سحری و افطار کے متعلق مسائل
حدیث ۱: بخاری ومسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ سحری کھائو کہ سحری کھانے میں برکت ہے۔
حدیث ۲: مسلم و ابودائود و ترمذی و نسائی و ابن خزیمہ عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں فرق سحری کا لقمہ ہے۔
حدیث ۳: طبرانی نے کبیر میں سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ حضور نے فرمایا تین چیزوں میں برکت ہے جماعت اور ثرید اور سحری میں ۔
حدیث ۴: طبرانی اوسط میں اور ابن حبان صحیح میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر درود بھیجتے ہیں ۔
حدیث ۵: ابن ماجہ و ابن خزیمہ و بیہقی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ سحری کھانے سے دن کے روزہ پر استعانت کرو اور قیلولہ سے رات کے قیام پر۔
حدیث ۶: نسائی باسناد حسن ایک صحابی سے راوی کہتے ہیں میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضور سحری تناول فرما رہے تھے ارشاد فرمایا یہ برکت ہے کہ اللہ تعالی نے تمہیں دی تو اسے نہ چھوڑنا۔
حدیث ۷: طبرانی کبیر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ تین شخصوں پر کھانے میں انشاء اللہ حساب نہیں ۔ جب کہ حلال کھایا، روزہ دار اور سحری کھانے والا اور سرحد پر گھوڑا باندھنے والا۔
حدیث ۸تا۱۰: امام احمد ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سحری کل کی کل برکت ہے اسے نہ چھوڑنا اگرچہ ایک گھونٹ پانی ہی پی لے کیونکہ سحری کھانے والوں پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں ۔ نیز عبداللہ بن عمرو سائب بن یزید و ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہم سے بھی اسی قسم کی روائتیں آئیں ۔
حدیث ۱۱: بخاری و مسلم و ترمذی سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ۔ ہمیشہ لوگ خیر کے ساتھ رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کریں گے۔
حدیث ۱۲: ابن حبان صحیح میں انھیں سے راوی کہ فرمایا میری امت میری سنت پر رہیگی جب تک افطار میں ستاروں کا انتظار نہ کرے۔
حدیث ۱۳: احمد و ترمذی و ابن خزیمہ و ابن حبان ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ۔ اللہ عزوجل نے فرمایا میرے بندوں میں مجھے زیادہ پیارا وہ ہے جو افطار میں جلدی کرتا ہے۔
حدیث ۱۴: طبرانی اوسط میں یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ فرمایا۔ تین چیزوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے افطار میں جلدی کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا اور نماز میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا۔
حدیث ۱۵: ابودائود و ابن خزیمہ و ابن حبان ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ۔ یہ دین ہمیشہ غالب رہے گا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے کہ یہود و نصاری تاخیر کرتے ہیں ۔
حدیث ۱۶: امام احمد و دائود و ترمذی و ابن ماجہ و دارمی سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضوراقدس ﷺ فرماتے ہیں جب تم میں کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور یا چھوہارے سے افطار کرے کہ وہ برکت ہے اور اگر نہ ملے تو پانی سے کہ وہ پاک کرنے والا ہے۔
حدیث ۱۷: ابودائود و ترمذی انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے تو کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں لے کر اور اگر یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چلو پانی پیتے۔ابودائود نے روایت کی کہ حضور افطار کے وقت یہ دعا پڑھتے۔
اللھم لک صمت و علی رزقک افطرت
حدیث ۱۸: نسائی و ابن خزیمہ زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ فرمایا جو روزہ دار کا روزہ افطار کرائے یا غازی کا سامان کر دے تو اسے بھی اتنا ہی ملے گا۔
