سودی عقود میں ملوث بینک کے  ملازم کی تنخواہ ناجائز ہے۔

سودی عقود میں ملوث بینک کے ملازم کی تنخواہ ناجائز ہے۔

سوال:

زید نے بینک میں ملازمت کی بکر کہتا ہے بینک والوں کو تنخواہ سود سے ملتی ہے، اس لئے یہ تنخواہ ناجائز ہے۔  بکر کا قول درست ہے یا زید کی تنخواہ جائز ہے؟ ملخصا

جواب:

بینکوں میں صرف سود کی ہی رقم نہیں ہوتی ہے۔ اسٹیٹ بینک میں تو ملک کے تمام ٹیکس جمع ہوتے ہیں  اور دوسرے بینک جب کھولے جاتے ہیں تو ابتداءً اس کے شرکاء اپنے روپے سے شروع کرتے ہیں ۔ اس کے بعد لوگوں کے روپے بھی اس میں جمع ہوتے ہیں اور لوگ بینک سے قرض بھی لیتے ہیں اور سود کا لینا دینا شروع ہوتا ہے۔ بینک اس کے علاوہ اور بہت سے کام کرتے ہیں ۔ لہذا بینک کا سرمایہ مخلوط ہو جاتا ہے ، اس سے تنخواہ لینے کے حرام ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ مخلوط آمدنی سے دوسرے لوگوں کا لینا جائز نہیں ہوتا ہے اور اگر بینکوں سے تنخواہ وغیرہ لینا حرام ہو جائے تو پھر پاکستان کے کسی بھی شخص کی آمدنی حلال نہیں رہے گی۔ بینکوں میں ملازمت کر کے تنخواہ لینے کی دو صورتیں ہیں۔ اگر ملازم کو سود لکھنا پڑتا ہے تو اس کی ملازمت بھی ناجائز اور تنخواہ لینا بھی ناجائز ۔ احادیث میں سود کا کاغذ لکھنے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے اور جن ملازمین کو سود لکھنا نہیں پڑتا مثلا دربان اور ڈرائیور وغیرہ تو ان کی ملازمت بھی جائز ہے اور تنخواہ بھی۔                                            (وقار الفتاوی، جلد 3، صفحہ 324، بزم وقار الدین، کراچی)

Premium WordPress Themes Download
Download Nulled WordPress Themes
Download Best WordPress Themes Free Download
Download Best WordPress Themes Free Download
ZG93bmxvYWQgbHluZGEgY291cnNlIGZyZWU=
download mobile firmware
Download Premium WordPress Themes Free
free online course

Comments

Leave a Reply