روزہ ٔ نفل کے فضائل
(۱) عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ اور بہتر یہ ہے کہ نویں کو بھی رکھے۔
حدیث ۱: صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشورہ کا روزہ خود رکھا اور اس کے رکھنے کا حکم فرمایا۔
حدیث ۲: مسلم و ابودائود و ترمذی و نسائی ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں رمضان کے بعد افضل روزہ محرم کاروزہ ہے اور فرض کے بعد افضل نماز صلوۃ اللیل ہے۔
حدیث ۳: صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی فرماتے ہیں نبی ﷺ کو کسی دن کے روزہ کو اور دن پر فضیلت دے کر جستجو فرماتے نہ دیکھا مگر یہ عاشورہ کا دن اور یہ رمضان کا مہینہ۔
حدیث ۴: صحیحین میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی رسول اللہ ﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ دار پایا ارشاد فرمایا کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو عرض کی یہ عظمت والا دن ہے کہ اس میں موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالی نے نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا لہذا موسی علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا تو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں ارشاد فرمایا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی مواقفت کرنے میں بہ نسبت تمہارے ہم زیادہ حق دار اور زیادہ قریب ہیں تو حضور نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی فرمایا۔
حدیث ۵: صحیح مسلم میں ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے اللہ پر گمان ہے کہ عاشورہ کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔
(۲) عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ۔
حدیث ۶تا۱۰: صحیح مسلم و سنن ابی دائود و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ میں ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں مجھے گمان ہے کہ عرفہ کا روزہ ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ مٹا دیتا ہے اور اسی کے مثل سہل بن سعد و ابوسعید خدری و عبداللہ بن عمرو زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی۔
حدیث۱۱: ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بیہقی و طبرانی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عرفہ کے دن روزہ کو ہزاروں کے برابر بتاتے ہیں مگر حج کرنے والے پر جو عرفات میں ہے اسے عرفہ کے دن کا روزہ مکروہ ہے کہ ابودائود و نسائی و ابن خزیمہ و ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہم سے راوی حضور نے عرفہ کے دن عرفہ میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔
(۳) شوال میں چھ دن کے روزے جنہیں لوگ شش عید کے روزے کہتے ہیں ۔
حدیث ۱۲،۱۳: مسلم و ابودائود و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و طبرانی ابو ایوب رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دہر کا روزہ رکھا اور اسی کے مثل ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی۔
حدیث ۱۴،۱۵: نسائی و ابن ماجہ و ابن خزیمہ وابن حبان ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے اور امام احمد و طبرانی و بزار سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے عیدالفطر کے بعد چھ روزے رکھ لئے تو اس نے پورے سال کا روزہ رکھا کہ جو ایک نیکی لائے گا اسے دس ملیں گی تو ماہ رمضان کا روزہ دس مہینے کے برابر ہے اور ان چھ دنوں کے بدلے دو مہینے تو پورے سال کے روزے ہو گئے۔
حدیث ۱۶: طبرانی اوسط میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد چھ دن شوال میں رکھے توگناہوں سے ایسا نکل گیا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔
(۴) شعبان کا روزہ اور پندرھویں شعبان کے فضائل
حدیث ۱۷: طبرانی و ابن حبان معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں شعبان کی پندرھویں شب میں اللہ عزوجل تمام مخلوق کی طرف تجلی فرماتاہے اور سب کو بخش دیتا ہے مگر کافر اور عداوت والے کو۔
حدیث ۱۸،۱۹: بیہقینے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ حضور نے فرمایا میرے پاس جبرائیل آئے اور یہ کہا یہ شعبان کی پندرھویں تاریخ ہے اس میں اللہ تعالی جہنم سے اتنے کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں مگر کافر اور عداوت والے اور رشتہ کاٹنے والے اور کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمائی کرنے والے اور شراب کی مداومت کرنے والے کی طرف نظر رحمت نہیں فرماتا امام احمد نے ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے جو روایت کی اس میں قاتل کا بھی ذکر ہے۔
حدیث ۲۰: بیہقی نے ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا۔ اللہ عزوجل شعبان کی پندرھویں شب میں تجلی فرماتا ہے۔ استغفار کرنے والوں کو بخش دیتا ہے اور طالب رحمت پر رحم فرماتا ہے اور عداوت والوں کو جس حال پر ہیں اسی پر چھوڑ دیتا ہے۔