حدیث ۱۹: طبرانی کبیر میں سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے حلال کھانے یا پانی سے روزہ افطار کرایا۔ فرشتے ماہ رمضان کے اوقات میں اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور جبرئیل علیہ الصلوۃ والسلام شب قدر میں اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور ایک روایت میں ہے جو حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں اور شب قدر میں جبرائیل اسے سے مصافحہ کرتے ہیں اور ایک روایت میں ہے جو روزہ دار کو پانی پلائے گا اللہ تعالی اسے میرے حوض سے پانی پلائے گا کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہو گا۔
بیان ان وجوہ کا جن سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے
حدیث ۱: صحیحین میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی کہتی ہیں حمزہ بن عمرو اسلمی بہت روزے رکھا کرتے تھے انہوں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ سفر میں روزہ رکھوں ارشاد فرمایا چاہے رکھو چاہے نہ رکھو۔
حدیث ۲: صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں سولھویں رمضان کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہم جہاد میں گئے۔ ہم میں بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہ رکھا تو نہ روزہ داروں نے غیر روزہ داروں پر عیب لگایا اورنہ انھوں نے ان پر۔
حدیث ۳: ابودائود و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ انس بن مالک کعبی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالی نے مسافر سے آدھی نماز معاف فرما دی (یعنی چار والی دو (۲) پڑھے گا) اور مسافر اور دودھ پلانے والی اور حاملہ سے روزہ معاف فرما دیا (کہ ان کو اجازت ہے کہ اس وقت نہ رکھیں بعد میں وہ مقدار پوری کرلیں )
مسائل فقہیہ
مسئلہ ۱: سفر و حمل اور بچہ کو دودھ پلانا اور مرض اور بڑھاپا اور خوف ہلاک و اکراہ و نقصان عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے لئے عذر ہیں ان وجوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے گا تو گناہ گار نہیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۵۸،۱۸۹)
مسئلہ ۲: سفر سے مراد سفر شرعی ہے یعنی اتنی دور جانے کے ارادہ سے نکلے کہ یہاں سے وہاں تک تین دن کی مسافت ہو اگرچہ سفر کسی ناجائز کام کے لئے ہو۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۵۸)
مسئلہ ۳: دن میں سفر کیا تو اس دن کا روزہ افطار کرنے کے لئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر توڑے گا تو کفارہ لازم نہ آئے گا مگر گنہگار ہو گا اگر سفر کرنے سے پہلے توڑ دیا پھر سفر کیا تو کفارہ بھی لازم اور اگر دن میں سفرکیا اور مکان پر کوئی چیز بھول گیاتھا اسے لینے واپس آیا اور مکان پر آکر روزہ توڑ ڈالا تو کفارہ واجب ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۶،۲۰۷)
مسئلہ ۴: مسافر نے ضحویٔ کبری سے پیشتر اقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں تو روزہ کی نیت کر لینا واجب ہے۔ (جوہرہ)
مسئلہ ۵: حمل والی اور دودھ پلانے والی کو اگر اپنی جان یا بچہ کا صحیح اندیشہ ہو تو اجازت ہے اس وقت روزہ نہ رکھے خواہ دودھ پلانے والی بچہ کی ماں ہو یا دائی اگرچہ رمضان میں دودھ پلانے کی نوکری کی ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۵۹)
مسئلہ ۶: مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمان غالب ہو یا خادم و خادمہ کو ناقابل برداشت ضعف کا غالب گمان ہو تو ان سب کو اجازت ہے کہ اس دن روزہ نہ رکھیں ۔ (جوہرہ، درمختار ج ۲ ص ۱۵۹)
