سود سے بچنے کی صورتیں

سود سے بچنے کی صورتیں

شریعت مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے ۔ حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ دونون برابر ہیں ۔ آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرض حسن جو بغیر سود ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے دولت والے کسی کو بغیر نفع روپیہ دینا چاہتے نہیں اور اہل حاجت اپنی حاجت کے سامنے اس کا لحاظ بھی نہیں کرتے کہ سودی روپیہ لینے میں آخرت کا کتنا عظیم وبال ہے اس سے بچنے کی کوشش کی جائے ۔لڑکی لڑکے کی شادی۔ختنہ اور دیگر تقریبات شادی وغمی میں اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے ہیں ۔برادری اور خاندان کے رسوم میں اتنے جکڑ ے ہوئے ہیں کہ ہر چند کہیے ایک نہیں سنتے رسوم میں کمی کرنے کو اپنی ذلت سمجھتے ہیں ۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو اولاًتو یہی نصیحت کرے ہیں کہ ان رسوم کی جنجال سے نکلیں چادرسے زیادہ پاؤں نہ پھیلائیں اور دنیا و آخرت کے تباہ کن نتائج سے ڈریں ۔ تھوڑی دیر کی مسرت یا ابنائے جنس میں نام آوری کا خیال کرکے آئندہ زندگی کو تلخ نہ کریں ۔ اگر یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئیں قرض کابار گراں اپنے سرہی رکھنا چاہتے ہیں بچنے کی سعی نہیں کرتے جیسا کہ مشاہدہ اسی پرشاہدہے تو اب ہماری دوسری فہمائش ان مسلمانوں کو یہ ہے کہ سودی قرض کے قریب نہ جائیں ۔

نبص قطعی قرآنی اس میں برکت نہیں اور مشاہدات وتجربات بھی یہی ہیں کہ بڑی بڑی جائدادیں سود میں تباہ ہوچکی ہیں یہ سوال اس وقت پیش نظر ہے کہ جب سودی قرض نہ لیا جائے تو بغیر سودی قرض کو ن دیگا پھر ان دشواریوں کو کس طرح حل کیا جائے ۔اس کے لئے ہمارے علمائے کرام چند صورتیں ایسی تحریر فرمائی ہیں کہ ان طریقوں پرعمل کیا جائے تو سود کی نجاست ونحوست سے پناہ ملتی ہے اور قرض دینے والا جس ناجائز نفع کا خواہش مند تھا اس کے لئے جائز طریقہ پر نفع حاصل ہوسکتا ہے ۔ صرف لین دین کی صورت میں کچھ ترمیم کرنی پڑے گی ۔ مگر نا جائز وحرام سے بچاؤ ہوجائے گا۔

شاید کسی کو یہ خیال ہو کہ دل میں جب یہ ہے کہ سو(۱۰۰) دیکر ایک سودس(۱۱۰) لئے جائیں ۔پھر سود سے کیونکر بچے ہم اس کے لئے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شرع مطہر نے جس عقد کو جائز بتایا وہ محض اس تخیل سے ناجائز و حرام نہیں ہوسکتا۔ دیکھو اگر روپے سے چاندی خریدی اور ایک روپیہ کی ایک بھر سے زائد لی یہ یقینا سودو حرام ہے صاف حدیث میں تصریح ہے الفضۃ بالفضۃ مثلا بمثل یدابیدوالفضل ربا اور اگر مثلاً ایک گنی جو پندرہ روپے کی ہواس سے پچیس روپے بھر یا اور زیادہ چاندی خریدی یا سولہ آنے پیسوں کی دو روپیہ بھر خریدی اگرچہ اس کامقصود بھی وہی ہے کہ چاندی زیادہ لی جائے مگر سودنہیں اور یہ صورت یقینا حلال ہے حدیث صحیح میں فرمایا۔ اذ االختلف النوعان فبیعواکیف شئتم ۔معلوم ہوا کہ جوازوعدم جواز نوعیت عقد پر ہے ۔ عقد بدل جائے گا حکم بدل جائے گا۔ اس مسئلہ کو زیادہ واضح کرنے کے لئے ہم دو(۲) حدیثیں ذکر کرتے ہیں ۔

