسہ لینے سے اوراس کی عدت میں ہو یا خلع کی عدت میں ہو اگرچہ نفقۂ عدت پر خلع ہوا ہو یا اس پر خلع ہوا کہ عدت میں شوہر کے مکان میں نہ رہے گی تو ان عورتوں کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں نہ دن میں نہ رات میں جبکہ آزاد ہوں یا لونڈی ہوجو شوہر کے پاس رہتی ہے اور عاقلہ بالغہ مسلمہ ہو اگرچہ شوہر نے اسے باہر نکلنے کی اجازت بھی دی ہو۔اور نابالغہ لڑکی طلاق رجعی کی عدت میں شوہر کی اجازت سے باہر جاسکتی ہے اور بغیر اجازت نہیں اور نا بالغہ بائن طلاق کی عدت میں اجازت وبے اجازت دونوں صورت میں جاسکتی ہے ہاں اگر قریب البلوغ ہے تو بغیر اجازت نہیں جاسکتی اور عورت پگلی یا بوہری یاکتابیہ ہے تو جاسکتی ہے مگر شوہر کو منع کرنے کا حق ہے۔ مرد و عورت مجوسی تھے شوہر مسلمان ہو گیا اور عورت نے اسلام لانے سے انکار کیا اور فرقت ہوگئی اور مدخولہ تھی لہذا عدت بھی واجب ہوئی تو عدت کے اندر اس کا شوہر نکلنے سے منع کرسکتا ہے۔ مولی نے ام ولدکو آزاد کیا تو اس عدت میں باہر جاسکتی ہے اور نکاح فاسد کی عدت میں نکلنے کی اجازت ہے مگر شوہر منع کر سکتا ہے ۔ ( عالمگیری‘ درمختار)
مسئلہ۱۳: چند مکان کا ایک صحن ہواور وہ سب مکان شوہر کے ہوں تو صحن میں آسکتی ہے اور وں کے ہوں تو نہیں ۔(درمختار )
مسئلہ۱۴: اگر کرایہ کے مکان میں رہتی تھی جب بھی مکان بدلنے کی اجازت نہیں شوہر کے ذمہ زمانۂ عدت کا کرایہ ہے اور اگر شوہر غائب ہے اور عورت خود کرایہ دے سکتی ہے جب بھی اسی میں رہے ۔( ردالمحتار)
مسئلہ۱۵: موت کی عدت میں اگر باہر جانے کی حاجت ہو کہ عورت کے پاس بقدر کفایت مال نہیں اور باہر جا کر محنت مزدوری کرکے لائیگی تو کام چلے گا تو اسے اجازت ہے کہ دن میں اور رات کے کچھ حصے میں باہر جائے اور رات کا اکثر حصہ اپنے مکان میں گزارے مگر حاجت سے زیادہ باہر ٹھہرنے کی اجازت نہیں ۔اور اگر بقدر کفایت اس کے پاس خرچ موجود ہے تو اسے بھی گھر سے نکلنا مطلقاً منع ہے اور اگر خرچ موجود ہے مگر باہر نہ جائے تو کوئی نقصان پہنچے گا مثلاً زراعت کا کوئی دیکھنے بھالنے والا نہیں اور کوئی ایسا نہیں جسے اس کام پر مقرر کرے تو اس کے لیئے بھی جاسکتی ہے مگر رات کو اسی گھر میں رہنا ہوگا۔( درمختار ‘ ردالمحتار) یوہیں کوئی سودالانے والا نہ ہوتو اس کے لیئے بھی جاسکتی ہے ۔
مسئلہ۱۶: موت یا فرقت کے وقت جس مکان میں عورت کی سکونت تھی اسی مکان میں عدت پوری کرے اور یہ جو کہا گیاہے کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتی اس سے مراد یہی گھر ہے اور اس گھر کو چھوڑکر دوسرے مکان میں بھی سکونت نہیں کرسکتی مگر بضرورت اور ضرورت کی صورتیں ہم آگے لکھیں گے آج کل معمولی باتوں کو جس کی کچھ حاجت نہ ہو محض طبیعت کی خواہش کو ضرورت بولا کرتے ہیں وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔
مسئلہ۱۷: عورت اپنے میکے گئی تھی یا کسی کام کے لئے کہیں اور گئی تھی اس وقت شوہر نے طلاق دی یا مر گیا تو فوراً بلا توقف وہاں سے واپس آئے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۸: جس مکان میں عدت گزارنا واجب ہے اس کو چھوڑ نہیں سکتی مگر اس وقت کہ اسے کوئی نکال دے مثلاً طلاق کی عدت میں شوہر نے گھر میں سے اس کو نکالدیا یا کرایہ کامکان ہے اور عدت عدت وفات ہے مالک مکان کہتا ہے کہ کرایہ دے یا مکان خالی کر اور اس کے پاس کرایہ نہیں یا وہ مکان شوہر کا ہے مگر اس کے حصہ میں جتنا پہنچا ہو قابل سکونت نہیں اور ورثہ اپنے حصہ میں اسے رہنے نہیں دیتے یا کرایہ مانگتے ہیں اور پاس کرایہ نہیں ۔ یا مکان ڈھ رہا ہو یا ڈھنے کا خوف ہو یا چوروں کاخوف ہو مال تلف ہو جانیکا اندیشہ ہے یا آبادی کے کنارے مکان ہے اور مال وغیرہ کا اندیشہ ہے تو ان صورتوں میں مکان بدل سکتی ہے ۔