سوال:
کیا احکام شریعت عبادات اور معاملات حالات زمانہ کے مطابق رد و بدل ہوسکتے ہیں یا ہوتے رہتے ہیں مثلا آج سے بیس سال پہلے ایک ہی ملک میں ہر طرح کا سود حرام قطعی قرار دیا گیا ہو اور اب امتداد زمانہ کے باعث حلت کے درجہ میں آجائے؟
جواب:
احکام قطعیہ منصوصہ میں رد وبدل کا کسی کو اختیار نہیں ۔ جو حرام ہیں حرام ہی رہیں گے،اور جو حلال ہیں حلال۔بعض احکام ظنیہ میں مصلحت یا ضرورت یا عموم بلوی وغیرہا وجوہ سے علمائے کرام نے زیادت ونقص وخلاف کا حکم دیا اور اس کے نظائز کتب فقہ میں کثیر ہیں کہ متقدمین نے ایک قول پر فتوی دیا اور متاخرین نے اس کے خلاف پر ۔بعض احکام کہ مرورزمانہ سے متبدل ہوگئے یہ ہیں:۔
(1)عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے کا مسئلہ۔
(2)جمعہ میں اضافہ اذان کا مسئلہ۔
(3)تثویب کا جواز بلکہ استحباب
(4)مساجد کی آرائش اور اس کی دیواروددر کے نقش و نگار کا مسئلہ۔
(5)مساجد کے لیے کنگر ے بنانے کا مسئلہ۔
(6)تعلیم علم دین و امامت و اذان پر اجرت لینے کا مسئلہ۔
یہ چند نظائز بیان میں آئے ،جن میں تبدل زمان سے حکم مختلف ہوگیا اور جس نے کلمات علماء کا تتبع کیا وہ جانتا ہے کہ کلام علماء میں اس کی بہت نظیریں ملیں گی کہ زمانہ سابق میں اور حکم تھا اور اب کچھ اور۔مگر حقیقۃً ان سب صورتوں میں تبدیل احکام نہیں بلکہ الضرورات تبیح المحظورات پر نظر ہے یا اذا ابتلی ببلیتین فلیختر اھونھما کا لحاظ ایسے امور کی طرف داعی ہوتاہے یا اختلاف زمانہ ومصالح مسلمین انکی مقتضی ہوتی ہیں کہ یہ حالت اگر زمانہ متقدم میں پائی جاتی تو اس وقت بھی یہی حکم ہوتا جو اب ہے اور متقدمین بھی اسی پر فتوے دیتے جس پر متاخرین نے دیا۔لہذا سوال کا جواب یہ ہے کہ احکام حقیقۃً نہیں بدلتے۔ہاں بعض احکام صورۃً متغیر ہوجاتے ہیں سود لینا حرام قطعی ہے پہلے بھی حرام تھا اور اب بھی حرام ہے اور ہمیشہ حرام رہے گا۔(پھر سود کی حرمت پر انیس احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتےہیں کہ )یہ چند حدیثیں ذکر کی گئیں جن سود کی حرمت وشناعت ظاہر اور اسکا گناہ کبیرہ ہونا عیاں۔مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسی قبیح شی سے اپنے کو بچائیں اور عذاب آخرت سے ڈریں کہ اگرچہ بظاہر اس کا نام سود ہے مگر حقیقۃ اس میں ضررشدید ہے ۔یہ تو سود کے متعلق حکم تھا مگر بعض جگہ صورۃً ربا ہے اور حقیقہً ربا نہیں ۔اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں مثلاً حربی کے ہاتھ ،دارالحرب میں ایک روپیہ ،دو رپیہ کو بیچا یا اسے قرض دیا اور زیادہ لینا ٹھہرا لیا ۔یہ صورۃ ربا ہے حقیقۃ ربا نہیں کہ کافر حربی کا جو مال بلاغدر حاصل ہو وہ حلال خالص ہے۔یعنی یہ ربا ہے ہی نہیں ۔نہ یہ کہ سود تو ہے مگر جائز ہے ایسا ہوتا تویوں فرمایا جاتا کہ یجوز الربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب“حقیقۃ ربا ہونے کے لیے مال کامعصوم ہونا شرط ہے کہ جو مال مباح ہو اگر اس میں بھی ربا ہو تو لینا حرام ہوگا پھر مباح کہاں ہوا اور معصوم اور غیر معصوم میں کیا فرق رہا۔۔۔مگر یہاں کے کفار نہ ذمی ہیں نہ مستامن تو ضرور حربی ہوئے ۔لہذا یہاں کے کفار سے جو مال بتراخی ملے مباح خالص اور حلال محض ہے۔وہ روپے کہ انجمن کو وصول ہوئے اگر دینے والے نے کسی مسلمان سے سود لیکر دیے تو حرام ہیں انجمن انھیں واپس دے اور وہ مسلمان کو جس سے لیے ہیں۔اور اگر یہ روپے کسی کافر سے لیے جب تو کوئی قباحت ہی نہیں کہ یہ سود ہی نہیں اور اگر اسے سود کہ کر یا سمجھ کر لیا تو برا کیا کہ حلال کو حرام سمجھا مگر اب بھی اس کے سود کہدینے سے سود نہ ہوگا کہ اگرچہ عقود میں لفظ کا اعتبار ہے مگر جبکہ اپنے میں ہو اور ہ محل ربا ہی نہیں ۔
(فتاوی امجدیہ، کتاب البیوع،جلد3،صفحہ159تا 173،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)