بہار شریعت

سونے چاندی اور مال تجارت کی زکوۃ کے متعلق مسائل

سونے چاندی اور مال تجارت کی زکوۃ کے متعلق مسائل

حدیث ۱: سنن ابی دائود و ترمذی میں امیرا لمومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ سے مروی رسو ل اللہ ﷺ فرماتے ہیں گھوڑے اور لونڈی غلام کی زکوۃ میں نے معاف فرمائی تو اب چاندی کی زکوۃ ہر چالیس درہم سے ادا کرو مگر ایک سو نوے (۱۹۰) میں کچھ نہیں جب دو سو درہم ہوں تو پانچ درہم دو۔

حدیث ۲: ابودائود کی دوسری روایت انہیں سے یوں ہے کہ ہر چالیس درہم سے ایک درہم ہے مگر جب تک دو سو (۲۰) درہم پورے نہ ہوں کچھ نہیں جب دو سو (۲۰۰) درہم ہوں تو پانچ درہم اور اس سے زیادہ ہوں تو اسی حساب سے دیں ۔

حدیث ۳: ترمذی شریف میں بروایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ مروی کہ دو عورتیں حاضرخدمت اقدس ہوئیں ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے ارشاد فرمایا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو عرض کی نہیں ۔ فرمایا کیا تم اسے پسند کرتی ہو کہ اللہ تعالی تمہیں آگ کے کنگن پہنائے، عرض کی نہ۔ فرمایا تو ان کی زکوۃ ادا کرو۔

حدیث ۴: امام مالک و ابودائود و ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں فرماتی ہیں میں سونے کے زیور پہنا کرتی تھی میں نے عرض کی یارسول اللہ کیا یہکنز ہے (اس کے بارے میں قرآن مجید میں وعید آئی) ارشاد فرمایا جو اس حد کو پہنچے کہ اس کی زکوۃ ادا کی جائے اور ادا کر دی گئی تو کنز نہیں ۔

حدیث ۵: امام احمد باسناد حسن اسمآء بنت یزید سے راوی کہتی ہیں ۔ میں اور میری خالہ حاضرخدمت اقدس ہوئیں اور ہم نے سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ ارشاد فرمایا کہ اس کی زکوۃ دیتی ہو۔ عرض کی نہیں ۔ فرمایا کیا ڈرتی نہیں ہو کہ اللہ تعالی تمہیں آگ کے کنگن پہنائے، اس کی زکوۃ ادا کرو۔

حدیث ۶: ابودائود و سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ ہم کو رسول اللہ ﷺ حکم دیا کرتے تھے کہ جس کو ہم بیع (تجارت) کے لئے مہیا کریں اس کی زکوۃ نکالیں ۔

مسئلہ ۱: سونے کی نصاب بیس مثقال ہے یعنی ساڑھے سات تولے اور چاندی کی دوسو (۲۰۰) درہم یعنی ساڑھے باون تولے یعنی وہ تولہ جس سے یہ رائج روپیہ سوا گیارہ ماشے ہے۔ سونے چاندی کی زکوۃ میں وزن کا اعتبار ہے قیمت کا لحاظ نہیں مثلاً سات تولے سونے یا کم وزن کا زیور یا برتن بنا ہو کہ اس کی کاریگری کی وجہ سے دو سو درہم سے زائد قیمت ہو جائے یا سونا گراں ہو کہ ساڑے سات تولے سے کم کی قیمت دوسو درہم سے بڑھ جائے جیسے آج کل کہ ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت چاندی کی کئی نصابیں ہوں گی غرض یہ کہ وزن میں بقدر نصاب نہ ہو تو زکوۃ واجب نہیں قیمت جو کچھ بھی ہو یونہی سونے کی زکوۃ میں سونے اور چاندی کی زکوۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی تو اس کی قیمت کا اعتبار نہ ہو گا بلکہ وزن کا ا گرچہ اس میں بہت کچھ صنعت ہو جس کی وجہ سے قیمت بڑھ گئی یا فرض کرو کہ دس آنے بھری چاندی بک رہی ہے اور زکوۃ میں ایک روپیہ دیا جو سولہ آنہ قرار دیا جاتا ہے تو زکوۃ ادا کرنے میں وہ یہی سمجھا جائے گا کہ سوا گیارہ ماشے چاندی دی۔ یہ چھ آنے بلکہ کچھ اوپر جو اس کی قیمت میں زائد ہیں لغو ہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۳۸،۴۰)

