استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ جو لوگ کراچی سے ائے ہیں ، سات ذوالحجہ کو مدینہ منور ہ سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ جاتے ہیں ، یہ لوگ عمرہ ادا کر کے منیٰ جائیں گے یا بغیر عمرہ ادا کئے بھی منی جا سکتے ہیں ؟
(السائل : سید عبد اللہ بن علامہ اعجاز نعیمی، مدینہ منورہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : یہ لوگ عمرہ ادا کر کے منیٰ جائیں گے کیونکہ ان لوگوں نے عمرہ کا ہی احرام باندھا ہے اور بغیر عمرہ ادا کئے اگر حج کریں گے تو تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے گی یا تو عمرہ کے افعال ادا کئے بغیر عمرہ کا احرام کھول دیں گے تو اس صورت میں ان پر اس عمرہ کی قضاء لازم ائے گی جو ایام تشریق کے بعد کریں گے ، چنانچہ محمد بن عبد اللہ بن احمد الغزی حنفی تمرتاشی متوفی 1004ھ اور علامہ شامی لکھتے ہیں :
(و قضیت) ای بعد ایام التشریق (251)
یعنی، (احرام کے لئے ) عمرہ میں شروع ہونے کی وجہ سے اسے ایام تشریق کے بعد قضاء کیا جائے گا۔ اور اس پر دم بھی لازم ائے گا کہ اس نے عمرہ کا احرام باندھ کر اس کے افعال ادا کئے بغیر عمرہ کا احرام کھول دیا، چنانچہ محمد بن عبد اللہ بن احمد الغزی حنفی تمرتاشی متوفی 1004ھ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
(و وجب دم الرفض) للعمرۃ (252)
یعنی، اس پر عمرہ چھوڑنے کا دم لازم ہو گا۔ اس لئے کہ جو شخص بھی عمرہ کا احرام باندھنے کے بعد اسے ادا کئے بغیر احرام کھول دیتا ہے اس پر دم لازم اتا ہے ، چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970ھ اور ان سے علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی نقل کرتے ہیں :
لان کل من تحلل بغیر طوافٍ یجب علیہ دم کالمحصر (253)
یعنی، کیونکہ وہ شخص جو عمرہ کا طواف کئے بغیر اس کے احرام سے فارغ ہو جائے اس پر محصر کی مانند دم لازم اتا ہے ۔ یا تو یہ لوگ عمرہ کا احرام کھولے بغیر حج کی تلبیہ پڑھ لیں گے اس طرح یہ لوگ قارن ہو جائیں گے ، علامہ حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی 592ھ لکھتے ہیں :
المحرم بالعمرۃ اذا احرم بالحج ان احرم قبل ان یطوف لعمرتہ یکون قارنا (254)
یعنی، عمرہ کا احرام باندھا ہوا شخص جب طواف عمرہ سے قبل حج کا احرام باندھ لے تو وہ قارن ہو جاتا ہے ۔ اس صورت میں بھی ان پر عمرہ کی ادائیگی حج سے قبل لازم ہو گی، اگر وہ عمرہ ادا نہیں کرتے تو ان کا عمرہ باطل ہو جائے گا، چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں :
(فان وقف) القارن بعرفۃ (قبل) اکثر طواف (العمرۃ بطلت) (255)
یعنی،قارن نے اگر اکثر طواف عمرہ سے قبل عرفات میں وقوف کیا توجب عمرہ باطل ہوگا تو قران بھی نہ رہے گا۔ (یعنی عمرہ باطل ہوجائے گا تو قران بھی نہ رہے گا) اور ان پر سے دم ساقط ہو جائے گا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و سقط عنہ دمہ (256)
یعنی، اس سے دم قران ساقط ہو جائے گا۔ اس کے تحت ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
ای دم القران للشکر المترتب علی نعمۃ الجمع من اداء النسکین (257)
یعنی، دم قران جو شکرانے کے طور پر اس نعمت پر مترتب ہے جو اسے نسک عمرہ و حج کے مابین جمع کرنے پر حاصل ہوئی۔ اور علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی لکھتے ہیں :
و سقط دم القران، لانہ لم یوفق للنسکین (258)
یعنی، دم قران ساقط ہو گیا کیونکہ وہ نسک عمرہ و حج کے درمیان جمع نہ کر پایا۔ اور اس پر عمرہ کی قضاء اور ایک دم لازم ایا جو کہ دم جبر ہے نہ کہ دم شکر۔ جس کی تفصیل ہم نے اوپر ذکر کر دی ہے ۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ جس کا امکان بہت شاذ ہے کیونکہ جب وہ حج کے لئے عرفات جا رہا ہے تو قوی امکان یہی ہے کہ وہ حج کی نیت سے تلبیہ کہے گا جس سے وہ قارن ہو جائے گا جس کا حکم اوپر ذکر کر دیا گیا پھر بھی اگر کوئی شخص عمرہ کا احرام باندھ کر اتا ہے اور حج کی نیت کئے بغیر اسی احرام سے وقوف عرفات کرتا ہے تو اس کا حج اصلا نہ ہو گا کیونکہ حج کے لئے احرام باندھنا شرط ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملا علی قاری حنفی صحت وقوف کی شرائط میں لکھتے ہیں :
(الثانی الاحرام بحج) ای لا بعمرۃ (259)
یعنی، دوسری شرط حج کا احرام ہے نہ کہ عمرہ کا احرام۔ اور جب شرط ہی نہ پائی گئی تو وقوف عرفہ درست نہ ہو گا، اذا فات الشرط فات المشروط یعنی، جب شرط فوت ہو جائے تو مشروط فوت ہو جاتا ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
و اما شرائط صحت وقوف پس سہ چیز است یکے تقدیم احرام بحج، پس اگر وقوف نمود بغیر احرام یا باحرام عمرہ صحیح نباشد وقوف او (260)
یعنی، مگر شرائط صحت وقوف پس تین چیزیں ہیں ایک حج کے احرام کا مقدم ہوناپس اگر بلااحرام یا احرام عمرہ کے ساتھ وقوف عرفات کیا تو اس کا وقوف صحیح نہ ہوگا۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الاحد، 4 ذوالحجۃ 1435ھـ، 28 سبتمبر 2014 م 939-F
حوالہ جات
251۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : و قضیت، 3/639۔ 640
252۔ الدر المختار شرح تنویر الابصار، کتاب الحج، باب القران، ص165
253۔ البحرالرائق، کتاب الحج، باب القران، تحت قولہ : وان لم یدخل مکۃ ، 2/635
254۔ فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الفتاوی الھندیۃ، کتاب الحج، فصل فی العمرۃ،1/301
255۔الدرالمختار شرح تنویر الابصار، باب القران، ص 165
256۔ لباب المناسک، فصل فی شرائط صحۃ القران، باب القران، ص173
257۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب القران، فصل فی شرائط صحۃ القران، تحت قولہ : و سقط عنہ دم، ص362
258۔ الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الحج، باب القران، ص165
259۔ المسلک المتقسط، باب الوقوف، فصل فی شرائط صحۃ الوقت، ص288
260۔ حیات القلوب فی زیارت المحبوب، باب ششم در بیان وقوف عرفات، فصل اول در بیان قدر مفروض، ص176