ARTICLES

راستہ پرامن نہ ہونے پرحج کاحکم

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ راستے کاپرامن ہوناوجوب حج کیلئے شرط ہے یاپھر وجوب اداکی شرط ہے ؟ (سائل : سفیان رضا،ممبئی،انڈیا)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں راستے کاپرامن ہوناوجوب اداکی شرائط میں سے ہے ۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : من شرائط الاداء علی الاصح (امن الطریق للنفس والمال) وقد اختلف فیہ، فمنھم من قال : انہ شرط الوجوب، وھو روایۃ ابن شجاع عن ابی حنیفۃ. ومنھم من قال : شرط وجوب الاداء، علی ما ذکرہ جماعۃ من اصحابنا، کصاحب «البدائع» و«المجمع» والکرمانی وصاحب «الھدایۃ» وغیرھم (فمن خاف من ظالم او عدو او سبع او غرق او غیر ذلک) ای غیر ما ذکر من قاطع طریقٍ او مکاس (لم یلزمہ اداء الحج) ای بنفسہ بل بمالہ۔ (والعبرۃ بالغالب) ای فی الامن وغیرہ (برا وبحرا، فان کان الغالب السلامۃ یجب) ای علیہ ان یؤدی بنفسہ (والا) ای بان کان الغالب القتل والھلاک (فلا) ای فلا یجب، کذا قالہ ابو اللیث، وعلیہ الفتوی۔ وفی «القنیۃ» : وعلیہ الاعتماد۔ والمراد انہ لا یجب علیہ ان یؤدی بنفسہ، بل اما ان یحج غیرہ او یوصی بہ۔ملخصا ( ) یعنی،نفس اورمال کیلئے راستے کاپرامن ہونااصح قول کے مطابق وجوب اداکی شرائط میں سے ہے اوراس میں اختلاف ہے کیونکہ بعض فقہائے کرام نے فرمایاہے کہ یہ وجوب حج کی شرط ہے اوریہ امام ابن شجاع کی روایت ہے ،وہ اسے امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں ،جبکہ دیگربعض فقہائے کرام کے نزدیک یہ وجوب ادا کیلئے شرط ہے اوراسے ہمارے اصحاب(احناف)کی ایک جماعت نے ذکرکیا ہے ، جیسے صاحب بدائع( )،صاحب مجمع( )،علامہ کرمانی( )،اورصاحب ہدایہ( )وغیرہم نے ، لہٰذاجسے ظالم یادشمن یادرندے یاڈوبنے وغیرہ کاخوف ہومثلاچوریا ٹیکس وصول کرنے والے کا،تواسے خودحج کرناضروری نہیں ہے بلکہ اپنے مال کے ذریعے دوسرے سے حج کرواسکتاہے ،اورامن وغیرہ کے سلسلے میں غالب(زیادہ)کااعتبارہے ،چاہے خشکی کاسفر ہویاسمندرکا،لہٰذا اگرغالب سلامتی ہو،تو اس پرخودحج کرنالازم ہے ورنہ غالب قتل وہلاکت ہونے کی صورت میں حج واجب نہیں ہوگا،اسی طرح امام ابواللیث سمرقندی علیہ الرحمہ نے فرمایاہے ،اور اسی پرفتویٰ ہے ، اور’’قنیہ‘‘( )میں ہے کہ اسی پراعتماد ہے اورحج واجب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ اس پرخودحج کرناواجب نہیں ہے بلکہ وہ دوسرے سے حج کراسکتاہے یا اس کی وصیت کرسکتاہے ۔ اوروجوب اداکی شرائط کے بیان میں صدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : راستہ میں امن ہونا یعنی اگر غالب گمان سلامتی ہو تو جانا واجب اور غالب گمان یہ ہو کہ ڈاکے وغیرہ سے جان ضائع ہوجائے گی تو جانا ضرور نہیں ،جانے کے زمانے میں امن ہونا شرط ہے پہلے کی بدامنی قابل لحاظ نہیں ۔اگر بدامنی کے زمانے میں انتقال ہوگیا اور وجوب کی شرطیں پائی جاتی تھیں تو حج بدل کی وصیت ضروری ہے اور امن قائم ہونے کے بعد انتقال ہو اتو بطریق اولیٰ وصیت واجب ہے ۔( ) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب بدھ،12/شعبان
المعظم،1443ھ۔15/مارچ،2022م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button