صحیحین میں ابو سعید خدری وابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ایک شخص کو خیبر کاحاکم بناکر بھیجا تھا وہ وہاں سے حضور کی خدمت میں عمدہ کھجوریں لائے اشاد فرمایا کیا خیبر کی سب ایسی ہوتی ہیں عرض کی نہیں یا رسول اللہ ﷺ ہم دو صاع کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین صاع کے بدلے دو صاع کے بدلے ان کھجوروں کا ایک صاع لیتے ہیں اور تین صاع کے بدلے میں دو صاع لیتے ہیں فرمایاایسانہ کرو معمولی کھجوروں کو روپیہ سے بیچو پھر روپیہ سے اس قسم کی کھجوریں خریدا کرواور تول کی چیزوں میں بھی ایسا ہی فرمایا صحیحین میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی بلال رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں برنی کھجوریں لائے ارشاد فرمایا کہاں سے لائے عرض کی ہمارے یہاں خراب کھجوریں تھیں ان کے دوصاع کو ان کے ایک صاع کے عوض میں بیچ ڈالا ارشاد فرمایا افسوس یہ تو بالکل سود ہے یہ تو بالکل سود ہے ایسانہ کرنا ہاں اگر ان کے خریدنے کا ارادہ ہو تواپنی کھجوریں بیچ کر پھر انکو خریدو ۔

ان دونوں حدیثوں سے واضح ہوا کہ بات وہی ہے کہ عمدہ کھجوریں خرید نا چاہتے ہیں مگر اپنی کھجوریں زیادہ دیکر لیتے ہیں سود ہوتا ہے ۔اور اپنی کھجوریں روپیہ سے بیچ کراچھی کھجوریں خریدیں یہ جائز ہے ۔ اسی وجہ سے امام قاضی خان اپنے فتاوے میں سودسے بچنے کی صورتیں لکھتے ہوئے یہ تحریر فرماتے ہیں و مثل ھذاروی عن رسول اللہ ﷺ انہ امر بذلک ۔ اس مختصر تمہید کے بعد اب وہ صورتیں بیان کرتے ہیں جو علماء نے سود سے بچنے کی بیان کی ہیں ۔

مسائل فقہیہ:

مسئلہ۱: ایک شخص کے دوسرے پر دس روپے تھے اس نے مدیون سے کوئی چیز ان دس روپوں میں خریدلی اور مبیع پرقبضہ بھی کرلیا پھراسی چیز کو مدیون کے ہاتھ بارہ میں ثمن وصول کرنے کی ایک میعاد مقرر کرکے بیچ ڈالا اب اس کے اس پردس کی جگہ بارہ ہوگئے اور اسے دو روپے کا نفع ہوااور سودنہ ہوا۔( خانیہ )

مسئلہ۲: ایک نے دوسرے سے قرض طلب کیا وہ نہیں دیتا اپنی کوئی چیز مقرض کے ہاتھ سوروپے میں بیچ ڈالی اس نے سوروپے دیدئے اور چیز پر قبضہ کرلیا پھر مستقرض نے وہی چیز مقرض سے سال بھر کے وعدہ پرایک سودس روپے میں خریدلی یہ بیع جائز ے مقرض نے سوروپے دیئے اور ایک سود س روپے مستقرض کے ذمہ لازم ہوگئے اور اگر مستقرض کے پاس کوئی چیز نہ ہو جس کو اس طرح بیع کرے تو مقرض مستقرض کے ہاتھ اپنی کوئی چیز ایک سودس روپے میں بیع کرے اور قبضہ دیدے پھر مستقرض اسکی غیرکے ہاتھ سوروپے میں بیچے اور قبضہ دیدے پھر اس شخص اجنبی سے مقرض سوروپے میں خریدلے اور ثمن ادا کردے اور وہ مستقرض کو سوروپے ثمن ادا کردے نتیجہ یہ ہواکہ مقرض کی چیز اس کے پاس آگئی اور مستقرض کو سوروپے مل گئے مگر مقرض کے اس کے ذمہ ایک سو دس روپے لازم رہے ۔( خانیہ )

