رہن کے متعلق مسائل
رہن کا جواز کتاب و سنت سے ثابت اور اس کے جائز ہونے پر اجماع منعقد۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
وا ن کنتم علی سفرٍ ولم تجدوا کاتبًا فرھنٌ مقبوضہً
(اور اگر تم سفر میں ہو (اور لین دین کرو) اور کاتب نہ پائو (کہ وہ دستاویز لکھے) تو گروی رکھنا ہے جس پر قبضہ ہو جائے )
اس آیت میں سفر میں گروی رکھنے کا ذکر ہے مگر حدیثوں سے ثابت کہ حضور اقدس ﷺ نے مدینہ اپنی زرہ گروی رکھی تھی۔
حدیث ۱: صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا تھا اور لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھی تھی۔
حدیث ۲: صحیح بخاری میں انہیں سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ کی جب وفات ہوئی اس وقت حضور کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس ۳۰ صاع جو کے مقابل میں گروی تھی۔
حدیث ۳: صحیح بخاری میں انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جو کے مقابل میں اپنی زرہ گرو ی رکھ دی تھی۔
حدیث ۴: امام بخاری ابوہریرہ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جانور جب مرہون ہو توا س پر خرچ کے عوض سوار ہو سکتے ہیں اور دودھ والے جانور کا دودھ بھی نفقہ کے عوض میں پیا جائے گا۔ اور سوار ہونے والے اور دودھ پینے کا خرچہ سوار ہونے والے اور پینے والے پر ہے ۔
حدیث ۵: ابن ماجہ ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رہن بند نہیں کیا جائے گا (یعنی مرتہن اس کو اپنا کر لے یہ نہیں ہو سکتا)۔
حدیث ۶: امام شافعی اور حاکم نے مستدرک اور بیہقی نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رہن مغلق (یعنی مرتہن اپنا کر لے) نہیں ہوتا۔ جس نے رہن رکھا ہے اس کے لئے رہن کا فائدہ اور اسی پر اس کا نقصان ہے۔
مسائل فقہیہ
لغت میں رہن کے معنی روکنا ہیں اس کا سبب کچھ بھی ہو اور اصطلاح شرع میں دوسرے کے مال کو اپنے حق میں اس لئے روکنا کہ اس کے ذریعہ سے اپنے حق کو کلاً یا جز ئً وصول کرنا ممکن ہو مثلاً کسی کے ذمہ اس کا دین ہے اس مدیون نے اپنی کوئی چیز دائن کے پاس اس لئے رکھ دی ہے کہ اس کو اپنے دین کی وصول پانے کے لئے ذریعہ بنے ۔ رہن کو اردو زبان میں گروی رکھنا بولتے ہیں ۔ کبھی اس چیز کو بھی رہن کہتے ہیں جورکھی گئی ہے اس کا دوسرا نام مرہون ہے۔ چیز کے رکھنے والے کو راہن اور جس کے پاس رکھی گئی اس کو مرتہن کہتے ہیں ۔ عقد رہن بالاجماع جائز ہے۔ قرآن مجید اور حدیث شریف سے اس کا جواز ثابت ہے۔ رہن میں یہ خوبی ہے کہ دائن و مدیون دونوں کا اس میں بھلا ہے کہ بعض مرتبہ بغیر رہن رکھے کوئی دیتا نہیں مدیون کا بھلا یوں ہوا کہ دین مل گیا اور دائن کا بھلا ظاہر ہے کہ اس کو اطمینان ہوتا ہے کہ اب میرا روپیہ مارا نہ جائے گا۔ (ہدایہ ، عنایہ)
مسئلہ ۱: رہن جس حق کے مقابلہ میں رکھا جاتا ہے وہ دین (یعنی واجب الذمہ ) ہو عین کے مقابل رہن رکھنا صحیح نہیں ۔ ظاہراً و باطناً دونوں طرح واجب ہو جیسے مبیع کا ثمن اور قرض یا ظاہراً واجب ہو جیسے غلام کو بیچا اور وہ حقیقت میں آزاد تھا یا سرکہ بیچا اور وہ شراب تھا اور ان کے ثمن کے مقابل میں کوئی چیز رہن رکھی۔ یہ ثمن بظاہر واجب ہے مگر واقع میں نہ بیع ہے نہ ثمن۔ اگر حقیقۃً دین ہو حکماً دین ہو تو اس کے مقابل میں بھی رہن صحیح ہے جیسے اعیان مضمونہ بنفسہا یعنی جہاں مثل یا قیمت سے تاوان دینا پڑے جیسے مغضوب شے کہ غاصب پر واجب یہ ہے کہ جو چیز غضب کی ہے بعینہٖ وہی چیز مالک کو دے اور وہ نہ ہو تو مثل یا قیمت تاوان دے۔ جہاں ضمان واجب نہ ہو جیسے ودیعت اور امانت کی دوسری صورتیں ان میں رہن درست نہیں اسی طرح اعیان مضمونہ بغیر ہا کے مقابل میں بھی رہن صحیح نہیں ۔ جیسے مبیع کہ جب تک یہ بائع کے قبضہ میں ہے اگر ہلاک ہوگئی توا س کے مقابل میں مشتری سے بائع کا ثمن ساقط ہو جائے گا۔ مشتری کے پاس بائع کوئی چیز رہن رکھے صحیح نہیں ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۲: عقد رہن ایجاب و قبول سے منعقد ہوتا ہے مثلاً مدیون نے کہا کہ تمہارا جو کچھ میرے ذمہ ہے اس کے مقابلہ میں یہ چیز تمہارے پاس رہن رکھی یا یہ کہے ا س چیز کو رہن رکھ لو دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔ بغیر ایجاب و قبول کے الفاظ بولنے کے بھی بطور تعاطی رہن ہو سکتا ہے۔ جس طرح بیع تعاطی سے ہو جاتی ہے۔ (ہدایہ ، ردالمحتار)
مسئلہ ۳: لفظ رہن بولنا ضروری نہیں بلکہ کوئی دوسرا لفظ جس سے معنی رہن سمجھے جاتے ہوں تو رہن ہو گیا مثلاً ایک روپیہ کی کوئی چیز خریدی اور بائع کو اپنا کپڑا یا کوئی چیز دے دی اور کہہ دیا کہ اسے رکھے رہو جب تک میں دام نہ دے دوں یہ رہن ہو گیا یونہی ایک شخص پر دین ہے اس نے دائن کو اپنا کپڑا دے کر کہا اسے رکھے رہو جب تک دین ادا نہ کر دوں یہ رہن بھی صحیح ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۴: ایجاب وقبول سے عقد رہن ہوجاتا ہے مگر لازم نہیں ہوتا جب تک مرتہن شے مرہون پر قبضہ نہ کرلے لہذا قبضہ سے پہلے راہن کو اختیار رہتا ہے کہ چیز دے یا نہ دے اور جب مرتہن نے قبضہ کر لیا تو پکا معاملہ ہو گیا اب راہن کو بغیر اس کا حق ادا کئے چیز واپس لینے کا حق نہیں رہتا۔ (ہدایہ) مگر عنایہ میں فرمایا کہ یہ عامہ کتب کے مخالف ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی تصریح یہ ہے کہ بغیر قبضہ رہن جائز ہی نہیں امام حاکم شہید نے کافی میں اور امام جعفر طحاوی و امام کرخی نے اپنے اپنے مختصر میں اس کی تصریح کی اور درمختار میں مجتبی سے ہے کہ قبضہ شرط جواز ہے نہ کہ شرم لزوم۔
مسئلہ ۵: قبضہ کے لئے اجازت راہن ضروری ہے۔ صراحۃً قبضہ کی اجازت دے یا دلالۃً دونوں صورتوں میں قبضہ ہو جائے گا۔ اسی مجلس میں قبضہ ہو جس میں ایجاب و قبول ہوا ہے یا بعد میں خود قبضہ کرے یا اس کا نائب قبضہ کرے سب صحح ہے۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۶: مرہون شے پر قبضہ اس طرح ہو کہ وہ اکھٹی ہو متفرق نہ ہو مثلاً درخت پر پھل ہیں یا کھیت میں زراعت ہے صرف پھلوں یا زراعت کو رہن رکھا درخت اور کھیت کو نہیں رکھا یہ قبضہ صحیح نہیں اور یہ بھی ضرور ہے کہ مرہون شے حق راہن کے ساتھ مشغول نہ ہو مثلاً درخت پر پھل ہیں اور صرف درخت کو رہن رکھا اور یہ بھی ضرور ہے کہ متمیز ہو یعنی مشاع نہ ہو۔ (درمختار)
مسئلہ ۷: ایسی چیز رہن رکھی جو دوسری چیز کے ساتھ متصل ہے مثلاً درخت میں پھل لگے ہیں صرف پھلوں کو رہن رکھا اور مرتہن نے جدا کر کے مثلاً پھلوں کو توڑ کر قبضہ کر لیا اور اگر یہ قبضہ بغیر اجازت راہن ہے تو ناجائز ہے خواہ اسی مجلس میں قبضہ کیا ہو یا بعد میں اور اگر اجازت راہن سے ہے تو جائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۸: مرہون و مرتہن کے درمیان راہن نے تخلیہ کر دیا۔ کہ مرتہن اگر قبضہ کرنا چاہے کر سکتا ہے یہ بھی قبضہ ہی کے حکم میں ہے جس طرح بیع بائع نے مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کر دیا قبضہ ہی کے حکم میں ہے ۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۹: رہن کے شرائط حسب ذیل ہیں :
(۱) راہن و مرتہن عاقل ہوں یعنی نا سمجھ بچہ اور مجنون کا رہن رکھنا صحیح نہیں ۔بلوغ اس کے لئے شرط نہیں نابالغ بچہ جو عاقل ہو اس کا رہن رکھنا صحیح ہے۔
(۲) رہن کسی شرط پر معلق نہ ہو نہ اس کی اضافت وقت کی طرف ہو۔