مسئلہ ۷: ان صورتوں میں غالب گمان کی قید ہے محض وہم ناکافی ہے غالب گمان کی تین صورتیں ہیں ۔ (۱) اس کی ظاہر نشائی پائی جاتی ہے یا (۲) اس شخص کا ذاتی تجربہ ہو یا (۳) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اسی کی خبر دی ہو اور اگر نہ کوئی علامت ہو نہ تجربہ۔ نہ اس قسم کے طبیب نے اسے بتایا بلکہ کسی کافر یا فاسق طبیب کے کہنے سے افطار کر لیا تو کفارہ لازم آئے گا۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۵۹) آج کل اکثر اطبا اگر کافر نہیں تو فاسق ضرور ہیں اور نہ سہی تو حاذق طبیب فی زمانہ نایاب سے ہو رہے ہیں ان لوگوں کا کہنا کچھ قابل اعتبار نہیں نہ ان کے کہنے پر روزہ افطار کیا جائے ان طبیبوں کو دیکھا جاتا ہے کہ ذرا ذرا سی بیماری میں روزہ منع کر دیتے ہیں اتنی بھی تمیز نہیں رکھتے کہ کس مرض میں روزہ مضر ہے کس میں نہیں ۔
مسئلہ ۸: باندی کو اپنے مالک کی اطاعت میں فرائض کا موقع نہ ملے تو یہ کوئی عذر نہیں ۔ فرائض ادا کرے اور اتنی دیر کے لئے اس پر اطاعت نہیں ۔ مثلاً فرض نماز کا وقت تنگ ہو جائے تو کام چھوڑ دے اور فرض ادا کرے اور اگر اطاعت کی اور روزہ توڑ دیا تو کفارہ دے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۰)
مسئلہ ۹: عورت کو جب حیض و نفاس آگیا تو روزہ جاتا رہا اور حیض سے پورے دس دن رات میں پاک ہوئی تو بہرحال کل کا روزہ رکھے اور کم میں پاک ہوئی تو اگر صبح ہونے کو اتنا عرصہ ہے کہ نہا کر خفیف سا وقت بچے گا تو بھی روزہ رکھے اور اگر نہا کر فارغ ہونے کے وقت صبح چمکی تو روزہ نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۷)
مسئلہ ۱۰: حیض و نفاس والی کے لئے اختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً روزہ کی طرح رہنا اس پر ضروری نہیں ۔ (جوہرہ) مگر چھپ کر کھانا اولی ہے خصوصاً حیض والی کے لئے۔
مسئلہ ۱۱: بھوک اور پیاس ایسی ہو کہ ہلاک کا خوف صحیح ہو یا نقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۷)
مسئلہ ۱۲: روزہ توڑنے پر مجبور کیا گیا تو اسے اختیار ہے اور صبر کیا تو اسے اجر ملے گا۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۵۸)
مسئلہ ۱۳: سانپ نے کاٹا اور جان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑ دیں ۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۵۸)
مسئلہ ۱۴: جن لوگوں نے عذروں کے سبب روزہ توڑا ان پر فرض ہے کہ ان روزوں کی قضا رکھیں اور ان قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں فلہذا اگر ان روزوں کے پہلے نفل روزے رکھے تو یہ نفلی روزے ہوگئے مگر حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد دوسرے رمضان کے آنے سے پہلے قضا رکھ لیں حدیث میں فرمایا جس پر اگلے رمضان کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے اس کے اس رمضان کے روزے قبول نہ ہوں گے اور اگر روزے نہ رکھے اور دوسرا رمضان آگیا تو اب پہلے اس رمضان کے روزے رکھ لے قضا نہ رکھے بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضا کی نیت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اسی رمضان کے روزے ہیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۰)
مسئلہ ۱۵: خود اس مسافر کو اور اس کیساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر نہ پہنچے تو روزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے ورنہ نہ رکھنا بہتر۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۰)