مسئلہ ۲: یہ جو کہا گیا ہے کہ ادائے زکوۃ میں قیمت کا اعتبار نہیں یہ اسی صورت میں ہے کہ اس کی جنس کی زکوۃ اسی جنس سے ادا کی جائے اور اگر سونے کی زکوۃ چاندی سے یا چاندی کی سونے سے ادا کی تو قیمت کا اعتبار ہو گا مثلاً سونے کی زکوۃ میں چاندی کی کوئی چیز دی جس کی قیمت ایک اشرفی ہے تو ایک اشرفی دینا قرار پائے گی اگرچہ وزن میں اس کی چاندی پندرہ روپے بھر بھی نہ ہو۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۴۱)

مسئلہ ۳: سونا چاندی جب کہ بقدر نصاب ہوں تو ان کی چالیسواں حصہ ہے خواہ وہ ویسے ہی ہوں یا ان کے سکے جیسے روپے اشرفیاں یا ان کی چیز بنی ہوئی خواہ اس کا استعمال جائز ہو جیسے عورت کے لئے زیور مرد کے لئے چاندی کی ایک نگ کی انگوٹھی ساڑھے چار ماشے سے کم کی یا سونے چاندی کے بلا زنجیر کے بٹن یا ناجائز ہو جیسے چاندی سونے کے برتن، گھڑی، سرمہ دانی ، سلائی کہ ان کا استعمال مرد عورت سب کے لئے حرام ہے یا مرد کے لئے سونے چاندی کا چھلا یا زیور یا سونے کی انگوٹھی یا کئی انگوٹھیاں یاکئی نگ کی ایک انگوٹھی غرض جو کچھ ہو زکوۃ سب کی واجب ہے۔ مثلاً ۲/۱ ۷ تولہ سونا ہے تو دو ماشہ زکوۃ واجب ہے یا ۵۲ تولہ ۶ ماشہ چاندی ہے تو ایک تولہ ۳ ماشہ ۶ رتی۔ (درمختار ج ۲ ص ۴۱ وغیرہ)

مسئلہ۴: سونے چاندی کے علاوہ تجارت کی کوئی چیز ہو جس کی قیمت سونے چاندی کی نصاب کو پہنچے تو اس پر بھی زکوۃ واجب ہے یعنی قیمت کا چالیسواں حصہ اور اگر اسباب کی قیمت تو نصاب کو نہیں پہنچتی مگر اس کے پاس ان کے علاوہ سونا چاندی بھی ہے تو ان کی قیمت سونے چاندی کے ساتھ ملا کر مجموعہ کریں اگر مجموعہ نصاب کو پہنچا زکوۃ واجب ہے اور اسباب تجارت کی قیمت اس سکے سے لگائیں جس کا رواج وہاں زیادہ ہو جیسے ہندوستان میں روپیہ کا زیادہ چلن ہے اسی سے قیمت لگائی جائے اور اگر کہیں سونے چاندی دونوں کے سکوں کا یکساں چلن ہو تو اختیار ہے جس سے چاہیں قیمت لگائیں مگر جب کہ روپے سے قیمت لگائیں تو نصاب نہیں ہوتی اور اشرفی سے ہو جاتی ہے یا بالعکس تو اسی سے قیمت لگائی جائے جس سے نصاب پوری ہو اور اگر دونوں سے نصاب پوری ہوتی ہے مگر ایک سے نصاب کے علاوہ نصاب کا پانچواں حصہ زیادہ ہوتا ہے دوسرے سے نہیں تو اس سے قیمت لگائیں جس سے ایک نصاب اور نصاب کا پانچواں حصہ ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۲،۴۱ وغیرہ)