حدیث ۲۱: ابن ماجہ علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے راوی نبی ﷺ فرماتے ہیں جب شعبان کی پندرھویں رات آجائے تو اس رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کہ تبارک و تعالی غروب آفتاب سے آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہے کوئی بخشش چاہئنے والا کہ اسے بخش دوں ، ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں ، ہے کوئی مبتلا کہ اسے عافیت دوں ، ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا اور یہ اس وقت تک فرماتا ہے کہ فجر طلوع ہو جائے۔
حدیث ۲۲: ام المومنین صدیقہ فرماتی ہیں حضور اقدس ﷺ کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے میں نے نہ دیکھا۔
(۵) ہر مہینے میں تین روزے خصوصاً ایام بیض تیرہ(۱۳) ، چودہ (۱۴) ، پندرہ (۱۵)
حدیث۲۳،۲۴:بخاری و مسلم و نسائی ابوہریرہ اور مسلم ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی رسول اللہ ﷺ نے مجھے تین باتوں کی وصیت فرمائی ان میں ایک یہ ہے کہ ہر مہینے تین روزے رکھوں ۔
حدیث ۲۵،۲۶:صحیح بخاری و مسلم میں عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر مہینے میں تین دن کے روزے ایسے ہیں جیسے دہر (ہمیشہ) روزہ اسی کے مثل قرہ بن ایاس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی۔
حدیث ۲۷،۲۸:امام احمد بن حبان ابن عباس اور بزار مولی رضی اللہ تعالی عنہم سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ رمضان کے روزے اور ہر مہینے میں تین دن کے روزے سینہ کی خرابی کو دور کرتے ہیں ۔
حدیث ۲۹: طبرانی میمونہ بنت سعد رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں جس سے ہو سکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ دس گناہ مٹاتا ہے اور گناہ سے ایسا پاک کر دیتا ہے جیسا پانی کپڑے کو۔
حدیث ۳۰: امام احمد و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب مہینے میں تین روزے رکھنے ہوں تو تیرہ (۱۳)، چودہ (۱۴)، پندرہ (۱۵) کو رکھو۔
حدیث ۳۱: نسائی نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ حضور اقدس ﷺ چار چیزوں کو نہیں چھوڑتے تھے۔ (۱) عاشورہ اور (۲) عشرہ ذی الحجہ اور (۳) ہر مہینے میں تین دن کے روزے اور (۴) فجر کے پہلے دو رکعتیں ۔
حدیث ۳۲: نسائی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ ایام بیض میں بغیر روزہ کے نہ ہوتے نہ سفر میں نہ حضر میں ۔
(۶) پیر اور جمعرات کے روزے۔
ٍحدیث۳۳تا۳۵:سنن ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں پیر اورجمعرات کو اعمال پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں ۔ اسی کے مثل اسامہ بن زید اور جابر رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی۔
حدیث ۳۶: ابن ماجہ انہیں سے راوی کہ حضور پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے اس کے بارے میں عرض کی گئی تو فرمایا ان دونوں دنوں میں اللہ تعالی ہر مسلمان کی مغفرت فرماتاہے مگر وہ دو شخص جنہوں نے باہم جدائی کر لی ہے ان کی نسبت ملائکہ سے فرماتا ہے انہیں چھوڑو یہاں تک کہ صلح کر لیں ۔
حدیث ۳۷: ترمذی شریف میں ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ پیر اور جمعرات کو خیال کر کے روزہ رکھتے تھے۔
حدیث ۳۸: صحیح مسلم شریف میں ابوقتادہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی حضور سے پیر کے دن کے روزے کا سبب دریافت کیا گیا فرمایا اس میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔
(۷) بعض اور دنوں کے روزے۔
ابو یعلی ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو چہار شنبہ کو روزے رکھے اس کے لئے دوزخ سے برأت لکھ دی جائے گی۔
حدیث۴۰تا۴۲:طبرانی اوسط میں انہیں سے راوی کہ حضور نے فرمایا جس نے چہار شنبہ پنجشنبہ جمعہ کو روزے رکھے اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں ایک مکان بنائے گا جس کا باہر کا حصہ اندر سے دکھلائی دے گا اور اندر کا باہر سے اور انس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہے کہ جنت میں موتی اور یاقوت و زبرجد کا محل بنائے گا اور اس کے لئے دوزخ سے برأت لکھ دی جائے گی اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت میں ہے کہ جو ان تین دنوں کے روزے رکھے پھر جمعہ کو تھوڑا یا زیادہ تصدق کرے تو جو گناہ کیا بخش دیا جائے گا۔ اور ایسا ہو جائے گا جیسے اس دن کہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ مگر خصمنت کے ساتھ جمعہ کے دن روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
حدیث ۴۳: مسلم و نسائی ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا راتوں میں سے جمعہ کی رات کو قیام کے لئے اور دنوں میں جمعہ کے دن کو روزہ کے لئے خاص نہ کر وہاں کوئی کسی قسم کا روزہ رکھتا تھا اور جمعہ کا دن روزہ میں واقع ہو گیا تو حرج نہیں ۔
حدیث ۴۴: بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و ابن خزیمہ انہیں سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے مگر اس صورت میں کہ اس کے پہلے یا بعد ایک دن اور روزہ رکھے اور ابن خزیمہ کی روایت میں ہے جمعہ کا دن عید ہے لہذا عید کے دن کور وزہ کا دن نہ کرو مگر یہ کہ اس کے قبل یا بعد اور روزہ رکھو۔
حدیث ۴۵: صحیح بخاری و مسلم میں محمد بن عباد سے ہے کہ جابر رضی اللہ تعالی عنہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے میں نے ان سے پوچھا کیا نبی ﷺ نے جمعہ کے روزہ سے منع فرمایا کہا ہاں اس گھر کے رب کی قسم۔
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