شرعی سوالات

سوال:بے محل لقمہ دینے سے نماز کیوں ٹوٹتی ہے؟

سوال:بے محل لقمہ دینے سے نماز کیوں ٹوٹتی ہے؟

جواب:لقمہ دینا اگرچہ ذکر وقرا ء ت سے ہو درحقیقت کلام ہے کہ اس سے مقصود تنبیہ کرنا ہے کہ تم غلطی کررہے ہو،جب یہ کلام ہے تو اس سے ہر صورت میں نمازٹوٹنی چاہئے تھی مگر اصلاح ِ نماز کی حاجت کے وقت یا جہاں لقمہ دینے کی اجازت خاص احادیث میںآگئی وہاں خلافِ قیاس اجازت دی گئی۔

امام اہلسنت مجدددین وملت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

ہمارے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اصل ان مسائل میں یہ ہے کہ بتانا اگرچہ لفظاً قرا ء ت یا ذکر مثلاً تسبیح وتکبیر ہے اور یہ سب اجزاء واذکار ِ نماز سے ہیں مگر معنًی کلام ہے کہ اس کا حاصل امام سے خطاب کرنا اور اسے سکھانا ہوتاہے یعنی توبھولا، اس کے بعد تجھے یہ کرنا چاہئے ،پُر ظاہر کہ اس سے یہی غرض مراد ہوتی ہے اور سامع کو بھی یہی معنی مفہوم ،تو اس کے کلام ہونے میں کیا شک رہا اگرچہ صورۃً قرآن یا ذکر(ہو) ۔۔اس بنا پر قیاس یہ تھا کہ مطلقاً بتانا اگرچہ برمحل ہو مفسدِ نماز ہوکہ جب وہ بلحاظِ معنی کلام ٹھہراتوبہرحال افسادِ نماز کرے گا مگر حاجتِ اصلاحِ نماز کے وقت یا جہاں خاص نص وارد ہے ہمارے ائمہ نے قیاس کو ترک فرمایااور بحکم ِ استحسان جس کے اعلی وجوہ سے نص و ضرورت ہے جواز کا حکم دیا۔ (فتاوی رضویہ،ج7،ص257،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

اور ان دو مواضع کے علاوہ معاملہ اصل قیاس پر جاری ہوگا اور لقمہ دینے سے نماز ٹوٹ جائے گی۔امام اہلسنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

پس جو بتانا حاجت ونص کے مواضع سے جدا ہو وہ بے شک اصل قیاس پر جاری رہے گا کہ وہاں اس کے حکم کا کوئی معارض نہیں،اس لئے اگر غیرنمازی یا دوسرے نمازی کو جو اس کی نماز میں شریک نہیں یا ایک مقتدی دوسرے مقتدی یا امام کسی مقتدی کو بتائے قطعاً نماز قطع ہوجائے گی کہ اس کی غلطی سے اس کی نماز میں کچھ خلل نہ آتا تھا جو اسے حاجتِ اصلاح ہوتی تو بے ضرورت واقع ہوا اور نماز گئی بخلاف امام کہ اس کی نماز کا خلل بعینہ مقتدی کی نماز کا خلل ہے تو اس کا بتانا اپنی نماز کا بنانا ہے۔(فتاوی رضویہ،ج7،ص260،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button