مسئلہ ۵: نصاب سے زیادہ مال ہے تو اگر یہ زیادتی نصاب کا پانچواں حصہ ہے تو ا س کی زکوۃ بھی واجب ہے مثلاً دو سو چالیس (۲۴۰) درہم یعنی ۶۳ تولہ چاندی ہو تو زکوۃ میں چھ درہم واجب یعنی ایک تولہ ۶ ماشہ ۲/۱ ۷ رتی بڑھائیں یعنی ۵۲ تولہ ۶ ماشہ کے بعد ہر ۱۰ تولہ ۶ ماشہ پر ۳ ماشہ ۵/۱ ۱ رتی بڑھائیں اور سونا نو تولہ ہو تو دو ماشہ ۵/۳ ۵ رتی یعنی ۷ تولہ ۶ ماشہ کے بعد ہر ایک تولہ پر ۶ ماشہ ۳/۲ ۵ رتی بڑھائیں اور پانچواں حصہ نہ ہو تو معاف یعنی مثلاً نو تولہ سے ایک رتی کم اگر سونا ہے تو زکوۃ وہ ۷ تولہ ۶ ماشہ کی واجب ہے یعنی ۲ ماشہ۔ یونہی چاندی اگر ۶۳ تولہ سے ایک رتی بھی کم ہے تو زکوۃ وہی ۵۲ تولہ ۶ ماشہ کی ایک تولہ ۳ ماشہ ۹ رتی واجب یونہی پانچویں حصہ کے بعد جو زیادتی ہے اگر وہ بھی پانچواں حصہ ہے تو اس کا چالیسواں حصہ واجب ورنہ معاف وعلی ہذا القیاس۔ مال تجارت کا بھی یہی حکم ہے۔ (درمختار ج ۲ ص ۴۳)

مسئلہ ۶: اگر سونے چاندی میں کھوٹ ہو اور غالب سونا چاندی ہے تو سونا چاندی قرار دیں اور کل پر زکوۃ واجب ہے یونہی اگر کھوٹ سونے چاندی کے برابر ہو تو زکوۃ واجب اور اگر کھوٹ غالب ہو تو سونا چاندی نہیں پھر اس کی چند صورتیں ہیں اگر اس میں سونا چاندی اتنی مقدار میں ہو کہ جدا کریں تو نصاب کو پہنچ جائے یا وہ نصاب کو نہیں پہنچتا مگر اس کے پاس اور مال ہے کہ اس سے مل کر نصاب ہو جائے گی یا وہ ثمن میں چلتا ہے اور اس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو ان سب صورتوں میں زکوۃ واجب ہے اور اگر ان صورتوں میں کوئی نہ ہو تو اس میں اگر تجارت کی نیت ہو تو بشرائط تجارت اسے مال تجارت قرار دیں اور اس کی قیمت نصاب کی قدر ہو خود یا اوروں کے ساتھ مل کر تو زکوۃ واجب ہے ورنہ نہیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۴۲،۴۳)

مسئلہ ۷: سونے چاندی کو باہم خلط کر دیا تو اگر سونا غالب ہے سونا سمجھا جائے اور دونوں برابر ہوں اور سونا بقدر نصاب ہے تنہا یا چاندی کے ساتھ مل کر جب بھی سونا ہی سمجھا جائے اور چاندی غالب ہو تو چاندی ہے نصاب کو پہنچے تو چاندی کی زکوۃ دی جائے مگر جب کہ اس میں جتنا سونا ہے وہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہے تو اب بھی کل سونا ہی قرار دیں ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۴۳)

