استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کیا کوئی ایسی صورت ہے کہ سعی کرنے والے کے لئے تلبیہ کہنا جائز ہو کیونکہ عمرہ میں تلبیہ کا اختتام طواف کی ابتداء پر اور حج میں جمرہ عقبہ کی رمی پر ہو جاتا ہے اس لئے سعی میں تلبیہ کے جواز کی بظاہر کوئی صورت نظر نہیں اتی؟
(السائل : ایک حاجی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : سعی میں تلبیہ اس حاجی کے لئے جائز ہے جو طواف قدوم کے بعد حج کی سعی کرے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و یلبی فی السعی الحاج لا المعتمر (29)
یعنی، حاجی سعی میں تلبیہ کہے گا نہ کہ معتمر۔ اور حاجی سے مراد وہ حاجی ہے کہ جو طواف قدوم کے بعد حج کی سعی کرے چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
ای : ان وقع سعیہ بعد طواف القدوم (30)
یعنی، اس کی سعی طواف قدوم کے بعد واقع ہو۔ اور سعی میں تلبیہ نہ کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری لکھتے ہیں :
و لو کان متمتعًا، لان التلبیۃ تنقطع بالشروع فی طوافہ، لا الحاج اذا سعی بعد طواف الافاضۃ لانقطاع تلبیتہ باول رمی الجمرۃ (31)
یعنی، اگرچہ متمتع ہو (وہ سعی میں تلبیہ نہیں کہے گا) کیونکہ تلبیہ طواف میں شروع ہوتے ہی منقطع ہو جاتی ہے ، نہ (وہ) حاجی (سعی میں تلبیہ کہے گا) جب طواف زیارت کے بعد سعی کرے کیونکہ تلبیہ پہلی رمی کے ساتھ منقطع ہو گئی۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الثلثاء، 21ذوالحجۃ 1433ھ، 6 نوفمبر 2012 م 808-F
حوالہ جات
29۔ لباب المناسک، باب فی السعی بین الصفا و المروۃ، ص124
30۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب السعی بین الصفا و المروۃ، ص246
31۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب السعی بین الصفا و المروۃ، تحت قولہ : لا المعتمر، ص246