رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا 57
بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ، اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ، اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔
رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار نے شاعر ، کاہن اور مجنون کہا ، آپ کے صاجزادے حضرت عبداللہ یا قاسم (رض) فوت ہوگئے تو عاص بن وائل نے آپ کو ابتر کہا ، ابتر کا معنی ہے مقطوع النسل ، آپ نے حضرت زینب بنت حجش (رض) کو اپنے حبالہ عقد میں لیا تو اس پر کفار اور منافقین طعنہ زن ہوئے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ، منافقین میں سے عبداللہ بن ابی نے کہا ہم مدینہ میں جب واپس جائیں گے تو عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے اور ذلت والوں سے آپ کو مراد لیا ، آپ کی عزیز ترین حرم حضرت عائشہ (رض) پر بدکاری کی تہمت لگا کر آپ کو سخت اذیت پہنچائی۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
ہمارے زمانہ میں بھی بعض لوگوں نے آپ کی شان میں دل آزار باتیں لکھیں :۔
شیخ اسماعیل دہلوی متوفی 1246 ھ لکھتے ہیں :۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
اور شیخ یا اسی جیسے اور بزرگوں کی طرف خواہ جنات رسالت مآب ہی ہوں اپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا ہے۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
(صراط مستقیم مترجم ص ١٥٠ ملک سراج دین لاہور، صراط مستقیم (فارسی) ص ٨٦ المتکبہ السلفیہ لاہور)
رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کے سامنے ذکر کیا گیا کہ نمازی کے سامنے سے کتا، گدھا اور عورت گذرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے تو حضرت عائشہ نے فرمایا تم نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے مشابہ کردیا ہے ! اللہ کی قسم میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور میں آپ کے اور قبلہ کے درمیان تخت پر لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی کام درپیش ہوتا، میں آپ کے سامنے بیٹھنے کو ناپسند کرتی کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء دوں تو میں آپ کے پیروں کی جانب سے تخت سے نکلی جاتی۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٤ صحیح مسلم رقم الحدیث بلا تکرار : ٥١٢ الرقم المسلسل : ١١٢٣ سنن النسائی رقم الحدیث ٧١٨ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٧١٣) ۔۔
حضرت عائشہ (رض) کو اس سے ایذاء پہنچی کہ عورت کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ کیا تو انہوں نے فرمایا تم نے ہمیں کتے اور گدھے کے مشابہ کردیا حالانکہ بالخصوص حضرت عائشہ کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ نہیں کیا گیا تھا، اگر بالخصوص حضرت عائشہ کا ذکر کتے اور گدھے کے ساتھ کیا جاتا تو حضرت عائشہ کو کس قدر ایذاء پہنچتی اور صراط مستقیم کی عبارت میں بالخصوص رسالت مآب کا ذکر بیل اور گدھے کے ساتھ کیا گیا ہے بلکہ نماز میں رسالت مآب کی طرف ہمت (توجہ) لگا دینے کو اپنے گدھے اور بیل کی صورت میں مستغرق ہونے سے زیادہ برا کہا گیا ہے، سوچیے کہ اس عبارت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر ایذا پہنچی ہوگی۔!رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
اس طرح اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ لکھتے ہیں :۔
پھر یہ کہ آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کلب غیب، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیت تو زید عمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے الخ۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
(حفظ الایمان ص ٧، مکتبہ تھانوی کراچی)
اس عبارت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم کو صبی (بچوں) مجنوں (پاگلوں) اور حیوانات و بہائم (جانوروں) کے علم کے مشابہ قرار دیا ہے، اگر عالم عالم دین کے علم کو بھی پاگلوں اور جانوروں کے علم کے مشابہ کہا جائے تو اس کو ایذاء پہنچے گی تو ان کو اس تشبیہ سے کس قدر ایذاء پہنچی ہوگی جن کا مرتبہ اللہ کے بعد سب سے زیادہ ہے، جن کا احترام اتنا زیادہ ہے کہ اگر ان کی آواز پر آواز اونچی ہوجائے تو سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
شیخ خلیل احمد سہارنپوری متوفی ١٣٤٧ ھ لکھتے ہیں :۔
رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
الحاصل غور کرنا چاہیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلادلل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے، شیطان و ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعت علم کی کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک کو ثابت کرتا ہے۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
(براہین قاطعہ میں ٥١ مطبع بلالی، ڈھک ہند)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :۔
اور ملک الموت سے افضل ہونے کی وہ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آپ کا علم ان امور میں ملک الموت کی برابر بھی ہوچہ جائیکہ زیادہ۔
(براہین قاطعہ ص ٥٢)
رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
ان عبارتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علم سے شیطان اور ملک الموت کے علم کو زیادہ کہا گیا ہے اور یقینا یہ عبارات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دل آزادی اور آپ کی ایذاء کی موجب ہیں۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
شیخ رشید احمد گنگوہی متوفی ١٣٢٣ ھ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :۔
سوال نمبر 30 ۔
شاعر جو اپنے اشعار میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صنم یابت یا آشوب ترک فتنہ عرب باندھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب :۔
یہ الفاظ قبیح بولنے والا اگرچہ معنی حقیقیہ بمعانی ظاہر خود مراد نہیں رکھتا، بلکہ معنی مجازی مقصود لیتا ہے، مگر تاہم ایہام گستاخی اہانت و اذیت ذات پاک حق تعالیٰ اور جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خالی نہیں، یہی سبب ہے کہ حق تعالیٰ نے لفظ راعنا بولنے سے صحابہ کو منع فرمایا انظرنا کا لفظ عرض کرنا ارشاد کیا (الیٰ قولہ) پس ان کلمات کفر کے لکھنے والے کو منع کرنا شدید چاہیے اور مقدور ہو اگر باز نہ آوے تو قتل کرنا چاہیے کہ موذی و گستاخ شان جناب کبریا تعالیٰ اور اس کے رسول نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
(فتاویٰ رشیدیہ کامل مبوب ص 71-72 مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
ظاہر ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صنم کہنے پر میں اتنی کھلی ہوئی توہین نہیں ہے جتنی آپ کے علم کو پاگلوں اور جانوروں کے مشابہ کہنے میں یا آپ کے علم کو شیطان اور ملک الموت کے علم سے کم کہنے میں ہے۔رسول اللہ کی شان میں گستاخانہ اور نازیبا کلمات
ماخوذ از کتاب: ۔