شرعی سوالات

سوال: کیا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جہاں چاہیں ،جب چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں؟

سوال: کیا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جہاں چاہیں ،جب چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں؟

جواب:جی ہاں ، ہمارے پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم جہاں چاہیں جب چاہیں تشریف لے جاسکتے ہیں اس پر کچھ دلائل درج ذیل ہیں:مجھے بیداری میں دیکھے گا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:((مَنْ رَآنِی فِی المَنَامِ فَسَیَرَانِی فِی الیَقَظَۃِ، وَلاَ یَتَمَثَّلُ الشَّیْطَانُ بی))ترجمہ:جس نے مجھے خواب میں دیکھا عنقریب مجھے بیداری میں دیکھے گا، شیطان میری صورت میں نہیں آسکتا۔(صحیح بخاری،باب من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام،ج9،ص33،مطبوعہ دارطوق النجاۃ)

اولاً تو اس حدیث پاک سے یہ پتا چلا کہ نبی کریم صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دنیا کے مختلف کونوں میں بسنے والے لوگوں کو خواب میں تشریف لاکر دیدار کراتے ہیں ،کیونکہ جس نے حضور صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کو خواب میں دیکھا اس نے یقیناآپ ہی کو دیکھا۔رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں:((مَنْ رَآنِی فِی المَنَامِ فَقَدْ رَآنِی، فَإِنَّ الشَّیْطَانَ لاَ یَتَخَیَّلُ بِی ))ترجمہ:جس نے مجھے خواب میں دیکھاتو اس نے مجھ ہی کو دیکھا کہ شیطان میری مشابہت اختیار نہیں کرسکتا۔ (صحیح بخاری،باب من رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی المنام،ج9،ص33،دارطوق النجاۃ)

ثانیاً یہ کہ جسے خواب میں زیارت کراتے ہیں اس کے لیے بشارت ہے کہ اسے بیدار ی میں بھی زیارت کرائیں گے۔

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت بعض بزرگوں کے بارے میں نقل کرتے ہیں: انہوں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی،اوروہ اس حدیث پاک کی تصدیق کرنے والے تھے،پھر ا س کے بعد انہوں نے بیداری میں بھی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی اور اُن اشیاء کے بارے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سوال کیا جن وہ تشویش کا شکا رتھے،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کی مشکلات کو دور فرمایا اور ان کو مشکلات سے نجات کے طریقے بتائے ،تو بغیر کمی بیشی کے ویسا ہی ہوا (جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاتھا)۔ (الحاوی للفتاوی،تنویر الحلک فی امکان رؤیۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم،ج2،ص308، دارالفکرللطباعۃ والنشر،بیروت)موسیٰ علیہ السلام کہاں سے کہاں:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،شفیع امتصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم حدیث ِ معراج میںارشاد فرماتے ہیں:((مَرَرْتُ عَلَی مُوسَی وَہُوَ یُصَلِّی فِی قَبْرِہِ))ترجمہ :میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا وہ اپنی قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔(صحیح مسلم،باب من فضائل موسیٰ علیہ السلام،ج4،ص1845،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

پھر جب مسجد اقصیٰ پہنچے تو وہاں دیگر انبیاء علیہم السلام کے ساتھ موسیٰ علیہ السلام بھی موجود تھے،جن کی حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے امامت فرمائی۔صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:((وَقَدْ رَأَیْتُنِی فِی جَمَاعَۃٍ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ، فَإِذَا مُوسَی قَائِمٌ یُصَلِّی….إِذَا عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَام قَائِمٌ یُصَلِّی….إِذَا إِبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَائِمٌ یُصَلّیِ….فَحَانَتِ الصَّلَاۃُ فَأَمَمْتُہُمِْ ) )ترجمہ: میں نے اپنے آپ کو انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں دیکھا، حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے،جب نماز(کی جماعت)کا وقت ہوا تو میں نے ان کی امامت کروائی۔(صحیح مسلم،باب ذکرالمسیح ابن مریم والمسیح الدجال،ج1،ص156،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

پھر جب آسمانوں پر تشریف لے کر گئے تو موسیٰ علیہ السلام وہاں پر بھی موجود تھے۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ثُمَّ انْطَلَقْنَا حَتَّی انْتَہَیْنَا إِلَی السَّمَاء ِ السَّادِسَۃِ، فَأَتَیْتُ عَلَی مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ، فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِیِّ الصَّالِحِ))ترجمہ:پھر ہم چلے یہاں تک کہ چھٹے آسمان تک پہنچ گئے،میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور ان کوسلام کیا،انہوں نے عرض کیا: صالح بھائی اور صالح نبی کو خوش آمدید۔(صحیح مسلم،باب الاسراء برسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم،ج1،ص149،داراحیاء التراث العربی،بیروت)

سنن نسائی میں ہے:((ثُمَّ صُعِدَ بِی إِلَی السَّمَاء ِ السَّادِسَۃِ فَإِذَا فِیہَا مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ))ترجمہ:پھر میں چھٹے آسمان پر چڑھا تو اس میں موسیٰ علیہ السلام تھے۔ (سنن نسائی،فرض الصلوۃ وذکر اختلاف الناقلین ،ج1،ص221)

