ARTICLES

رات میں رمی کرنا کیسا ہے ؟

استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ رات میں رمی کرنا مکروہ تنزیہی ہے یا تحریمی ہے ؟

(السائل : جمیل غوری)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : بلا عذر رات میں رمی کرنا اساء ت یعنی خلاف سنت ہے لیکن اس وجہ سے کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا اور عذر ہونے کی وجہ سے مکروہ بھی نہیں ۔ دسویں ذی الحجہ کی رمی کے مکروہ وقت کے بارے میں علامہ رحمت اللہ سندی حنفی متوفی 993 ھ لکھتے ہیں :

و وقت الکراھۃ مع الجواز : من الغروب الی طلوع الفجر الثانی من غدہ،ولو اخر الی اللیل کرہ ۔(102)

یعنی، وقت کراہت مع جواز(دس تاریخ کے ) غروب افتاب سے اگلے دن کی طلوع صبح صادق تک ہے اور اگر رات تک موخر کیاتو مکروہ ہے ۔ گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کے مکروہ وقت کے بارے میں علامہ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں :

والوقت المسنون فی الیومین یمتد من الزوال الی غروب الشمس،ومن الغروب الیٰ طلوع الفجر وقت مکروہ (103)

یعنی،گیارہویں اور بارہویں تاریخ میں رمی کا مسنون وقت زوال کے بعد سے غروب شمس تک ہے اور غروب شمس سے طلوع فجر تک (بلاعذر)مکروہ ہے ۔ اگر رات میں رمی کرلی تو اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا لیکن ترک سنت کی وجہ سے اساء ت کا حکم ہوگا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملاعلی قاری حنفی 1014 ھ لکھتے ہیں :

(و ھذا وقت الجواز مع الاسائۃ) ای لترکہ السنۃ من غیر ضرورۃ …… (و لا یلزمہ شیء) ای من الکفارۃ، لکن یلزمہ الاسائۃ لترکہ السنۃ (104)

یعنی، اور یہ وقت جواز مع اسا ء ت ہے یعنی ترک سنت کی وجہ سے بغیر ضرورت …… اور اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا لیکن ترک سنت ہونے کی وجہ سے اسا ء ت کا حکم ہوگا۔ اور عورتوں اور کمزور افراد کے حق میں رات میں رمی کرنا مکروہ نہیں ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اور ملا علی قاری حنفی یوم نحر کی رمی کے بیان میں لکھتے ہیں :

ولو اخرہ الی اللیل کرہ الا فی حق النساء و کذا حکم الضعفاء (105)

یعنی، اگر رمی کو رات تک موخر کیا تو مکروہ ہے ، مگر عورتوں کے حق میں (رات میں رمی مکروہ نہیں ) ایسے ہی کمزور افراد کا حکم ہے ۔ عورتوں کے حق میں رات میں رمی کرنا افضل ہے چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

الا ان رمیہا فی اللیل افضل (106)

یعنی، مگر یہ کہ عورت کا رات میں رمی کرنا افضل ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

مرد و زن در رمی جمار برابراند الا انکہ افضل در حق زن ان است کہ رمی نماید درشب زیارۃً للستر (107)

یعنی، مرد اور عورت رمی جمار میں برابر ہیں مگر یہ کہ عورت کے حق میں پردہ میں زیادتی کے لئے افضل یہ ہے کہ رات میں رمی کرے کہ اس میں زیادہ ستر ہے ۔ لہٰذا رات میں بلا عذر رمی کرنا بھی مکروہ تحریمی نہیں ہے ۔ جن فقہاء کرام نے اس پر کراہت کا اطلاق کیا ہے ان کی اس سے مراد کراہت تنزیہی ہو سکتی ہے نہ کہ تحریمی۔

واللٰہ تعالی اعلم بالصواب

ذو الحجۃ 1436ھـ، ستمبر 2015 م 984-F

حوالہ جات

102۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار و احکامہ، تحت قولہ : الی اللیل کرہ، ص333

103۔ لباب المنسک ، باب رمی الجمار و احکامہ، تحت قولہ : الی اللیل کرہ، ص160

104۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار واحکامہ، تحت قولہ : الی اللیل کرہ، ص333

105۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار و احکامہ، مع قولہ : و لو اخر، ص332

106۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب رمی الجمار، فصل احکام الرمی الخ، التاسع، تحت قولہ : فیکرہ ترکہا ، و الرجل الخ، ص351

107۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب نہم دربیان طواف زیارۃ، فصل چہارم در بیان وقت رمی جمار، ص218

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button