استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک محرمہ عورت کہ جس نے 10 تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کر لی ابھی اس کی قربانی نہیں ہوئی تھی ا س نے دوسری ایسی عورت کا قصر کیا کہ جس کی قربانی ہو چکی تھی، اب بال کاٹنے والی عورت پر کیا لازم ائے گا؟
(السائل : حافظ محمد فاروق امجدی، مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں وہ عورت جس نے دوسری عورت کے بال کاٹے ہیں وہ دو حال سے خالی نہیں ، اس پر حج کی قربانی واجب ہو گی یا واجب نہیں ہو گی، کیونکہ اس کاحج تمتع یا قران ہے تو قربانی واجب ہے ، چنانچہ امام حسن بن منصور اوزجندی حنفی متوفی 592ھ لکھتے ہیں اور ان سے علامہ نظام حنفی متوفی 1161ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے نقل کیا :
و یجب الدم علی القارن والمتمتع شکرا لما انعم اللٰہ تعالٰی علیہ بتسیر الجمع بین العبادتین (38)
یعنی، قارن اور متمتع پر دم واجب ہے اللہ تعالیٰ نے دو عبادتوں (حج و عمرہ) کے مابین جمع میں اسانی فرمائی اس کے انعام کے شکرانے میں ۔ اسی لئے اسے ’’دم شکر‘‘ کہتے ہیں اور عوام اسے قربانی کا نام دیتے ہیں ، اگر اس بال کاٹنے والی عورت کا حج قران یا تمتع تھا تو اس کے احرام کھولنے کا وقت ذبح کے بعد تھا اور اس نے اس سے قبل دوسری عورت کے بال کاٹے تو اس پر صدقہ لازم ائے گا، چنانچہ امام ابو القاسم حسن بن منصور اوزجندی حنفی لکھتے ہیں :
لو اخذ المحرم شعر محرمٍ اخر، کان علیہ الصدقۃ (39)
یعنی، ایک محرم نے دوسرے محرم کے بال لئے تو اس (بال لینے والے ) پر صدقہ ہے ۔ اور علامہ نظام حنفی متوفی 1161ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا :
حلق راس محرمٍ او حلالٍ و ھو محرم، علیہ صدقۃ (40)
یعنی، محرم یا غیر محرم کے بال مونڈھے حالانکہ وہ خود محرم ہے تو اس پر صدقہ ہے ۔ اور اگر اس بال کاٹنے والی عورت نے حج افراد کا احرام باندھا تھا تو اس پر کچھ بھی لازم نہ ائے گا کیونکہ اس پر قربانی واجب نہیں ہے اس کے احرام کھولنے کا وقت جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد ہے وہ اس نے کر لی، اب دونوں کے احرام کھولنے کا وقت تھا لہٰذا وہ اپنے بال خود بھی کاٹ سکتی تھی، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
اذا حلق راسہ عند جواز التحلل لم یلزمہ شیئ، ملخصا (41)
یعنی، جب محرم نے جواز تحلل کے وقت اپنا سر خود مونڈا تو اس پر کچھ لازم نہیں ۔ اور اپنے جیسی دوسری محرمہ کے بال کاٹ سکتی تھیں چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی ’’لباب المناسک‘‘ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ اس کی ’’شرح‘‘ میں لکھتے ہیں :
اذا حلق ای : المحرم راس غیرہ و لو کان محرما، عند جواز التحلل ای : الخروج من الاحرام باداء افعال النسک، لم یلزمہ شیئ، الاولیٰ لم یلزمھما شیئ (42)
یعنی، جب ایک محرم نے دوسرے محرم کا سر جواز تحلل (یعنی احرام کھولنے ) کے وقت مونڈا اگر دوسرا محرم ہو یعنی افعال نسک ادا کر کے احرام سے نکلنے کے وقت مونڈا تو اسے کچھ لازم نہیں ۔ اولیٰ یہ ہے کہ کہا جائے کہ دونوں کو کچھ لازم نہیں ۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ اگر قران یا تمتع کا احرام تھا تو بال کاٹنے والی پر صدقہ (یعنی صدقہ فطر) لازم ایا اور اگر افراد کا احرام تھا تو کچھ بھی لازم نہ ایا۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
یوم الخمیس، 16ذوالحجۃ 1433ھ، یکم نوفمبر 2012 م 830-F
حوالہ جات
38۔ فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ، کتاب الحج، فصل : فی التمتع، 1/354
الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب السابع : فی القران و التمتع، 1/239
39۔ فتاویٰ قاضیخان علی ھامش الھندیۃ، کتاب الحج، فصل : فیما یجب بلبس الخ، 1/289
40۔ الفتاوی الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الثامن : فی الجنایات، الفصل الثالث : فی حلق الشعر و قلم الاظفار، 1/243
41۔ لباب المناسک، باب مناسک منی، فصل فی الحلق و التقصیر، ص154
42۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب مناسک منی، فصل : فی الحلق و التقصیر، ص324