سوال:
ایک کمپنی بے روز گار لوگوں کو ملازمت دلاتی ہے اور اس کے عوض ان سے کمیشن لیتی ہے۔ جس کے لیے باقاعدہ معاہد ہ کیا جاتا ہے ،مثلاً نوکری ملنے کے بعد ایک سال یا چھ ماہ تک اپنی تنخواہ کا30 فیصد کمپنی کو دینا ہو گا ، کیا اس طرح کمیشن طے کرنا اور لینا شرعاً جائز ہے؟
جواب:
آپ نے جو صورت بیان کی ہے ، یہ ’اجارہ‘ سے مماثلت رکھتی ہے، جس میں کوئی شخص یا ادارہ معاوضے یا اجرت کے عوض اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ یعنی اجارہ سے مراد ایسا معاہدہ ہے جو مقررہ مال کے بدلے اپنی خدمات پیش کرنے پر عمل میں آ تا ہے۔ مزدوری، ٹھیکہ کر ایہ اور ملازمت وغیرہ سب ہی اجارہ کی مختلف اقسام ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ ادارہ اپنی خدمات یا معاونت کے عوض جو کمیشن لیتا ہے ، وہ جائز ہے لیکن اس کی مقدار کا تعین عرف کے مطابق اور عادلانہ ہونا چاہیے ، اس سے زائد لینا درست نہیں ، ایک قباحت یہ ہے کہ سال بھر یا چھ ماہ مسلسل کمیشن لینا بھی درست نہیں ، یہ کمیشن ایک ہی بار ہو گا ۔ یہ بھی یاد رہے کہ ادارے کا کسی شخص کو ملازمت دلانا میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہیے، ملازمت دلوانے کے لیے کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ اگر کمیشن لینے کی لالچ میں میرٹ کی خلاف ورزی کی گئی اور غیر شرعی و غیر قانونی ذرائع کی مدد لی گئی تو پھر کمیشن لینا بھی جائز نہیں ہو گا اور آمدنی بھی مشتبہ ہو گی۔ میرٹ کے مطابق ،شرعی و قانونی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مدد کرنا اور اس کے بدلے کمیشن لینا جائز ہے ۔موجودہ دور کے کارپوریٹ کلچر میں” Out Source ‘‘ادارے ہیں ، جو تجارتی اور صنعتی اداروں کو ہنر مند (Skilled) اور غیر ہنر مند (Unskilled) کا رکن فراہم کرتے ہیں ، وہ متعلقہ کمپنی سے فی کس زیادہ اجرت لیتے ہیں اور کارکنوں کو کم دیتے ہیں ، ان کا ایک انتظامی ڈھانچہ (Set up) ہوتا ہے۔ اصولی طور پر تو اجارہ کے یہ معاہدات درست ہیں ،لیکن اس میں بھی استحصال کا عنصر حاوی ہے ، کیونکہ کسی صنعتی یا کاروباری ادارے کا با قاعدہ ملازم ہونے کی صورت میں ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں کے بعض دیگر حقوق ثابت ہوتے ہیں ، جنہیں اجتماعی سودا کاری یونین (CBA) کے ذریعے طے کیا جا تا ہے ، ان میں سالانہ با تنخواہ تعطیلات ، کام کے دوران معذوری کی صورت میں کفالت ، بونس ،تنخواہ میں سالانہ اضافہ اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن (Old Age Benifet Scheme) وغیرہ شامل ہیں ٹھیکیداری نظام کے تحت صنعتی و تجارتی کارکنان ان سب حقوق و منافع سے محروم ہو جاتے ہیں تو یہ بھی استحصال کی ایک صورت بن جاتی ہے ،حکومت کو چاہیے کہ اسے ضابطے میں لائے تا کہ صنعتی و تجارتی کارکنان کے دور حاضر میں رائج حقوق کا تحفظ ہو، سیکورٹی کمپنیاں بھی اسی ضمن میں آتی ہیں ۔
(تفہیم المسائل، جلد12، صفحہ368،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)