(۳) جس چیز کو رہن رکھا وہ قابل بیع ہو یعنی وقت عقد موجود ہو مال مطلق متقوم مملوک معلوم مقدور التسلیم ہولہذا جو چیز وقت عقد موجود ہی نہ ہو یا اس کے وجود عدم دونوں کا احتمال ہو۔ اس کا رہن جائز نہیں مثلاً درخت میں جو پھل اس سال آئیں گے یا بکریوں کے اس سال جو بچے پیدا ہوں گے یا اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے ان سب کا رہن نہیں ہو سکتا مردار اور خون کو رہن نہیں رکھ سکتے کہ یہ مال نہیں حرم وا حرام کے شکار بھی مردار ہیں مال نہیں ۔ آزادکو رہن نہیں رکھ سکتا کہ مال نہیں ۔ مدبر وام ولد کا رہن جائز نہیں دونوں راہن و مرتہن میں اگر کوئی مسلم ہو تو شراب و خنزیر کو رہن نہیں رکھ سکتے۔ اموال ؟؟؟؟ مثلاً شکار اور جنگل کی لکڑی اور گھاس چونکہ یہ مملوک نہیں ان کا رہن ناجائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۰: مرہون چیز مرتہن کے ضمان میں ہوتی ہے یعنی مرہون کی مالیت اس کے ضمان میں ہوتی ہے اورخود عین بطور امانت ہے اس کا فرق یوں ظاہر ہو گا کہ اگر مرہون کو مرتہن نے راہن سے خریدلیا تو یہ قبضہ جو مرتہن کا ہے۔ قبضۂ خریداری کے قائم مقام نہیں ہو گا۔ کہ یہ قبضۂ امانت ہے اور مشتری کے لئے قبضۂ ضمان درکار ہے اور خود وہ چیز امانت ہے۔ لہذا مرہون کا نفقہ راہن کے ذمہ ہے مرتہن کے ذمہ نہیں اور غلا م مرہون تھا وہ مر گیا تو کفن راہن کے ذمہ ہے۔ (ہدایہ ، درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۱: مرتہن کے پاس اگر مرہون ہلاک ہو جائے تو دین اور اس کی قیمت میں جو کم ہے اس کے مقابلہ میں ہلاک ہو گا مثلاً سو روپے دین ہیں اور مرہون کی قیمت دو سو ہے تو سو کے مقابل میں ہلاک ہوا یعنی اس کا دین ساقط ہو گیا اور مرتہن راہن کو کچھ نہیں دے گا اور اگر صورت مفروضہ میں مرہون کی قیمت پچاس روپے ہے تو دین میں سے پچاس ساقط ہو گئے اور پچاس باقی ہیں اور اگر دونوں برابر ہیں تو نہ دینا ہے نہ لینا۔ (درمختار)
مسئلہ ۱۲: مرہون کی قیمت اس روز کی معتبر ہے جس دن رہن رکھا ہے یعنی جس دن مرتہن کا قبضہ ہوا ہے جس دن ہلاک ہوا اس دن کی قیمت کا اعتبار نہیں یعنی رہن رکھنے کے بعد چیز کی قیمت گھٹ بڑھ گئی اس کا اعتبار نہیں مگر اگر دوسرے شخص نے مرہون کو ہلاک کر دیا تو اس سے تاوان میں وہ قیمت لی جائے گی جو ہلاک کرنے کے دن اور یہ قیمت مرتہن کے پاس اس مرہون کی جگہ رہن ہے یعنی اب یہ مرہون ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۳: دو چیزیں رکھی ہیں ان میں سے ایک ہلاک ہو گئی اور ایک باقی ہے اور جو ہلاک ہو گئی اس تنہا کی قیمت دین سے زائد ہے تو یہ نہیں ہو گا کہ دین ساقط ہو جائے بلکہ دین کو ان دونوں کی قیمتوں پر تقسیم کیا جائے۔ یونہی مکان رہن رکھا اور وہ گر گیا تو دین کو عمارت و زمین کی قیمت پر تقسیم کیا جائے جو حصہ عمارت کے مقابل ہے ساقط اور جو زمین کے مقابل ہے باقی ہے یونہی اگر دس روپے دین کے ہیں چالیس روپے کی پوستین رہن رکھ دی اس کو کیڑوں نے کھا لیا اب اس کی قیمت دس روپے رہ گئی تو ڈھائی روپے دے کر راہن چھوڑا لے گا کہ پوستین کی تین چوتھائیاں کم ہو گئیں لہذا دین کی بھی تین چوتھائیاں یعنی ساڑھے سات روپے کم ہو گئے ان جزئیات سے معلوم ہوا کہ خود چیز میں اگر نقصان ہوجائے تو اس کا دین پر اثر پڑے گا اور نرخ کم ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۱۴: مرتہن نے اگر مرہون میں کوئی ایسا فعل کیا جس کی وجہ سے وہ چیز ہلاک ہو گئی یا اس میں نقصان پیدا ہو گیا تو ضامن ہے یعنی اس کا تاوان دینا ہو گا۔ مثلاً ایک کپڑا بیس (۲۰) روپے کی قیمت کا دس (۱۰) روپے میں رہن رکھا مرتہن نے باجازت راہن ایک مرتبہ اسے پہنا اس کے پہننے سے چھ روپے قیمت گھٹ گئی اب وہ چودہ (۱۴) روپے کا ہو گیا اس کے بعد اس کو بغیر اجازت استعمال کیا اس استعمال سے چار روپے اور کم ہو گئے اب اس کی قیمت دس (۱۰)روپے ہو گئی اس کے بعد وہ کپڑا ضائع ہو گیا اس صورت میں مرتہن راہن سے صرف ایک روپیہ وصول کر سکتا ہے اور نو روپے ساقط ہو گئے کیونکہ رہن کے دن جب اس کی قیمت بیس (۲۰) روپے تھی اور قرض کے دس (۱۰) ہی روپے تھے تو نصف کا ضمان ہے اور نصف امانت ہے۔ پھر جب اس کو اجازت سے پہنا ہے تو چھ روپے کی جو کمی ہے اس کا تاوان نہیں کہ یہ کمی باجازت مالک ہے مگر دوبارہ جو پہنا تو اس کی کمی کے چار روپے اس پر تاوان ہوئے گویا دس (۱۰) روپے میں سے چار وصول ہو گئے باقی چھ (۶)باقی ہیں پھر جس دن وہ کپڑا ضائع ہوا چونکہ دس (۱۰) کا تھا لہذا نصف قیمت کے پانچ روپے ہیں ۔ امانت ہے اور نصف دوم کہ یہ بھی پانچ ہے اس کا ضمان ہے ہلاک ہونے سے نصف دوم بھی وصول سمجھو لہذا پانچ اور چار پہلے کے کل نو (۹) وصول ہو گئے۔ ایک باقی رہ گیا ہے وہ راہن سے لے سکتا ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۵: ایک شخص کچھ دین لینا چاہتا ہے بات چیت ہو گئی اور یہ بھی ٹھہر گیا کہ اس کے مقابلہ میں فلاں چیز رہن رکھوں گا چنانچہ اس چیز پر مرتہن کا قبضہ ہو گیا اور ابھی دین دیا نہیں ہے اب فرض کرو کہ قرض دینے سے پہلے مرتہن کے پاس و ہ چیز ہلاک ہو گئی اس کی دو صورتیں ہیں اگر قرض کی کوئی مقدار نہیں بیان کی گئی ہے فقط اتنی بات ہوئی کہ تم سے کچھ روپے قرض لوں گا اس صورت وہ چیز مرتہن کے ضمان میں نہیں ہے ہلاک ہونے سے اس کو کچھ دینا واجب نہیں ۔ اور اگر قرض کی مقدار بیان کر دی ہے مثلاً سو (۱۰۰) روپے لوں گا اور یہ لو رکھو رہن ہو گی اس صورت میں ضمان ہے اس کا وہی حکم ہے کہ سو روپے لے کر رکھ دیتا یعنی دین اور اس چیز کی قیمت دونوں میں جو کم ہے اس کے مقابل میں اس کو ہلاک ہونا سمجھا جائے گا مثلاً اس کی قیمت سو (۱۰۰) روپے یا زیادہ ہے تو مرتہن راہن کو سو (۱۰۰) روپے دے اور سو (۱۰۰) سے کم ہے تو جو کچھ قیمت ہے وہ دے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۶: قرض دینے کا وعدہ کیا تھا اور قرض مانگنے والے نے قرض لینے سے پہلے کوئی چیز رہن رکھ دی اور مرتہن نے کچھ قرض دیا اور جوکچھ باقی ہے تو باقی کا جبراً اس سے مطالبہ نہیں ہو سکتا یہ حکم اس وقت ہے کہ مرہون موجود ہو اور ہلاک ہوگیا تو اس کا حکم وہ ہے جو پہلے بیان ہوا۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۷: دائن نے مدیون سے اپنے دین کے مقابل میں کوئی چیز رہن رکھوا لی تو یہ نہ سمجھنا چاہئیے کہ اب وہ دین کا مطالبہ ہی نہیں کر سکتا خاموش بیٹھا رہے بلکہ اب بھی مطالبہ کر سکتا ہے قاضی کے پاس دین کا دعوی کر سکتا ہے اور قاضی کو اگر ثابت ہو جائے کہ مدیون ادائے دین میں ڈھیل ڈال رہا ہے تو اسے قید بھی کر سکتا ہے کہ ایسے کی یہی سزا ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۱۸: رہن فسخ ہونے کے بعد بھی مرتہن کو یہ اختیار ہے کہ جب تک اپنا مطالبہ وصول نہ کر لے یا معاف نہ کر دے مرہون شے اپنے قبضہ میں رکھے راہن کو واپس نہ دے یعنی محض زبان سے کہہ دینے سے کہ رہن فسخ کیا رہن فسخ نہیں ہوتا بلکہ باقی رہتا ہے جب تک مرہون کو واپس نہ کر دے جب رہن فسخ نہیں ہوا تو اب بھی چیز کو روک سکتا ہے۔ ہاں دین یا قبضہ دونوں میں ایک جاتا رہے مثلاً دین وصول پایا یا معاف کر دیا کہ اب دین باقی نہ رہا یا راہن کے قبضہ میں دے دیا تو اب رہن جاتا رہے گا ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۱۹: فسخ رہن کے بعد چیز مرتہن کے پاس ہلاک ہو گئی اب بھی وہی احکام ہیں جو فسخ نہ ہونے کی صورت میں تھے کہ دین اور قیمت مرہون میں جو کم ہے اس کے مقابل میں چیز ہلاک ہو گئی۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۰: مرتہن نے اگر راہن کو وہ چیز دے دی مگر بطور فسخ رہن نہیں بلکہ بطور عاریت تو اب بھی رہن باقی ہے یعنی اس سے واپس نہیں لے سکتا۔ (عنایہ)
