سوال:امام صاحب نے بھول کرعشاء میں فرضوں کی تیسری رکعت میںجہراً قراء ت شروع کردی،اب مقتدی کے لقمہ دینے کے حوالہ سے کیا حکم ہے؟
جواب:عشاء کے فرضوں کی تیسری رکعت میں سری قراء ت واجب ہے۔ بہار شریعت میں ہے’’مغرب کی تیسری اور عشاء کی تیسری چوتھی یا ظہر وعصر کی تمام رکعتوں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ ‘‘
(بہار شریعت،حصہ3،ص544،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
لہذا بھول کرایک آیت کی مقدار جہر (بلند آواز سے قراء ت)کرنے سے سجدۂ سہو لازم ہوگیا ۔
یہاں بھی لقمہ دینے کے حوالہ سے وہی حکم ہے جو پہلی یا دوسری رکعت میں سری قراء ت میں بلند آواز سے قراء ت کی صورت میں ہے یعنی نصف تک سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو لقمہ دیا جاسکتا ہے کہ جو ترکِ واجب ہوا اس کا ازالہ (شروع سے سورۂ فاتحہ آہستہ آواز میں پڑھ کر)ہوسکتا ہے اور اگر نصف یا اس سے زیادہ پڑھ لی تو لقمہ نہیں دے سکتے کہ جو ترک واجب اور سجدۂ سہوہوچکا اب اس کا ازالہ نہیں ہوسکتالہذا اگر دیں گے تو دینے والے کی نماز فاسد ہوجائے گی اور امام لے گاتو امام اور مقتدیوں کی نماز بھی فاسد ہوجائے گی۔
اس صورت میں لقمہ اس وقت دیں گے جب سلام پھیرنے لگے کہ اس وقت حاجت متحقق ہوتی ہے ۔
اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن (المتوفی 1340ھ)لقمہ کے حوالے سے فرماتے ہیں:’’ ترکِ واجب ولزوم سجدۂ سہو وہ ہوچکا اب اس کے بتانے سے مرتفع نہیں ہوسکتا اور اس سے زیادہ کسی دوسرے خلل کا اندیشہ نہیں جس سے بچنے کو یہ فعل کیا جائے کہ غایت درجہ وہ بھول کر سلام پھیر دے گاپھر اس سے نماز تو نہیں جاتی وہی سہو کا سہو ہی رہے گا ،ہاں جس وقت سلام شروع کرتا اس وقت حاجت متحقق ہوتی اور مقتدی کو بتانا چاہئے تھا کہ اب نہ بتانے میں خلل وفساد ِ نماز کا اندیشہ ہے کہ یہ تو اپنے گمان میں نماز تمام کرچکا،عجب نہیں کہ کلام وغیرہ کوئی قاطع نماز اس سے واقع ہوجائے،اس سے پہلے نہ خلل واقع کا ازالہ تھا نہ خلل آئندہ کا اندیشہ تو سوا فضول و بے فائدہ کے کیا باقی رہا لہذا مقتضائے نظر فقہی پر اس صورت میں بھی فسادِ نمازہے۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد07،صفحہ264،مطبوعہ رضا فائونڈیشن،لاہور)