مسئلہ ۸: کسی کے پاس سونا ہے اور چاندی بھی اور دونوں کی کامل نصابیں ہیں تو یہ ضرور نہیں کہ سونے کو چاندی یا چاندی کو سونا قرار دے کر زکوۃ ادا کرے بلکہ ہر ایک کی زکوۃ علیحدہ علیحدہ واجب ہے ہاں زکوۃ دینے والا اگر صرف ایک چیز سے دونوں نصابوں کی زکوۃ ادا کرے تو اسے اختیار ہے مگر اس صورت میں یہ واجب ہو گا کہ قیمت وہ لگائے جس میں فقیروں کو زیادہ نفع ہے مثلاً ہندوستان میں روپے کا چلن بہ نسبت اشرفیوں کے زیادہ ہے تو سونے کی قیمت چاندی سے لگا کر چاندی زکوۃ میں دے اور اگر دونوں میں سے کوئی بقدر نصاب نہیں تو سونے کی قیمت کی چاندی یا چاندی کی قیمت کا سونا فرض کر کے ملائیں پھر اگر ملانے پر بھی نصاب نہیں ہوتی تو کچھ نہیں اور اگر سونے کی قیمت کی چاندی چاندی میں ملائیں تو نصاب ہو جاتی ہے اور چاندی کی قیمت کا سونا سونے میں ملائیں تو نہیں ہوتی یا بالعکس تو واجب ہے کہ جس میں نصاب پوری ہو وہ کریں اور اگر دونوں صورتوں میں نصاب ہو جاتی ہے تو اختیار ہے جو چاہیں کریں مگر جب کہ ایک صورت میں نصاب پر پانچواں حصہ بڑھ جاتا ہے تو جس میں پانچواں حصہ بڑھ جائے وہی کرنا واجب ہے مثلاً سوا چھبیس تولے چاندی ہے اور پونے چار تولے سونا اگر پونے چار تولے سونے کی چاندی سوا چھبیس تولے آتی ہے اور سوا چھبیس تولے چاندی کا پونے چار تولے سونا آتا ہے تو سونے کو چاندی یا چاندی کو سونا جو چاہیں تصور کریں اور اگر پونے چار تولے سونے کے بدلے ۳۷ تولے چاندی آتی ہے اور سوا چھبیس تولے چاندی کا پونے چار تولے سونا نہیں ملتا تو واجب ہے کہ سونے کو چاندی قرار دیں کہ اس صورت میں نصاب ہو جاتی ہے بلکہ پانچواں حصہ زیادہ ہوتا ہے اور اس صورت میں نصاب بھی پوری نہیں ہوتی یونہی اگر ہر ایک نصاب سے کچھ زیادہ ہے تو اگر زیادتی نصاب کا پانچواں حصہ ہے تو اس کی بھی زکوۃ دیں اور اگر ہر ایک میں زیادتی پانچویں حصہ نصاب سے کم ہے تو دونوں ملائیں اگر مل کر بھی کسی کی نصاب کا پانچواں حصہ نہیں ہوتا تو اس زیادتی پر کچھ نہیں اور اگر دونوں میں نصاب یا نصاب کا پانچواں ہو تو اختیار ہے مگر جب کہ ایک میں نصاب ہو اور دوسرے میں پانچواں حصہ تو وہ کریں جس میں نصاب ہو اور اگر ایک میں نصاب یا پانچواں حصہ ہوتا ہے اور دوسرے میں نہیں تو وہی کرنا واجب ہے جس سے نصاب ہو یا نصاب کا پانچواں حصہ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۴۶،۴۵ وغیرہما)

مسئلہ ۹: پیسے جب رائج ہوں اور دو سو درہم چاندی یا بیس مثقال سونے کی قیمت کے ہوں تو ان کی زکوۃ واجب ہے اگرچہ تجارت کے لئے نہ ہوں اور اگر چلن اٹھ گیا ہو تو جب تک تجارت کے لئے نہ ہوں زکوۃ واجب نہیں ۔ (فتاوی قاری الہدایہ) نوٹ کی زکوۃ بھی واجب ہے جب تک ان کا رواج اورچلن ہو کہ یہ بھی ثمن اصطلاحی ہیں اور پیسوں کے حکم میں ہیں ۔

