سوال:محبوبانِ خدا سے استعانت کے جوازپر کچھ دلائل بیان کردیں؟
جواب:محبوبانِ خدا سے استعانت کے جواز پرقرآن وحدیث سے متعدد دلائل موجود ہیں،ان میں سے کچھ دلائل درج ذیل ہیں:نیک مسلمان اور فرشتے مددگار ہیں:
قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد پاک ہے{فَإِنَّ اللَّہَ ہُوَ مَوْلَاہُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمَلَائِکَۃُ بَعْدَ ذَلِکَ ظَہِیرٌ}ترجمہ : بے شک اللہ اپنے نبی کا مددگار ہے اورجبریل اور نیک مسلمان اور اس کے بعد سب فرشتے مدد پر ہیں۔ (پ28،سورۂ تحریم،آیت نمبر4 )ایمان والے مددگارہیں:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے{إِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَالَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَہُمْ رَاکِعُونَ}ترجمہ:اے مسلمانو! تمہار ا مددگار نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ ایمان والے جو نماز قائم رکھتے اور زکاۃ دیتے اور وہ رکوع کرنے والے ہیں ۔
(پ6،سورۃ المائدہ،آیت نمبر55)رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عطافرمانے والے ہیں:
ایک اور مقام پر فرماتا ہے{وَلَوْ أَنَّہُمْ رَضُوا مَا آتَاہُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ سَیُؤْتِینَا اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ وَرَسُولُہُ إِنَّا إِلَی اللَّہِ رَاغِبُونَ}ترجمہ: اور کیا خوب تھا اگر وہ راضی ہوتے خدا اور رسول کے دئیے پراور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے، اب دے گا اللہ ہمیں اپنے فضل سے اور اس کا رسول ،بے شک ہم اللہ کی طرف رغبت والے ہیں ۔(پ10،سورہ نمبر9، آیت 59)
اس آیت میں اللہ رب العزت نے اپنے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دینے والافرمایا ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مددطلب کرنا:
قرآن مجید میں ہے:{قَالَ مَنْ أَنْصَارِی إِلَی اللَّہِ قَالَ الْحَوَارِیُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّہِ}ترجمہ:(حضرت عیسیٰ علیہ السلام )بولے کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف،حواریوں نے کہا ہم دینِ خدا کے مددگار ہیں۔ (پ 3،سورۂ آل عمران،آیت 52)جبریل بیٹا د ینے والے:
قرآن مجید میں ہے{قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا}ترجمہ:حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم سے کہا:اے مریم! میں تمہارے رب کا قاصد ہوں آیا ہوں تاکہ تمہیں پاکیزہ فرزند دوں۔ (پ16،سورۂ مریم،آیت19)بے جان کو جان اور اندھوں کو آنکھیں دینا:
قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کایہ قول موجود ہے:{أَنِّی أَخْلُقُ لَکُمْ مِنَ الطِّینِ کَہَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَأَنْفُخُ فِیہِ فَیَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِ اللَّہِ وَأُبْرِئُ الْأَکْمَہَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْیِ الْمَوْتَی بِإِذْنِ اللَّہ}ترجمہ:میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل بناکر اس میں پھونکتا ہوں تو وہ خدا کے حکم سے پرندہ بن جاتی ہے۔میں مادرزاد اندھوں اور کوڑھ کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں اور مردوں کو زندہ کرتاہوں اللہ کے حکم سے۔(پ3،سورۂ آلِ عمران،آیت49)
معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی عطا سے بے جان کو جان بخشنے والے،اندھوں کو آنکھیں عطا فرمانے والے اور کوڑھی کے مریضوں کو شفا دینے والے ہیں۔اپنے فضل سے غنی کردیا:
قرآن مجید میں ہے{أَغْنَاہُمُ اللَّہُ وَرَسُولُہُ مِنْ فَضْلِہ} ترجمہ:ان کو اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے غنی کردیا۔
(پ10،سورۃ التوبہ،آیت74)روشن چہرے والوں سے مددمانگو:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:(( اطْلُبُوا الْخَیْرَ وَالْحَوَائِجَ مِنْ حِسَانِ الْوُجُوہِ)) ترجمہ:بھلائی اور اپنی حاجتیں ان لوگوں سے مانگو جن کے چہرے عبادت الہٰی سے روشن ہیں ۔ (المعجم الکبیر،مجاہدعن ابن عباس،ج11،ص81،مکتبہ ابن تیمیہ،القاہرہ)لوگ ان کے پاس حاجتیں لاتے ہیں:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:(( ان للہ تعالی عباد ااختصھم لحوائج الناس یفزع الناس الیہم فی حوائجھم اولٰئک الآمنون من عذاب اللہ))ترجمہ:اللہ تعالی کے کچھ بندے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں حاجت روائی خلق کے لئے خا ص فرمایا ہے ،لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لاتے ہیں ، یہ بندے عذاب الہٰی سے امان میں ہیں ۔ (کنز العمال بحوالہ طب عن ابن عمر،حدیث16007، جلد6،صفحہ350، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت)بارش ہوگی:
حضرت مالک الدار سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:((اَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِی زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاء َ رَجُلٌ إِلَی قَبْرِ النَّبِیِّ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ! اسْتَسْقِ لِأُمَّتِکَ فَإِنَّہُمْ قَدْ ہَلَکُوا، فَأَتَی الرَّجُلَ فِی الْمَنَامِ فَقِیلَ لَہُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْہُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْہُ أَنَّکُمْ مُسْتَقِیمُونَ وَقُلْ لَہُ:عَلَیْکَ الْکَیْسُ، عَلَیْکَ الْکَیْسُ، فَأَتَی عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ فَبَکَی عُمَرُ ثُمَّ قَالَ:یَا رَبِّ لَا آلُو إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْہُ))ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میںلوگوں پر قحط پڑھ گیا۔ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکی قبر مبارک پر آیا اور کہا یارسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! اللہ عزوجل سے اپنی امت کے لئے بارش طلب کریں کہ یہ ہلاک ہورہے ہیں ۔ رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس آدمی کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایاعمرکو میرا سلام کہنا اور اسے خبر دینا کہ بارش ہوگی،اور یہ بھی کہنا کہ نرمی اختیار کرے،اس شخص نے حاضر ہوکر خبر دی تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر روئے ، پھر کہا :اے میرے رب!میں کوتاہی نہیں کرتا مگر اس چیز میں جس سے میں عاجز ہوں ۔
(مصنف ابن شیبہ،کتاب الفضائل ،ماذکر فی فضل عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جلد12،صفحہ32،الدار السلفیۃ، الہندیۃ)مانگ کیا مانگتا ہے:
سیدنا ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: ((کُنْتُ أَبِیتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فَأَتَیْتُہُ بِوُضُوئِہٖ فَقَالَ لِی سَلْ(ولفظ الطبرانی فقال یوماً یا ربیعۃ سلنی فاعطیک رجعنا الی لفظ مسلم)فَقُلْتُ أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ أَوْ غَیْرَ ذَلِکَ قَالَ قُلْتُ ہُوَ ذَاکَ قَالَ فَأَعِنِّی عَلَی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُودِ))ترجمہ:میں حضور پرنور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکے پاس رات کو حاضر رہتا ایک شب حضور کے لیے آب وضو وغیرہ ضروریات لایا(رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا بحر رحمت جو ش میں آیا)ارشاد فرمایا:مانگ کیا مانگتا ہے کہ ہم تجھے عطا فرمائیں ۔میں نے عرض کی:میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں اپنی رفاقت عطافرمائیں۔ فرمایا:کچھ اور؟میں نے عرض کی :میری مراد تو صرف یہی ہے ۔ فرمایا:تو میری اعانت کر اپنے نفس پر کثرت سجودسے۔(صحیح مسلم،کتاب الصلوۃ،باب فضل السجود،ج1،ص193،قدیمی کتب خانہ،کراچی٭ سنن ابی داؤد،کتاب الصلوۃ،باب وقت قیام النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من اللیل، ج1، ص187،آفتاب عالم پریس،لاہور٭المعجم الکبیر،ج5،ص57,58،المکتبۃ الفیصلیہ،بیروت)آج لے اُن کی پناہ آج مدد مانگ اُن سےپھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا
شیخ شیوخ علماء الہند سیدی شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ شریف میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں ’’از اطلاق سوال کہ فرمودش بخواہ تخصیص نکرد بمطلوبے خاص معلوم میشود کہ کار ہمہ بدست ہمت وکرامت اوست صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمہر چہ خواہد وکراخواہد باذن پروردگار خود دہد ‘‘ ترجمہ:مطلق سوال سے کہ آپ نے فرمایا: مانگ ۔ اورکسی خاص شے کو مانگنے کی تخصیص نہیں فرمائی ۔ معلوم ہوتاہے کہ تمام معاملہ آپ کے دست اقدس میں ہے ، جوچاہیں جسے چاہیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے عطافرمادیں۔ (اشعۃ اللمعات ،کتاب الصلٰوۃ، باب السجود وفضلہ ،الفصل الاول ،ج1،ص396،مکتبہ نوریہ رضویہ، سکھر)
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:
الحمدللہ یہ جلیل ونفیس حدیث صحیح اپنے ہر ہرجملے سے وہابیت کش ہے ۔ حضور اقدس خلیفۃ اللہ الاعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مطلقاً بلا قید وبلا تخصیص ارشاد فرمانا: سل، مانگ کیا مانگتا ہے ، جان وہابیت پرکیسا پہاڑ ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور ہر قسم کی حاجت روائی فرماسکتے ہیں دنیا وآخرت کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں جب تو بلا تقیید ارشادہوا :مانگ کیا مانگتاہے یعنی جو جی میں آئے مانگو کہ ہماری سرکار میں سب کچھ ہے۔گر خیریت دنیا وعقبٰی آرزو داریبدرگاہش بیاوہرچہ میخواہی تمنا کن ترجمہ:اگر تو دنیا وآخر ت کی بھلائی چاہتاہے تو اس کی بارگاہ میں آاور جو چاہتاہے مانگ لے ۔
یہ شعر حضرت شیخ محقق رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے کہ قصیدہ نعتیہ حضور پرنور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں عرض کیا ہے۔
پھراس حدیث جلیل میں سب سے بڑھ کر جان وہابیت پر یہ کیسی آفت کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود حضورسے جنت مانگتے ہیں کہا:(( أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ!))میں حضور سے سوال کرتاہوں کہ جنت میں رفاقتِ والا عطاہو۔
وہابی صاحبو!یہ کیسا کھلا شرک وہابیت ہے جسے حضور مالک جنت علیہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ قبول فرما رہے ہیں ۔ (فتاوی رضویہ ملخصاً،ج30،ص494,495,496،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)
علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری مرقاہ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں ’’یؤخذ من اطلاقہٖ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الامر بسؤال ان اللہ تعالیٰ مکنہ من اعطاء کل ما ارادمن خزائن الحق‘‘یعنی حضور اقدسصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مانگنے کا حکم مطلق دیا اس سے مستفاد ہوتاہے کہ اللہ عزوجل نے حضور کو عام قدرت بخشی ہے کہ خدا کے خزانوں سے جو چاہیں عطافرمادیں۔(مرقاۃ المفاتیح، کتب الصلٰوۃ، باب السجود وفضلہ، الفصل الاول،ج2،ص615، المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ )حاکم حکیم دادودوا دیں یہ کچھ نہ دیں مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہےبیابان جنگل میں اکیلے مدد کے لئے پکارنا:
حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرمصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمنے ارشادفرمایا:((إِذَا أَضَلَّ أَحَدُکُمْ شَیْئًا أَوْ أَرَادَ أَحَدُکُمْ عَوْنًا وَہُوَ بِأَرْضٍ لَیْسَ بِہَا أَنِیسٌ، فَلْیَقُلْ:یَا عِبَادَ اللہِ أَغِیثُونِی، یَا عِبَادَ اللہِ أَغِیثُونِی، فَإِنَّ لِلَّہِ عِبَادًا لَا نَرَاہُمْ ))وَقَدْ جُرِّبَ ذَلِک ۔ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو گم کردے یا اسے مدد کی حاجت ہواوروہ ایسی جگہ ہو جہاں کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے: اے اللہ کے بندو میری مدد کرو، اے اللہ کے بندومیر ی مدد کرو۔ کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنھیں یہ نہیں دیکھتا وہ اس کی مدد کرینگے ۔یہ پکار مجرب (تجربہ شدہ)ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی،مااسند عتبہ بن غزوان،ج17،ص117،مکتبہ ابن تیمیہ،القاہرہ)محدثین کا عقیدہ:
(21)عظیم محدث امام ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں:’’وروی عن أبی بکر بن أبی علی قال کان ابن المقرء یقول کنت أنا والطبرانی وأبوالشیخ بالمدینۃ فضاق بنا الوقت فواصلنا ذلک الیوم فلما کان وقت العشاء حضرت القبر وقلت یا رسول اللہ الجوع؛ فقال لی الطبرانی اجلس فإما أن یکون الرزق أو الموت، فقمت أنا وأبو الشیخ فحضر الباب علوی ففتحنا لہ فإذا معہ غلامان بقفتین فیہما شیء کثیر وقال شکوتمونی إلی النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رأیتہ فی النوم فأمرنی بحمل شیء إلیکم‘‘ ترجمہ: حضرت ابی بکر بن ابو علی فرماتے ہیں کہ میں طبرانی اور ابوشیخ رحمہم اللہ مدینہ میں رہا کرتے تھے،ہمار اخرچ ختم ہوگیا اور ہم تنگدستی کا شکار ہوگئے، ایک دن عشاء کے وقت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ پاک پر حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہم بھوک سے نڈھال ہیں۔امام طبرانی کہنے لگے بیٹھ جائو یا ہمیں کھانا مل جائے گا یا موت آجائے گی۔میں اور ابو شیخ اٹھ کر دروازے کے پاس آئے اور دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ایک علوی اپنے دو غلاموں کے ساتھ تھا،وہ ٹوکرے میں بہت سی چیزیں لئے کھڑے تھے۔علوی بولا تم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلمکے پاس شکایت کی ہے اور مجھے رسول اللہصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خواب میں آکر تمہیں کچھ دینے کا حکم دیا ہے۔ (تذکرۃ الحفاظ،جلد3،صفحہ122، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)