اور اگر کرایہ کا مکان ہواور کرایہ دے سکتی ہے یا ورثہ کو کرایہ دے کر رہ سکتی ہے تو اسی میں رہنا لازم ہے ۔اور اگر حصہ اتنا ملا کہ اس کے رہنے کے لئے کافی ہے تو اسی میں رہے اور دیگر ورثۂ شوہر جن سے پردہ فرض ہے ان سے پردہ کرے اور اگر اس مکان میں نہ چور کا خوف ہے نہ پڑوسیوں کا مگر اس میں کوئی اور نہیں ہے اور تنہا رہتے خوف کرتی ہے تو اگر خوف زیادہ ہو مکان بدلنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں اور طلاق بائن کی عدت ہے اور شوہر فاسق ہے اور کوئی وہاں ایسا نہیں کہ اگر اس کی نیت بد ہو تو روک سکے ایسی حالت میں مکان بدل دے ۔( عالمگیری ‘ درمختار وغیرہما)
مسئلہ۱۹: وفات کی عدت میں اگر مکان بدلنا پڑے تو اس مکان سے جہاں تک قریب کا میسر آسکے اسے لے اور عدت طلاق کی ہو تو جس مکان میں شوہر اسے رکھنا چاہے اور اگر شوہر غائب ہے تو عورت کو اختیار ہے ۔ ( عالمگیری)
مسئلہ۲۰: جب مکان بدلا تو دوسرے مکان کا وہی حکم ہے جو پہلے کا تھا یعنی اب اس مکان سے باہر جانے کی اجازت نہیں مگر عدت وفات میں بوقت حاجت بقدر حاجت جس کا ذکر پہلے ہوچکا ۔( عالمگیری)
مسئلہ۲۱: طلاق بائن کی عدت میں یہ ضروری ہے کہ شوہر و عورت میں پردہ ہو یعنی کسی چیزسے آڑ کر دی جائے کہ ایک طرف شوہر رہے اور دوسری طرف عورت ۔ عورت کا اسکے سامنے اپنا بدن چھپانا کافی نہیں اس واسطے کہ عورت اب اجنبیہ سے خلوت جائز نہیں بلکہ یہاں فتنہ کا زیادہ اندیشہ ہے اور اگر مکان میں تنگی ہواتنا نہیں کہ دونوں الگ الک رہ سکیں تو شوہر اتنے دنوں تک مکان چھوڑدے یہ نہ کرے کہ عورت کو دوسرے مکان میں بھیج دے اور خود اس میں رہے کہ عورت کو مکان بدلنے کی بغیر ضرورت اجازت نہیں ۔اور اگر شوہر فاسق ہو تو اسے حکماً اس مکان سے علیحدہ کر دیا جائے اور اگر نہ نکلے تو اس مکان میں کوئی ثقہ عورت رکھ دی جائے جو فتنہ روکنے پر قادر ہو اور اگررجعی کی عدت ہو تو پردہ کی کچھ حاجت نہیں اگرچہ شوہر فاسق ہو کہ یہ نکاح سے باہر نہ ہوئی ۔ (درمختار‘ ردالمحتار)
مسئلہ۲۲: تین طلاق کی عدت کا بھی وہی حکم ہے جو طلاق بائن کی عدت کا ہے ۔ زن و شوہراگر بڑھیا بوڑھے ہوں اور فرقت واقع ہوئی اور ان کی اولادیں ہوں جن کی مفارقت گوار انہ ہو تو دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیں جبکہ زن وشوہر کی طرح نہ رہتے ہوں ۔ ( درمختار)
مسئلہ۲۳: سفر میں شوہر نے طلاق بائن دی یا اس کا انتقال ہوااب وہ جگہ شہر ہے یا نہیں اور وہاں سے جہاں جانا ہے مدت سفر ہے یا نہیں اور بہر صورت مکان مدت سفر ہے یا نہیں اگر کسی طرف مسافت سفر نہ ہو تو عورت کو اختیار ہے وہاں جائے یا گھر واپس آئے اسکے ساتھ محرم ہو یا نہ ہو مگر بہتر یہ ہے کہ گھر واپس آئے اور اگر ایک طرف مسافت سفر ہے اور دوسرے طرف نہیں تو جدھر مسافت سفر نہ ہو اس کو اختیار کرے اور اگر دونوں طرف مسافت سفر ہے اور وہاں آبادی نہ ہو تو اختیار ہے جائے یا واپس آئے ساتھ میں محرم ہو یانہ ہو اور بہتر گھر واپس آنا ہے اور اگر اس وقت شہر میں ہے تو وہیں عدت پوری کرے محرم یا بغیر محرم نہ ادھر آسکتی ہے نہ ادھر جاسکتی اور اگر اس وقت جنگل میں ہے مگر راستہ میں گاؤں یا شہر ملے گا اور وہاں ٹھہر سکتی ہے کہ مال یا آبرو کا اندیشہ نہیں اور ضرورت کی چیزیں وہاں ملتی ہوں تو وہیں عدت پوری کرے پھر محرم کے ساتھ وہاں سے سفر کرے ۔ ( درمختار‘ عالمگیری)
مسئلہ ۲۴: عورت کو عدت میں شوہر سفر میں نہیں لیجاسکتا اگر چہ وہ رجعی کی عدت ہو( درمختار)
مسئلہ۲۵: رجعی کی عدت کے وہی احکام ہیں جو بائن کے ہیں مگر اس کے لیئے سوگ نہیں اور سفر میں رجعی طلاق دی تو شوہر ہی کے ساتھ رہے اور کسی طرف مسافت سفر ہے تو ادھر نہیں جاسکتی ۔( درمختار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