مسئلہ ۱۰: جو مال کسی پر دین ہو اس کی زکوۃ کب واجب ہوتی ہے اور ادا کب اس میں تین صورتیں ہیں ۔ اگر دین قوی ہو جیسے قرض جسے عرف میں دستگرداں کہتے ہیں اور مال تجارت کا ثمن مثلاً کوئی مال اس نے بہ نیت تجارت خریدا اسے کسی کے ہاتھ ادھار بیچ ڈالا یا مال تجارت کا کرایہ مثلاً کوئی مکان یا زمین بہ نیت تجارت خریدی اسے کسی کو سکونت یا زراعت کے لئے کرایہ پر دے دیا یہ کرایہ اگر اس پر دین ہے تو دین قوی ہو گا اور دین قوی کی زکوۃ بحالت دین ہی سال بہ سال واجب ہوتی رہے گی مگر واجب الادا اس وقت ہے جب پانچواں حصہ نصاب کا وصول ہو جائے مگر جتنا وصول ہوا اتنے ہی کی واجب الادا ہے یعنی چالیس درہم کا وصول ہونے سے ایک درہم دینا واجب ہو گا اور اسی (۸۰) وصول ہوئے تو دو وعلی ہذا القیاس دوسرے دین متوسط کہ کسی مال غیر تجارتی کا بدل ہو مثلاً گھر کا غلہ یا سواری کا گھوڑا یا خدمت کا غلام یا اور کوئی شے حاجت اصلیہ کی بیچ ڈالی اور دام خریدار پر باقی ہیں اس صورت میں زکوۃ دینا اس وقت لازم آئے گا کہ دو سو درہم پر قبضہ ہو جائے یونہی اگر مورث کا دین اسے ترکہ میں ملا اگرچہ مال تجارت کا عوض ہو مگر وارث کو دو سو درہم وصول ہونے اور مورث کی موت کو سال گزرنے پر زکوۃ دینا لازم آئے۔ تیسرے دین ضعیف جو غیر مال کا بدل ہو جیسے مہر، بدل ، خلع، دیت، بدل کتابت یا مکان یا دوکان کہ بہ نیت تجارت خریدی نہ تھی اس کا کرایہ کرایہ دار پر چڑھا اس میں زکوۃ دینا اس وقت واجب ہے کہ نصاب پر قبضہ کرنے کے بعد سال گذر جائے یا اس کے پاس کوئی نصاب اس جنس کی ہے اور اس کا سال تمام ہو جائے تو زکوۃ واجب ہے۔ پھر اگر دین قوی یا متوسط کئی سال کے بعد وصول ہو تو اگلے سال کی زکوۃ جو اس کے ذمہ دین ہوتی رہی وہ پچھلے سال کے حساب میں اسی رقم پر ڈالی جائے گی مثلاً عمرو پر زید کے تین سو درہم دین قوی تھے پانچ برس بعد چالیس درہم سے کم وصول ہوئے تو کچھ نہیں اور چالیس وصول ہوئے تو ایک درہم دینا واجب ہوا اب انتالیس باقی رہے کہ نصاب کے پانچویں حصہ سے کم ہے لہذا باقی برسوں کی ابھی واجب نہیں اور اگر تین سو درہم دین متوسط تھے تو جب تک دو سو درہم وصول نہ ہوں کچھ نہیں اور پانچ برس بعد دو سو درہم وصول ہوئے تو اکیس واجب ہوں گے سال اول کے پانچ اب سال دوم میں ایک سو پچانوے رہے ان میں سے پینتیس کہ خمس سے کم ہیں معاف ہو گئے ایک سو ساٹھ رہے اس کی چار درہم واجب لہذا سال سوم میں ایک سو اکانوے رہے ان میں بھی چار درہم واجب چہارم میں ایک سو ستاسی رہے پنچم میں ایک سو تراسی رہے ان میں بھی چار چار درہم واجب لہذا کل اکیس درہم واجب الادا ہوئے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۴۷ تا ۵۰ وغیرہما)

مسئلہ ۱۱: اگر دین سے پہلے سال نصاب رواں تھا تو جو دین اثنائے سال میں کسی پر لازم آیا اس کا سال بھی وہی قرار دیا جائے گا جو پہلے سے چل رہا ہے وقت دین سے نہیں اور اگر دین سے پہلے اس جنس کی نصاب کا سال رواں نہ ہو تو وقت دین سے شمار ہو گا۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۴۹)

مسئلہ ۱۲: کسی پر دین قوی یا متوسط ہے اور قرض خواہ کا انتقال ہو گیا تو مرتے وقت اس دین کی زکوۃ کی منت ضرور نہیں کہ اس کی زکوۃ واجب الادا تھی ہی نہیں اور وارث پر زکوۃ اس وقت ہو گی جب مورث کی موت کو ایک سال گزر جائے اور چالیس درہم دین قوی میں اور دو سو درہم دین متوسط میں وصول ہو جائیں ۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۴۹)

مسئلہ ۱۳: سال تمام کے بعد دائن نے دین معاف کر دیا یا سال تمام سے پہلے مال زکوۃ ہبہ کر دیا تو زکوۃ ساقط ہو گئی۔ (درمختار ج ۲ ص ۵۰)

