سوال:امام نے (مغرب ،مغرب یا عشاء میں)جہری قرا ء ت کرنا تھی ، قرأت شروع کرنے میں زیادہ دیر لگا دی ،اس سے مقتدیوں نے اندازہ لگایا کہ امام نے بھول کرآہستہ آواز سے شروع کردی ہے ،کیا اس صورت میں امام کو لقمہ دے سکتے ہیں؟
جواب:اس صورت میں مقتدی کے لیے لقمہ دیناجائز نہیں ، کیونکہ اگر اس نے ثناء وغیرہ کو اتنی ترتیل سے پڑھا کہ ابھی تک سورۂ فاتحہ شروع ہی نہ کی ہوتو ابھی تک لقمہ کا محل نہ ہو ا،اور اگرنصف سورت تک یا اس سے آگے تک پڑھ چکا ہوا تو اب بھی محل نہ رہا کہ جو سجدۂ سہو واجب ہونا تھا ہوچکا۔اب سلام تک سجدۂ سہو کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا،ہاں اب اگرآخرمیں ایک طرف سلام کے بعد اگر سجدۂ سہو چھوڑ کر دوسری طرف سلام پھیرنے لگے تو سجدۂ سہو کے لئے لقمہ دے سکتے ہیںکیونکہ اگر سجدۂ سہو نہ کیا تو نماز واجب الاعادہ ہوجائے گی۔
بالفرض اگر مقتدی اتنا قریب ہے کہ اس نے سن لیا کہ امام نے فاتحہ آہستہ شروع کردی ہے، اس نے نصف تک پہنچنے سے پہلے لقمہ دے دیا تو صحیح ہے۔
اس میں تفصیل یہ ہے کہ محض شبہ کی بناپرلقمہ دیناجائزنہیں ہے لہذاجہری نمازمیں امام آہستہ آوازکے ساتھ پڑھ رہاہے تو جب تک یقین نہ ہوجائے کہ امام نے سورہ فاتحہ آہستہ شروع کردی ہے اورابھی تک اکثرسورہ فاتحہ تلاوت نہیں کی، اس وقت تک لقمہ دیناجائزنہیں ہے ۔اوریقین ہونے کی صورت یہ ہے کہ مقتدی قریب تھاکہ اسے آوازآرہی تھی یاکوئی ایک آدھ کلمہ امام سے بلندآوازکے ساتھ نکل گیا۔اور اگران میں سے کوئی صورت نہیں تھی اورمقتدی نے بس یہ خیال کرکے کہ اتنی دیرثناء میں نہیں لگتی لقمہ دے دیاتواس کااس طرح لقمہ دیناجائزنہیں تھاکیونکہ لقمہ حقیقت میں کلام ہے اورنمازمیں کلام حرام ومفسدنمازہاںبوجہ ضرورت روارکھاگیاہے اورجس صورت میںضرورت کے متحقق ہونے میں شک ہوتوایسی صورت میں جوازکی صورت میں شک ہے اور حرام والی صورت موجودہے لہذاشک کی وجہ سے جوازثابت نہیں ہوگا۔چنانچہ سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں :’’محض شبہ پربتاناہرگزجائزنہیں ۔۔۔حرمت کی وجہ ظاہرہے کہ فتح حقیقۃ کلام ہے اورنمازمیں کلام حرام ومفسدنمازمگربضرورت اجازت ہوئی جب اسے غلطی ہونے پرخودیقین نہیں تومبیح میں شک واقع ہوااورمحرم موجود ہے لہذاحرام ہوا،جب اسے شبہ ہے توممکن کہ اسی کی غلطی ہواورغلط بتانے سے اس کی نمازجاتی رہے گی اورامام اخذکرے گاتواس کی اورسب کی نمازفاسد ہوگی توایسے امرپراقدام جائزنہیں ہوسکتا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج7،ص287، رضا فائونڈیشن،لاہور)
ایک دوسرے مقام پرفرماتے ہیں :’’اس کامعلوم ہونادشوارہے کہ امام آہستہ پڑھے گاہاں اگریہ اتناقریب ہے کہ اس کی آوازاس نے سنی کہ التحیات کے بعداس نے درودشریف شروع کیاتوجب تک امام اللھم صلی علی سے آگے نہیں بڑھاہے یہ سبحان اللہ کہہ کربتائے۔‘‘
(فتاوی رضویہ،ج8،ص212، رضا فائونڈیشن،لاہور)عشاء کی تیسری رکعت میں امام نے جہر کردیا: