ذرا حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی ایک مقدس گفتگو پر ایک نظر ڈال لیجئے انہوں نے جو شہادت کے آخری لمحات میں بطور پیغام فرمائی تھی۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ غزوہ احد کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب سے پہلے حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا’ کیا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ زندہ ہیں یا شہید ہو گئے ہیں؟ میں نے عرض کیا ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کے بارے میں معلوم کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
ان رائیتہ فاقرئہ منی السلام و قل لہ یقول لک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیف تجدک؟
اگر تیری سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہو جائے تو میرا انہیں سلام کہنا اور پوچھنا کیسے ہو؟
میں انہیں شہدا ء میں تلاش کرتا ہوا نکلا تو سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی آخری سانسیں تھیں’ ان کا جسم’ تیر اور تلوار وں کے ستر سے
زائد زخموں کی وجہ سے چور چور تھا۔ میں نے آواز دی۔
یا سعد ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقرأ علیک السلام و یقول لک خبرنی کف تجدنی
اے سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام دے رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کیا محسوس کر رہے ہو؟
:حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے آنکھیں کھولیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتے ہوئے کہنے لگے
علی رسول اللہ السلام و علیک السلام قل لہ اجدنی ریح الجنۃ
اللہ کے رسول کی خدمت میں میرا سلام عرض کرو اورتم پر بھی سلام ہو’ عرض کرنا میں جنت کی خوشبو پا رہا ہوں
:اور انصار ی بھائیوں کو میرا (سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کا ) یہ پیغام دے دینا
لا عذر لکم عند اللہ ان یخلص الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و فیکم شفر یطرف
(المستدرک ،۳ = ۲۰۱)
اگر تم میں سے ایک شخص کے زندہ ہوتے ہوئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچی تو تمہیں اللہ کے ہاں معافینہیں ملے گی۔
ماخوذ از کتاب: مشتاقان جمال نبوی کی کیفیات جذب و مستی
مصنف : بدر المصنفین شیخ الحدیث محقق العصر حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری(بانی ، جامعہ اسلامیہ لاہور)۔
ایک تبصرہ