مسئلہ۴ ۱: عورت نے مہر کا روپیہ وصول کر لیا سال گزرنے کے بعد شوہر نے قبل دخول طلاق دے دی تو نصف مہر واپس کرنا ہو گا اور زکوۃ پورے کی واجب ہے اور شوہر پر واپسی کے بعد سے سال کا اعتبار ہے۔ (درمختار ج ۲ ص ۵۰)

مسئلہ ۱۵: ایک شخص نے یہ اقرار کیا کہ فلاں کا مجھ پر دین ہے اور اسے دے بھی دیا پھر سال بعد دونوں نے کہا دین نہ تھا تو کسی پر زکوۃ واجب نہ ہوئی ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۲) مگر ظاہر یہ ہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب کہ اس کے خیال میں دین ہو ورنہ اگر محض زکوۃ ساقط کرنے کے لئے یہ حیلہ کیا تو عنداللہ مواخذہ کا مستحق ہے۔

مسئلہ ۱۶: مال تجارت میں سال گزرنے پر جوقیمت ہو گی اس کا اعتبار ہے مگر شرط یہ ہے کہ شروع سال میں اس کی قیمت دو سو درہم سے کم نہ ہو اور اگر مختلف قسم کے اسباب ہوں تو سب کی قیمتوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قدر ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۹) یعنی جب کہ اس کے پاس یہی مال ہو اور اگر اس کے پاس سونا چاندی اس کے علاوہ ہو تو اسے ملا لیں گے۔

مسئلہ ۱۷: غلہ یا کوئی مال تجارت سال تمام پر دو سو درہم کا ہے پھر نرخ بڑھ گھٹ گیا تو اگر اسی میں زکوۃ دینا چاہیں تو جتنا اس دن تھا اس کا چالیسواں حصہ دے اور اگر اس کی قیمت کی کوئی اور چیز دینا چاہیں تو وہ قیمت لی جائے جو سال تمام کے دن تھی اور اگر وہ چیز سال تمام کے دن تر تھی اب خشک ہو گئی جب بھی وہی قیمت لگائیں جو اس دن تھی ا ور اگر اس روز خشک تھی اب بھیگ گئی تو آج کی قیمت لگائیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۹،۱۸۰)

مسئلہ ۱۸: قیمت اس جگہ کی ہونی چاہیئے جہاں مال ہے اور اگر مال جنگل میں ہے تو اس کے قریب جو آبادی ہے وہاں جو قیمت ہو اس کا اعتبار ہے۔ (عالمگیری ج ۱ص ۱۸۰) ظاہر یہ ہے کہ یہ اس مال میں ہے جس کی جنگل میں خریداری نہ ہوتی ہو اور جنگل میں خریدار جاتا ہو جیسے لکڑی اور وہ چیزیں جو وہاں پیدا ہوتی ہیں تو جب تک مال وہاں پڑا ہے وہیں کی قیمت لگا ئی جائے۔

مسئلہ ۱۹: کرایہ پر اٹھانے کے لئے دیگیں ہوں ان کی زکوۃ نہیں یونہی کرایہ کے مکان کی۔ (عالمگیری ج ۲ ص ۱۸۰)

مسئلہ ۲۰: گھوڑے کی تجارت کرتا ہے جھول اور لگام اور رسیاں وغیرہ اس کے لئے خریدیں کہ گھوڑوں کی حفاظت میں کام آئیں گی تو ان کی زکوۃ نہیں اور اگر اس لئے خریدیں کہ گھوڑے ان کی سمیت بیچے جائیں گے تو ان کی بھی زکوۃ دے۔ نان بائی نے روٹی پکانے کے لئے لکڑیاں خریدیں یا روٹی میں ڈالنے کو نمک خریدا تو ان کی زکوۃ نہیں اور روٹی پر چھڑکنے کو تل خریدے تو تلوں کی زکوۃ واجب ہے۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۰)