مسئلہ۲۱: مرہون شے جب تک مرتہن کے ہاتھ میں ہے راہن اسے بیع نہیں کر سکتا۔ مرتہن جب تک دین وصول نہ کر لے اس کو اختیار ہے کہ بیچنے نہ دے اور اگر مدیون نے کچھ دین ادا کیا ہے کچھ باقی ہے اب بھی راہن مرتہن سے چیز واپس نہیں لے سکتا جب تک کل دین ادا نہ کر دے اور جب دین بیباق کر دیا تو مرتہن سے کہا جائے گا رہن واپس دو کیونکہ اب اسے روکنے کا حق باقی نہ رہا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲۲: مدیون نے دین ادا کر دیا اور ابھی تک شے مرہون مرتہن کے پاس ہے واپسی نہیں ہوئی ہے اور چیز ہلاک ہو گئی تو جو کچھ مدیون نے ادا کیا ہے مرتہن سے واپس لے گا۔ کیونکہ مرتہن کا وہ قبضہ اب بھی قبضۂ ضمان ہے اور یہ ہلاک دین کے مقابل میں متصور ہو گا لہذا واپس کرنا ہو گا۔ (ہدایہ) یہ اس وقت ہے کی مرہون کی قیمت دین سے زائد یا دین کے برابر ہے اگر دین سے کم ہے تو جتنا مرہون کی قیمت تھی اتنا ہی واپس لے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۲۳: مرتہن نے راہن سے دین معاف کر دیا ہبہ کر دیا اور ابھی مرہون کو واپس نہیں دیا تھا اسی کے پاس ہلاک ہو گیا اس صورت میں راہن مرتہن سے چیز کا تاوان نہیں لے سکتا کہ یہاں مرتہن نے دین کے مقابل میں کوئی چیز وصول نہیں کی ہے جس کو واپس دے بلکہ دین کو ساقط کیا ہے۔ (عنایہ)
مسئلہ ۲۴: مرہون چیز سے کسی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے مثلاً لونڈی غلام ہو تو اس سے خدمت لینا یا اجارہ پر دینا۔ مکان میں سکونت کرنا یا کرایہ پر اٹھانا یا عاریت پر دینا ، کپڑے اور زیور کو پہننا، اجارہ و عاریت پر دینا الغرض نفع کی سب صورتیں ناجائز ہیں اور جس طرح مرتہن کو نفع اٹھانا ناجائز ہے راہن کو بھی ناجائز ہے۔ (درمختار)
مسئلہ ۲۵: مرتہن کے لئے اگر راہن نے انتفاع کی اجازت دے دی ہے اس کی دو (۲) صورتیں ہیں ۔ یہ اجازت رہن میں شرط ہے یعنی قرض ہی اسی طرح دیا ہے کہ وہ اپنی چیز اس کے پاس رہن رکھے اور یہ اس سے نفع اٹھائے جیسا کہ عموماً ا س زمانہ میں مکان یا زمین اسی طور پر رکھتے ہیں یہ ناجائز اور سود ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ شرط نہ ہو یعنی عقد رہن ہو جانے کے بعد راہن نے اس کی اجازت دی ہے کہ مرتہن نفع اٹھائے یہ صورت جائز ہے۔ اصل حکم یہی ہے کہ جس کا ذکر ہوا مگر آج کل عام حالت یہ ہے کہ روپیہ قرض دے کر اپنے پاس چیز اسی مقصد سے رہن رکھتے ہیں کہ نفع اٹھائیں اور یہ اس درجہ معروف و مشہور ہے کہ مشروط کی حد میں داخل ہے لہذا اس سے بچنا ہی چاہیے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۲۶: جس طرح مرہون سے مرتہن نفع نہیں اٹھا سکتا راہن کے لئے بھی اس سے انتفاع جائز نہیں مگر اس صورت میں کہ مرتہن اسے اجازت دیدے۔ (درمختار)
مسئلہ ۲۷: راہن نے مرتہن کو استعمال کی اجازت دے دی تھی اس نے استعمال کی تو مرتہن پر ضمان نہیں یعنی مکان میں سکونت یا باغ کے پھل کھانے یا جانور کے دودھ استعمال کرنے کے مقابل میں دین کا کچھ حصہ ساقط نہیں ہو گا۔ (درمختار)
