شرعی سوالات

"ساتھ لے جائیں” الفاظ سے طلاق ہو گی یا نہیں؟

 کیا فرماتے ہیں علماےدین و مفتیان شرع متین اس بارےمیں کہ لڑکے نے اپنے سسر سے کہا اگر” آپکو سامان زیادہ عزیز ہے سامان میری طرف سے فارغ ہے اور عائشہ کو بھی ساتھ لے جائیں۔”کیا ان الفاظ سے طلاق ہو گئی جبکہ اس نے طلاق کی نیت نہیں کی؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

صورت مسؤلہ میں ان الفاظ” عائشہ کو بھی ساتھ لے جائیں” سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی کیونکہ مذکورہ الفاظ ان کنایات سے ہیں جن میں طلاق کے لیے نیت ضروری ہے۔

تنویرالابصار میں ہے”فنحو اخرجی واذھبی وقومی یحتمل ردا”ترجمہ:اخرجی ،اذھبی،اور قومی جیسے الفاظ رد کا احتمال رکھتے ہیں۔

                      (رد المحتار مع الدر المختاروتنویر الابصار،جلد 4،صفحہ517، مکتبہ رحمانیہ،لاہور)

علامہ شامی فرماتے ہیں:’‘ان الاول (ای الرد)یتوقف علی النیۃ”

ترجمہ: پہلا یعنی رد نیت پر موقوف ہے۔

                         (رد المحتار مع الدر المختاروتنویر الابصار،جلد 4،صفحہ521، مکتبہ رحمانیہ،لاہور)

فتاوی فیض الرسول میں بھی الفاظ”لے جاؤ” کو نیت پر موقوف کیا ہے،فرماتے ہیں:”شوہر نے اگر ”لے جاؤ سے بھی طلاق کی نیت کی ہے تو اس کی بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی۔”

(فتاوی فیض الرسول،جلد 2، صفحہ150،اردو بازار لاہور)

بہار شریعت میں ہے”کنایہ سے طلاق واقع ہونے میں شرط ےہ ہے کی نیت طلاق ہو۔”

  (بہار شریعت ،جلد 2،حصہ 8،صفحہ 129،مکتبہ المدینہ، کراچی)
واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button