مسئلہ ۲۱: ایک شخص نے اپنا مکان تین سال کے لئے تین سو درہم سال کے کرایہ پر دیا اور اس کے پاس کچھ نہیں ہے اور جو کرایہ میں آتا ہے سب کو محفوظ رکھتا ہے تو آٹھ مہینے گزرنے پر نصاب کا مالک ہو گیا کہ آٹھ ماہ میں دو سو درہم کرایہ کے ہوئے لہذا آج سے سال زکوۃ شروع ہو گیا اور سال پورا ہونے پر پانسو (۵۰۰) درہم کی زکوۃ دے کہ بیس ماہ کا کرایہ پانسو ہوا اب اس کے بعد ایک سال اور گزرا تو آٹھ سو (۸۰۰) کی زکوۃ دے مگر سال اول کی زکوۃ ساڑھے بارہ درہم کم کئے جائیں ۔ (عالمگیری ج ۲ ص ۱۸۱) بلکہ آٹھ سو میں چالیس کم کی زکوۃ واجب ہو گی کہ چالیس سے کم کی زکوۃ نہیں بلکہ عفو ہے۔

مسئلہ ۲۲: ایک شخص کے پاس صرف ایک ہزار درہم ہیں اور کچھ مال نہیں اس نے سو درہم سالانہ کرایہ پر دس (۱۰) سال کے لئے مکان لیا اور وہ کل روپے مالک مکان کو دے دیئے تو پہلے سال میں نو سو کی زکوۃ دے کہ سو کرایہ میں گئے دوسرے سال آٹھ سو کی بلکہ پہلے سال کی زکوۃ ساڑھے بائیس درہم آٹھ سو میں سے کم کر کے باقی کی زکوۃ دے۔ اسی طرح ہر سال میں سو روپے اور سال گذشتہ کی زکوۃ کے روپیہ کم کر کے باقی کی زکوۃ اس کے ذمہ ہے اور مالک مکان کے پاس بھی اگر اس کرایہ کے ہزار کے سوا کچھ نہ ہو تو دو سال تک کچھ نہیں ۔ دو سال گزرنے پر اب دو سو کا مالک ہوا تین برس پر تین سو کی زکوۃ دے یونہی ہر سال سو درہم کی زکوۃ بڑھتی جائے گی مگر اگلی برسوں کی مقدار زکوۃ کم کرنے کے بعد باقی کی زکوۃ واجب ہو گی۔ صورت مذکورہ میں اگر اس قیمت کی کنیز کرایہ میں دی توکرایہ دار پر کچھ واجب نہیں اور مالک مکان پر اسی طرح وجوب ہے جو درہم کی صورت میں ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۲)

مسئلہ ۲۳: تجارت کے لئے غلام قیمتی دو سو درہم کا دو سو میں خریدا اور ثمن بائع کو دے دیا اگر غلام پر قبضہ نہ کیا یہاں تک کہ ایک سال گزر گیا اب وہ بائع کے یہاں مر گیا تو بائع و مشتری دونوں پر دو دو سو کی زکوۃ واجب ہے اور اگر غلام دو سو درہم سے کم قیمت کا تھا اور مشتری نے دو سو پر لیا تو بائع دو سو کی زکوۃ دے اور مشتری پر کچھ نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۸۲)

مسئلہ ۲۴: خدمت کا غلام ہزار روپے میں بیچا اور ثمن پر قبضہ کر لیا سال بھر بعد وہ غلام عیب دار نکلا اس بنا پر واپس ہوا قاضی نے واپسی کا حکم دیا ہو یا اس نے خود اپنی خوشی سے واپس لے لیا ہو تو ہزار کی زکوۃ دے۔ (عالمگیری ج ۲ ص ۱۸۲)

مسئلہ ۲۵: روپے کے عوض کھانا غلہ کپڑا وغیرہ فقیر کو دے کر مالک کر دیا زکوۃ ادا ہو جائے گی مگر اس چیز کی قیمت جو بازار بھائو سے ہو گی وہ زکوۃ میں سمجھی جائے بالائی مصارف مثلاً بازار سے لانے میں جو مزدور کو دیا ہے یا گائوں سے منگوایا تو کرایہ اور چنگی وضع نہ کریں گے یا پکوا کر دیا تو پکوائی یا لکڑیوں کی قیمت مجرا نہ کریں بلکہ اس پکی ہوئی چیز کی جو قیمت بازار میں ہو اس کا اعتبار ہو۔ (درمختار، عالمگیری ج ۱ ص ۱۷۹)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button