نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رفع یدین نہ کرنے کی احادیث بھی مروی ہیں اور رفع یدین کرنے کی بھی۔ رفع یدین کرنے کی احادیث تو آپ پڑھتے رہتے ہیں لہذا پہلے آپ رفع یدین نہ کرنے کی احادیث ملاحظہ فرمائیں پھر ان دونوں احادیث کا معنی و مفہوم بھی بیان کر دیا ہے۔
رفع یدین نہ کرنے کی احادیث بھی مروی ہیں:
رفع یدین نہ کرنے کی پہلی حدیث:
(1) ترمذی،ابو دائود،نسائی اور ابن شیبہ نے حضرت علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا’’ قال قال لنا ابن مسعود الا اصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فصلی ولم یرفع یدیہ الا مرۃ واحدۃ مع تکبیر الافتتاح وقال الترمذی حدیث ابن مسعود حدیث حسن وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتابعین‘‘ترجمہ:ایک دفعہ ہم سے حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں تمہارے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھوں؟پس آپ نے نماز پڑھی اس میں سواء تکبیر تحریمہ کے ہاتھ نہ اُٹھائے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حسن ہے اور اس حدیث ( یعنی رفع یدین نہ کرنے) پر بہت سے علما صحابہ و علما تابعین کا عمل ہے ۔ ((جامع ترمذی، کتاب الصلوٰۃ،باب رفع الیدین عند الرکوع،جلد1،صفحہ165،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور))
یہ حدیث مندرجہ ذیل وجوہ سے بہت قوی ہے :
- اس کے راوی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جو صحابہ میں بڑے فقہیہ عالم ہیں ۔
- آپ رضی اللہ عنہ جماعت صحابہ کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پیش کرتے ہیں اور کوئی صحابی اس کا انکار نہیں فرماتا ،معلوم ہوا کہ سب نے اس کی تائید کی۔ اگر رفع یدین سنت ہوتا تو صحابہ کرام علیہم الرضوان اس پر ضرور اعتراض کرتے کیونکہ ان سب نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز دیکھی تھی ۔
- امام ترمذی نے اس حدیث کو ضعیف نہ فرمایا بلکہ حسن فرمایا ۔
- امام ترمذی نے فرمایا کہ بہت علماء و صحابہ و تابعین رفع یدین نہ کرتے تھے ۔ ان کے عمل سے اس حدیث کی تائید ہوتی ہے۔
رفع یدین نہ کرنے کی دوسری حدیث:
(2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : ”قال الا اخبرکم بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فقال فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد “ترجمہ: انہوں نے فرمایاکیا میں تمہیں خبر نہ دوں کہ حضور پرنورسید عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے تھے یہ کہہ کرنما زکو کھڑے ہوئے تو صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھائے پھر نہ اٹھائے ۔‘‘ ((سنن ابو داؤد، جلد1، صفحہ199، مکتبہ عصریہ ، بیروت))
- یہ حدیث شریف سنن ابوداؤد ،سنن نسائی، جامع ترمذی اور اس کے علاوہ دیگر کئی کتابوں میں موجود ہے۔
- اس حدیث شریف کے سارے راوی صحیح مسلم کے ہیں۔ (یعنی یہ حدیث شریف امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔)
- شیخ البانی نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔
رفع یدین نہ کرنے کی تیسری حدیث:
(3) حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: ’’قال کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا افتح الصلوٰۃ رفع یدہ ثم لا یرفعھا حتی یفرع‘‘ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تھے تو اپنے ہاتھ اُٹھاتے تھے پھر نماز سے فارغ ہونے تک نہ اُٹھاتے تھے۔ ((سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ، من کان یرفع یدیہ فی اول تکبیرۃ ثم لا یعود،جلد1،صفحہ267 ،ملتان))
رفع یدین نہ کرنے کی چوتھی حدیث:
(4) حضرت عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: ’’انہ رأی رجلا یرفع یدیہ فی الصلوٰۃ عند الرکوع و عند رفع راسہ من الرکوع فقال لہ لا تفعل فانہ شیء فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم ترکہ‘‘ ترجمہ: آپ نے ایک شخص کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے اُٹھتے وقت ہاتھ اُٹھاتے دیکھا تو فرمایا کہ ایسا نہ کیا کرو کیونکہ یہ کام ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے کیا تھا پھر چھوڑ دیا۔ ((عمدۃ القاری،کتاب الاذان، باب رفع الدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،جلد5،صفحہ399، کوئٹہ))
رفع یدین نہ کرنے کی پانچویں حدیث:
