سوال:بعض حفاظ کی عادت ہوتی ہے کہ تراویح پڑھانے والے کو پریشان کرنے کے لئے اور اپنا حفظ جتانے کے لئے باربار لقمہ دیتے ہیں،حالانکہ بعض اوقات انہیں بھی غلطی کنفرم نہیں ہوتی اور وہ سامع بھی نہیں ہوتے، تو ان کاپریشان کرنے کے لئے اورصرف شبہہ کی وجہ سے لقمہ دینا کیسا ہے؟
جواب:اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں امام اہلسنت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں’’یہاں چند امور ہیں جن کے علم سے حکم واضح ہوجائے گا:
(1)امام کو فوراً بتانا مکروہ ہے…….ہاں اگر غلطی کرکے رواں ہوجائے تو اب نظر کریں اگر غلطی مفسد ِ معنی ہے جس سے نماز فاسد ہو تو بتانا لازم ہے، اگر سامع کے خیال میں نہ آئی ہر مسلمان کاحق ہے کہ بتائے کہ اس کے باقی رہنے میں نماز کا افساد ہے اور دفعِ فساد لازم اور اگر مفسدِ معنی نہیں تو بتاناکچھ ضرور نہیں بلکہ نہ بتانا ضرور ہے جبکہ اس کے سبب امام کو وحشت پیدا ہو……بلکہ بعض قاریوں کی عادت ہوتی ہے کہ غیر شخص کے بتانے سے اور زیادہ اُلجھ جاتے اور کچھ حروف اس گھبراہٹ میں ان سے ایسے صادر ہوجاتے ہیں جس سے نماز فاسد ہوتی ہے اس صورت میں اوروں کا سکوت لازم ہے کہ ان کا بولنا باعثِ فسادِ نماز ہوگا۔
(2)قاری کو پریشان کرنے کی نیت حرام ہے ،رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں((بشرواولاتنفروا ویسروا ولا تعسروا)) ترجمہ:لوگوں کو خوشخبریاں سنائو نفرت نہ دلائو ،آسانی پیدا کرو تنگی پیدا نہ کرو۔ (صحیح بخاری،ج1،ص16،قدیمی کتب خانہ،کراچی)
بے شک(ایسا کرنا) آج کل بہت حفاظ کا شیوہ ہے ،یہ بتانا نہیں بلکہ حقیقۃ یہود کے اس فعل میں داخل ہے {لاتسمعوالھذا القرآن والغوافیہ}ترجمہ:اس قرآن کو نہ سنواس میں شور ڈالو۔
(3)اپنا حفظ جتانے کے لئے ذراذرا شبہہ پر روکنا ریاء ہے اور ریاء حرام ہے خصوصاًنماز میں۔
(4)جبکہ غلطی مفسدِ نماز نہ ہو تومحض ذراذراشبہہ پر بتانا ہرگز جائز نہیں بلکہ صبر واجب ،بعدِ سلام تحقیق کرلی جائے ،اگر قاری کی یاد صحیح نکلے فبہااور ان کی یاد ٹھیک ثابت ہوئی تو تکمیلِ ختم کے لئے حافظ اتنے الفاظ کااورکسی رکعت میںاعادہ کرلے گا۔حرمت کی وجہ ظاہر ہے کہ فتح (لقمہ دینا)حقیقۃً کلام ہے اور نماز میں کلام حرام ومفسدِ نماز ،مگر بضرورت اجازت ہوئی ،جب اسے غلطی ہونے پرخود یقین نہیں تو مبیح میں شک واقع ہوا اورمحرم موجود ہے لہذا حرام ہوا ۔جب اسے شبہہ ہے تو ممکن ہے کہ اسی کی غلطی ہواور غلط بتانے سے اس کی نماز جاتی رہے گی اور امام اخذکرے(یعنی لقمہ لے) گا تو اس کی اور سب کی نماز فاسد ہوگی ،تو ایسے امرپر اقدام جائز نہیں ہوسکتا۔
(5)غلطی کا مفسدِ معنی ہونا(کہ) مبنائے افسادِنماز ہے ایسی چیز نہیں جسے سہل(آسان)جان لیاجائے،ہندستان میں جو علماء گنے جاتے ہیں ان میں چند ہی ایسے ہوسکیں کہ نماز پڑھتے میں اس پر مطلع ہوجائیں ،ہزار جگہ ہوگاکہ وہ افساد گمان کریں گے اور حقیقۃً فساد نہ ہوگا جیسا کہ ہمارے فتاوی کی مراجعت سے ظاہر ہوتا ہے ۔
ان امور سے حکم ِ مسئلہ واضح ہوگیا،صورتِ فساد میں یقینا بتایا جائے گا ورنہ تشویشِ قاری ہوتو نہ بتائیں اور خود شبہہ ہو تو بتانا سخت ناجائز اور جو ریاء وتشویش چاہیں ان کو روکا جائے ،نہ مانیں توان کو مسجد نہ آنے دیا جائے کہ موذی ہیں اور موذی کا دفع واجب۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج7،ص286۔287،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)