شرعی سوالات

سوفٹ وئیر میں بغیر اعراب کے قرآن پاک کی آیات لکھنا

کیا سوفٹ وئیر میں بغیر اعراب کے قرآن پاک کی آیات لکھنا گناہ ہے؟ ایک جدید اور بہت پوچھے جانے والے سوال کا جواب

تحریر کا خلاصہ:
  • اگر اقرآن پاک کے الفاظ پڑھے جا رہے ہیں تو اس سوفٹ وئیر میں بغیر اعراب کے قرآن پاک کی آیات لکھنا جائز ہے گناہ نہیں، لیکن نہ مناسب ہے۔

سوفٹ وئیر میں بغیر اعراب کے قرآن پاک کی آیات لکھنے کے متعلق سوال:  میں ایک ویڈیو ایڈٹنگ سوفٹ وئیر استعمال کرتا ہوں اس  میں کبھی چند الفاظ قرآنی بھی ویڈیو میں ایڈ کرنے پڑتے ہیں لیکن جب قران پاک کا ٹیکسٹ کاپی کیا جاتاہے  تو اس سوفٹ وئیر میں عربی فونٹ میچ نہ ہونے کی وجہ سے اعراب عمومی حالت سے کچھ زیادہ  اوپر ہو جاتے ہیں اور آیت بغیر اعراب کے ہوجاتی ہے۔یعنی  سوفٹ وئیر میں رسم الخط خراب نہیں ہوتا اور نہ ہی ایک حرف کا اعراب دوسرے حرف پر منتقل ہوتا ہے۔اس حوالے سے شرعی راہنمائی چاہیے کہ کیا سوفٹوئیر میں قرآن مجید کی آیات بغیر اعراب کے لکھنا گناہ تو نہیں؟

جواب:

اگر الفاظِ قرآنی پڑھے جا رہے ہیں تو اس سوفٹ وئیر میں بغیر اعراب کے قرآن پاک کی آیات لکھنا جائز ہے گناہ نہیں، لیکن اعراب الفاظوں سے دور ہوجائیں کہ  آیت بغیر اعراب کے ہوجائے تویہ خلاف اولیٰ یعنی نامناسب ہے۔ایسی صورت میں بہتر ہے کہ دوسرا سوفٹ وئیر استعمال کیاجائے یا ایسے  فونٹ استعمال کیے جائیں جن سے اعراب صحیح لگے رہیں اور اعراب کے ساتھ صحیح طریقے سے قرآن پڑھا جا سکے۔

سوفٹ وئیر میں بغیر اعراب کے قرآن پاک کی آیات لکھنے کے گناہ نہ ہونے کے دلائل:

الاتقان فی علوم القران میں ہے :”قال: النووي نقط المصحف وشكله مستحب لأنه صيانة له من اللحن والتحريف“ ترجمہ: امام نووی فرماتے ہیں قرآن پاک میں نقطے اور اعراب لگانا مستحب ہے کہ اس سےلحن و تحریف سے حفاظت ہوتی ہے۔

(الاتقان فی علوم القران،جلد 4،صفحہ 185، الهيئة المصرية العامة للكتاب، بیروت)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(تحلية المصحف وتعشيره ونقطه) أي إظهار إعرابه۔۔۔خصوصا للعجم فيستحسن “ترجمہ:قران پاک کو مزین کرنا ، اس میں عشر کی علامت لگانا اور نقطے یعنی اعراب لگانا خصوصاً عجمیوں کے لیے مستحسن ہے۔

(تنویر الابصار مع الدر المختار و رد  المحتار،فصل فی البیع،جلد 9، صفحہ 636، مطبوعہ کوئٹہ)

بحر الرائق  میں ہے:”أن ترك المستحب خلاف الأولى “ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ ترکِ مستحب خلاف اولی ہے۔

(بحر الرائق ، جلد 2،صفحہ 35،دار الكتاب الإسلامي،قاہرہ)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button