مسئلہ ۲۸: مرتہن نے باجازت راہن چیز کو استعمال کیا اور بوقت استعمال چیز ہلاک ہو گئی تو یہاں امانت کا حکم دیا جائے گا یعنی مرتہن پر اس کا تاوان نہ ہو گا دین کا کوئی جز ساقط نہ ہو گا۔ اور اس سے پہلے یا بعد میں ہلاک ہو تو ضمان ہے جس کا حکم پہلے بتایا گیا۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۲۹: مرتہن شے مرہون کو نہ اجارہ پر دے سکتا ہے نہ عاریت پر کہ جب وہ خود نفع نہیں اٹھا سکتا تو دوسرے کو نفع اٹھانے کی کب اجازت دے سکتا ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۰: ایک شخص سے روپیہ قرض لیا اوراس نے اپنا مکان رہنے کو دے دیا کہ جب تک قرض ادا نہ کر دوں تم اس میں رہو یا کھیت اسی طرح دیا مثلاً سو (۱۰۰) روپے قرض لے کر کھیت دے دیا کہ قرض دینے والا کھیت جوتے بوئے گا اور نفع اٹھائے گا یہ صورت رہن میں داخل نہیں بلکہ یہ بمنزلہ اجارہ فاسد ہ ہے۔ اس شخص پر اجرت مثل لازم ہے کیونکہ مکان یا کھیت اسے مفت نہیں دے رہا ہے بلکہ قرض کی وجہ سے دے رہا ہے اور چونکہ قرض سے انتفاع حرام ہے لہذا اجرت مثل دینی ہو گی۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۳۱: بعض لوگ قرض لے کر مکان یا کھیت رہن رکھ دیتے ہیں کہ مرتہن مکان میں رہے اور کھیت جوئے بوئے اور مکان یا کھیت کی کچھ اجرت مقرر کر دیتے ہیں مثلاً مکان کا کرایہ پانچ روپے ماہوار یا کھیت کا پٹہ دس روپے سال ہونا چاہیے اور طے یہ پاتا ہے کہ یہ رقم زر قرض سے مجرا ہوتی رہے گی جب کل رقم ادا ہو جائے گی اس وقت مکان یا کھیت واپس ہو جائے گا اس صورت میں بظاہر کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی اگرچہ کرایہ یا پٹہ واجبی اجرت سے کم طے پایا ہو اور یہ صورت اجارہ میں داخل ہے یعنی اتنے زمانہ کے لئے مکان یا کھیت اجرت پر دیا اور زر اجرت پیشگی لے لیا۔
مسئلہ ۳۲: بکری رہن رکھی تھی اور راہن نے مرتہن کو دودھ پینے کی اجازت دے دی وہ دودھ پیتا رہا پھر وہ بکری مر گئی اس صورت میں دین کو بکری اور دودھ کی قیمت پر تقسیم کیا جائے جو حصۂ دین بکری کے مقابل میں آئے وہ ساقط اور دودھ کی قیمت کے مقابل میں جو حصہ آئے وہ راہن سے وصول کرے کیونکہ حکم یہ ہے کہ رہن سے جو پیداوار ہو گی وہ بھی رہن ہو گی اور چونکہ مرتہن نے باجازت راہن اس کو خرچ کیا تو گویا خود راہن نے خرچ کیا لہذا اس کے مقابل کا دین ساقط نہیں ہو گا۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۳: مرتہن نے اگر بغیر اجازت راہن مرہون سے نفع اٹھایا تو یہ تعدی اور زیادتی ہے یعنی اس صورت میں اگر چیز ہلاک ہو گئی تو پوری چیز کا تاوان دینا ہو گا یہ نہیں کہ د ین ساقط ہو جائے اور باقی کا مرتہن سے مطالبہ نہ ہو مگر اس کی وجہ سے رہن باطل نہیں ہو گا یعنی اگر اپنی اس حرکت سے باز آگیا تو چیز رہن ہے اور رہن کے احکام جاری ہوں گے۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۴: مرتہن نے راہن سے دین طلب کیا تو اس سے کہا جائے گا کہ پہلے مرہون چیز حاضر کرو جب وہ حاضر کر دے تو راہن سے کہا جائے گا کہ دین ادا کرو جب یہ پورا دین ادا کر دے اب مرتہن سے کہا جائے گا اس کی چیز دے دو۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۵: مرتہن نے راہن سے دین کا مطالبہ دوسرے شہر میں کیا اگر وہ چیز ایسی ہے کہ وہاں تک لے جانے میں بار برداری صرف کرنی نہیں ہو گی جب بھی وہی حکم ہے کہ وہ مرہون کو پہلے حاضر کرے پھر اس سے ادائے دین کہ کہا جائے گا اور بار برداری صرف کرنی پڑے تو وہاں لانے کی تکلیف نہ دی جائے بلکہ بغیر چیز لائے ہوئے بھی دین ادا کرے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۶: یہ حکم کہ مرتہن کو مرہون کے حاضر لانے کو کہا جائے گا اس وقت ہے کہ راہن یہ کہتا ہو کہ مرہون مرتہن کے پاس ہلاک ہو چکا ہے۔ لہذا میں دین کیوں ادا کروں اورمرتہن کہتا ہے کہ مرہون موجود ہے اور اگر راہن بھی مرہون کو موجود ہونا کہتا ہو تو اس کی کیا ضرورت کہ یہاں حاضر لائے۔ جب ہی دین ادا کرنے کو کہا جائے گا کہ اگر وہ چیز ایسی ہے کہ جس میں بار برداری صرف ہو گی اس وجہ سے حاضر لانے کو نہیں کہا گیا مگر راہن اس کے تلف ہوجانے کا مدعی ہے تو راہن سے کہا جائے گا کہ اگر مرتہن کی بات کا تمہیں اطمینان نہیں ہے تو اس سے قسم کھلا لو کہ مرہون ہلاک نہیں ہوا۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۷: اگر دین ایسا ہے کہ قسط وار ادا کیا جائے گا قسط ادا کرنے کا وقت آگیا اس کا بھی وہی حکم ہے کہ اگر راہن مرہون کا ہلاک ہونا بتاتا ہے اور مرتہن اس سے انکاری ہے تو مرتہن سے کہا جائے گا چیز حاضر لائے اور بار برداری والی چیز ہو تو مرتہن سے قسم کھلا سکتا ہے کہ ہلاک نہیں ہوئی۔ (درمختار)
مسئلہ ۳۸: مرتہن نے دین وصول پا لیا اور ابھی چیز واپس نہیں دی اور یہ چیز اس کے پاس ہلاک ہو گئی تو راہن اس سے دین واپس لے گا۔ کیونکہ مرہون پر اب بھی مرتہن کا قبضہ قبضۂ ضمان ہے اور ہلاک ہونا دین وصول ہونے کے قائم مقام ہے لہذا جو لے چکا ہے واپس دے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۳۹: راہن نے اگر مرتہن سے کہہ دیا کہ مرہون کو فلاں شخص کے پاس رکھ دو اس نے اس کے کہنے کی وجہ سے اس کے پاس رکھ دیا اب اگر مرتہن نے دین کا مطالبہ کیا اور راہن مرہون کے حاضر لانے کو کہتا ہے تو مرتہن کو اس کی تکلیف نہ دی جائے کیونکہ اس کے پاس ہے ہی نہیں جو حاضر کرے اسی طرح اگر راہن نے مرتہن کو یہ حکم دیا کہ مرہون کو بیع کر ڈالے اس نے بیچ ڈالا اور ابھی اس کے ثمن پر مرتہن نے قبضہ نہیں کیا ہے راہن یہ نہیں کہہ سکتا کہ ثمن مرہون بمنزلۂ مرہون ہے لہذا اسے حاضر لائو کیونکر جب ثمن پر قبضہ ہی نہیں ہوا ہے تو کیونکہ حاضر کرے ہاں ثمن پر قبضہ کر لیا تو اب بیشک ثمن کو حاضر کرنا ہو گا کہ یہ ثمن مرہون کے قائم مقام ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴۰: راہن یہ کہتا ہے کہ مرہون چیز مجھے دے دو میں اسے بیچ کر تمہارا دین ادا کر دوں گا مرتہن کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ مرہون کو دیدے۔ یونہی اگر کچھ حصہ دین کا ادا کر دیا ہے کچھ باقی ہے یا مرتہن نے کچھ دین معاف کر دیا ہے کچھ باقی ہے راہن یہ کہتا ہے کہ مرہون کا ایک جز مجھے دے دیا جائے کیونکہ میرے ذمہ کل دین باقی نہ رہا اس صورت میں بھی مرتہن پر یہ ضرور نہیں کہ مرہون کا جز واپس کر ے جب تک پورا دین ادا نہ ہو جائے یا مرتہن معاف نہ کر دے واپس کرنے پر مجبور نہیں ہاں اگر دو چیزیں رہن رکھی ہیں اور ہر ایک کے مقابل میں دین کا حصہ مقرر کر دیا ہے مثلاً سو (۱۰۰) روپے قرض لئے اور دو چیزیں رہن کیں کہہ دیا کہ ساٹھ (۶۰)روپے کے مقابل میں یہ ہے اور چالیس (۴۰)کے مقابل میں وہ تو اس صورت میں جس کے مقابل کا دین ادا کیا اسے چھوڑا سکتا ہے کہ یہاں حقیقۃً دو عقدہیں ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۱: مرتہن کے ذمہ مرہون کی حفاظت لازم ہے اور یہاں حفاظت کا وہی حکم ہے جس کے متعلق مسائل ودیعت میں گزر چکا کہ خود حفاظت کرے یا اپنے اہل و عیال ک حفاظت میں دے دے یہاں عیال سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کے ساتھ رہتے سہتے ہوں جیسے بی بی بچے خادم اور اجیر خاص یعنی نوکر جس کی ماہوار یا ششماہی یا سالانہ تنخواہ دی جاتی ہو۔ مزدور جو روزانہ پر کام کرتا ہو مثلاً ایک دن کی اسے اتنی اجرت دی جائے گی اس کی حفاظت میں نہیں دے سکتا۔ عورت مرتہن ہے تو شوہر کی حفاظت میں دے سکتی ہے۔ بی بی اور اولاد اگر عیال میں نہ ہوں جب بھی ان کی حفاظت میں دے سکتا ہے جن دو شخصوں کے مابین شرکت مفاوضہ یا شرکت عنان ہے ان کے پاس کوئی چیز رکھی گئی تو شریک کی حفاظت میں دے سکتا ہے ۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۲: ان لوگوں کے سوا کسی اور کی حفاظت میں چیز دے دی یا کسی کے پاس ودیعت رکھی یا اجارہ یا عاریت کے طور پر دے دی یا کسی اور طرح اس میں تعدی کی مثلاً کتاب رہن تھی اس کو پڑھا یا جانور پر سوار ہوا غرض یہ کہ کسی صورت سے بلا اجازت راہن استعمال میں لائے بہر صورت پوری قیمت کا تاوان اس کے ذمہ واجب ہے۔ اور مرتہن ان سب صورتوں میں غاصب کے حکم میں ہے اسی وجہ سے پوری قیمت کا تاوان واجب ہوتا ہے۔ (درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ ۴۳: انگوٹھی رہن رکھی مرتہن نے چھنگلیا میں پہن لی پوری قیمت کا ضامن ہو گیا کہ یہ مرہون کو بلا اجازت استعمال کرنا ہے دہنے ہاتھ کی چھنگلیا میں پہنے یا بائیں میں دونوں کا ایک حکم ہے کہ انگوٹھی دونوں طرح عادۃً پہنی جاتی ہے اور چھنگلیا کے سوا کسی دوسری انگلی میں ڈال لی تو ضامن نہیں کہ عادۃً اس طرح پہنی نہیں جاتی لہذا اس کو پہننا نہ کہیں گے بلکہ حفاظت کیلئے انگلی میں ڈال لینا ہے (ہدایہ) یہ حکم اس وقت ہے کہ مرتہن مرد ہو اور اگر عورت کے پاس انگوٹھی رہن رکھی تو جس کسی انگلی میں ڈالے پہننا ہی کہا جائے گا کہ عورتیں سب میں پہنا کرتی ہیں (غنیۃ ذوی الاحکام) کرتے کو کندھے پر ڈال لیا یعنی جو چیز جس طرح استعمال کی جاتی ہے اس کے سوا کسی دوسرے طریقے پر بدن پر ڈال لی اس میں کل قیمت کا تاوان نہیں ۔
مسئلہ ۴۴: مرتہن خود انگوٹھی پہنے ہوئے تھا اس کے پاس انگوٹھی رہن رکھی گئی اپنی انگوٹھی پر رہن والی انگوٹھی کو بھی پہن لیا یا ایک شخص کے پاس دو انگوٹھیاں رہن رکھی گئیں اس نے دونوں ایک ساتھ پہن لیں ۔ یہاں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ شخص اگر ان لوگوں میں ہے جو بقصد زینت دو انگوٹھیاں پہنتے ہیں (اگرچہ یہ شرعاً ناجائز ہے) تو پورا تاوان واجب اور اگر دونوں انگوٹھیاں پہننے والوں میں نہیں تو اس کو پہننا نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ حفاظت کرنا کہا جائے گا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴۵: دو تلواریں رہن رکھیں مرتہن نے دونوں کو ایک ساتھ باندھ لیا ضامن ہے کہ بہادر دو تلواریں ایک ساتھ لگایا کرتے ہیں اور تین تلواریں رہن رکھیں اور تینوں کو لگا لیا تو ضامن نہیں کہ تلوار کے استعمال کا یہ طریقہ نہیں ۔ (ہدایہ) پہلی صورت میں اس وقت ضامن ہے کہ خود مرتہن بھی دو تلواریں ایک ساتھ لگانے والوں میں ہو۔ (ردالمحتار)
مسئلہ ۴۶: مرتہن نے چیز استعمال کی اور ہلاک ہو گئی اور اس پر پوری قیمت کا تاوان لازم آیا اگر یہ قیمت اتنی ہے جتنا اس کا دین تھا اور قاضی نے اس جنس کی قیمت کا فیصلہ کیا جس جنس کا دین ہے۔ مثلاً سو روپے دین ہے اورقیمت بھی سو روپے قرار دی تو فیصلہ کرنے ہی سے ادلا بدلا ہو گیا یعنی نہ لینا نہ دینا اور اگر دین کی مقدار زیادہ ہے تو مرتہن راہن سے بقیہ دین کا مطالبہ کرے گا اور اگر قیمت دین سے زیادہ ہے تو راہن مرتہن سے یہ زیادتی وصول کرے گا اور اگر دین ایک جنس کا ہے اور قاضی نے قیمت دوسری جنس سے لگائی مثلاً دین روپیہ ہے اور مرہون کی قیمت اشرفیوں سے لگائی یا اس کا عکس تو یہ قیمت مرتہن کے پاس بجائے اس ہلاک شدہ چیز کے رہن ہے یعنی راہن جب دین ادا کر دے گا تب اس قیمت کے وصول کرنے کا مستحق ہو گا۔ اسی طرح اگر دین میعادی ہو اور ابھی میعاد باقی ہے تو اگرچہ قیمت اسی جنس سے لگائی ہو مرتہن کے پاس یہ قیمت رہن ہو گئی جب یہ میعاد پوری ہو جائے گی اس قیمت کو دین میں وصول کرے گا۔ (درمختار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