مسئلہ ۱۶: اگر یہ لوگ اپنے اسی عذر میں مر گئے اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھے تو ان پر واجب نہیں کہ فدیہ کی منت کر جائیں پھر بھی منت کی توتہائی ملک میں جاری ہو گی اور اگراتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھے لیتے مگر نہ رکھے تو منت کرجانا واجب ہے اور عمداً نہ رکھے ہوں تو بدرجۂ اولی منت کرنا واجب ہے اور منت نہ کی بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۱،۱۶۰، عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۷)
مسئلہ ۱۷: ہر روزہ کا فدیہ بقدر صدقہ فطر ہے اور تہائی مال میں منت اس قت جاری ہو گی جب اس میت کے وارث بھی ہوں اور اگر وارث نہ ہوں اورسارے مال سے فدیہ ادا ہوتا ہو تو سب فدیہ میں صرف کر دینا لازم ہے یونہی اگر وارث صرف شوہر یازوجہ ہے تو تہائی نکالنے کے بعد ان کا حق دیا جائے اس کے بعد جوکچھ بچے اگر فدیہ میں صرف ہو سکتا ہے تو صرف کر دیا جائے گا۔ (درمختار،ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۱)
مسئلہ ۱۸: منت کرنا صرف اتنے ہی روزوں کے حق میں واجب ہے جن پر قادر ہوا تھا مثلاً دس (۱۰) قضا ہوئے تھے اور عذر جانے کے بعد پانچ پر قادر ہوا تھا کہ انتقال ہوگیا تو پانچ ہی کی منت واجب ہے۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۱)
مسئلہ ۱۹: ایک شخص کی طرف سے دوسرا شخص روزہ نہیں رکھ سکتا۔ (عامہ کتب ، عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۷)
مسئلہ ۲۰: اعتکاف واجب اور صدقہ فطر کا بدلا اگر ورثہ ادا کریں تو جائز ہے اور ان کی مقدار وہی بقدر صدقہ فطر ہے اور زکوۃ دیناچاہیں تو جتنی واجب تھی اس قدر نکالیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۳)
مسئلہ ۲۱: شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جسکی عمر ایسی ہو گئی کہ اب روزبروز کمزور ہی ہوتا جائے گاجب روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اس میں اتنی طاقت آنے کی امید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اورہر روزہ کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کوپیٹ بھر کھاناکھلانا اس پرواجب ہے یا ہر روزکے بدلے میں صدقۂ فطر کی مقدار مسکین کو دے دے۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۴،۱۶۳ وغیرہ)
مسئلہ ۲۲: اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں بوجہ گرمی کے روزہ نہیں رکھ سکتا مگر جاڑوں میں رکھ سکے گا تو اب افطار کرے اور ان کے بدلے کے جاڑوں میں رکھنا فرض ہے۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۳۶)
مسئلہ ۲۳: اگر فدیہ دینے کے بعد اتنی طاقت آگئی کہ روزہ رکھ سکے تو فدیہ صدقۂ نفل ہو گیا۔ان روزوں کی قضا رکھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۷)
مسئلہ ۲۴: یہ اختیار ہے کہ شروع رمضان میں پورے رمضان کا ایک دم فدیہ دے یا آخر میں دے اور اس میں تملیک شرط نہیں بلکہ اباحت بھی کافی ہے اور یہ بھی ضرور نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اتنے ہی مساکین کو دے بلکہ ایک مسکین کو کئی دن کے دے سکتے ہیں ۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۳ وغیرہ)
مسئلہ ۲۵: قسم یا قتل کے کفارہ کا اس پر روزہ ہے اور بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس روزہ کافدیہ نہیں اورروزہ توڑنے یا ظہار کا کفارہ اس پر ہے تو اگر روزہ نہ رکھ سکے ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلا وے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۷)
مسئلہ ۲۶: کسی نے ہمیشہ روزہ رکھنے کی منت مانی اور برابر روزے رکھے تو کوئی کام نہیں کر سکتا جس سے بسر اوقات ہو تو اسے بقدر ضرورت افطار کی اجازت ہے اور ہرروزے کے بدلے میں فدیہ دے اور اس کی بھی قوت نہ ہو تو استغفار کرے۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۴)