(5) مسلم شریف کی حدیث میں ہے:’’عن جابر بن سمرۃ قال خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ما لی أراکم رافعی أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلاۃ‘‘ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم رفع یدین کر رہے تھے ارشاد فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تمہیں سر کش گھوڑوں کی دموں کی طرح رفع یدین کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ نماز سکون کے ساتھ ادا کیا کرو۔ ((صحیح مسلم ،کتاب الصلوۃ، باب الامر بالسکون فی الصلوۃ،جلد01،صفحہ181،قدیمی کتب خانہ، کراچی))
رفع یدین نہ کرنے کی چھٹی حدیث:
(6) طبرانی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاتھ صرف سات جگہ اٹھائے جائیں،نماز شروع کرتے وقت ،اور قبلہ کے سامنے ہونے کے وقت اور صفا و مروہ پر، عرفات اور جمع((مزدلفہ)) میں، مقامین میں، اور جمرتین کے قریب۔ ((اسے امام بخاری نے رسالہ رفع یدین میں حضرت ابن عمر سے بھی مرفو عا روایت کیا۔))
رفع یدین نہ کرنے کی ساتویں حدیث:
(7) امام بیہقی نے اخلا قیات میں حضرت عباد ہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا: ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اول نماز میں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر کہیں نہیں اٹھاتے یہاں تک فارغ ہو جاتے۔“
ان تمام احادیث کا معنی:
لہذا اس مسئلے میں دونوں طرح رفع یدین کرنےاور رفع یدین نہ کرنے کی احادیث موجود ہیں اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی موجود تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلے رفع یدین فرمایا کرتے تھے پھر آپ نے چھوڑ دیا((یہ فرمان اوپر حدیث نمبر4 میں موجود ہے۔)) اس لئے فقہا نے ان احادیث میں یہ تطبیق دی کہ جو احادیث رفع یدین والی ہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلے کا عمل ہے اور بعد میں رفع یدین منسوخ ہو گیا اس لیے آپ نے بھی رفع یدین کرنا چھوڑ دیا۔ (محدثین و فقہا کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی ایسا محمل تلاش کیا جائے کہ جس سے تمام احادیث کا معنی سمجھ میں آ جائے نہ کہ کسی حدیث پر عمل کر لیا اور کسی کو چھوڑ دیا۔)
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے فرمان کے علاوہ اس تطبیق کے درست ہونے کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ جن صحابہ نے رفع یدین کرنے کی احادیث بیان فرمائیں وہ خود بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے۔مثلا:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے رفع یدین کرنے کی حدیث مروی ہے لیکن خود حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کایہ فعل تھا کہ آپ رفع یدین تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر نہیں کرتے تھے ،چنانچہ امام ابو جعفر طحاوی نے شرح معانی الآثار میں روایت کیا کہ امام مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کے پیچھے نما ز پڑھی تکبیر اول کے علاوہ وہ کہیں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ۔
یہ تطبیق کیوں ضروری ہے؟
اگر یہ تطبیق نہ کریں تو لازم آئے گا کہ ایک صحابی خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم کا ایک فعل روایت کریں اور خود اس کے خلاف عمل کریں۔ کیا صحابہ کرام کے بارے میں ایسا سوچا جا سکتا ہے؟
اگر کسی نے نماز میں رفع یدین کر لیا:
پھر بھی احادیث کے احترام میں ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر کوئی رفع یدین کر بھی لے تو نماز ہو جائے گی۔ بلکہ جن آئمہ نے یہ احادیث روایت کیں اور وہ نماز میں رفع یدین کرنے کا موقف رکھتے ہیں ان کے نزدیک بھی رفع یدین کرنا فرض یا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے یعنی اگر کسی نے رفع یدین کئے بغیر نماز پڑھ لی تو ا س کی نماز بھی ہو جائے گی۔ جبکہ آج کل کے لوگ پوری اسلامی تاریخ کے برخلاف اسے یوں بیان کرتے ہیں جیسے رفع یدین کرنا فرض ہو ۔ یعنی صحابہ سے لے کر آج تک کسی کو صحیح موقف ہی معلوم نہ ہو سکا۔
احادیث کا احترام:
پھر ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ چند لوگ احادیث کو ماننے کا دعوی تو کرتے ہیں لیکن جن احادیث میں رفع یدین نہ کرنے کا ذکر ہے یا جن میں منع فرمایا گیا ہے ان کو بالفاظ دیگر رفع یدین نہ کرنے کی احادیث کو پڑھ کر دل میں حدیث کے احترام کا خیال کیوں نہیں آتا۔ آپ اپنے دل سے پوچھیں کیا صرف اپنی مرضی کی احادیث کو ماننا یا جو حدیث اپنے موقف کے خلاف ہو اس کا رد ڈھونڈنے لگ جانا ہی اسلام ہے؟