جب موسیٰ علیہ السلام جہاں چاہتے ہیں تشریف لے جاتے ہیں تو جو سید الانبیاء ہیں،نبی الانبیاء ہیں ،امام الانبیاء ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کے پاس یہ طاقت نہ ہو ،یقینا وہ بھی جہاں چاہتے ہیں تشریف لے جاسکتے ہیں۔ہر شخص کی قبر میں:

صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:((انَّ العَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِی قَبْرِہِ وَتَوَلَّی عَنْہُ أَصْحَابُہُ، وَإِنَّہُ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِہِمْ، أَتَاہُ مَلَکَانِ فَیُقْعِدَانِہِ، فَیَقُولاَنِ:مَا کُنْتَ تَقُولُ فِی ہَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، فَأَمَّا المُؤْمِنُ، فَیَقُولُ:أَشْہَدُ أَنَّہُ عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ)) ترجمہ:بے شک بندے کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے، اس کے ساتھی لوٹتے ہیں اوروہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے ،پھر دو فرشتے اس کے پاس آتے ہیں ، اسے بٹھاتے ہیںاور کہتے ہیں:تو ان صاحب یعنی محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا ؟اگر وہ مؤمن ہے تو کہتا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔(صحیح بخاری،باب ماجاء فی عذاب القبر،ج2،ص98،مطبوعہ دارطوق النجاۃ)

اشعۃ للمعات میں ہے’’یا باحضار ذات شریف دے دو عیانے بہ ایںطریق کہ درقبر مثالے دے علیہ السلام حاضر ساختہ باشد دور دریں جابشارتے است عظیم مرمشتان غمزدہ راہ کہ برامید ایں شادی جاں دھنڈہ وزندہ در گور روندجائے دارد‘‘ ترجمہ:یاقبر میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بذاتِ خود تشریف لاتے ہیں اس طرح کہ قبر میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وجودِ مثالی کے ساتھ تشریف لاتے ہیں،اس جگہ عاشقانِ غمزدہ کے لیے بڑی بشارت ہے کہ اگر اس شادی کی امید پر جان دے دیں اور زندہ قبروں میں چلے جائیں تو اس کا موقع ہے۔

(اشعۃ اللمعات،ج1،ص115،مطبوعہ لکھنؤ ہند) قبر میں سرکار آئیں تو میں قدموں پر گروںگر فرشتے بھی اٹھائیں تو میں ان سے یوں کہوںاب تو پائے ناز سے میں اے فرشتو کیوں اٹھوںمر کے پہنچا ہوںیہاں اس دلربا کے واسطےمدینہ سے کربلا:

حضرت سلمیٰ(حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ)فرماتی ہیں:((دَخَلْتُ عَلَی أُمِّ سَلَمَۃَ، وَہِیَ تَبْکِی، فَقُلْتُ: مَا یُبْکِیکِ؟ قَالَتْ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللہِ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، تَعْنِی فِی الْمَنَامِ، وَعَلَی رَأْسِہِ وَلِحْیَتِہِ التُّرَابُ، فَقُلْتُ: مَا لَکَ یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ: شَہِدْتُ قَتْلَ الحُسَیْنِ آنِفًا)) ترجمہ:میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بارگاہ میں حاضر ہوئی تو وہ رو رہی تھیں، میںنے عرض کیا:آپ کیوں رو رہی ہیں؟جواب دیا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی ہے،آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سرمبارک اور داڑھی شریف پر گردوغبار لگی ہوئی تھی،میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم !آپ کا کیا حال ہے یعنی آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ ارشادفرمایا: میں ابھی ابھی حسین کی شہادت گاہ میں تشریف لے گیا تھا۔ (جامع الترمذی،باب مناقب ابو محمد الحسن بن علی،ج6،ص120،دارالغرب الاسلامی،بیروت)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے،فرماتے ہیں:((رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، فِیمَا یَرَی النَّائِمُ بِنِصْفِ النَّہَارِ وَہُوَ قَائِمٌ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، بِیَدِہِ قَارُورَۃٌ فِیہَا دَمٌ، فَقُلْتُ:بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللَّہِ، مَا ہَذَا؟ قَالَ:ہَذَا دَمُ الْحُسَیْنِ وَأَصْحَابِہِ،لَمْ أَزَلْ أَلْتَقِطُہُ مُنْذُ الْیَوْمِ فَأَحْصَیْنَا ذَلِکَ الْیَوْمَ فَوَجَدُوہُ قُتِلَ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ))ترجمہ:میں نے نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دوپہر کے وقت خواب میں دیکھا ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس حال میں کھڑے تھے کہ آپ کے بال بکھرے ہوئے تھے اور گرد آلودتھے اور آپ کے دست اقدس میں بوتل تھی جس میں خون تھا ،میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ پر قربان یہ کیا چیزہے،فرمایا:یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے،میں آج اسے اٹھاتا رہا ہوں،حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:میں نے وہ دن یاد رکھا ،تو اسی دن امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا گیا۔ (مسند امام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن عباس،ج4،ص336،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button