مسئلہ ۲۷: نفل روزہ قصداً شروع کرنے سے لازم ہو جاتا ہے کہ توڑے گا تو قضا واجب ہو گی اور یہ گمان کر کے اس کے ذمہ کوئی روزہ ہے شروع کیا بعد کومعلوم ہوا کہ نہیں ہے اب اگر فوراً توڑ دیا تو کچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد نہ توڑا تو اب نہیں توڑا سکتا ۔ توڑے گا تو قضا واجب ہو گی۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۵،۱۶۴)
مسئلہ ۲۸: نفل روزہ قصداً نہیں توڑا بلکہ بلااختیار ٹوٹ گیا مثلاً اثنائے روزہ میں حیض آگیا جب بھی قضا واجب ہے۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۵)
مسئلہ ۲۹: عیدین یا ایام تشریق میں روزہ نفل رکھا تو اس روزہ کا پورا کرنا واجب نہیں نہ اسے کے توڑنے سے قضا واجب بلکہ اس روزہ کا توڑ دینا واجب ہے اور اگر ان دنوں میں روزہ رکھنے کی منت مانی تو منت پوری کرنا واجب ہے مگر ان دنوں میں نہیں بلکہ اور دنوں میں ۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۵)
مسئلہ۳۰: نفل روزہ بلاعذر توڑ دینا ناجائز ہے مہمان کے ساتھ اگرمیزبان نہ کھائے گا تو میزبان کو اذیت ہو گی تو نفل روزہ توڑ دینے کے لئے یہ عذر ہے بشرطیکہ یہ بھروسا ہو کہ اس کی قضا رکھ لے گا اور بشرطیکہ ضحویٔ کبری سے پہلے توڑ دے بعد کو نہیں ۔ زوال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے اور اس میں عصر کے قبل تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۰۸،درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۶)
مسئلہ ۳۱: کسی نے یہ قسم کھائی کہ اگر تو روزہ نہ توڑے تو میری عورت کو طلاق ہے تو اسے چاہئیے کہ اس کی قسم سچی کر دے یعنی روزہ توڑ دے اگرچہ روزہ قضا کا ہو اگرچہ بعد زوال ہو۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۶)
مسئلہ ۳۲: اس کی کسی بھائی نے دعوت کی تو ضحویٔ کبری سے قبل روزۂ نفل توڑ دینے کی اجازت ہے۔ (درمختار ج ۲ ص ۱۶۶)
مسئلہ ۳۳: عورت بغیر شوہر کی اجازت کے نفل اور منت و قسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لئے تو شوہر توڑا سکتا ہے مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی مگر اس کی قضا میں بھی شوہر کی اجازت درکار ہے یا شوہر اور اس کے درمیان جدائی ہو جائے یعنی طلاق بائن دیدے یا مر جائے ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو مثلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے یا احرام میں ہے تو ان حالتوں میں بغیر اجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے بلکہ اگر وہ منع کرے جب بھی اور ان دنوں میں بھی بے اس کی اجازت کے نفل نہیں رکھ سکتی۔ رمضان اور قضائے رمضان کے لئے شوہر کی اجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اس کی ممانعت پر بھی رکھے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۷)
مسئلہ۳۴: باندی غلام بھی علاوہ فرائض کے مالک کی اجازت بغیر نہیں رکھ سکتے۔ ان کا مالک چاہے تو توڑا سکتا ہے۔ پھر اس کی قضامالک کی اجازت پر یا آزاد ہونے کے بعد رکھیں ۔ البتہ غلام نے اگر اپنی عورت سے ظہار کیا تو کفارہ کے روزے بغیر مولی کی اجازت کے رکھ سکتا ہے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۲ ص ۱۷۶)
مسئلہ ۳۵: مزدور یا نوکر اگر نفل روزہ رکھے تو کام پورا نہ کر سکے گا تو مستاجر یعنی جس کا نوکر ہے یا جس نے مزدوری پر اسے رکھا ہے اس کی اجازت کی ضرورت ہے اور کام پورا کر سکے تو کچھ ضرورت نہیں ۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۷۶)
مسئلہ ۳۶: لڑکی کو باپ اور ماں کو بیٹے اور بہن کو بھائی سے اجازت لینے کی کچھ ضرورت نہیں اور ماں باپ اگر بیٹے کو روزہ نفل سے منع کر دیں اس وجہ سے کہ مرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اطاعت کرے۔ (ردالمحتار ج ۲ ص ۱۶۷)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