مسئلہ۳: مقرضنے اپنی کوئی چیز مستقرض کے ہاتھ تیرہ روپے میں چھ مہینے کے وعدہ پر بیع کی اور قبضہ دیدیا پھر مستقرض نے اسی چیز کو اجنبی کے ہاتھ بیچااور اس بیع کا اقالہ کرکے پھر اسی کومقرض کے ہاتھ دس روپے میں بیچا اور روپے لے لئے اس کابھی یہ نتیجہ ہوا کہ مقرض کی چیز واپس آگئی اور مستقرض کو دس روپے مل گئے مگر مقرض کے اس کے ذمہ تیرہ روپے (۱) واجب ہوئے ۔( خانیہ )

حاشیہ (۱): اس صورت میں اگر چہ یہ بات ہوئی کہ جو چیز جتنے میں بیع کی قبل نقد ثمن مشتری سے اس سے کم میں خریدی مگر چونکہ اس صورت میں مفروضہ میں ایک بیع جو اجنبی سے ہوئی درمیان میں حاصل ہوگئی لہذا یہ بیع جائز ہے۔ ۱۲ منہ

مسئلہ۴: سودسے بچنے کی ایک صورت بیع عینہ ہے امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا بیع عینہ مکروہ ہے کیونکہ قرض کی خوبی اور حسن سلوک سے محض نفع کی خاطر بچنا چاہتا ہے اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالی فرمایا کہ اچھی نیت ہوتو اس میں حرج نہیں بلکہ بیع کرنے والا مستحق ثواب ہے کیونکہ وہ سود سے بچنا چاہتا ہے مشایخ بلخ نے فرمایا بیع عینہ ہمارے زمانہ کی اکثر بیعوں سے بہتر ہے ۔ بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص نے دوسرے سے مثلاً دس روپے قرض مانگے اس نے کہا میں قرض نہیں دونگا یہ البتہ کرسکتا ہوں کہ یہ چیز تمھارے ہاتھ بارہ روپے میں بیچتا ہوں اگر تم چاہو خریدلو اسے بازار میں دس روپے کو بیع کردینا تمھیں دس روپے مل جائیں گے اور کام چل جائے گااور اسی صورت سے بیع ہوئی ۔ بائع نے زیادہ نفع حاصل کرنے اور سود سے بچنے کا یہ حیلہ نکالا کہ دس کی چیز بارہ میں بیع کردی اس کا کام چل گیا اور خاطر خواہ اس کو نفع مل گیا۔ بعض لوگوں نے اس کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ تیسرے شخص کو اپنی بیع میں شامل کریں یعنی مقرض نے قرضدار کے ہاتھ اس کو بارہ میں بیچا اور قبضہ دیدیاپھر قرضدار نے ثالث کے ہاتھ دس روپے میں بیچ کر قبضہ دیدیا اس نے مقرض کے ہاتھ دس روپے میں بیچااور قبضہ دیدیا اور دس روپے ثمن کے مقرض سے وصول کرکے قرضدار کو دیدئے نتیجہ یہ ہوا کہ قرض مانگنے والے کو دس روپے وصول ہوگئے مگر بارہ دینے پڑیں گے کیونکہ وہ چیز بارہ میں خریدی ہے ۔( خانیہ ، فتح ، ردالمحتار)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

Download WordPress Themes Free
Download WordPress Themes
Download Best WordPress Themes Free Download
Download WordPress Themes
free download udemy course
download xiomi firmware
Download WordPress Themes
online free course

Comments

Leave a Reply